قادیانی فتنے نے شمالی افریقہ کے دو اہم اسلامی ملکوں مراکش اور الجزائر میں گمراہ کن سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ فرانسیسی نو آبادی رہنے والے دونوں ممالک میں مغربی تنظیموں کے تعاون سے دجالی گروہ کی سرگرمیوں کے بارے میں عوامی سطح پر آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان قادیانیت کے جال میں پھنس رہے ہیں۔ گزشتہ سال نومبر میں الجزائر میں بیس ایسے افراد نے کلمہ پڑھ کر قادیانیت سے توبہ کی ہے جو لاعلمی کی وجہ سے قادیانیت کے جال میں پھنس گئے تھے۔ تجدیدِ ایمان کرنے والے گروپ میں شامل ابوعماد نامی الجزائری باشندے نے ایک نیوز ویب سائیٹ پر اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بارے میں بتایا کہ وہ ۲۰۰۶ءمیں دارالحکومت الجزائر میں قادیانی گروپ کی دعوتی سرگرمیوں میں مصروف کچھ افراد سے ملا تھا۔ کاروباری ہونے کے ناطے اس کا مختلف شہروں میں جانا لگا رہتا تھا۔جہاں فراغت کے اوقات میں اس گروہ سے متعلق افراد سے ان کی ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ تاہم اسے معلوم نہیں تھا کہ وہ جس گروہ کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے ،وہ قادیانی ہے، کیونکہ اسے قادیانیت کے بارے میں کسی حد تک معلومات تھیں ۔ اسے بس یہی بات سمجھائی جا رہی تھیں کہ اسلام ایک پر امن دین ہے ، اس وقت جتنی لڑائیاں اور جھگڑے ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، ان کی تنظیم کو بعض ممالک میں ظلم و زیادتی کا سامنا ہے لہذا وہ کھل کر اپنا کام نہیں کر رہے اور خفیہ طور پر دعوت و اصلاح کے کام میں مصروف ہیں۔ اس دوران اس کے کئی دوست اور خاندان کے کئی افراد بھی اس کے کہنے پر اس گروہ میں شامل ہوئے ۔تاہم انہیں ۲۰۱۵ء میں حقیقت کا اس وقت اندازہ ہوا۔ جب قادیانی گروہ نے جرمنی سے آئے ہوئے ایک خاص نمائندہ سے ان کی ملاقات کرائی۔ اس شخص نے انہیں کچھ کتابیں اور پمفلٹس فراہم کئے اور کچھ تحفے بھی دیئے ، اس کے علاوہ انہیں اپنا مرکز دکھلانے کے لیے الجزائر سے باہرجانے کی دعوت بھی دی گئی، اس موقع پر انہیں کچھ ایسی دستاویزات دکھائی گئیں۔ جن میں مرزا مسرور اور غلام احمد قادیانی کے اقوال اور اُن سے منسوب باتوں کو تعلیمات کے طور پر پیش کیا گیا تھا، اس پر انہیں شک ہوا اور جب تحقیقات کیں تو بہت جلد اُن پر یہ حقیقت کھل گئی کہ وہ لوگ جس تنظیم کے رکن بنے ہیں، وہ کوئی اور نہیں بلکہ قادیانی گروہ ہے جو ایک گمراہ اور دجالی طبقہ ہے اور یہ کہ ان کے رکنیت فارم بھر کر وہ اسلام سے دور چلے گئے ہیں۔ اس کے بعد ان بیس افراد نے ایک ساتھ کلمہ پڑھ کر تجدیدِ ایمان کیا اور قادیانیت سے تائب ہو گئے۔ ابوعماد نے اپنے ساتھیوں کے نام بتانے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں قادیانی لابی کی جانب سے شدید دباؤ کا سامنا ہے ، انہیں الجزائر سے باہر رہنے والے ایک گروپ کے ذریعے ہراساں کیا جارہاہے۔ الجزائری ذرائع ابلاغ کے مطابق الجزائر میں قادیانیوں کی سرگرمیوں میں زیادہ اضافہ شامی لڑائی کے بعد ہوا ہے۔الجزائر کے مشرق میں امازیغ اکثریتی علاقوں میں شیطانی تبلیغ کا سلسلہ عرج پر ہے۔ مسلمانوں کو شیطانی جال میں پھنسانے کے لیے قادیانی گروپ احمدی نام استعمال کر رتا ہے۔ ان کا مرکزی ہدف تعلیمی اداروں کے جذباتی طلبہ و طالبات ہیں۔وہ اس مقصد کے لیے امازیغ اور عربی زبان میں لٹریچر اور پمفلٹس شائع کر کے تقسیم کر رہے ہیں۔ الجزائر میں کام کرنے کے لیے عربی اور امازیغی بولنے والے اسرائیلی مبلغین کو بھیجا گیا ہے جو فلسطین اور شام کے جعلی پاسپورٹ استعمال کر رہے ہیں۔ الجزائری جریدے کے مطابق قادیانی گروہ کی سرگرمیوں میں شامی خانہ جنگی کے بعد اس وقت اضافہ ہوا۔ جب الجزائری حکومت نے خانہ جنگی سے متاثرہ شامی باشندوں کے الجزائر میں داخلے کے لیے پاسپورٹ کی شرط ختم کرنے کا اعلان کیا۔الجزائر کے مشرقی صوبوں ام البواقی،بسکرہ ، سطیف، اور غردایہ میں کافر گروہ نے یلغار کر رکھی ہے۔ دارالحکومت الجزائر میں بھی قادیانیوں کی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔قادیانی گروہ نے الجزائر کے کئی بڑے اخبارات میں دھوکہ دے کر اپنے اشتہارات بھی چھپوائے ہیں۔ جبکہ کئی جگہوں پر مسلمانوں کے ساتھ مناظروں تک بھی نوبت آئی ہے۔ اس ضمن میں الجزائر کے ایک نامور عالم دین الحاج احمد عیسٰی نے بتایا کہ ایک نوجوان نے انہیں فون کر کے کسی مسئلے کے بارے میں پوچھا، مسئلہ مسلمانوں کے عام عقیدے سے متعلق تھا۔ ابھی وہ جواب دینا شروع ہوئے تھے کہ نوجوان نے اپنے دلائل دینے شروع کر دیئے، نوجوان کی باتیں سن کر انہیں شدید دھچکا لگا، لیکن معاملے کی تہہ تک وہ پھر بھی نہ پہنچ سکے۔یہ معاملہ صرف الجزائر تک محدود نہیں بلکہ پڑوسی ملک مراکش بھی قادیانی فرقے کے نشانے پر ہے۔ مراکشی علماء کرام اور ذرائع ابلاغ نے گمراہ گروہ کی شامی لڑائی کے متاثرین کی آڑ میں تکفیری سرگرمیوں کی نشاندہی کی ہے۔ تاہم اس کے خلاف سرکاری طور پر ابھی تک کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ مراکشی جریدے اسپریس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مراکش میں قادیانی گروہ کے چیلوں کی تعداد ۲۰۰ سے متجاوز ہے، الجزائر کے برعکس مراکش میں شاہی طرز حکومت کی وجہ سے دعوتی سرگرمیوں پر پابندی ہونے سے انہیں کام کرنے میں دشواریوں کا سامنا ہے ،لیکن پھر بھی داربیضا، مراکش ، طنجہ، محمدیہ ، تارودات اور اکادیر میں قادیانی گروہ مسلمانوں کے عقائد بگاڑنے کے لیے سرگرم ہے۔ اس نوعیت کا پہلا واقعہ ۲۰۱۴ء میں تارودات شہر میں ایک نوجوان کے ساتھ پیش آیا ، ہوٹل میں ایک جگہ پر بیٹھے ہوئے ایک تعلیم یافتہ شخص نے اس نوجوان سے بات چیت شروع کی۔ نوجوان کی خوش اخلاقی دیکھ کر اس شخص نے اسے اپنے جال میں پھانسنے کی کوششیں جاری رکھیں، کئی روز کی مسلسل ملاقاتوں کے بعد نوجوان پر عقدہ کھلا کہ اس کا اجنبی دوست پیسے لے کر قادیانی مشنری کے لیے نوجوانوں کی ذہن سازی کر رہا ہے۔ ابوعمر کے فرضی نام سے تعارف کرانے والے اس نوجوان نے مراکشی جریدے کو باقاعدہ انٹرویو دیا اور عوام کو اس فتنے سے آگاہ کرنے پر زور دیا۔ مراکشی باشندے نے بتایا کہ قادیانی گروہ نے مراکش میں کسی خاص جگہ کو عبادت خانے کے طور پر مختص نہیں کیا،بلکہ یہ لوگ سیاحوں کی شکل میں گھومتے ہیں اور مختلف علاقوں میں اپنے متعلقہ افراد کے گھروں میں مجالس کا انعقاد کرتے ہیں۔
(روزنامہ’’اوصاف‘‘،اسلام آباد۔13؍مارچ20016ء)