حافظ عبید اﷲ قسط نمبر۱
نبی کریم حضرت محمد مصطفی ِ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جیسے ماضی میں پیش آنے والے بہت سے واقعات کے بارے میں خبر دی اسی طرح مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والے بہت سے احداث وواقعات کے بارے میں بھی خبردار فرمایا، ماضی کے جن واقعات کے بارے میں آپ ِ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بتایا ان میں مثلاً :
اُن تین آدمیوں کا قصہ جو بارش سے بچنے کے لئے ایک غار میں پناہ لیتے ہیں اور غار کا دہانہ بند ہوجاتا ہے پھر وہ اپنے اپنے نیک اعمال کا واسطہ دے کر اﷲ سے دعا کرتے ہیں اور غار کا راستہ کھل جاتا ہے (صحیح بخاری: حدیث نمبر3465، صحیح مسلم: حدیث نمبر 2743) یا اُس آدمی کا واقعہ جس کے ساتھ ایک بھیڑیے نے بات کی (صحیح بخاری: حدیث نمبر 2324، صحیح مسلم: 2388) یا بنی اسرائیل کے اُس آدمی کا قصہ جس نے ننانوے قتل کیے تھے پھر وہ زمین پر موجود سب سے بڑے عالم کے بارے میں پوچھتا ہے تو اُسے ایک راہب کا پتہ دیاجاتا ہے چنانچہ وہ راہب کے پاس آتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کیا میری توبہ کی کوئی سبیل ہے؟ راہب کہتاہے کہ نہیں، تو وہ اُس راہب کو بھی قتل کردیتا ہے ، پھر اُسے ایک اور عالم کا پتہ بتایا جاتا ہے، وہ اُس عالم سے کہتا ہے کہ میں نے پورے سو قتل کیے ہیں کیا میری توبہ کی کوئی سبیل ہے؟ تو وہ عالم کہتا ہے کہ کیوں نہیں؟ تم ایسا کرو کہ فلاں جگہ چلے جاؤ وہاں کچھ لوگ اﷲ کی عبادت میں مصروف ہیں تم بھی ان کے ساتھ اﷲ کی عبادت میں مشغول ہوجاؤ اور اپنے علاقے کی طرف واپس مت جانا یہ بُرا علاقہ ہے وہ توبہ کی نیت سے اُس علاقے کی طرف جارہا ہوتا ہے کہ راستے میں ہی اس کی موت کا وقت آجاتا ہے وہ اپنا سینہ اُس علاقے کی طرف موڑ لیتا ہے جہاں وہ جارہا تھا ، اب رحمت اور عذاب کے فرشتوں کے درمیان اختلاف ہوجاتا ہے کہ اس کی روح کون لے کر جائے گا؟ رحمت کے فرشتے کہتے ہیں کہ یہ توبہ کی سچی نیت سے جارہا تھا لہذا ہم لے کر جائیں گے جبکہ عذاب کے فرشتے کہتے ہیں کہ اس نے اپنی زندگی میں کوئی بھی نیک کام نہیں کیا لہذا اسے ہم لے کر جائیں گے ، چنانچہ فیصلہ یوں ہوتا ہے کہ وہ جس جگہ سے آرہا تھا اُس کا فاصلہ ناپ لو، اور جہاں جارہا تھا اسکی مسافت بھی دیکھو، جب ناپا گیا تو وہ جس بستی میں توبہ کی نیت سے جارہا تھا اس کی طرف صرف ایک بالشت زیادہ قریب تھا تو رحمت کے فرشتے اس کی روح قبض کرتے ہیں ( صحیح مسلم: حدیث نمبر 2766 واللفظ لمسلم، صحیح بخاری: حدیث نمبر 3470)۔
