خطاب :امام اہلِ سنت سید ابو معاویہ ابوذر حسنی بخاری رحمہ اﷲ قسط نمبر ۱
جمعۃ المبارک، ۲۳؍ رجب۱۳۹۸ھ/۳۰؍ جون ۱۹۷۸ء
خطبۂ مسنونہ:
أَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمَدُہٗ وَ نَسْتَعِیْنُہٗ وَ نَسْتَغْفِرُہٗ وَ نُؤْمِنُ بِہٖ وَ نَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ وَ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سِیِّئٰاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ یَّہْدِہِ اللّٰہُ فَلَا مُضِلَّ لَہُ وَ مَنْ یُّضْلِلْہُ فَلَا ہَادِیَ لَہُ وَ نَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہُ فِیْ الْخَلْقِ وَالْاَمْرِ وَ نَشْہَدُ أنَّ سِیِّدَنَا وَ مَوْلٰنَا مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ لَاْ نَبِیَّ بَعْدَہٗ وَ لَاْ رَسُوْلَ بَعْدَہٗ وَ لَاْ اُمَّۃَ بَعْدَ اُمَّتِہٖ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَعَلَی آلِہٖ وَ اَصْحَابِہ وَ بَارَکَ وَ سَلَّمَ تَسْلِیْماً کَثِیْراً کَثِیْرا۔اَمَّا بَعْدُ !
أَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ۔بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّجْعَلَ بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَ الَّذِیْنَ عَادَیْتُمْ مِّنْہُمْ مَّوَدَّۃً وَاللّٰہُ قَدِیْرٌ وَّاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔(الممتحنہ: ۷)
ترجمہ: یہ معاملہ بہت نزدیک آ لگا ہے کہ اﷲ تمھارے اور اُن لوگوں کے درمیان جن سے تم دشمنی کرتے رہے ہو ، دلی محبت ڈال دیں اور اﷲ ہر چیز پر قابو یافتہ ہیں اور اﷲ بہت پردہ پوش اور مہربان ہیں۔
اس دھرتی پرپہلا یومِ معاویہ :
بزرگو اور دوستو! یہ نہ کوئی جلسہ ہے اور نہ کوئی باضابطہ اجتماع ہے۔ بلکہ ایک عزیز کی معصوم تمنا و آرزو اور بہت نیکی کے جذبے سے بھری ہوئی ایک پُرخلوص کوشش ہے جس کی خاطر بہت کچھ سوچ کر میں بیماری کے باوجود چلا آیا ہوں۔ میں آج بارہ روز کے بعد گھر سے باہر نکلا ہوں۔ طبیعت میری ایسی رہی ہے کہ اکثر نمازیں بیٹھ کر پڑھتا رہا۔ صرف یہ سوچ کر آ گیاہوں کہ ملک میں یہ کام تو میں نے ہی شروع کیا تھا۔ اگردعویٰ کروں تو غلط نہیں، تعلّی اور تکبر بھی نہیں کہ اس ملک میں سب سے پہلی مرتبہ رجب ۱۳۸۱ھ،ستمبر ۱۹۶۱ء میں سب سے پہلا وہ شخص میں ہوں جس نے ’’یومِ معاویہ‘‘ منانے کی داغ بیل ڈالی۔ ملتان میں پابندیاں قبول کیں، جیل جانا قبول کیا، لاکھوں گالیاں کھائیں، ساتھیوں کو پٹوایا، گھروں پر گولیوں کی بارش ہوئی، آگ لگائی گئی، دس بارہ چوریاں ہوئیں، قاتلانہ حملے ہوئے، بائیکاٹ ہوا۔ یہ سب کچھ میری وجہ سے ہوا تو میں نے یہ سوچا کہ ایک عزیز نے قربانی دی ہے، برسوں کے بعد اس نے ایک نیک جذبہ کے ساتھ اس کام کو بڑی پُرخلوص محفل کی شکل میں منعقد کرنا چاہا ہے، بھرے پُرے جلسوں میں چلے جانا، بڑی کانفرنسوں میں شریک ہو جانا تو ہر ایک کر سکتا ہے مزہ تو تب ہے کہ دو آدمی بھی اس کام کے لیے جمع ہوں اور آدمی خلوص سے وہاں پہنچے۔ ایمان کا امتحان اس میں ہے۔ میں اﷲ کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ صرف اس لیے آیا کہ یہ شخص یہ نہ کہے کہ ’’آگے پیچھے تو ڈھنڈورا پیٹتا ہے اور جب وقت آیا کام کا تو گھر سے باہر نہیں نکلا۔‘‘ مجھے بیٹھے بیٹھے احساس ہوا کہ گھر سے نکل کر جب میدان میں چند قدم گیا ہوں تو دل ڈوبتا تھا۔ پتا نہیں کوئی اِس کی دعا لگی ہے، آپ لوگوں کی دعا ہے، پھر لاری میں بیٹھ گیا ، یہاں آیا ، تو وہ حالت نہیں تھی،طبیعت بحال تھی۔ اس کوآپ امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کی کرامت کہہ لیں، ان بھائیوں کی دعا کہہ لیں یا ان کے پُر خُلوص جذبہ کی تاثیر۔
ذِکرِ صحابہ رضی اﷲ عنہم سے مسلمانوں کی مجرمانہ غفلت:
