شکیل عثمانی (دوسری اور آخری قسط)
جاوید غامدی صاحب کے لیکچرکی اس تلخیص سے مندرجہ ذیل تین نکات اخذ ہوتے ہیں:
-1 مرزا قادیانی کی تحریروں میں بالصراحت نبوت کے دعوے کی کوئی تحریر نہیں ہے۔
-2 مرزا قادیانی کے پہلے خلیفہ حکیم نورالدین، مرزا قادیانی کو اصطلاحی نبی نہیں سمجھتے تھے۔
-3 احمدیوں کا لاہوری فریق (مولوی محمد علی لاہوری گروپ) شروع سے مرزا قادیانی کو مجدد سمجھتا رہا ہے۔
بہرحال غامدی صاحب نے یہ بھی کہا کہ مرزا صاحب کے دعاوی اور تعبیرات میں اور صوفیہ کے دعاوی اور تعبیرات میں مماثلت ہے۔ تصوف ہمارا موضوع نہیں ہے۔ اہلِ تصوف مناسب سمجھیں گے تو اس کا جواب دیں گے۔ اس لیے ہماری گفتگو مندرجہ بالا تین نکات تک محدود رہے گی۔
-1 مرزا قادیانی کا دعویٰ نبوت
غامدی صاحب کا ارشاد ہے کہ مرزا قادیانی کی تحریروں میں بالصراحت نبوت کے دعوے کی کوئی تحریر نہیں ہے۔ صریح تحریریں پیش کرنے سے قبل ہم قارئین سے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ پروفیسر الیاس برنی مؤلف ’’قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ‘‘ کے بقول مرزا قادیانی، حکیم نورالدین اور دوسرے قادیانی اساطین کی کتابوں میں اس درجہ تکرار، تضاد، ابہام اور التباس ہے کہ اکثر مباحث بھول بھلیاں نظر آتے ہیں۔ اس تضاد اور التباس کے پیش نظر ممتاز ادیب اور صحافی شورش کاشمیری نے مرزا صاحب اور دوسرے قادیانی رہنماؤں کی تحریروں اور تعبیروں کو دوشیزہ کی کہہ مکرنیاں قرار دیا ہے۔ ہماری رائے میں ان تحریروں اور تعبیروں پر یہ مصرع پوری طرح صادق آتا ہے:
جنابِ شیخ کا نقشِ قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی
اگر جنابِ شیخ کا کُھرا اٹھایا جائے تو اِن شاء اﷲ قارئین صریح تحریروں تک پہنچ جائیں گے۔ دراصل مرزا صاحب نبوت کی طرف ایک قدم بڑھاتے تھے اور جب مسلمانوں کی طرف سے مخالفت ہوتی تھی تو اسے پیچھے ہٹا لیتے تھے جیسا کہ مولوی عبدالحکیم سے ایک معاہدے مورخہ 3 فروری 1892ء میں جو ’’تبلیغ رسالت‘‘ حصہ دوم ص 95 میں چھپا ہے، مرزا صاحب تمام مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے رسائل ’’فتح اسلام‘‘، ’’توضیح المرام‘‘ اور ’’ازالۂ اوہام‘‘ میں لکھا ہے کہ محدث ایک مفہوم میں نبی ہوتا ہے۔ اگر مسلمان بھائی ان لفظوں سے ناراض ہیں تو وہ بجائے لفظ ’نبی‘ کے ’محَّدث‘ کا لفظ ہر جگہ سمجھ لیں اور اس کو (یعنی لفظ نبی کو) کاٹا ہوا خیال فرما لیں۔ واضح رہے کہ یہ 1892ء کی تحریر ہے۔ جوں جوں مرزا صاحب کے معتقدین میں اضافہ ہوتا گیا، حصولِ نبوت کے جذبے میں جان پڑتی گئی۔ یہاں تک کہ 1901ء میں ایک ٹریکٹ ’’ایک غلطی کا ازالہ‘‘ میں نبوت کا اعلان کردیا۔ ’’ایک غلطی کا ازالہ‘‘ سے اقتباس ہم بعد میں پیش کریں گے، یہاں عرض یہ کرنا ہے کہ مرزا صاحب مامور من اﷲ، مجدد، محدث، مسیح موعود اور مہدی کے مراتب سے ’’ترقی‘‘ کرتے ہوئے بتدریج نبوت کے منصب تک پہنچے۔ اس لیے ان کے ابتدائی دور کے دعووں کو نظرانداز کرتے ہوئے آخری دور کے دعووں پر توجہ مرکوز کرنی چاہے۔
اب ہم مرزا قادیانی کی ان چند تحریروں کو پیش کرتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو لغوی معنی میں نبی (یعنی پیشین گوئیاں کرنے والا) قرار نہیں دیتے بلکہ اﷲ کا بنایا ہوا نبی قرار دیتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اﷲ نے انہیں نبی کے نام سے پکارا اور ان کا نام نبی رکھا۔