یہ چند مثالیں ہیں اُن واقعات کی جو نبی کریم ِ صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے سے بہت پہلے ہوئے اور آپ ِ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُن کے بارے میں خبر دی اور جو بھی آپ ِ صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان رکھتا ہے اُس کے لئے ان واقعات کی سچائی میں کوئی شک وشبہ نہیں ، اگر کوئی کہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ بھیڑیا انسان کے ساتھ بات کرے؟ یا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ صرف اپنے نیک اعمال کا واسطہ دینے سے غار کا دہانہ کھل جائے اور پھر نبی کریم ِ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ان احادیث میں شک کرے تو ایسے شخص کے ایمان میں شک ہے ، اور ایسے شخص کا ایمان بالرسول بھی مشکوک ہے جو یہ بہانہ پیش کرے کہ چونکہ ان واقعات کا قرآن کریم میں ذکر نہیں لہذا یہ تمام احادیث جھوٹی اور موضوع ہیں ۔
بالکل اسی طرح آپ ِ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والے بہت سے واقعات وحوادث کے بارے میں بھی بتلایا ، خاص طور پر علاماتِ قیامت اور قیامت کے قریب پیش آنے والے واقعات کے بارے میں احادیث کی ایک کثیر تعداد موجود ہے جسے محدثین’’الفِتَن‘‘ ا ور ’’علامات الساعۃ‘‘ کے ابواب میں ذکر کرتے ہیں ، ان میں کچھ چھوٹی علامات ہیں جنہیں ’’علامات صغریٰ‘‘ کہا جاتا ہے ، اور کچھ بڑی علامات ہیں جنہیں ’’علامات کبریٰ‘‘ کہاجاتا ہے۔ ان علاماتِ کبریٰ میں سے ایک علامت نبی کریم ِ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ’’حضرت عیسیٰ بن مریم علی نبینا وعلیہ السلام کا نزول‘‘ بھی بیان فرمائی ہے، بہت سے محدثین نے اپنی کتب میں ’’باب نزول عیسیٰ بن مریم‘‘ کے عنوان سے الگ باب بھی قائم فرمایاہے اور مختلف صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے احادیث کی ایک کثیر تعداد مروی ہے جن کے اندر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا صراحت کے ساتھ ذکر ہے۔
نبی کریم ِ صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر چودھویں صدی ہجری تک امت اسلامیہ میں سوائے چند معتزلہ اور فلاسفہ کے کسی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قیامت سے پہلے نازل ہونے کا انکار نہیں کیا، امت کا رفع ونزولِ عیسیٰ علیہ السلام پر اجماع چلا آرہاہے (اجماعِ امت کے حوالے آگے آرہے ہیں) ، تیرھویں صدی کے آخر اور چودھویں صدی میں کچھ لوگوں کی اِکا دُکا آوازیں سننے کو ملیں جنہوں نے یہ کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ نہیں ہیں اور انہوں نے ان تمام احادیث کو ناقابل اعتبار، موضوع ، جھوٹی اور اسرائیلی روایات کہہ کر رد کردیا جن کے اندر نزول عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر ہے ، ان میں مصر کے شیخ محمد عبدہ اور ان کے چند تلامذہ کا مکتب فکر جس میں علامہ رشید رضا (جن کی وفات سنہ 1935 ء میں ہوئی) اور شیخ محمود شلتوت (جن کی وفات سنہ 1963ء میں ہوئی) قابل ذکر ہیں خاص طور پر نظر آتاہے لیکن خود مصر کے علماء نے ان کے امت اسلامیہ سے ہٹ کر تفردات کا بڑی شدّ ومدّ کے ساتھ رد بھی کیا ہے ، اسی طرح جب بر صغیر پاک وہند میں فتنہ انکارِ حدیث کا ظہور ہوا