پروفیسر محمد اکرام تائبؔ (عارف والا)
عالمِ تیرہ شبی میں نُور کا مینار تھے کاروانِ علم و دانش کے وہ اک سالار تھے
صبر و شُکر و زہد و تقویٰ ، فقر و استغنا ، شکیب خالقِ کون و مکاں کا وہ حسیں شہکار تھے
آخرِ دم بھی تھی رُخ پَر نورِ ایماں کی جھلک آٹھ مہہ سے وہ اگرچہ دوستو بیمار تھے
آنے والے کل کی تھی ہر اِک جھلک ان پر عیاں وہ مُفکر ، وہ مدبر ، صاحبِ اسرار تھے
وہ گئے تو سارا عالم ہے فسردہ و حزیں وہ بہارِ بے خزاں تھے ، رونقِ بازار تھے
چل دیئے ہیں وہ ہمیں تائبؔ تڑپتا چھوڑ کر جو غموں کی دھوپ میں اک سایۂ دیوار تھے