-1مرزا قادیانی کا آخری عقیدہ جس پر ان کا خاتمہ ہوا، یہی تھا کہ وہ نبی ہیں، چنانچہ انہوں نے اپنے آخری خط میں جو ٹھیک ان کے انتقال کے دن اخبارِ عام میں شائع ہوا، واضح الفاظ میں لکھا کہ: ’’میں خدا کے حکم کے موافق نبی ہوں اور اگر میں اس سے انکار کروں تو میرا گناہ ہوگا، اور جس حالت میں خدا میرا نام نبی رکھتا ہے تو میں کیونکر انکار کرسکتا ہوں؟ میں اس پر قائم ہوں اُس وقت تک جو اس دنیا سے گزر جاؤں۔‘‘
اخبار عام، 26 مئی 1908ء، منقول از حقیقۃ النبوۃ از مرزا محمود، ص 271، و مباحثہ راولپنڈی ص 136)
یہ خط 23 مئی 1908ء کو لکھا گیا اور 26 مئی کو اخبارِ عام میں شائع ہوا اور ٹھیک اسی دن مرزاقادیانی کا انتقال ہوگیا۔
واضح رہے کہ مباحثہ راولپنڈی جماعت احمدیہ راولپنڈی اور احمدیہ انجمن اشاعت اسلام راولپنڈی (لاہوری گروپ) میں تحریری طور پر ہوا تھا۔ بنیادی موضوعات دو تھے، اولاً ‘‘کیا مرزا صاحب نبی تھے‘‘، ثانیاً ’’کیا مرزا صاحب نے اپنے نہ ماننے والوں کی تکفیر کی‘‘۔ فریقین کے پرچے ’’مباحثۂ راولپنڈی‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع کیے گئے۔ اس کتاب کے مستند ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ یہ دونوں جماعتوں کے مشترکہ اخراجات سے شائع ہوئی۔
2۔ مرزا قادیانی لکھتے ہیں: ’’چند روز ہوئے ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا کہ جس سے تم نے بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، اور اس کا جواب محض انکار کے الفاظ سے دیا گیا۔ حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں ہے، حق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوئی اس میں سے ایسے الفاظ رسول اور مرسل اور نبی کے موجود ہیں۔ نہ ایک دفعہ بلکہ صد ہابار، پھر کیونکر یہ جواب صحیح ہوسکتا ہے!‘‘(ایک غلطی کا ازالہ، ص 3، روحانی خزائن جلد 18، ص، 206)
3۔ مرزا قادیانی ایک اور کتاب میں لکھتے ہیں: ’’تیسری بات جو اس وحی سے ثابت ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ، بہرحال جب تک طاعون دنیا میں رہے، گو ستر برس تک رہے، قادیان کو اس خوفناک تباہی سے محفوظ رکھے گا کیونکہ یہ اس کے رسول کا تخت گاہ ہے۔‘‘(دافع البلا، ص 14، روحانی خزائن، ص 154)
-4مرزا قادیانی ایک اور کتاب میں لکھتے ہیں: ’’غرض اس حصہ کثیر وحی الٰہی اور امورِ غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں گزر چکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا۔ پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لیے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں، کیونکہ کثرت وحی اور کثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور وہ شرط ان میں نہیں پائی جاتی۔‘‘ (حقیقتہ الوحی، ص 391)
مرزا صاحب کا تشریعی نبوت کا دعویٰ:
مرزا قادیانی کے صریح دعویٰ نبوت کے چار حوالے پیش کیے جا چکے ہیں۔ ان کی اس قسم کی بیسیوں تحریریں موجود ہیں جن کو نقل کرنے کی فی الحال ضرورت نہیں ہے۔ مرزا صاحب نے اپنے ترقی پذیر (developing)دعووں کے ایک مرحلے میں تشریعی نبی یا صاحبِ شریعت ہونے کا اعلان بھی کردیا۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ماسوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے؟ جس نے اپنی وحی کے ذریعے سے چند امر اور نہی بیان کیے اور اپنی امت کے لیے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب الشریعت ہوگیا۔ پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں، کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں نہی بھی۔ مثلاً یہ الہام قل للمومنین یغضو من ابصارھم ویحفظوا فروجھم ذلک ازکی لھم یہ براہین احمدیہ میں درج ہے اور اس میں امر بھی ہے اور نہی بھی اور اس پر تیئس برس کی مدت بھی گزر گئی اور ایسا ہی اب تک میری وحی میں امر بھی ہوتے ہیں نہی بھی۔ اور اگر کہو کہ شریعت سے وہ شریعت مراد ہے جس میں نئے احکام ہوں تو یہ باطل ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں ان ھذا لفی الصحف الاولی صحف ابراہیم و موسی۔ یعنی قرآنی تعلیم توریت میں بھی موجود ہے۔‘‘
(اربعین 4۔ طبع چہارم، مطبوعہ چناب نگر (ربوہ) روحانی خزائن ج:17۔ ص:435۔436)
مذکورہ بالا عبارت میں مرزا صاحب نے واضح الفاظ میں اپنی وحی کو تشریعی وحی قرار دیا ہے۔ عربی اور اردو کے صاحبِ طرز ادیب اور نامور عالمِ دین مولانا سید ابوالحسن علی ندوی اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
’’بعض اہم قطعی و متواتر احکام شریعت کو پوری صراحت و قوت کے ساتھ منسوخ و کالعدم کردینا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ [مرزا صاحب] اپنے کو ایسا صاحبِ شریعت اور صاحبِ امرونہی نبی سمجھتے تھے جو قرآنی شریعت کو منسوخ کر سکتا ہے، چنانچہ جہاد جیسے منصوص قرآنی حکم کو جس پر امت کا تعامل اور تواتر ہے اور جس کے متعلق صریح حدیث ہے ’’الجھاد ماضٍ الیٰ یوم القیامۃ‘‘ کی ممانعت کرنا اور اس کو منسوخ قرار دینا اس کا روشن ثبوت ہے۔ جہاد کی منسوخی و ممانعت کے سلسلے میں یہاں ان کی صرف ایک کتاب کا اقتباس کافی ہوگا۔ وہ ’’تریاق القلوب‘‘ (صفحہ نمبر 15) میں لکھتے ہیں:
’’میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنتِ انگریزی کی تائید و حمایت میں گزرا ہے اور میں نے ممانعتِ جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں کہ اگر وہ اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک عرب مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچا دیا ہے۔ میری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیرخواہ ہوجائیں اور مہدی خونی اور مسیح خونی کی بے اصل روایتیں اورجہاد کے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں، ان کے دلوں سے معدوم ہوجائیں۔‘‘
تنسیخِ جہاد کے اعلان کے علاوہ مرزا قادیانی نے دعویٰ کیا کہ ’’خدا نے اس امت میں مسیح موعود بھیجا ہے جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے اور اس نے اس مسیح کا نام غلام احمد رکھا۔‘‘ (دافع البلاء، ص 13، روحانی خزائن ج 18، ص 233)
ہمارا معروضہ یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام تشریعی نبی تھے اور جو شخص آپ سے ’’تمام شان میں‘‘ یعنی ہر اعتبار سے بڑھ کر ہو تو وہ تشریعی نبی کیوں نہیں ہوگا؟