ہمارے بعض ’’اہل السنت والجماعت‘‘ کہلانے والوں کے دل و دماغ کا یہ حال ہے کہ اُن کو اپنے بڑوں، بزرگوں کا علم نہیں، وہ نہیں جانتے کہ ہمارا دوست کون ہے؟ ہمارادشمن کون ہے؟ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے فضائل و مناقب میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو کچھ ارشاد فرمایا اس کی روشنی میں مسلمان خود جائزہ لے لیں، آپ خود بیٹھ کر غور کریں تو آپ کو محسوس ہو گا جیسے یہ آپ نئی باتیں سن رہے ہیں، ایک نئے آدمی کا تعارف حاصل کر رہے ہیں۔ ہم جانتے ہی نہیں وہ کون ہے؟ جہاں محفل میں سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کا ذکر آیا، لوگوں کی آنکھیں چھت کی طرف لگ جاتی ہیں کہ یہ کیا ہے؟ کون آدمی تھا؟ یہودی و سبائی پروپیگنڈے کی یلغار اتنی زبردست ہے کہ مسلمانوں کو اپنے ہیروز، اپنے رہنماؤں اور اپنے اکابر کا علم نہیں۔ ان کو ’’کرشن‘‘، ’’رام چندر‘‘ ، ’’گورونانک‘‘اور یہودیوں کے پیشواؤں کا علم ہے، ماؤزے تنگ، لینن، سٹالن، ابراہام لنکن کو وہ جانتے ہیں، جارج واشنگٹن، چرچل، چمیرلین، مارکس اور اینگلز کو جانتے ہیں۔ نہیں جانتے تو ’’امیر معاویہ‘‘ کو نہیں جانتے۔ آپ اندازہ کریں کہ شراب پینے والے، بغیر ختنہ کے ساری زندگی گزارنے والے، زنا کی نجاست ہر وقت جن کے لباس سے ٹپکتی ہو، اُن حرامیوں کو تو ہم جانتے ہیں لیکن جن کے دم قدم سے اسلام کی بہار دنیا میں آئی، اُن سے ہم واقف نہیں۔ کفر اور شرک کے مجسمّے، دہریت اور ارتداد کے جو مجسم تابوت ہیں، اُن بدمعاشوں سے تو ہم آشنا ہیں، ہمارے بچوں، بڑوں کے گھروں میں اُن کا لٹریچرموجود ہے۔ایک نہیں ہے تو ہمیں اپنے بڑوں کا علم نہیں ہے کہ ہمارے بزرگ کون تھے؟ یہ پروپیگنڈے کا اثر ہے اس کا علاج بجز اس کے کچھ نہیں کہ آپ چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کر کے اس بات کو آگے چلائیں، گھروں میں محفلیں منعقد کریں، جیسے آج یہ منعقد ہوئی ہے۔ میری تمنا ہے کہ اب یہ سلسلہ رکنا نہیں چاہیے۔ آگے بڑھنا چاہیے۔
ذکرِ معاویہ رضی اﷲ عنہ عبادت ہے:
آپ اس کو عبادت سمجھیں۔ اپنے بزرگوں کو یاد کرنا کوئی بدعت نہیں ہے۔ قرآن پڑھ کے بخش دینا یہ بدعت ہے؟ غریبوں کو کھانا کھلا دینا، اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے دوستوں کو یاد کرنا، یہ اگر بدعت ہے تو پھر معاذاﷲ سارا دین بدعت ہے۔ بدعت یہ ہے کہ ہم اپنی طرف سے ایک نیا مسئلہ بنائیں اور کہیں کہ ’’اگر اس کو نہیں کرو گے تو گناہ ہو گا، کرو گے تو ثواب ہو گا۔ یہ بدعت ہے۔ جو چیز اوپر سے چلی آتی ہو وہ کوئی بدعت نہیں۔ ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان و علی، حسن و حسین رضی اﷲ عنہم کا نام لینا یہ بدعت ہے تو پھر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت بیان کرنامعاذاﷲ سب سے بڑی بدعت ہے۔ جس کوبیان کرنے میں دیوبندی، بریلوی سب لگے ہوئے ہیں۔ میں کہتا کہ نہ وہ بدعت ہے نہ یہ بدعت ہے۔ امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کی سیرت بیان کرنا عبادت ہے۔
کافر کو مسلمان اور مسلمان کو کافر کہنا کفر ہے:
آج اگر کوئی شخص چودہ سو برس کے بعد یہ کہے کہ ابوجہل مسلمان تھا۔ یہ کہنے سے وہ کافر ہو جائے گا کیونکہ اﷲ پاک نے چودہ سو برس پہلے فرما دیا:
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَاءٌ عَلَیْہِمْ أَ أَنْذَرْتَہُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْہُمْ لَاْ یُؤْمِنُوْنَ۔(البقرہ:۶)
بلا شک وہ لوگ جنھوں نے حق کا انکار کیا اُن کے لیے ایک جیسی بات ہے چاہے آپ اُن کو عذاب سے ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ اب ایمان نہیں لائیں گے۔