تو یہ فتنہ دو صورتوں میں سامنے آیا، پہلی صورت یہ کہ احادیث نبویہ کی تشریعی حیثیت کو تسلیم نہ کیا جائے جیسا کہ غلام احمد پرویز وغیرہ نے کیا، دوسری صورت یہ سامنے آئی کہ احادیث نبویہ کی تشریعی حیثیت کا مطلقاً انکار تو نہ کیا جائے بلکہ احادیث کی استنادی حیثیت کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کردیئے جائیں اور اس مقصد کے حصول کے لئے چند ایسی شخصیات کا انتخاب کرلیا جائے جن پر علم حدیث کے بیشتر حصہ کا انحصار ہے، جن کی وساطت سے ہمارے پاس احادیث پہنچی ہیں اور جو علم حدیث کا ستون ہیں کہ ان کو گرانے سے احادیث نبویہ کی پوری عمارت متأثر ہو سکتی ہے، مشہور مستشرق گولڈ زیہر نے اسی فارمولے کو سامنے رکھتے ہوئے علم حدیث کے دو اہم ستونوں کا انتخاب کیاتھا، جن میں سے ایک صحابی رسول ِ صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ اور دوسرے مشہور تابعی ابن شہاب زہریؒ ہیں۔
گولڈ زیہر ہی کے خیالات وافکار برِ صغیر کے بعض لوگوں کی تحریروں میں نظر آئے، ایسے ہی ایک صاحب گذرے ہیں جن کا نام تو سید حیات الحق محمد محیی الدین تھا لیکن مشہور ’’علامہ تمنا عمادی پھلواروی‘‘ کے نام سے ہیں، جو 1888ء میں موجودہ ہندوستان کے علاقے پھلواری ریاست بہار میں پیدا ہوئے اور 1972ء میں کراچی میں فوت ہوئے ، عمادی صاحب نے خاص طور پر امام ابن شہاب زہریؒ کو نشانہ بنایا اور ایک کتاب ’’امام زہری وامام طبری‘‘ کے عنوان سے لکھی جس میں گولڈ زیہر ہی کی امام زہریؒ پر تنقید کا اعادہ وتکرار ہے، اسی طرح ان کی ایک کتاب بعنوان ’’انتظارِ مہدی ومسیح فن رجال کی روشنی میں‘‘ کی طرف ہمارے ایک نہایت محترم دوست نے توجہ دلائی جس میں تمنا عمادی صاحب نے امام زہریؒ کے ساتھ صحیح بخاری ومسلم جیسی کتب حدیث پر بھی اپنی تنقید کے خوب نشتر چلائے ہیں، کتاب کے سروق پر مصنف کے نام کے ساتھ ’’محدث العصر جامع العلوم‘‘ بھی لکھا ہے چنانچہ کتاب کا مطالعہ شروع کیا ، کتاب کے باب سوم کا عنوان ہے ’’نزولِ عیسیٰ کی احادیث اور ان پر تنقید‘‘ جو کتاب کے صفحہ 163 سے شروع ہوکر اس کے اختتام یعنی صفحہ 310 تک پھیلاہے، ہماری ان گذارشات کا تعلق اسی تیسرے باب سے ہے، کتاب کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوا کہ عمادی صاحب بلاشبہ اپنے فن میں یکتا ہیں اور اُن کا فن محض اپنے ذہن سے مفروضے بناکر اور ہوائی قلعے تعمیر کرکے بات کا بتنگڑ بنانا ہے، موصوف راویوں کے بارے میں زمین وآسمان کے خوب قلابے ملاتے ہیں، اس فن میں ان کو ایسا کمال حاصل ہے کہ تاریخی طور پر دو الگ اشخاص کوایک ثابت کرنا، کسی ایسے راوی کو جسے ائمہ علم رجال ثقہ لکھیں ’’مجہول‘‘ ثابت کرنا، کسی ایسے آدمی کو جو مثال کے طورپر اصل میں مدینہ منورہ کا باشندہ ہو اور ملک شام میں جاکر بس جائے جسے کتب اسماء الرجال میں ’’نزیل الشام‘‘ کہاجاتا ہے ، اُسے ملک شام کا اصل باشندہ ثابت کرنا اور اس کے مدنی ہونے کا انکار کرنا (جیسے امام ابن شہاب زہریؒ)، لیکن دوسری طرف اسی طرح کے ایک مدنی (یعقوب بن ابراہیمؒ) کو جنہیں کتب اسماء الرحال میں ’’نزیل بغداد‘‘ لکھا ہے مدنی بتا کر یہ مفروضہ پیش کرنا کہ اِن سے نیشاپور کا کوئی آدمی روایت کیسے کر سکتا ہے، یہ ناممکن ہے، بتایا جائے کہ نیشاپور والا مدینہ کب گیا؟ یا مدنی راوی نیشاپور کب آیا؟ ، حتیٰ کہ کسی صحابی کو ’’فرضی صحابی‘‘ ثابت کرنا موصوف کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، موصوف جب کسی حدیث کو گرانا چاہتے ہیں تو ’’موضوع اور مکذوب‘‘ سے نیچے بات ہی نہیں کرتے ، لوگوں کو اپنی ’’محدثیت‘‘ کا قائل کرنے کے لئے جگہ جگہ کتب اسماء الرجال کے حوالے دیتے ہیں لیکن خود اصول حدیث کی دھجیاں اڑاتے نظر آتے ہیں، حافظ ابن حجررحمتہ اﷲ علیہ کی تہذیب التہذیب کے حوالے جابجا دیتے ہیں لیکن جب یہی حافظ ابن حجررحمتہ اﷲ علیہ اپنی شرح صحیح بخاری میں امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کی سند میں مذکور کسی راوی کے بارے میں یہ لکھیں کہ اس سے فلاں بن فلاں مراد ہیں تو موصوف نے لئے یہ وضاحت قابل قبول نہیں ہوتی، بلکہ جناب اپنی عقل کے خیالی گھوڑے دوڑاتے ہیں اور سند میں مذکور راوی کا کوئی ایسا ہم نام تلاش کرکے لاتے ہیں جو مجروح ہو اورپھر اصرار کرتے ہیں کہ بخاری کی سند میں یہ راوی ہے اور امام بخاری نے اس کی ولدیت وغیرہ اس لئے ذکر نہیں کی کیونکہ انہیں علم تھا کہ یہ ضعیف ہے ، امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ نے (نعوذ باﷲ) لوگوں کو دھوکے میں رکھنے کے لئے صرف اس کا نام بغیر ولدیت ذکر کردیا ، اور کہیں امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ سے ہمدردی بھی جتاتے نظر آتے ہیں اور یہ تحقیق پیش کرتے ہیں کہ صحیح بخاری اور دوسری کتب حدیث میں وضّاعین اور جھوٹے لوگوں نے نہ صرف جھوٹی احادیث بلکہ پورے پورے باب بعد میں ’’ٹھونس‘‘ دیے ہیں جس میں امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ وغیرہ کا کوئی قصور نہیں، موصوف کا مبلغ علم یہ ہے کہ صحیح بخاری میں جو ’’باب نزول عیسیٰ بن مریم‘‘ ہے اس کے بارے میں بھی ترنگ میں آکر یہ لکھ گئے کہ یہ باب بھی صحیح بخاری میں بعد میں ’’ٹھونس‘‘ دیا گیا (موصوف نے یہی ٹھونسنے کا لفظ لکھا ہے) اور پھر یہ ’’محدث العصر‘‘ اس پر دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ یہ باب صحیح بخاری کی ’’کتاب بدء الخلق‘‘ میں ہے، بھلا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا ’’آغازِ تخلیق‘‘ کے باب سے کیا تعلق اس کو تو ’’خاتمہ تخلیق‘‘ یا ’’کتاب الفتن‘‘ وغیرہ میں ہونا چاہیے تھا، لکھتے ہیں :
