عبداللطیف خالد چیمہ
آف شور کمپنیوں کا ’’شور‘‘
چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے یہ کہہ کر ہلچل سی مچادی ہے کہ ’’ کرپشن کے خلاف احتساب سب کا ہونا چاہیے‘‘اور اس کی ابتدا انہوں نے ’’ فوج‘‘جیسے ادارے سے کربھی دی ہے ،جس کا ہر طرف سے خیر مقدم کیا گیا ہے،یہ بات ایسے میں سامنے آئی، جب پانامہ لیکس کا شوروغل ہر طرف مچاہوا ہے ،حکمران اور اُن کے حامی صفائیوں پر لگے ہوئے ہیں، جبکہ اپوزیشن اس پر مصر ہے کہ شریف فیملی 3 ماہ میں خود کو بے گناہ ثابت کرے ۔‘‘’’وزیر اعظم اپنے خاندان کے اثاثوں کا اعلان کریں۔‘‘’’ خصوصی قانون منظور کیا جائے اور تحقیقات بین الاقوامی آڈٹ فرم سے کرائی جائے ۔‘‘’’کون سی جائیداد کہاں ہے اور کیسے خریدی ؟ ‘‘’’پیسہ کہاں سے آیا،باہر کیسے بھیجا ،انکم ٹیکس کتنا دیا؟‘‘ ذرائع آمدن کیا ہیں؟ جیسے جواب دینے ہوں گے۔ہم ان سطور میں چیف آف آرمی سٹاف کے اِس احتسابی عمل جس میں 11 اہم فوجی افسران کومالی کرپشن کی وجہ سے بر طرف کرنے اور تمام مراعات واعزازات واپس لینے کو اچھی روایت کا آغاز قرار دیتے ہوئے فی الوقت اِسی طرز عمل کو آگے بڑھانے اور زندگی کے تمام شعبوں سے کرپشن کے خاتمے کے لیے اِس کی پیروی پر زور دیتے ہیں ،شایدکہ یہ ضربِ احتساب کی طرف پہلا قدم ہے ۔ورنہ اشرافیہ اور رولنگ کلاس حزب ِاقتدار میں ہو،یا اپوزیشن میں اُس کے انسانیت سوز اقدامات نے توملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے ۔
آخر میں انوارعزمی کے درج ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیں اور سردُھنیں:
کج کلاہوں کے رہنماؤں کے
مصلحت کیش پارساؤں کے
زر پرستوں کے ،ساہو کاروں کے
جھوٹ کے سارے شاہکاروں کے
جہل کو عام کرنے والوں کے
علم نیلام کرنے والوں کے
قرض سے جیب بھرنے والوں کے
اپنی حد سے گزرنے والوں کے
عدل وانصاف کے حریفوں کے
سارے خود ساختہ شریفوں کے
جاہ و منصب پہ مرنے والوں کے
عشق دنیا سے کرنے والوں کے
قوم کا مال کھانے والوں کے
عاقبت کو بھلانے والوں کے
جب بھی خفتہ ضمیر جاگیں گے
بس اسی دن یقین فرمائیں
مشکلیں ہوں گی خود بخود آسان
بس اسی روز لوگ دیکھیں گے
ہر کرپشن سے پاک پاکستان
قادیانی غنڈہ گردی اور 1974 ء کی تحریک کا نقطہ آغاز:
(29؍ مئی 1974ء)
نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلباء جن میں اسلامی جمعیت طلباء کے ارکان بھی شامل تھے ۔22 مئی 1974 ء کو چناب ایکسپریس کے ذریعے سیاحتی سفر پر تھے ،ٹرین جب ربوہ (چناب نگر) ریلوے سٹیشن پر پہنچی تو مسافروں میں قادیانی لٹریچر تقسیم کیا گیا ،جس سے طلباء میں رَدِ عمل پیدا ہوا۔ ختم نبوت زندہ باد جیسے فلک شگاف نعروں کوقادیانیوں نے اپنی اسٹیٹ میں مداخلت سمجھا ،اس وقت انہوں نے مصلحتاً خاموشی اختیارکی ،مگرانہوں نے یہ معلوم کرلیا کہ طلباء واپسی پر کب ربوہ سے گزریں گے۔29 ؍مئی 1974 ء کو جب ٹرین ربوہ پہنچی تو قادیانی غنڈے طلباء کی ریزرو بوگی پر حملہ آور ہوئے اور وحشیانہ تشدد سے طلباء کو لہولہان کردیا گیا ،ریلوے اسٹیشن پر ٹرین کو زائد وقت تک روکے رکھا گیااور قادیانی غنڈوں نے مسلم نوجوانوں پر ظلم کی انتہاکر دی۔ ٹرین فیصل آباد پہنچی تو سارا شہر اُمڈ آیا مولانا تاج محمود رحمتہ اﷲ علیہ ،مولانا محمدضیاء القاسمی رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنے آنسوؤں سے طلباء کے خون کو صاف کیا، 30 مئی کو ملک بھر میں احتجاج شروع ہوگیا اور بعدازاں حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمتہ اﷲ علیہ کی قیادت وامارت میں’’کُل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت ‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا ،تحریک ختم نبوت کے نتیجے میں 7 ستمبر 1974 ء کو پارلیمنٹ کے فلور پر لاہوری وقادیانی مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیااور یوں حضرت امیر شریعت رحمتہ اﷲ علیہ ،شہداء ختم نبوت اوراکابر احرار کی قربانیاں رنگ لاکر رہیں ۔ضرورت اِس امر کی ہے 1974 ء کی قرار دِاد اقلیت اور 1984ء کے امتناعِ قادیانیت ایکٹ پر مؤثر عمل درآمد کرایا جائے ۔تاکہ وطن عزیز منکرین ختم نبوت کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے محفوظ رہ سکے اور دشمنانِ اسلام اور دشمنانِ پاکستان ناکام ونامراد ہوں۔
وما علینا اِلالبلاغ!