عقل عام اور مذاہبِ عالم کی تاریخ کے مطابق جب بھی کوئی شخص نبوت کا دعویٰ کرتا ہے تو حق و باطل کی بحث سے قطع نظر، اس کے دعوے کو درست تسلیم کرنے والے اور انکار کرنے والے دو گروہوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں، اور دعویٰ نبوت کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ جو لوگ اس جدید نبوت پر ایمان نہیں لاتے ان کی تکفیر کی جائے۔ چنانچہ مرزا صاحب اپنے دعوے کے منکر کی تکفیر کرتے ہیں۔ بہرحال مرزا صاحب کی بعض ایسی تحریریں بھی پیش کی جاتی ہیں جن میں انہوں نے فرمایا ’’میرے دعوے کے انکار سے کوئی کافر نہیں ہوسکتا‘‘۔ یہ اسی قسم کا تضاد اور التباس ہے جو ان کی تحریروں کا خاصہ ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب حقیقت الوحی (ص 148 تا 150) میں خود تسلیم کیا ہے کہ ’’براہین احمدیہ‘‘ میں انہوں نے لکھا کہ مسیح ابن مریم آسمان سے نازل ہوگا، اور اس کے بارہ سال کے بعد ’’ازالۂ اوہام‘‘ میں لکھا ’’آنے والا مسیح میں ہوں۔‘‘
مرزا اپنے دعوے کے منکر کو کافر قرار دیتے ہیں:
مرزا قادیانی خود کو صرف لغوی یا مجازی معنوں میں نبی نہیں کہتے بلکہ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کا منکر مسلمان نہیں ہے۔ اس سلسلے میں سردست مرزا صاحب کی صرف دو تحریریں پیش کی جاتی ہیں:
1۔ مرزاقادیانی اپنے مکتوب مورخہ مارچ 1906ء بنام ڈاکٹر عبدالحکیم میں لکھتے ہیں:
’’خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک وہ شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا، مسلمان نہیں ہے۔‘‘ (تذکرہ ایڈیشن چہارم ص 519)
2۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں:
’’کفر دو قسم پر ہے۔ (اول) ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو خدا کا رسول نہیں مانتا۔ (دوم) دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا اور اس کو باوجود اتمام حجت کے جھوٹا جانتا ہے جس کے ماننے اور سچا جاننے کے بارے میں خدا ورسول نے تاکید کی ہے اور پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی تاکید پائی جاتی ہے۔ پس اس لیے کہ وہ خدا اور رسول کے فرمان کا منکر ہے، کافر ہے، اور اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ دونوں قسم کے کفر ایک ہی قسم میں داخل ہیں، کیونکہ جو شخص باوجود شناخت کرلینے کے خدا اور رسول کے حکم کو نہیں مانتا وہ بموجب نصوصِ صریحہ قرآن اور حدیث کے خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا۔‘‘(حقیقۃ الوحی، ص 179۔180)
مرزا صاحب کی نبوت اور حکیم نورالدین صاحب
مرزاقادیانی کے پہلے خلیفہ حکیم نورالدین صاحب انتہائی ذہین شخص تھے۔ انہوں نے اپنے دورِ خلافت (1908ء تا 1914ء) میں مسلمانوں سے تعاون بڑھانے کے لیے اعتدال پسندانہ روش اختیار کی۔ انہوں نے مصلحتاً مرزا صاحب کی نبوت اور ان کے دعووں پر ایمان نہ لانے والوں کی تکفیر پر زور نہیں دیا۔ اس طرح انہوں نے احمدیوں اور عام مسلمانوں کے درمیان نفرتوں کی وہ خلیج پاٹنے کی کوشش کی جو مرزا صاحب کے الہامات، پیش گوئیوں اور اشتعال انگیز تحریروں نے پیدا کردی تھی۔ بہرحال ان کے اصل عقائد کے سلسلے میں ان کی دو تحریریں پیش کی جاتی ہیں:
(1) حکیم نورالدین صاحب لکھتے ہیں:
’’ایمان بالرسل اگر نہ ہو تو کوئی شخص مومن مسلمان نہیں ہوسکتا اور اس ایمان بالرسل میں کوئی تخصیص نہیں، عام ہے، خواہ وہ نبی پہلے آئے یا بعد میں آئے، ہندوستان میں ہو یا کسی اور ملک میں، کسی مامور من اﷲ کا انکار کفر ہوجاتا ہے۔ ہمارے مخالف حضرت مرزا صاحب کی ماموریت کے منکر ہیں، بتاؤ کہ یہ اختلافِ فروعی کیونکر ہوا۔‘‘ (مجموعہ فتاویٰ احمدیہ ج: 1‘ص 275، بحوالہ اخبار الحکم ج:15، نمبر8 مورخہ 7 مارچ 1911ء)
