عبداللطیف خالد چیمہ
رمضان المبارک کی آمد آمد ہے یہ ماہ مقدس روزے ،تراویح اورعبادت کا مہینہ ہے اور پوری اُمت کا عقیدہ وایمان ہے کہ کوئی شخص اُس وقت تک مسلمان ہو نہیں سکتاجب تک وہ جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو ہر شے سے عظیم تر نہ سمجھے ۔
توحید وختم نبوت کے پروانوں! حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی مقدس جماعت جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہرہر اداء پر مرمٹنے والی جماعت ہے،صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے اپنے خون سے دین اسلام کو محفوظ ومامون بنایا اسی لیے تمام کے تمام احکامات من وعن آج بھی موجود ہیں۔ عقیدۂ توحید کے بعد عقیدہ ٔرسالت وختم نبوّت کا عقیدہ بھی قرآن وحدیث اور اجماعِ اُمت کی دلیلوں کی قوت کے ساتھ محفوظ ہے۔تاریخ کے پہلے شہید ختم نبوت سیدنا حبیب ابن زید انصاری رضی اﷲ عنہ سے لے کر غازی ممتاز حسین قادری تک کے شہدائے ناموسِ رسالت وختم نبوت کا مقدس خون اپنے اندر جو حقیقی پیغام لیے ہوئے ہے،اس کا خلاصہ یہ ہے کہ
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ بطحا کی حرمت پر خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
متحدہ ہندوستان میں مرزا غلام احمد قادیانی کو انگریز سامراج نے عقیدۂ ختم نبوت پروار کرنے کے لیے کھڑا کیا ،تو ہندوستان میں جماعتی سطح پر سب سے پہلے مجلس احرارا سلام نے شعبۂ تبلیغ تحفظ ختم نبوت قائم کرکے تمام مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کردیا اور۲۱،۲۲،۲۳؍ اکتوبر۱۹۳۴ ء کو قادیان میں انگریزی قانون کو پاؤں تلے روندتے ہوئے پوری دنیا پر واضح کردیا کہ ’’لاہوری وقادیانی مرزائیوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ‘‘۔دیوبندی ،بریلوی اور اہلحدیث مکاتب فکرسمیت پوری امت مسلمہ برصغیر میں احرار کی پُشت پر کھڑے ہو گئے اور احرار نے استبداد کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ یوں مجلس احرار اسلام ،اُمت کی نمائندگی کرنے لگی بلکہ نمائندگی کا حق اداکردیا۔ پاکستان بننے کے بعد حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ نے ۱۹۴۹ ء میں لاہورمیں مرکزی سطح پر ’’احرار دفاع پاکستان کانفرنس‘‘ میں انتخابی سیاست سے دستبردار ی کا اعلان کرکے تمام تر قوت دفاع پاکستان اور عقیدۂ ختم نبوّت کے تحفظ کے لیے وقف کرنے کا اعلان کیا۔ اسی دوران اپنی فطرت سے مجبور ہو کر قادیانیوں نے بعض سرکردہ سیاسی شخصیات کے تعاون سے وطن عزیز کے خلاف خطرناک سازشیں شروع کردیں اور پاکستان کے اقتدار پر شب خون مارنے اور بلوچستان کو احمدی اسٹیٹ بنانے کا مکروہ منصوبہ پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا اعلان کرنے لگے، موسیو ظفر اﷲ خان نے وزیر خارجہ کی حیثیت سے بیرون ممالک سفارت خانوں کو ارتداد ی اڈوں میں تبدیل کردیااور کراچی کے ایک جلسۂ عام میں اسلام کو مردہ اور احمدیت کو زندہ مذہب قرار دیا۔ تب حضرت امیر شریعت رحمتہ اﷲ علیہ نے احرار کی میزبانی میں کُل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوّت کے مشترکہ پلیٹ فارم کی داغ بیل ڈالی اور حضرت مولانا ابوالحسنات قادری رحمتہ اﷲ علیہ کو اس کا امیر منتخب کیا گیا۔ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے،کلیدی عہدوں سے قادیانیوں کو ہٹایا جائے اور ظفر اﷲ خان کو وزارت خارجہ سے الگ کیا جائے جیسے مطالبات کو اُس وقت کے لیگی اور حاجی نمازی حکمرانوں نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ’’اگر ایسا ہوا تو امریکہ ہماری گندم بند کردے گا‘‘۔احرار نے تحریک ختم نبوت کو منظم کیا ،جبکہ امریکہ نواز حکمرانوں نے ۱۰؍ ہزار فرزندان اسلام کے سینے گولیوں سے چھلنی کردئیے ،شاہ جی رحمتہ اﷲ علیہ نے تب فرمایا تھا کہ ’’میں اس تحریک کے ذریعے ایک ٹائم بم چھپا کے جارہا ہوں جو اپنے وقت پر پھٹے گا ‘‘پھر دنیا نے دیکھاکہ ۷؍ ستمبر ۱۹۷۴ ء میں اُس بھٹو مرحوم کے ہاتھوں قادیانیوں کو اسمبلی کے فلو پر غیر مسلم قرار دیا گیا جس بھٹو نے ۱۹۷۰ ء کے انتخابات قادیانیوں کی حمایت سے جیتے تھے۔ پھراِسی بھٹو نے اڈیالہ جیل میں کہا تھا کہ ’’قادیانی پاکستان میں وہی مرتبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں جو یہودیوں کو امریکہ میں حاصل ہے ‘‘۔(اے کاش آج کے حکمران اور سیاستدان بھی یہ بات سمجھ جائیں۔)
آج بہت سے نشیب و فراز اور نامساعدحالات سے گزرتے ہوئے احرار اپنی اصل منزل ’’حکومت ِ الہیہ ‘‘کے قیام اور عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کی جدوجہد میں دن رات مشغول ہیں۔ ملک بھر میں تیس سے زائد مدارس ومساجد اور دفاتر الحمد اﷲ ’’وفاق المدارس الاحرار‘‘کے تحت منظم ہوچکے ہیں اوریہ سفر جاری ہے۔ اپنا بن کر دشمن سے زیادہ ظلم روارکھنے والے مہربانوں کی چیرہ دستیوں اور سراسر خلاف ِ واقعہ اور منفی پراپیگنڈے کے باوجودہمارے قدم آگے بڑھ رہے ہیں اور حضرت پیر جی مولانا سید عطاء المہیمن بخاری مدظلہ العالی کی بابرکت و پُر حکمت قیادت میں قافلۂ احرار وختم نبوت اپنی اصل منزل کی طرف گامزن ہے۔
اِن سطور کے ذریعے آپ سے درخواست ہے کہ رمضان المبارک میں مذکورہ نیک مقاصد خصوصاََ عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے دعاؤں کا اہتمام بھی کریں اور زکوٰۃ وصدقات اور فطرانہ وعطیات سے مجلس احراراسلام ،تحریک تحفظ ختم نبوت اور اِس سے منسلک اداروں کے بیت المال کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنائیں اور اﷲ تعالیٰ سے اجرپائیں۔
یہ خطہ ۲۷؍ رمضان المبارک کو ’’پاکستان‘‘کے نام سے موسوم ہوا تھا اِس کی بقاء و سلامتی اُسی قرآن کے نظام کے نفاذ میں مضمر ہے جورمضان میں نازل ہوا۔ یہی ہمارے تمام مسائل کاحل ہے۔ ۱۹۷۳ ء کا آئین بھی تقاضا کرتاہے کہ تمام قوانین کو اسلام کے قالب میں ڈھالاجائے اورغیر اسلامی قوانین کو ختم کیا جائے۔تاکہ سامراجی واستعماری منڈلاتے سائے دم توڑ جائیں ، ملک امن کا گہوارہ بن جائے اورفتنۂ ارتداد کی سازشوں سے ہم محفوظ رہ سکیں۔(آمین ،یارب العالمین )
ہے سربسر تباہی اِنسان کی حکومت قائم کروجہاں میں قرآن کی حکومت