’’بات یہ ہے کہ متقدمین کی کتابوں میں ان کے وضاع وکذاب تلامذہ یا تلامذہ کے تلامذہ یا جلد بند یا نقل کرنے والے کاتبوں کو جہاں موقع مل جاتا تھا وہاں کچھ حدیثیں داخل کردیتے تھے کبھی مستقل طور سے ایک باب ہی الگ سے قائم کرکے لگا دیتے تھے ، اور بعض وقت تو وہ حدیثیں یا باب بے محل ٹھونس دیے جاتے تھے ، اسی کی ایک مثال یہ باب نزول عیسیٰ بن مریم بھی ہے جس کو ٹھونسنے کی گنجائش کتاب الفتن میں تو یارانِ طریقت کو نہ ملی، کتاب بدء الخلق میں بے جوڑ طریقے سے ایک باب قائم کرکے صرف دو حدیثیں اس میں بنا کر درج کردیں جو غریب امام بخاری کے سر پڑگئیں‘‘۔ (انتظارِ مہدی ومسیح ، صفحہ 167 – 168)
مجھے بھی یہ بات عجیب لگی کہ کتاب بدء الخلق میں نزول عیسیٰ علیہ السلام کا کیا تعلق؟ چنانچہ میں نے صحیح بخاری کی ’’کتاب بدء الخلق‘‘ دوبارہ دیکھی لیکن میری حیرت کی اتنہاء نہ رہی جب مجھے اس میں ’’باب نزول عیسیٰ بن مریم‘‘ کہیں نظر نہ آیا، غور کرنے پر معلوم ہوا کہ در اصل یہ باب کتاب بدء الخلق میں نہیں جیسا کہ عمادی صاحب نے دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے (یا خود انہیں دھوکہ لگ گیا ہے) بلکہ اس سے اگلی کتاب ’’احادیث الانبیاء‘‘ میں ہے ، یعنی وہ کتاب جس میں انبیاء علیہم السلام سے متعلق احادیث کا بیان ہے اور اس کتاب میں امام بخاریؒ نے ’’باب نزول عیسیٰ بن مریم‘‘ بھی قائم کیا ہے کیونکہ عیسیٰ علیہ السلام بھی انبیاء میں سے ایک جلیل القدر نبی ہیں لہذا اب کوئی اشکال نہ رہا ، لیکن ان ’’محدث العصر‘‘ صاحب کی علمیت کا اندازہ یہیں سے ہوگیا کہ کس طرح ایک غلط بات کو بنیاد بناکر یہ فتویٰ صادر فرمادیا کہ یہ باب کسی نے صحیح بخاری میں ’’ٹھونس‘‘ دیا ہے ۔
آنکھیں ہیں اگر بند تو پھر دن بھی رات ہے اِس میں بھلا قصور کیا ہے آفتاب کا ؟
¢ الغرض! جناب تمنا عمادی صاحب نے یہ تأثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ تمام احادیث جن کے اندر ’’نزولِ عیسیٰ علیہ السلام‘‘ کی خبر دی گئی ہے ساری کی ساری ’’موضوع اور جھوٹی‘‘ ہیں اور سب سے بڑی دلیل اس پر یہ دی ہے کہ چونکہ قرآن کریم میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں اور ہر وہ حدیث جس میں کسی ایسی بات کا ذکر ہو جو قرآن نے بیان نہیں کی وہ جھوٹی ہے ۔
کیاواقعی نزول ِ عیسیٰ علیہ السلام کی روایات اصولِ حدیث کی رو سے موضوع اور جھوٹی ہیں؟ محدثین اور علماء متقدمین اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ کیا کسی حدیث کے سچی یا جھوٹی ہونے کااصول یہ ہے کہ اگر اس میں بیان شدہ مضمون قرآن میں ہو تو وہ سچی اور اگر حدیث میں مذکور بات قرآن میں نہ ہو تو وہ حدیث جھوٹی؟کیا واقعی قرآن کریم کی کسی آیت سے نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کا اشارہ نہیں ملتا؟ اس ساری (بزعم خود) تحقیق سے مصنف کا مقصد کیا ہے ؟ ان تمام سوالوں کے جوابات کے ساتھ ساتھ ہم کوشش کریں گے اصل حقیقت لوگوں کے سامنے لائی جائے، ان کے سامنے وہ احادیث رکھی جائیں جن کی بناء پر علماء امت نے فرمایا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول متواتر احادیث سے ثابت ہے اور بتایا جائے کہ جناب تمنا عمادی صاحب جیسے سو’’محدث العصر‘‘ مل کر بھی متقدمین میں سے امام بخاری، امام مسلم، امام ابن عطیہ اندلسی، امام ابو موسیٰ اشعری، حافظ ابن حجر ، علامہ قسطلانی، علامہ عینی، علامہ نووی، حافظ ابن کثیر، قاضی عیاض وغیرہیم رحمہم اﷲ اور متأخرین میں سے علامہ محمد بن احمد السفارینی، علامہ انور شاہ کشمیری، علامہ شرف الحق عظیم آبادی، علامہ محمود آلوسی بغدادی، علامہ احمد محمد شاکر،علامہ محمد ناصر الدین البانی ، علامہ محمد بن جعفر الکتانی اور علامہ زاہد کوثری وغیرہم رحمہم اﷲ کے علم اور مرتبے تک نہیں پہنچ سکتے جنہوں نے تحقیق کے بعد نزول عیسیٰ علیہ السلام کی احادیث کو ’’متواتر‘‘ بتایا ہے (تفصیل آگے بیان ہوگی) ، جس آدمی کو یہ تک علم نہیں کہ صحیح بخاری میں ’’باب نزول عیسی بن مریم‘‘ کس کتاب میں ہے وہ چلا ہے ان متواتر احادیث کو ’’موضوع اور مکذوب‘‘ ثابت کرنے ۔
آگے چلنے سے پہلے تمنا عمادی صاحب کی کتاب سے چند اقتباسات کا مطالعہ کرلیں جن سے ہر وہ شخص جسے عقلِ سلیم عطا کی گئی ہے بخوبی اندازہ کر سکتا ہے کہ موصوف کا اصل مقصد نزولٍ عیسیٰ علیہ السلام کا انکار نہیں بلکہ حدیث اور کتب حدیث کو مشکوک اور ناقابل اعتبار ثابت کرنا ہے ، ملاحظہ فرمائیں وہ جابجا اپنے دل کی بات کس طرح نوکِ قلم پر لاتے ہیں ،چنانچہ باب ِ سوم کے شروع میں لکھتے ہیں:
’’جن حضرات کے نزدیک کتبِ حدیث آسمانی صحیفے ، راویانِ حدیث حاملانِ وحی فرشتے اور جامعینِ احادیث مہبطِ وحی مثل انبیاء ومرسلین تھے وہ میری تنقید سے کیا مطمئن ہوسکتے ہیں، بلکہ چِڑ کر قرآن مجید پر مُنہ آنے لگیں گے اس لئے ان کے لئے یہ تنقید تحصیل لاحاصل ہے، اور جو لوگ اﷲ تعالیٰ کے اس دعوے پر ایمان رکھتے ہیں کہ ما فرطنا فی الکتاب من شيء ہم نے اس کتاب میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے ونزلنا علیک الکتاب تبیاناً لکل شيء ہم نے یہ کتاب تم پر دین کی ہر بات کھول کر بیان کردینے کے لئے اتاری ہے وہ اس پر بھی ایمان ضرور رکھتے ہیں کہ نزولِ مسیح وآمد مہدی اگر کوئی دینی عقیدہ ہوتا تو قرآن مبین میں ان باتوں کی خبر ضرور دی جاتی جب قرآن مبین میں ان کا ذکر نہیں تو ان باتوں کو دینی عقیدہ سمجھنا ہی بدعت وضلالت ہے‘‘۔ (انتظارِ مہدی ومسیح، صفحہ 165)
اور کتاب کے آخر میں یوں لکھتے ہیں:
’’میں نے ان حدیثوں کی تنقید صرف روایت پرستوں کے لئے لکھی ہے کہ تا بدر باید رسانید ، ورنہ جو لوگ قرآن مجید کو کامل ومکمل سمجھتے ہیں اور مافرطنا فی الکتاب من شيء پر ایمان رکھتے ہیں ان کو ان تنقیدات کی کوئی ضرورت ہی نہیں ۔ ان کے لئے تو ان ساری حدیثوں کے غلط ہونے کی صرف یہی ایک زبردست دلیل کافی ہے کہ نزولِ عیسیٰ بن مریم کا کوئی ذکر قرآن مبین میں نہیں ہے اس لئے نزولِ مسیح کا عقیدہ ہی باطل ہے اور یہ ساری حدیثیں یقیناً جھوٹی ہیں‘‘۔
(انتظارِ مہدی ومسیح ، صفحہ 309)