اور یہ بات متفقہ ہے کہ یہ آیت ابو جہل اور اس کی پارٹی کے متعلق نازل ہوئی تو اﷲ کو جھوٹا کہنا کفر ہے۔ جس نے ابو جہل کومسلمان کہا، گویا اس نے اﷲ اور اس کے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ کو جھوٹا کہا۔ اسی طرح عبداﷲ بن اُبی منافق گزرا ہے۔ آج اگر چودہ سو برس کے بعد کوئی شخص کہے کہ عبداﷲ بن اُبی بڑا پکا مسلمان تھا۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُس کا جنازہ پڑھا، اپنا کرتہ مبارک اُتار کر اس کو کفن میں ڈال دیا۔ اپنا پاک لعاب اُس کے جسم پر لگایا۔ یہ تو پیغمبر نے اپنی مہربانی دکھائی چونکہ ابھی وحی نہیں آئی تھیں کہ کیا سلوک کرنا ہے منافقوں سے، پیغمبر نے روحانی باپ ہونے کی وجہ سے جو شفقت وہ کر سکتے تھے وہ کر کے دکھائی کہ میں تو یہاں تک بھی کرنے کو تیار ہوں، بخشنا نہ بخشنا اﷲ کا کام ہے۔ اُدھر سے جواب آ گیا میں نہیں بخشوں گا۔یہ تمھارے دشمن، تمھارے دین کے دشمن، تمھارے دوستوں کے دشمن، میری کتاب کے دشمن، تمھارے کیسے دوست ہو سکتے ہیں؟ باقی جو آپ نے کر دیا آئندہ نہیں کرنا۔ دسویں پارے میں حکم آ گیا، آئندہ نہ جنازہ پڑھنا، نہ اِن کی قبر کے پاس کھڑے ہونا۔ لَاْ تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖاگر کوئی منافق مر جائے تو جنازہ پڑھنا تو دور کی بات ہے۔ اے نبی اب اُن کی قبر کے پاس بھی کھڑے نہ ہونا۔ اُن کے متعلق میں نے فیصلہ کر دیا ہے:
اِنَّہُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ مَاتُوْا وَ ہُمْ فَاسِقُوْنَ۔(التوبہ:۸۴)
بلا شک ان منافقین نے اﷲ اور اس کے رسول کا انکار کیا ہے اور وہ مرگئے حالانکہ وہ اﷲ کے نافرمان تھے۔
یہ اندر سے پکے کافر ہیں۔ منافق اس لیے ان کو کہا جاتا ہے کہ ان کے دل میں سوراخ ہے۔ ایمان ٹکتا نہیں اِدھر سے جاتا ہے اُدھر سے نکل جاتا ہے۔ منافقت کہتے ہیں دوغلے پن کو کہ آدمی دو طرف چلے۔ اِدھر بھی اُدھر بھی۔ عربی میں ایک لفظ ہے نافِقَاء۔ نَافِقَاء کہتے ہیں سرنگ کو، سوراخ کو، جو دونوں طرف سے نکلتا ہے۔ تو منافق کو منافق اس لیے کہتے ہیں کہ اُس کے دل میں اِدھر سے ایمان جا رہا ہے، اُدھر سے کفر آ رہا ہے۔ اُدھر سے کفر آیا تو اِدھر سے ایمان آیا۔ سرنگ بنی ہوئی ہے اُس کے دل میں قرار نہیں ہے ایمان کو۔ اسی لیے اُسے منافق کہا جاتا ہے۔ منافق بھی اندر سے کافر ہوتا ہے ۔ چنانچہ دیکھ لیجیے اس آیت میں فرمایا گیا کہ اِنَّہُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ ،حالانکہ فرمانا یہ چاہیے تھا اِنَّہُمْ نَافَقُوْا بِاللّٰہِ کہ انھوں نے منافقت کی۔ نہیں کہ وہ اندر سے کافر ہی ہیں۔ اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے منکر ہیں۔ اب اگر کوئی چودہ سو برس کے بعد عبداﷲ بن اُبی کو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے عمل کی وجہ سے آج مسلمان کہے تو سمجھ لو کہ اُس نے معاذ اﷲ، اﷲ اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو جھوٹا کہا۔ وہ کافر ہو جائے گا۔
تجلی و تاثیرِ نبوّت اور مقام و منصبِ صحابہ رضی اﷲ عنہم:
سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ جلیل القدر صحابی ہیں اور حضور علیہ السلام کے زمانہ کاکوئی ادنیٰ درجہ کا مسلمان بھی جس نے ایک منٹ کے لیے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا چہرہ دیکھا، وہ ہمارے لیے سردار ہے۔اگر ہمارے ماں باپ اور بزرگوں کو لمبی عمریں مل جائیں۔ ان کی نمازیں، نوافل، تلاوتِ قرآن اور تہجد قضا نہ ہو، ساری عمر وہ ایک بھی گناہ نہ کریں، تمام عمر وہ حج اور عمرہ کرتے رہیں تو صحابہ کی ایک منٹ کی عبادت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ علماء نے لکھا ہے کہ قیامت کے دن کوئی شخص ساری زندگی کی نیکیاں لے آئے گا لیکن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے چہرے کی زیارت کہاں سے لائے گا؟ یہ لفظ لکھے ہیں بزرگوں نے، فقہاء نے کہ صحابہ جب قیامت میں آئیں گے تو اﷲ تعالیٰ اُن سے پوچھیں گے کہ تمھارے پاس کیا دولت ہے؟ وہ کہیں گے کہ آپ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا چہرہ دیکھا تھا اُس کی روشنی اور تجلّی ہم پر پڑی ہوئی ہے اور ہم کچھ نہیں جانتے۔ یہ سب سے بڑی دولت ہے۔ علماء اور اولیاء لکھتے ہیں کہ طویل ترین عمر ہو جائے کسی ولی کی، اس کی ہڈی پسلی سوکھ جائے عبادت کرتے کرتے، وہ سب کچھ لے آئے گا۔ اﷲ تعالیٰ راضی بھی ہو جائیں گے، جنت میں گھر بھی مل جائے گا لیکن محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے چہرے کا نور اس کی آنکھوں میں کہاں سے آئے گا؟ وہ سوائے صحابہ کے کسی کو نصیب نہیں۔ تو صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی سب سے فضیلت بڑی یہ ہے کہ انھوں نے ایک بھی نفل نہ پڑھا ہو، ایمان لانے سے پہلے وہ ساری عمر کفر کرتے رہے ہوں۔ شراب اور بدکاری میں بھی اُن میں سے اگر کوئی مبتلا رہا ہو تو ہو، لیکن ایمان لانے کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے چہرے کی تجلّی پڑنے کے ساتھ ہی سب کفر، شرک اور نفاق بھسم ہو گیا، اُس تجلی کا اثر اتنا ہے کہ پھر دل میں نہ منافقت باقی رہتی ہے، نہ شرک باقی رہتا ہے، نہ بدعت باقی رہتی ہے۔ تو میں نے گزارش کی کہ جیسے کسی کافراور کسی منافق کو مسلمان کہنا کفر ہے، ایسے ہی کسی صحابی اور مسلمان کو کافر کہنابھی کفر ہے۔ جیسے کافروں کے متعلق، ابو جہل کی پارٹی کے متعلق اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَاءٌ عَلَیْہِمْ أَ أَنْذَرْتَہُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْہُمْ لَاْ یُؤْمِنُوْنَ۔(البقرہ:۶)
اے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم فکر نہ کریں، زیادہ غم کھانے کی ضرورت نہیں۔ آپ اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔ یہ مسلمان نہیں ہوں گے، باقی آپ کو حکم اس لیے دیا ہے کہ ڈیوٹی ہے۔ ڈیوٹی میں نتیجہ کوئی نکلے نہ نکلے جتنا وقت ہے ڈیوٹی کا، وہ حکم ہوتا ہے اس کام کو کرو، چاہے نتیجہ کچھ نکلے یا نہ۔ آپ کی ڈیوٹی ہے نبی ہونے کی حیثیت سے کہ چاہے کوئی نتیجہ نکلے یا نہ نکلے، آپ کام کرتے جائیں۔ باقی آپ کی تسلی کے لیے بتا دیتا ہوں کہ ابو جہل اور اس کی پارٹی مسلمان نہیں ہو گی۔ ابوجہل اس میں شامل تھا۔ یہ حضرت عمر ابنِ خطاب رضی اﷲ عنہ کا رشتہ میں حقیقی ماموں ہے۔ اور اس میں امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے نانا ’’عتبہ‘‘ شامل ہے۔ اس میں انھی کا رشتہ دار ’’شیبہ‘‘ شامل ہے۔ اسی میں کعبۃ اﷲ کی کنجی جس خاندان کے پاس ہے۔ شیبہ وہ بھی شامل ہے۔ اس میں امیر معاویہ کا سگا بڑا ماموں ’’حنظلہ‘‘ وہ بھی شامل ہے، اس میں امیر معاویہ کی پھوپھی، حضرت ابو سفیان رضی اﷲ عنہ کی بہن، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی چچی ’’اُمّ جمیل حَمَّالَۃَ الحَطَبِ‘‘ بھی شامل ہے۔ یہ سب کفار تھے جنھوں نے حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کو اتنا تنگ کیا ہے کہ دنیا میں کسی نبی کو بھی اتنا تنگ نہیں کیا گیا چنانچہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
وَاللّٰہِ مَا اُوْذِیَ نَبِیٌّّ مِثْلَ مَا اُوْذِیْتُ، نبی کو قسم کھانے کی ضرورت نہیں، نبی کا تو وجود ہی قسم ہے۔ فرماتے ہیں اﷲ کی قسم! دنیا میں کسی نبی کو اﷲ کے رستے میں اتنا تنگ نہیں کیا گیا جتنا مجھے تنگ کیا گیا ہے۔ نبی کو قسم کھانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
ابوجہل اور اس کی پارٹی کا انجام:
اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے غزۂ بدر میں پیش گوئی آ گئی۔ کافر اپنے مورچوں میں تھے۔ حضور علیہ السلام ریت کے ٹیلے کے پاس تھے، تو کنویں کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے، اس کو ’’قلیبِ بدر‘‘ کہتے ہیں۔ بدر کا بے آباد کنواں۔ چھڑی ہاتھ میں تھی یا تلوار یا نیزہ، جگہ جگہ نشان لگاتے پھرتے تھے حضورصلی اﷲ علیہ وسلم۔ فرماتے تھے شیبہ یہاں گرے گا، عتبہ یہاں گرے گا، ابو جہل یہاں گرے گا، اُمیّہ بن خلف یہاں گریگا، تم دیکھ لینا ان میں جہاں جہاں میں نے کہا ہے یہیں اُس کی موت ہو گی۔ چنانچہ غزوۂ بدر کا جب خاتمہ ہو گیا، صحابہ نے دیکھا کہ جس جس جگہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے نشان لگایا تھا مکّہ کا ہر بڑا کافر وہیں مرا پڑا تھا۔ تو اﷲ کی طرف سے ڈیوٹی تھی۔ وہ ڈیوٹی ادا ہو گئی۔
تو جس طرح کافروں کو مسلمان کہنا غلط ہے ، منافقوں کو مسلمان کہنا کفر ہے، ایسے ہی اﷲ کریم نے جن لوگوں کو مسلمان قرار دے دیا اُن میں سے ادنیٰ درجے کے ایک آدمی کو بھی یہ کہنا کہ ’’یہ مسلمان نہیں تھا‘‘ یا ’’دشمنِ رسول تھا‘‘ یا ’’منافق‘‘ تھا، یہ اﷲ کو اور اس کے رسول کومعاذاﷲ جھوٹا کہنے کے برابر ہے، یہ بھی کفر ہے۔