(2) نیز حکیم صاحب ایک اور موقع پر لکھتے ہیں:
’’محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے منکر یہود و نصاریٰ اﷲ کو مانتے ہیں، اﷲ تعالیٰ کے رسولوں، کتابوں، فرشتوں کو مانتے ہیں۔ کیا اس انکار پر کافر ہیں یا نہیں؟ کافر ہیں۔ اگر اسرائیلی مسیح رسول کا منکر کافر ہے تو محمدی مسیح رسول کا منکر کیوں کافر نہیں؟ اگر اسرائیلی مسیح موسیٰ کا خاتم الخلفاء یا خلیفہ یا متبع ایسا ہے کہ اس کا منکر کافر ہے تو محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا خاتم الخلفاء یا خلیفہ یا متبع کیوں ایسا نہیں کہ اس کا منکر بھی کافر ہو۔ اگر وہ مسیحا ایسا تھا کہ اس کا منکر کافر ہے تو یہ مسیح بھی کسی طرح کم نہیں۔‘‘ (مجموعہ فتاویٰ احمدیہ، ج1، ص 385)
مرزا صاحب کی نبوت اور جماعتِ احمدیہ لاہور
جاوید غامدی صاحب نے اپنے لیکچر میں فرمایا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے قدیم ترین رفقا نے کہا کہ مرزا صاحب مجدد تھے اور لاہوری جماعت اسی تعبیر پر وجود میں آئی۔ غالباً تاریخِ احمدیت غامدی صاحب کا موضوع نہیں ہے، اس لیے انہوں نے یہ ارشاد فرمایا۔ مرزا صاحب نے 23 مارچ 1889ء کو بیعت لینے کا آغاز کیا تو سب سے پہلے حکیم نورالدین صاحب نے بیعت کی۔ اُس وقت جماعت احمدیہ لاہور کے بانی امیر مولوی محمد علی لاہوری (1951-1874) انٹرنس کے طالب علم تھے۔ 1890ء میں انٹرنس پاس کرنے کے بعد جب مولوی محمد علی گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے تو اپنے ایک سابق ہم جماعت منشی عبدالعزیز کے ذریعے انہیں مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے دعوے کا علم ہوا اور انہی کے ذریعے کتاب ’’ازالۂ اوہام‘‘ ان کو ملی، جس کو پڑھنے کے بعد وہ مرزا صاحب کی صداقت کے قائل ہوگئے۔ اسی طرح مولوی عبدالکریم سیالکوٹی مرزا صاحب سے اُس وقت سے متعارف تھے جب ثانی الذکر سیالکوٹ کی کچہری میں اہلمند تھے۔ انہوں نے بھی جلد ہی بیعت کرلی۔ وہ جامع مسجد مبارک قادیان کے امام اور خطیب تھے اور مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ان کی اقتدا میں نمازیں پڑھتے تھے۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں کہ مولوی عبدالکریم سیالکوٹی نے 1900ء میں مرزا صاحب کی موجودگی میں ایک خطبہ جمعہ پڑھا جس میں مرزا صاحب کے لیے نبی اور رسول کے الفاظ استعمال کیے…… جب جمعہ ہوچکا اور مرزا صاحب جانے لگے تو مولوی صاحب نے پیچھے سے مرزا صاحب کا کپڑا پکڑ لیا اور درخواست کی کہ اگر میرے اس اعتقاد میں غلطی ہو تو حضور درست فرمائیں۔ مرزا صاحب مڑ کر کھڑے ہوگئے اور فرمایا: مولوی صاحب! ہمارا بھی یہی مذہب اور دعویٰ ہے جو آپ نے بیان کیا۔ (تفصیلات کے لیے ملاحظہ فرمائیں ’’قادیانیت: مطالعہ و جائزہ‘‘، ص 75)۔ اسی طرح کی کیفیت مفتی محمد صادق، سابق ایڈیٹر اخبار ’’بدر‘‘ قادیان کی ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر جماعت احمدیہ لاہور کے رہنماؤں کو کس طرح مرزا صاحب کے قدیم ترین رفقا کہا جا سکتا ہے! یاد رہے کہ مولوی محمد علی صاحب لاہوری کے دستِ راست خواجہ کمال الدین صاحب (1870ء۔ 1932ء) نے 1893ء میں مرزا صاحب کی بیعت کی۔ خود محمد علی صاحب لاہوری اگرچہ 1890ء میں مرزا صاحب کی صداقت کے قائل ہوچکے تھے لیکن انہوں نے مرزا صاحب کی بیعت 1897ء میں کی۔ مرزا صاحب کے قدیم ترین رفقا حکیم نورالدین، مولوی عبدالکریم سیالکوٹی، مفتی محمد صادق وغیرہ کی تحریریں ریکارڈ پر ہیں۔ وہ بالصراحت مرزا صاحب کو نبی قرار دیتے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ مولوی محمد علی صاحب لاہوری اور جماعت احمدیہ لاہور مرزا صاحب کو صرف مجدد نہیں مانتے بلکہ انہیں مسیح موعود بھی مانتے ہیں اور اس نکتے پر احمدیت کی دونوں شاخوں کا اتفاق ہوجاتا ہے۔
مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی زندگی میں ان کے حکم پر ایک رسالہ ’’ریویو آف ریلیجنز ‘‘ قادیان سے جاری کیا گیا اور ان کی ایما پر مولوی محمد علی صاحب لاہوری کو اس کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا۔ یہ ذولسانی مجلہ تھا۔ مولوی صاحب برسوں اس کے ایڈیٹر رہے۔ انہوں نے اپنے بیسیوں مضامین میں مرزا صاحب کے لیے نبی اور رسول کا لفظ استعمال کیا اور اشارتاً بھی نہیں لکھا کہ وہ ان الفاظ کو استعارے کے طور پر یا مجازی مفہوم میں استعمال کررہے ہیں۔ ایسے مضامین کے اقتباسات ہم آگے چل کر پیش کریں گے۔ پہلے عدالت میں مولوی محمد علی صاحب لاہوری کا ایک بیانِ حلفی ملاحظہ فرمائیے:
13 مئی 1904ء کو گورداسپور کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں مولوی محمد علی صاحب نے ایک بیان حلفی دیا جس کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ جو شخص مرزا غلام احمد قادیانی کی تکذیب کرے وہ کذاب ہوتا ہے۔ اگر مرزا صاحب نے کذاب لکھا تو ٹھیک کہا۔ مولوی صاحب اس بیان میں لکھتے ہیں:
’’مکذب مدعیٔ نبوت کذاب ہوتا ہے، مرزا صاحب ملزم مدعیٔ نبوت ہے، اس کے مرید اس کو دعوے میں سچا، دشمن جھوٹا سمجھتے ہیں۔‘‘ (ماہنامہ فرقان قادیان، جلد1، نمبر1، جنوری 1942ء، ص 15، مباحثہ راولپنڈی، ص 272)
مولوی محمد علی لاہوری نے احمدیہ بلڈنگز میں تقریر کرتے ہوئے کہا:
’’مخالف کوئی معنی کرے مگر ہم تو اسی پر قائم ہیں کہ خدا نبی پیدا کرسکتا ہے، صدیق بنا سکتا ہے اور شہید اور صالح کا مرتبہ عطا کرسکتا ہے مگر چاہیے مانگنے والا…… ہم نے جس کے ہاتھ میں ہاتھ دیا (یعنی مرزا غلام احمد قادیانی) وہ صادق تھا، خدا کا برگزیدہ اور مقدس رسول تھا۔‘‘
(’’الحکم‘‘ 18جولائی 1908ء، بحوالہ ماہنامہ فرقان قادیان، جنوری 1942ء، جلد1، نمبر 1، ص 11)
مولوی محمد علی لاہوری کی تبلیغی تُرک تازیوں کا دائرہ انتہائی وسیع ہے۔ دیکھیے وہ اپنے ایک مضمون میں ہندوؤں سے مرزا صاحب کا تعارف کس طرح کراتے ہیں:
’’ہم خدا تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ جلد وہ زمانہ آئے کہ ہمارے ہندو بھائیوں کے دلوں سے پردے اٹھ جائیں اور ان کو اپنی مذہبی غلطیوں پر بصیرت اور معرفت حاصل ہوجائے اور ان کے سینے اس سچائی کو قبول کرنے کے لیے کھل جائیں جو دینِ اسلام تعلیم دیتا ہے۔ ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ آخری زمانے میں ایک اوتار کے ظہور کے متعلق جو وعدہ انہیں دیا گیا تھا، وہ خدا کی طرف سے تھا اور اس کو ہندوستان کے مقدس نبی مرزا غلام احمد قادیانی کے وجود میں خدا تعالیٰ نے پورا کر دکھایا ہے۔‘‘ (ریویو آف ریلیجنز، جلد 3، نمبر 11، ص 409تا 411، منقول از رسالہ تبدیلی عقائد مولوی محمد علی صاحب، ص 63، مولفہ محمد اسماعیل قادیانی)