تمنا عمادی صاحب کے مذکورہ بالا الفاظ سے اُن کے دل میں حدیث ، محدثین، رواۃ حدیث اور کتب حدیث کے بارے میں حقد اور نفرت جھلک رہی ہے ورنہ آج تک کسی نے نہیں کہا کہ کتبِ حدیث آسمانی صحیفے ہیں، کسی کا یہ دعویٰ نہیں کہ رواۃ حدیث فرشتے یا معصوم ہیں نہ ہی کسی کا یہ موقف ہے کہ محدثین اور جامعین کتب حدیث پر انبیاء ومرسلین کی طرح وحی نازل ہوتی ہے، یہ سب کچھ عمادی صاحب نے حدیث اور محدثین کے ساتھ اپنے ’’عناد‘‘ کی وجہ سے لکھا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اگر راویانِ حدیث کو فرشتے سمجھا جاتا تو کتب اسماء الرجال وجرح وتعدیل نہ لکھی جاتیں، اگر کتبِ حدیث کو آسمانی صحیفے اور ان کے جامعین کو مہبط وحی تصور کیا جاتا تو ان کتابوں کی روایات کی جانچ پھٹک نہ کی جاتی اور صحیح و ضعیف روایات کو الگ الگ نہ کیا جاتا۔
منکرینِ حدیث کا یہ وطیرہ بھی رہا ہے کہ وہ حدیث اور کتب حدیث کے بارے میں شکوک وشبہات پھیلانے کے لئے قرآن کانام لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حدیث کے صحیح ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس میں بیان کردہ مضمون قرآن میں ہو ۔ یہ صرف ایک دھوکہ ہے ورنہ قرآن تو خود کہتا ہے کہ ﴿من یطع الرسول فقد اطاع اﷲ (النساء:۸۰)﴾جس نے رسول (صلی اﷲ علیہ وسلم ) کی اطاعت کی پس اس نے اﷲ کی اطاعت کی۔ یہ نہیں فرمایا کہ ’’جس نے اﷲ کی اطاعت کی اس نے رسول کی اطاعت کی‘‘ بلکہ رسولصلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت کو اﷲ کی اطاعت کہا گیا ، نہ ہی یہ کہا گیا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلمکی صرف اس بات میں اطاعت کرنی ہے جس کا ذکر قرآن میں ہو ، اور جس بات کا ذکر قرآن میں نہ ہو وہ نہیں ماننی۔
قرآن کا حکم تو یہ ہے ﴿قُل اطیعو اﷲ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم فان تنازعتم فی شيء فردوہ الی اﷲ والرسول ان کنتم تؤمنون باﷲ والیوم الآخر (النساء:۵۹)﴾ آپ کہہ دیجیے! اطاعت کرو اﷲ کی اور رسول (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی اور ان کی جو تم میں سے صاحب اختیار ہوں، پس اگر تمہارے درمیان کسی چیز میں اختلاف ہوجائے تو اسے اﷲ اور اس کے رسول کی طرف لوٹاؤ اگر تم واقعی اﷲ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔
اس میں ’’اﷲ کی اطاعت‘‘ اور ’’رسول کی اطاعت‘‘ دونوں کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے نیز اختلاف کی صورت میں بھی ’’اﷲ‘‘ اور ’’رسول‘‘ کی طرف رجوع کرنے کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے ، جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بات (حدیث) بھی اﷲ کی بات (قرآن)کی طرح اپنی جگہ مستقل حجت ہے ۔
قرآن تو یہ کہتا ہے کہ ﴿لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسو ۃ حسنۃ لمن کان یرجوا اﷲ والیوم الآخر(الاحزاب:۲۱)﴾ بلا شبہ تمہارے لیے رسول ( صلی اﷲ علیہ وسلم ) کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے (پیروی کے لیے) ایسے شخص کے لیے جو اﷲ تعالیٰ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔
اس آیت میں لفظ ’’رسول اﷲ‘‘ ایک جامع لفظ ہے جو نبیصلی اﷲ علیہ وسلم کی ساری زندگی کو محیط ہے۔ اس میں آپ کی قولی اور فعلی تمام احادیث شامل ہیں آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اﷲ تعالیٰ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کی پوری زندگی کو نمونہ بنائے اور یہ تب ممکن ہے کہ وہ نبیصلی اﷲ علیہ وسلمکی احادیث کو فی نفسہ اور مستقل حجت تسلیم کرے۔ اگر وہ انہیں حجت تسلیم نہیں کرتا یا اپنی خواہش کے تابع ’’تحقیق‘‘ کرتا ہے اور یہ قید لگاتا ہے کہ میں قرآن کو دیکھوں گا اگر حدیث میں بیان کردہ بات یا مضمون اس میں ملا تو حدیث کو مانوں گا ورنہ نہیں تو ایسا شخص اس آیت اور دوسری آیات کا منکر ہے ۔
قرآن کا فیصلہ تو یہ ہے کہ ﴿ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الہدیٰ ویتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ ما تولّیٰ ونصلہ جہنم (النساء: ۱۱۵)﴾ اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے۔ اس کے بعد کہ اس کے لیے سیدھا راستہ خوب واضح ہوچکا اور مومنوں کی راہ کے علاوہ کسی دوسری راہ پر چلنے لگے تو ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے جس طرف وہ پھرے گا اور اسے جہنم میں داخل کریں گے۔
اس آیت کریمہ میں صرف رسول اور اس کی ہدایت کا ذکر کیا گیا ہے ، کتاب اﷲ کا ذکر نہیں کیا گیا کیونکہ ’’مُشاقّۃٌ‘‘ در اصل عملی مخالفت کو کہاجاتا ہے، یعنی رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم نے جو اعمال کئے اگر کوئی شخص ان کے خلاف کرتا ہے تو اس کے لیے وعید اور تخویف ہے، رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کے اعمال احادیث میں مذکور ہیں ۔ لفظ ’’الہدیٰ‘‘ بھی عام ہے اور کتاب اﷲ اور حدیث دونوں ہدایت کے سرچشمے ہیں۔ اس ہدایت کی مخالفت جہنم میں داخل ہونے کا سبب بنتی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کے اعمال اور ہدایت کی مخالفت کرنے والا اس کی حجیت سے انکار کرتا ہے ، لہذا منکرینِ حجیتِ حدیث اس آیت کے منکر ہیں ۔
اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو موضوع احادیث کا وجود بذات خود حجیتِ احادیث کے لیے ایک قوی دلیل ہے جس کا منکرینِ حدیث بھی انکار نہیں کرسکتے۔ وہ اس طرح کہ اگر احادیث شرعی حجت نہ ہوتیں تو پھر احادیث گھڑنے کا کیا فائدہ؟ جب اصلی سکہ کی بازار میں قدر وقیمت ہوگی تو کھوٹے سکے بنائے جائیں گے۔ منکرینِ حدیث بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ایک دور ایسا آیا کہ جب موضوع روایات کا سیلاب امڈآیا تھا جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس وقت امت کی اکثریت حجیتِ احادیث کی قائل تھی۔
جاری ہے
ماشاءاللہ