عبداللطیف خالد چیمہ
تحریک ختم نبوت کی تازہ ترین صورتحال !
مرزا غلام احمد قادیانی کو اُمت مسلمہ میں انتشار و افتراق کے لیے برطانوی سامراج نے کھڑا کیا تھا لیکن اِس فتنے کی بیس (BASE) ہندوستان میں تھی اور پاکستان بننے کے بعد اس کی نظریں ’’وطن عزیز پاکستان‘‘ پر۔ 1974ء میں قومی اسمبلی نے فریقین کو سننے کے بعد لاہوری وقادیانی مرزائیوں کو غیر مسلم ڈکلیئر کیا تو بھٹو مرحوم نے اسمبلی میں ہی اپنی تقریر میں اِسے مسلمانوں کے عقیدے کی ترجمانی اور جمہوری وضروری فیصلہ قرار دیا۔ 1984ء میں صدر محمدضیاء الحق مرحوم نے اسلامی شعائر کے استعمال سے قادیانیوں کو روکنے کے لیے امتناع قادیانیت ایکٹ جاری کیا تو قادیانی سربراہ مرزا طاہر احمد خفیہ طور پر لندن فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
1960ء اور 1970ء کی دہائی میں پاکستان سے مسلمان تلاشِ رزق میں بڑی تعداد میں عازم برطانیہ ہوئے اور آہستہ آہستہ وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ سو مساجد و مدارس کا بننا ایک فطری امر تھا، قادیانیوں کو سب سے زیادہ اُمیدیں ’’لندن‘‘ سے ہی وابستہ تھیں، لیکن انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، احرار ختم نبوت مشن، ختم نبوت اکیڈمی لندن، جامعہ اسلامیہ مانچسٹر، ختم نبوت ایجوکیشن سنٹر برمنگھم برطانیہ میں قادیانیوں کی دھوکہ دہی سے عوام وخواص کو وہاں کے قوانین کو ملحوظ رکھتے ہوئے آگاہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ ویمبلے ہال لندن، برمنگھم کی جامع مسجد، گلاسگو کی سنٹرل مسجد اور دیگر شہروں میں اپنے اپنے دائرے میں عقیدۂ ختم بنوت کے تحفظ کا پرامن کام شروع کر رکھا۔ خود راقم کو بھی 1985ء سے 2009ء تک متعدد بار برطانیہ کا سفر درپیش آیا جو خالصتاً اِسی غرض سے ہوتا تھا کہ اپنے حلقوں سے ملاقات و آگاہی اور بیرونی ماحول کو قادیانیت کی حقیقت بتائی جائے۔ برطانیہ میں تحفظ ختم نبوت کی تمام جماعتوں کاکام ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، شریک کار ہوئے، لیکن نائن الیون کے بعد رفتہ رفتہ ’’منظر‘‘ بدلنا شروع ہوگیا یا کردیا گیا۔ گزشتہ سالوں میں پاکستانی ہائی کمشنر واجد شمس الحسن نے لندن کے سفارت خانے میں قادیانیت نوازی کے نئے بیج بوئے اور پاکستانی حکمرانوں نے چپ سادھے رکھی تاآنکہ برطانیہ میں قادیانیوں کو مواقع فراہم کئے گئے کہ وہ مسلمانوں اور خصوصاً مسلم تنظیموں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے میں آسانی محسوس کرنے لگے۔ اس کے لیے مولویت کو اِنتہا پسندی اور دہشت گردی سے جوڑنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا گیا۔ ویملڈن (لندن) کے رھائشی لارڈ طارق احمد جو برطانوی وزیر اعظم کے ایڈوائزر ہیں کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ سکہ بند قادیانی ہے اور یہ قادیانیوں کی انٹرنیشنل لابنگ کا شاخسانہ ہے۔ وہ برطانیہ میں کھلم کھلا قادیانیوں کو سپورٹ دے رھا ہے اور برطانوی حکومت اور اداروں کو مسلمانوں کے خلاف اُکسا رہا ہے۔ چند ماہ قبل گلاسگو میں قتل ہونے والے جھوٹی نبوت کے دعویٰ دار اسد شاہ کے قتل کو قادیانی اپنے حق میں استعمال کر رہے ہیں۔ حالانکہ اسد شاہ نبوت کا دعوے دار تھا جبکہ قادیانی، مرزا غلام احمد قادیانی کے بعد نبوت کے قائل نہیں۔ تنویر احمد نامی قاتل نے کہا ہے کہ یہ میرا ذاتی فعل ہے۔ اوّل آخر مقصد کیا ہے کہ یوکے میں ختم نبوت کے پرامن کام کی تحریکوں کو ختم کر دیا جائے (بلکہ کرش کردیا جائے) بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ جب عیسائیوں کو مسلمان نہیں کیا جاسکتا تو پھر جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد جھوٹے مدعی نبوت مرزا قادیانی کے ماننے والوں کو ’’مسلمان‘‘ کیسے کہا جاسکتا ہے۔ رہی یہ بات کہ اسلام میں اِرتداد کی سزا کا تذکرہ نہ ہو تو یہ کیسے ممکن ہے اور رہی یہ بات کہ برطانیہ میں مسلمان یہ کہتے ہیں کہ قادیانیوں کو قتل کردیا جائے تو یہ قرین قیاس نہیں۔ برطانیہ میں مسلم تنظیمیں وہاں کے قوانین کے تحت ہی کام کر رہی ہیں۔ اگر مسئلہ بین الاقوامی سطح پر شدت پسندی اور دہشت گردی کا ہے تو یہ سب کچھ امریکہ اور عالمی استعمارکا اپنا ہی کیا دھرا ہے۔ قادیانیوں کا بین الاقوامی سطح پر طریقۂ وار دات یہ ہے کہ کم ازکم قادیانیوں کو ’’مسلم‘‘ تسلیم کر لیا جائے
