تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

آغاز

 عبداللطیف خالد چیمہ

یومِ امتناع قادیانیت ایکٹ
(26؍ اپریل 1984ء)
ایک طویل جدوجہد کے بعد 7 ستمبر 1974 ء کو پارلیمنٹ میں لاہوری و قادیانی مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا،مگر اِس کے باوجود قادیانی شعائرِ اسلام ،اسلامی علامات، کلمہ طیبہ وغیرہ کابے دھڑک استعمال کرتے رہے ،جس سے مختلف مقامات پرمسلم،قادیانی کشیدگی بھی پیدا ہوتی رہی،اس حوالے سے 1984ء میں ’’کُل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم بنوت ‘‘کے سربراہ حضرت مولانا خواجہ خان محمد رحمتہ اﷲ علیہ کی قیادت میں تحریک چلی اور آخر کار اُس وقت کے حکمران صدر محمد ضیاء الحق مرحوم نے اپنے اختیارات بروئے کار لاتے ہوئے 26 ؍ اپریل 1984 ء کو اِمتناع قادیانیت آرڈیننس جاری کیا جو بعد میں تعزیراتِ پاکستان کا حصہ بنا،اِس قانون کے ذریعے تعزیرات پاکستان میں دفعہ 298 ۔ بی کا اضافہ کیا گیا ،جس کی رُو سے قادیانی و لاہوری گروپ کا کوئی شخص زبانی یا تحریری طورپر یا کسی فعل کے ذریعے مرزا غلام احمد قادیانی کے جانشینوں یا ساتھیوں کو ’’ امیر المومنین ‘‘کے الفاظ سے پکار نہیں سکتا اوراپنی عبادت گاہ کو ’’ مسجد‘‘نہیں کہہ اور لکھ سکتا، اِسی طرح قادیانی گروپ یا لاہوری (جو خود کو احمد ی یا کسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہیں)کا کوئی شخص الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوں یا تحریری یا مرئی نقوش کے ذریعے اپنے مذہب میں عبادت کے لیے بلانے کے طریقے یا صورت کو اَذان کے طور پر منسوب نہیں کر سکتا ،جس طرح کے مسلمان کرتے ہیں ۔
اس قانون کے مطابق کوئی قادیانی اپنے آپ کو بلاواسطہ یا بالواسطہ کسی طرح بھی مسلمان ظاہر نہیں کرسکتا اور اپنے مذہب کو اسلام کے طور پر موسوم نہیں کر سکتا، الغرض اِس قانون کے اِجراء کا اعلان ہوتے ہی قادیانی سربراہ مرزا طاہر احمد ربوہ (حال چناب نگر)سے خفیہ طور پر فرار ہوا ،کراچی کے راستے لندن (برطانیہ) جاپہنچا اور بالآخر ’’پہنچی وہیں پہ خاک، جہاں کا خمیر تھا ‘‘
تب سے اب تک اس فتنے کی تباہ کاریوں سے اُمت کو بچانے کے لیے تحریک ختم نبوت کی تمام جماعتیں اورتمام مکاتب فکر اپنے اپنے طور پر پرُامن جدوجہد کررہے ہیں ،ضرورت اس امر کی ہے کہ قادیانی فتنے نے جن کمین گاہوں میں پناہ لے رکھی ہے ،اُن تک رسائی حاصل کرکے اُن کی اصل حقیقت دنیا کے سامنے پیش کی جائے اور میڈیا اور لابنگ جیسے جدید ہتھیاروں سے لیس ہو کر جنابِ رسالت ماب صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات کو عام کیا جائے۔ تاکہ دنیا سے بدامنی اور دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہوجائے ۔
قائدآبادمیں مسجدقادیانی تسلط سے آزاد:
قائد آباد (خوشاب)مجاہدینِ ختم نبوت کی آئینی جدوجہدکے بعدضلع خوشاب کے چک نمبر 2 ۔ ٹی ڈی اے کی مسجد پر قادیانیوں کا قبضہ ختم ہوگیا اور 42 سال بعد مسجد مسلمانوں کے سپرد کردی گئی۔ہم اس عدالتی فیصلے کا بھرپورخیر مقدم کرتے ہیں۔ ہم قانونی وعدالتی راستے کے قائل ہیں اور اِسی راستے سے یہ مسجد مسلمانوں کو ملی ہے جو تحریک ختم نبوت کی پرامن جدو جہد کی عکاس اور غماز ہے ۔مجلس احراراسلام مسجد کے کیس میں مقدمہ کے مدعی سید اطہر حسین شاہ گولڑوی اور پیر وی کرنے والے وکلاء کی مساعی ٔ مسلسل کو خراج تحسین پیش کرتی ہے اورحکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ پاکستان بھرمیں امتناع قادیانیت ایکٹ پر مکمل عمل درآمد کروائے اور قادیانی ریشہ دوانیوں کے تدارک کے لیے مؤ ثر اقدامات اٹھا ئے۔ یاد رہے کہ 1974 ء میں پارلیمنٹ میں لاہور ی وقادیانی مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دئیے جانے کے بعد دو قادیانی خاندانوں نے خود کو مسلمان ظاہر کرکے اس مسجد پر قبضہ کرلیا تھااور 6 مسلم خاندانوں کو قادیانیوں نے مرتد بنا لیاتھا،2000 ء میں قائد آباد میں تحریک ختم نبوت کے معمر کارکن جناب سید اطہر حسین شاہ گولڑوی نے اس مسجد کی دستاویزات نکلواکر سیشن جج کی عدالت میں مقدمہ دائر کردیا ،23 ستمبر 2015 ء کو ہائی کورٹ نے مسجد مسلمانوں کے حق میں کھولنے کا حکم سنا یا اور ڈی سی اوخوشاب کو ہدایت کی کہ وہ فیصلے پر عمل درآمد کروائیں، چنانچہ ڈی سی او خوشاب جناب ضیاء الرحمن نے مکمل انکوائری کی اور تمام قانونی تقاضے پورے کرکے 16 مارچ 2016ء بروزبدھ کو مسجد مسلمانوں کے حوالے کرنے کا آرڈر دیا۔جس پر پولیس اور انتظامیہ نے مسجد اپنی نگرانی میں ڈی سیل کرکے مقدمے کے مدعی سید اطہر حسین شاہ گولڑوی اور ان کے ساتھیوں کے حق میں کھول دی ۔ختم نبوت لائرز فورم پاکستان کی ٹیم جو طاہر سلطان کھو کھر ،زاہد سعید بھٹہ ،بدیع الزماں بھٹی ،شاہ شمس العارفین ، محمد زوار حسین کھارااور بدر عالم شیخ پر مشتمل تھی اور انہوں نے معروف قانون دان جناب غلام مصطفےٰ چودھری کی سربراہی میں طویل اور صبر آزما قانونی جنگ لڑی، اُن کوتحریک ختم نبوت کی تمام جماعتوں کے قائدین نے مبارکباد پیش کی ہے۔علاوہ ازیں مجلس احرار اسلام کے ایک وفدنے کیس کے مدعی سیداطہرحسین گولڑوی سے ملاقات کرکے ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔
جناب بلاول بھٹو کی خدمت میں :
پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے 24 ؍مارچ 2016 ء کو عمر کوٹ (سندھ) میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ ’’ اگر بھارت میں مسلمان صدر بن سکتا ہے تو پھر یہاں کیوں نہیں ہو سکتا؟‘‘وہ اس قسم کی گفتگومسلسل کرتے چلے آرہے ہیں۔ جس سے یہ تأثر عام ہے کہ ملک کی اسلامی و نظریاتی شناخت ختم کرنے کے حوالے سے جناب میاں محمد نواز شریف اور جناب بلاول زرداری بھٹوایک پیج پر ہیں ،
جناب بلاول زرداری صاحب!یہ ملک اسلام کے نفاذ کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا اور اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہی اِسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے ۔آپ کا ارشاد گرامی آئین سے ناواقفیت اور انحراف کا پتہ دیتاہے،آپ کے نانا جان (ذوالفقار علی بھٹو مرحوم)نے 1973ء کا جو متفقہ آئین قوم کو دیا ، اُسی میں آپ کا جواب موجود ہے ،اگر آپ آئین کی ایک کاپی پاس رکھا کریں تواِن شاء اﷲ تعالیٰ ’’ افاقہ‘‘رہے گا ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.