سیدنا معاویہ اور عمِّ رسول سیدنا عباس رضی اﷲ عنہما کا اسلام:
سیدنامعاویہ رضی اﷲ عنہ کو تو پروردگارِ عالم نے تین چار سال دیے، حضور کی خدمت میں رہنے کے۔ آخری دو سال تو علانیہ ہیں اور روایات اکثر یہ ہیں کہ سن سات ہجری میں عمرہ ہوا، عمرۃ القضاء، اس موقع پر خفیہ آ کر حضورصلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھوں پر مکّہ میں اسلام قبول کیا، ماں باپ راضی نہیں تھے۔ ابو سفیان اور بی بی ہندہ راضی نہیں تھیں۔ علماء نے لکھا ہے، میں اکثر بیان کرتا ہوں۔ امام ابن حجر مکی رحمۃ اﷲ علیہ، امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اﷲ علیہ جنھوں نے بخاری کی شرح لکھی ہے’’فتح الباری‘‘ انھوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے اور اس میں مَیں لفظ بڑھایا کرتا ہوں کہ جیسے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ عنہ۔ کہ اﷲ اور اﷲ کے رسول کے حکم کی وجہ سے انھوں نے ہجرت نہیں کی تھی۔ حالانکہ اُس دور میں ہجرت فرض تھی بلکہ نشانی تھی مومن اور مسلمان ہونے کی۔ جو آدمی ہجرت نہیں کرتا تھا، فتویٰ لگ جاتا تھا کہ یہ منافق اور بے ایمان ہے لیکن حضرت عباس کے متعلق اﷲ کی مرضی تھی کہ یہ ہجرت نہ کریں۔ اﷲ تعالیٰ اُن سے جو کام لے رہے تھے وہ یہ تھا کہ وہ اپنے اخلاق سے، میل جول سے، محبت سے، پیار سے، معاملات سے، مکہ کے کافروں میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی سچائی کی تبلیغ کر رہے تھے۔ غزوۂ بدر کے بعد اُن کا اپنا دل پلٹ گیا۔ قلبی طور پر وہ مسلمانوں کے قریب ہو گئے۔ اندر سے وہ سمجھ گئے کہ میرا بھتیجا خالی بھتیجا نہیں، انھیں حاکم بننے کی توجہ نہیں، بادشاہت کا ان کو خیال نہیں، یہ فی الواقع سچے ہیں۔ لیکن مجبوری یہ تھی کہ مکہ کے سرداروں سے ابھی اُن کی طاقت زیادہ نہیں ہوئی تھی کہ وہ اُن کو منوا سکیں۔ تو ظاہر سے کافر رہے اور اندر سے مسلمان ہو گئے تو حضرت عباس ابن عبدالمطلب رضی اﷲ عنہ نے جیسا خفیہ اسلام قبول کیا، علماء نے لکھا ہے۔ ویسے ہی حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ نے خفیہ اسلام قبول کیا:
’’عَلٰی مَا حکاہُ الواقدِیُّ بَعدَ الْحُدَیْبِیَّۃِ وَ قَالَ غیرُہٗ بل یَومَ الحُدَیْبِیَّۃِ وَ کَتَمَ اِسْلَامَہٗ عَنْ أَبِیْہِ وَ أُمِّہِ حَتّٰی أَظْہَرَہٗ یَوْمَ الْفَتْحِ فَہُوَ فِیْ عُمْرَۃِ الْقَضِیَّۃِ الْمُتَأَخِّرۃِ عَنِ الْحُدَیْبِیَّۃِ الْوَاقِعَۃِ سَنَۃَ سَبْعٍ قَبْلَ فَتْحِ مَکَّۃَ بِسَنَۃٍ کَانَ مُسْلِماً‘‘(تطہیر الجنان، ص: ۷)
’’واقدی کی روایت کے مطابق (امیر معاویہ کا اسلام) حدیبیہ کے بعد ہوا، اور اُس کے علاوہ دوسرے علماءِ سیرت و تاریخ کہتے ہیں بلکہ خود حدیبیہ کے دن وہ مسلمان ہوئے اور انھوں نے اپنے باپ اور ماں سے اپنااسلام چھپائے رکھا حتّٰی کہ فتحِ مکہ کے دن اُسے ظاہر کیا، تو حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ ۷ھ میں حدیبیہ کے بعد فتحِ مکّہ سے ایک سال پہلے ادا ہونے والے عمرۃ القضاء کے موقع پر مسلمان تھے اور عمرہ میں حضور علیہ السلام اور صحابہ رضی اﷲ عنہم کے ساتھ شریک تھے۔‘‘
جیسا کہ میں کہتا ہوں عباس ابن عبدالمطلب نے۔ انھوں نے غزوۂ بدر کے بعد اسلام خفیہ قبول کیا، ظاہر وہ بھی اُسی دن ہوئے فتحِ مکّہ کے دن اور سات ہجری میں امیر معاویہ نے خفیہ اسلام قبول کیا اور ظاہر وہ بھی فتح مکہ کے دن ہوئے۔ اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں کے ساتھ آ کر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوئے۔ لوگوں نے یہ سمجھا اب مسلمان ہوا ہے۔ وہ حجۃ الوداع سے تین سال پہلے خفیہ مسلمان تھے۔ ان باتوں کو یاد رکھیں۔ یہی باتیں قابل غور ہیں۔ یہی تاریخ ہے، یہی سیرت ہے۔
فضائل و مناقبِ معاویہ رضی اﷲ عنہ کے متعلق تاثر اور تمنا:
میں تو دعا کرتا ہوں اور میری یہ تمنا ہے کہ میرے جو ساتھی ہیں۔ جو کچھ میں نے تیس برس میں حاصل کیا،بال سفید کیے اﷲ کرے وہ ساری معلومات ان کو مل جائیں۔ کیونکہ اﷲ کا خزانہ تھوڑا نہیں۔ آدمی کا خزانہ محدود ہوتا ہے۔ مجھے اﷲ تعالیٰ اس سے دوگنا چوگنا دے سکتے ہیں۔ میں آپ کو بلا مبالغہ کہتا ہوں کہ میں نے فارغ التحصیل ہونے کے بعد سولہ برس صرف سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کی خاطر سیرت کی کتابیں پڑھیں۔ آپ یقین کریں، مجھے چین نہیں آتا تھا دن رات۔ میں نے کہا یا قرآن سچا ہے یا یہودی سچے ہیں، یا حدیثِ رسول سچی ہے، یا رافضی سچے ہیں۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ ہو رسول کا دوست، اس کا رشتہ دار اور ہو منافق، یہ نہیں ہو سکتا۔ پھر جو کتاب مل سکی ہے وہ پڑھی ہے۔ میں بفضلہ تعالیٰ کسی سے متاثر نہیں ہوں۔ ماں باپ نے مجھے جو روٹی کھلائی اور استادوں نے مدرسہ میں جو پڑھایا، خدا کے فضل سے میری عقل میں اﷲ نے اتنی قوت عطا کی کہ میں نے جو روٹی کھائی اس کے بدلے میں عربی پڑھی، میں نے دل میں یہ کہا کہ عربی کس دن کے لیے پڑھی ہے؟ اس کے بعد پھر کیا آڑھت کی دکان کھولنی ہے؟ یہ عربی اسی دن کے لیے پڑھی تھی کہ جو کتابیں پڑھنے کے قابل ہیں اب اُن کو خود پڑھو، پھر جو کتاب مل سکی ہے میں نے وہ چھوڑی نہیں۔ مکہ ومدینہ سے منگوائی۔ تاریخ کی نو بڑی کتابیں ہیں، اُن میں سے الحمدﷲ سات دیکھ چکا ہوں۔ دو باقی ہیں وہ ملی نہیں۔ ایک پہلی صدی کی ہے، ایک پانچویں چھٹی صدی کی لیکن باقی جو اہم ترین کتابیں ہیں اسلام کی تاریخ کی، وہ ساری دیکھ چکا ہوں جو کچھ مجھے مل سکا وہ میں نے پڑھا۔ میں ایسے ہی نہیں بول رہا۔ اندھیرے میں بٹیر نہیں پکڑ رہا۔ اﷲ کا فضل ہے، آنکھیں کھول کر دن کی روشنی میں مضبوط بنیادوں پر میرے ہاتھ پاؤں ہیں۔ عَلَی بَصِیْرۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ۔(میں خود بھی عقل و شہادت کی روشنی میں جادہ پیما ہوں اور میرے پیروکار بھی) جس کا جی چاہے مجھے پہاڑ کی چوٹی پر لے چلے، جنگل میں لے چلے، ان شاء اﷲ جو یہاں کہتا ہوں، اس سے زیادہ ثبوت اور مضبوطی کے ساتھ وہاں بھی کہوں گا۔ جب لوگ گمراہی اور بدمعاشی میں پیچھے نہیں ہٹتے تو ہم کیوں ہٹیں، عقیدہ بھی سچا اور ہم پھر شکست مان لیں؟ الٹے بھاگیں، کمزوری دکھائیں، منافقت کریں، حیلے بازی کریں، تاویلیں کریں،ایسا کریں گے تواﷲ ناراض ہو جائے گا۔ اﷲ ناراض ہو گیا تو پھر کون بچائے گا؟ قیامت کے دن اگر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے جانا پڑا اور آپ کی آنکھیں سرخ ہو گئیں تو پھر اﷲ کے عذاب سے کون بچائے گا؟ اگر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صرف اتنا فرما دیا کہ ’’میرا کلمہ پڑھا تھا اور میرے یاروں کو گالیاں ملتی تھیں! تم بیٹھے سنتے رہے، تمھیں شرم نہیں آئی؟ اس کا کوئی جواب ہے کسی کے پاس؟ وہاں پر یہ کہو گے کہ جی ہم تو آپ کے داماد علی کی محبت میں لگے ہوئے تھے۔ اگر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علی میرا داماد تھااور معاویہ میرا سالا تھا، تم نے ان میں فرق کیوں کیا؟ اس کا جواب یہیں سے سوچ لینا چاہیے،صحابہ کا دشمن پیغمبر علیہ السلام کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا۔
بد عقیدہ اُمّتی، نبی کے سامنے کیسے کھڑا ہو گا؟
آدمی اپنے باپ کی شرم کرتا ہے۔ پردیس میں ہو، ملازمت ہو، کاروبار ہو، وہاں جاکر عادات بدل جائیں، گھر میں نمازی تھا، نیک تھا، اچھے اخلاق تھے۔ پردیس میں گیا، سگریٹ شروع کیا، پھر شراب شروع کی، پھر بدکاری کے اڈے، سینمااور ڈانس ہال میں گیا، آوارہ گردی کی، سفید کتیا کے ساتھ وہاں لَو میرجLove Marrige(یارانہ شادی) کی، اپنی بیوی کو چھوڑ دیا، منگیتر کو طلاق بھیج دی۔ اب جب لوٹنے کا وقت آیا تو دل میں سوچ پیدا ہوئی کہ اگر باپ سے آنکھیں چار ہوئیں تو کیا کروں گا؟ ماں کے سامنے گیا تو کیا جواب دوں گا؟ معصوم بہنیں سامنے آ گئیں تو کیا بولوں گا؟ تو جیسے ایک کمینہ رذیل انسان اپنے نفس کی بدمعاشیوں پر شرمندہ ہو کر تنہائی میں دنیا کے آدمیوں کو جواب دینے کے متعلق گھبراتا ہے۔ اس کو سوچ لینا چاہیے کہ قبر کی وہ گھاٹی جس میں پتا نہیں کتنے ہزار سال ہماری ہڈی پسلی گل جانے کے بعد ہم کو پڑے رہنا ہے، بولنے کا یارا نہیں ہو گا، ہلنے کی سکت نہیں ہو گی۔ کوئی دین دنیا کی ہمیں خبر نہیں ہو گی اُس گھاٹی سے اٹھنے کے بعد قیامت کو جواب دینا ہو گا، اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو، اُس پسینے کو پونچھنے والا کہاں سے لائیں گے ہم؟ اس کی تیاری اب کرنی چاہیے۔ ڈھونڈیں، غور کریں، علماء سے پوچھیں کہ آپ لوگ کیوں ہمیں امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کی سیرت نہیں سناتے؟ آپ کو روٹی کا ڈر ہے؟ روٹی تو آپ کو اتنی ملتی ہے کہ آپ سُکھا سُکھا کر بیچتے ہیں، دال اتنی بُس جاتی ہے کہ اگر محلہ میں تقسیم کی جائے، دس آدمیوں کے گھر کا کھانا چل سکتا ہے، کس چیز کی کمی ہے آپ کو؟ عذاب کیا آ گیا ہے؟ جو مولوی نہیں بولتے، اُن کو پکڑیے، جھنجھوڑیے کہ جب روٹی آتی ہے اﷲ اور رسول کے نام پر تو پھر اس روٹی کو حلال کرو۔ روٹی تو حلال تبھی ہو گی کہ مار کھاؤ، گالیاں سنو، طعنے سنو، تواﷲ تمہیں عزت دے گا اور اگر دنیا کی عزت کے پیچھے بھاگو گے تو اﷲ اور ذلیل کر دے گا۔ حدیث شریف میں آتاہے۔
’’مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ رَفَعَہُ اللّٰہُ‘‘
’’جو شخص اﷲ کے لیے جھک جائے گا اﷲ اُس کو اونچا کر دیں گے۔‘‘
عقیدہ ایثار و قربانی چاہتا ہے :
جو اﷲ کے لیے عاجز ہو جائے گا، مسکین بن جائے گا، دنیا کی گالیاں سنے گا، دین کی خاطر ذلیل اور بدنام ہونے کے لیے تیار ہو جائے گاتو اﷲ تعالیٰ اُس کو اونچا کر دے گا۔ اس کو دنیا میں کوئی ذلیل نہیں کر سکتا۔ ظاہری ذلّت آئے گی حقیقت میں اُس کا درجہ بلند ہو جائے گا۔ میں آپ کے سامنے بیٹھا ہوں اور یہ میرا بڑا بیٹا بیٹھا ہے۔ اس کا نام میں نے محمد معاویہ رکھا تو کئی کروڑ گالیاں میں نے سنیں۔ میں نے اﷲ کے سامنے ایک ہی عرض کی کہ آپ تو جانتے ہیں میں نے کس نیت سے یہ نام رکھا ہے؟ آج اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سیکڑوں بستیوں میں معاویہ نام رکھے جا رہے ہیں۔ یہ بدعت نہیں، اس دور کی ایک دینی ضرورت ہے۔ صحابہ کا نام رکھنا دین کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے برابر ہے۔ میں نے کوئی اپنے باپ کے لیے تو حدیث نہیں پڑھی کہ میرے باپ کا نام رکھنا ضروری ہے، یا میں نے اپنے چچا کا نام نہیں لیا، میں نے تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک صحابی کی خاطر یہ کیااس لیے کہ لوگوں نے انھیں یہودیوں کے پروپیگنڈے کی وجہ سے بدنام کیا۔ جب تک ہم میں سے کوئی شخص صحابہ کے لیے قربانی نہیں دے گا، مار نہیں کھائے گا، گالیاں نہیں کھائے گا، کفارہ ادا نہیں ہو سکتا۔ سب سے پہلے اپنے آپ کو پیش کیا۔ اپنے گھر میں ہزاروں کی باتیں سنیں، گھر والوں کی باتیں سنیں، سُسرال والوں کی باتیں سنیں، میکے والوں کی باتیں سنیں، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث سب کی سنیں۔ شیعہ کی بھی گالیاں کھائیں، سب کچھ ہوا۔ اﷲ تعالیٰ نے کھڑے رہنے کی توفیق نصیب فرمائی۔ اس کا نتیجہ دیکھتا ہوں کہ غریبوں کے ہاں بچوں کے نام ’’محمد معاویہ‘‘ رکھے جا رہے ہیں۔ میں اگر چپ کر جاتا اور لوگوں کو تبلیغ کرتا کہ اپنے پچوں کا نام محمد معاویہ رکھو تو وہ کہتے تیرا بیٹا آسمان سے اُترا ہے؟ اُس کا نام کیوں نہیں رکھتا؟ ہمیں جوتیاں لگواتے ہو اور اپنے آپ کو بچاتے ہو۔ میں نے پہلے اپنے آپ کو جوتیاں کھانے کے لیے پیش کیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ آدمی جوتیاں کھانے کے لیے باہر آ گئے۔ جب تک ہمارے واعظ، ہمارے مبلغ، ہمارے مولانا صاحبان، ہمارے خطیب خود گالیاں کھانے کے لیے تیار نہیں ہوں گے، خود اپنے آپ کو دنیا میں اﷲ کے دین کی خاطر عاجز اور ذلیل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے، اﷲ انھیں عزت نہیں دے گا۔ آج اﷲ کے فضل سے، آپ کی دعاؤں سے میری آنکھیں اونچی ہیں۔ میرے تعارف کی ضرورت نہیں جس جس بستی میں بچے کا نام محمد معاویہ رکھا جا رہا ہے ۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ جی بچے کا کیا نام ہے؟ انھوں نے کہا جی ’’محمد معاویہ‘‘ کہنے لگے! جی آپ کا ابوذر بخاری سے توکوئی تعلق نہیں؟ انھوں نے کہا : ’’جی ہاں‘‘ کہنے لگے ہمیں پہلے ہی سے خطرہ تھا، یہ آواز وہیں سے آ رہی ہے۔ اﷲ کے فضل سے گاڑی چل رہی ہے۔ درخواستیں لے کر لوگ کچہری اور میونسپل کمیٹی ملتان میں گئے۔ انھوں نے کہا ’’جی آپ کا نام‘‘ کہا ’’ابو معاویہ‘‘ اس نے قلم رکھ دیا، ایڈمنسٹریٹر کہنے لگا: آپ کا تعلق ابوذر بخاری سے ہے؟ انھوں نے کہا کہ جی آپ کو اس سے کیا بحث؟ کہنے لگا ! میں آپ کے نام کی وجہ سے پوچھتا ہوں۔ کہنے لگے کہ جی ہاں ہے تو سہی۔ کہنے لگا میں تبھی سمجھا تھا کہ ایسا نام کوئی دوسرا نہیں رکھ سکتا۔ مجسٹریٹوں نے قلم رکھ دیے۔ یہ پچھلے سال کا واقعہ ہے، وہ منہ دیکھنے لگ گئے کہ ’’یہ نام کاغذات پر اور کچہری میں کیسے آ گیا ہے؟‘‘ بات کیا ہے؟ جب تک جرأت نہیں کی جائے گی دین کی خاطر مار کھانے کی، دشمن نہیں دوست بھی متاثر نہیں ہوں گے۔ اگر گھر میں قربانی کا جذبہ ہو گا تو آپ باہر کسی کو کہہ سکتے ہیں۔باپ نماز نہ پڑھے اور بیٹے کو کہے اُٹھ تہجد پڑھ۔ رات کے ڈھائی بج گئے ہیں، فرشتے اتر رہے ہیں، اﷲ کی رحمت پہلے آسمان پر آئی ہوئی ہے، وہ کہہ سکتا ہے کہ میرے لیے پہلے آسمان پر آئی، تمھارے لیے تو پھر چھت پر ہونی چاہیے۔ تم کیوں نہیں اٹھتے، تم تو لیٹے ہوئے خراٹے بھر رہے ہو اور مجھے کہہ رہے ہو کہ تہجد پڑھ۔ میں تو ایک نماز بھی نہیں پڑھوں گا، تم پہلے مجھے پانچ نمازیں پڑھ کر دکھاؤ تو پھر میں بھی تہجد کی کوشش کروں گا۔ ہمیشہ کسی سے عمل کرانے کے لیے پہلے اپنا عمل شرط ہے۔ اﷲ کا بڑا کرم ہے۔ میں کوئی شے نہیں۔اﷲ کی مخلوق میں عاجز ترین گنہگار آدمی ہوں۔ مجھے قیامت تک کروڑوں سال کی عمر مل جائے تو میں اﷲ کا شکر ادا نہیں کر سکتا کہ اﷲ نے مجھے اس چھوٹی سی نیکی کی توفیق بخشی اور اس پر ثابت قدم رہنے کی توفیق بخشی۔
اِس دور میں ذکر معاویہ و سیرتِ معاویہ اور اُن کے لیے ایصالِ ثواب بڑی عبادت اور جہاد ہے:
میں تقریر نہیں کرنا چاہتا، میں تو صرف اس تقریب میں شریک اس لیے ہو گیا تا کہ آپ دوستوں اور بزرگوں میں اس تقریب کی اہمیت پیدا ہو۔ تکلیف کے باوجود آ گیا ہوں لیکن میری تکلیف کل سے کم ہے۔ واﷲ اعلم کیا چیز ہے۔ میں نے دوا بھی کم کھائی ہے، غدا میں بھی بدپرہیزی کی ہے، اس کے باوجود اﷲ نے پھر کرم کیا ہے۔ آپ کے سامنے بیٹھا ہوں۔ تو میں صرف اسی لیے آ گیا کہ میرا ایک ساتھی،(شاہد صدیق) میرا ایک عزیز، میں اس کو چھوٹا بھائی سمجھتا ہوں، بھتیجا بھی سمجھتا ہوں بہت کچھ سمجھتا ہوں اور سب سے بڑی بات ہے کہ دین کے تعلق کی وجہ سے یہ مجھے عزیز ہے۔ میرا اس کے سوا ان لوگوں سے کیا رشتہ ہے؟ انھوں نے دین کی وجہ سے میرے ساتھ محبت کی، مجھے ان کے ساتھ محبت ہے۔ میں نے سوچا کہ جب اس شخص نے ایک عملی قدم اٹھایا ہے تو میرا جانا فرض ہے۔ میں نے ملتان شہر میں جمعہ چھوڑ دیا۔ مجھے کل کہا گیا کہ تم جمعہ پڑھاؤ۔ میں نے کہا بالکل نہیں، میں اگر جاؤں گا تو کل وہاڑی جاؤں گا، کہنے لگے کیوں؟ میں نے کہا وہاں ایک ساتھی حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے لیے ایصال ثواب کر رہا ہے جو بہت بڑا کام ہے۔ اس وقت میں، اس دور میں جہاد ہے، جب اپنے دشمن ہوں بیگانوں کا تو چھوڑو، اس دور میں اس ساتھی کے پاس جا کر بیٹھ جانا بھی سعادت اور ثواب سمجھتا ہوں۔ میں کہوں گا کہ میرے جو دوست دیہات میں رہتے ہیں وہ دیہات میں یہ کام کریں جو شہر میں ہیں وہ شہر میں اس کام کو شروع کریں، ہر مہینے اُن کی یاد میں ایک محفل ہونی چاہیے اور ایک صحابی نہیں، صحابی اور بھی ہیں۔ حضرت معاویہ، حضرت مغیرہ بن شعبہ، حضرت عمرو بن عاص، حضرت شرحبیل بن حَسَنَہ، حضرت مروان بن حَکَم یہ پانچ دس بزرگ خاص طور پر ایسے ہیں کہ ان لوگوں کی یاد میں محفل منعقد کرنا، ان کی یاد منانا، ان کو ایصالِ ثواب کرنا، ان بزرگوں کے کارنامے بیان کر کے اپنے مسلمان بھائیوں دوستوں کو تعارف کرانا یہ بہت بڑی ضرورت اور نیکی ہے۔
(جاری ہے)