ایں خیال است ومحال است وجنوں
جو طبقہ اپنے کفر یہ عقائد کے علاوہ خود ہی اپنے آپ کو مسلمانوں سے الگ کر چکا ہے وہ کیونکر مسلمان ہونے پر اصرار کر رہا ہے۔ جھگڑا تو اصل ہے ہی یہی کہ قادیانی، اسلام اور مسلمانوں کا ٹائٹل استعمال کرنے کا استحقاق نہیں رکھتے۔ اگر ہم کرپشن کے حوالے سے جائزہ لیں تو بین الاقوامی سطح پر قادیانیوں کی 48 آف شور کمپنیوں کا تذکرہ سامنے آچکا ہے۔ لیکن میڈیا نے اسے اُس لیول پر ہائی لائٹ نہیں کیا۔ دراصل مرزا مسرور کے بطور خلیفہ انتخاب کا فیصلہ مرزا طاہر کی زندگی میں ہی کرلیا گیا تھا کیونکہ مرزا مسرور آف شور کمپنیوں کو ڈیل کرتا تھا اور پھر ان کا منافع رائل فیملی میں تقسیم کرتا تھا۔ اِن کے اپنے بنک (امانت خانے) چناب نگر میں قائم ہیں۔ آف شور کمپنیوں کے بیشتر ڈائریکٹرز کے ایڈریس چناب نگر (ربوہ) کے ہیں۔ مرزا مسرور احمد کا دورِ امارت جماعت احمدیہ کی تاریخ میں مالیاتی کرپشن کے حوالے سے عروج کا دور ہے۔ مرزا مسرور نے قادیانی سربراہ بنتے ہی پراپرٹی پر پیسہ انویسٹ کیا۔ پانامہ لیکس میں بھی اِن کی آف شور کمپنیوں کا کاروبار پراپرٹی سے بھی متعلق بتایا گیا ہے۔ پانامہ لیکس کے مطابق قادیانی آف شور کمپنیوں کو چیرٹی ٹرسٹ فنڈ سے آرگنائز کیا جاتا ہے اور پھر اس کے نتائج کو قادیانی رائل فیملی تک پہنچایا جاتا ہے۔ مسلمان علماء کرام کو ہمیشہ بلا وجہ ہدف تنقید بنانے والے قادیانیوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ اب ان کا مذہبی پیشوا پانامہ لیکس کے انکشافات کے آئینے میں پوری طرح بے نقاب ہوچکا ہے
آئینہ ایسا دوں کہ تماشہ کہیں جسے
دیگر سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں نے پانامہ لیکس کی آف شور کمپنیوں کے بارے میں اپنے جوابات قوم کے سامنے پیش کیے۔ مگر تاحال قادیانی رائل فیملی اور ان کا سربراہ مرزا مسرور چپ سادھے ہوئے ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ میڈیا میں ہائی لائٹ نہیں کیا گیا یا نہیں کرنے دیا گیا۔ کم از کم ہمیں تو صادق خان کے لندن کا مئیر منتخب ہونے سے ذرہ بھراُمید نہیں کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے حقیقی امیج کو ابھرنے میں کردار ادا کریں گے۔ برطانیہ میں رہنے والے مسلمانوں کو حالات گھمبیر نظر آنے لگے ہیں۔ اگر برطانوی مسلمانوں نے اپنی نئی نسلوں کے ایمان و عقیدے کو بچانا ہے اور اپنے کلچر کی ساکھ کو بحال کرنا ہے تو پھر برطانوی شہری ہونے کے ناطے کوئی فیصلہ کرلینا چاہیے کہ وھاں کے قوانین کے تابع ہوکر اپنی نظریاتی شناخت کو کیسے قائم رکھا جاسکتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ پوری دنیا میں ہم نشانے پر ہیں۔ ذرائع میڈیا اور بعض ڈاکومنٹری بتاتی ہیں کہ اسلام کو شدت پسندی اور مسلمان کو دہشت گردی سے جوڑنے کا فیصلہ ہوچکا بلکہ اس پر عمل درآمد ہو رہاہے۔ برطانوی مسلمانوں کو ’’اندر کی آنکھ‘‘ سے صورتحال کا حقیقی بنیادوں پر ادراک کرتے ہوئے اپنے اہداف طے کرنا چاہیں اور میڈیا اور لابنگ جیسے مؤثر ترین ہتھیاروں کو استعمال میں لاتے ہوئے دنیا پر ایک پرامن دین ’’اسلام‘‘ کی حقانیت واضح کرنی چاہیے۔ کیا ہم توقع کرسکتے ہیں کہ ہمارے غیر ملکی سفارت خانے آئین پاکستان کی روشنی میں تارکین وطن کے اِن مسائل پر بھی توجہ عنایت فرمائیں گے۔ وما علینا الا البلاغ!
دعائے مغفرت
تحاریک ختم نبوت کے سرپرست، حضرت مولانا خواجہ خان محمد رحمۃ اﷲ علیہ کی اکلوتی صاحبزادی مرحومہ 31 ؍ مئی 2016ء کو کندیاں شریف میں انتقال فرما گئیں ۔ قارئین سے درخواست ہے کہ مرحومہ کے لیے خصوصاً اور عامۃ المسلمین کے لیے عموماً رمضان کے بابرکت مہینہ میں دعاؤں کا اہتمام فرمائیں