مولوی محمد علی لاہوری اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں: ’’آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد خداوند تعالیٰ نے تمام نبوتوں اور رسالتوں کے دروازے بند کردیے۔ مگر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے متبعین کامل کے لیے جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے رنگ میں رنگیں ہوکر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اخلاقِ کاملہ سے نور حاصل کرتے ہیں، ان کے لیے یہ دروازہ بند نہیں ہوا۔‘‘ (ریویو آف ریلیجنز، ج 4، ص 186، بحوالہ تبدیلی عقائد، مولوی محمد علی صاحب از محمد اسماعیل قادیانی ص 22، مطبوعہ احمدیہ کتاب گھر قادیان)
1913ء میں جماعت احمدیہ کو اندرونی خلفشار کا سامنا کرنا پڑا۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے صاحبزادے مرزا بشیر الدین صاحب محمود اپنے حامیوں پر مشتمل ایک تنظیم ’’انصاراﷲ‘‘ قائم کرچکے تھے۔ وہ مولوی محمد علی لاہوری اور ان کے رفقا (جن کی اکثریت لاہور سے تعلق رکھتی تھی) کے خلاف تھے۔ اُس وقت قادیان کے اخبارات ’’بدر‘‘ اور ’’الحکم‘‘ مرزا بشیرالدین صاحب کے زیراثر تھے۔ ان حالات میں مولوی محمد علی صاحب کے قریبی رفیق ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ نے (جو بعد کو انجمن اشاعت اسلام لاہور المعروف جماعت احمدیہ لاہور کے معتمد مالیات منتخب ہوئے) لاہور سے ہفت روزہ پیغامِ صلح جاری کیا۔ اس اخبار کی مالی اور اخلاقی مدد اُن تمام احمدیوں نے کی جو بعد کو جماعتِ احمدیہ لاہور میں شامل ہوئے۔ یہ شروع سے احمدیوں کے لاہوری فریق کا ترجمان رہا ہے۔ یہ اخبار لکھتا ہے:
’’معلوم ہوا ہے کہ بعض احباب کو کسی نے غلط فہمی میں ڈال دیا ہے کہ اخبار ہذا کے ساتھ تعلق رکھنے والے احباب یا ان میں سے کوئی ایک سیدنا وھادینا حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود مہدی معہود علیہ الصلاۃ والسلام کے مدراج عالیہ کو اصلیت سے کم یا استخفاف کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ہم تمام احمدی جن کا کسی نہ کسی صورت سے اخبار پیغام صلح کے ساتھ تعلق ہے خدا تعالیٰ کو جو دلوں کے بھید جاننے والا ہے، حاضر و ناظر جان کر علی الاعلان کہتے ہیں کہ ہماری نسبت اس قسم کی غلط فہمی پھیلانا محض بہتان ہے۔ ہم حضرت مسیح موعود و مہدی معہود کو اس زمانہ کا نبی، رسول اور نجات دہندہ مانتے ہیں۔‘‘(پیغام صلح 16 اکتوبر 1913ء ص 2، بحوالہ ماہنامہ فرقان قادیان، جنوری 1942ء، ص 14,13)
اس حلفیہ بیان کے بعد لاہوری جماعت کے اصل عقائد سے ہر پردہ اٹھ جاتا ہے۔
مولوی محمد علی لاہوری انگریزی ریویو آف ریلیجنز میں لکھتے ہیں:
“The Ahmadiyya movement stands in the same relation to Islam in which Christianity Stood to Judaism”
(واضح رہے کہ یہ 1906ء کی تحریر ہے اور ’’مباحثۂ راولپنڈی‘‘ ص 240 و ’’تبدیلی عقائد مولوی محمد علی صاحب مولفہ محمد اسماعیل قادیانی، ص 12 سے نقل کی گئی ہے)
ترجمہ: احمدیہ تحریک اسلام کے ساتھ وہی رشتہ رکھتی ہے جو عیسائیت کا یہودیت کے ساتھ تھا۔
یہ تحریر خود وضاحت کررہی ہے کہ جس طرح عیسائیت اور یہودیت الگ الگ مذہبی اکائیاں ہیں، اسی طرح احمدیت اور اسلام بھی الگ الگ مذہبی اکائیاں ہیں۔ قارئین نوٹ کریں گے کہ مولوی محمد علی لاہوری کی یہ تحریریں 1914ء سے قبل کی ہیں۔ 13 مارچ 1914ء کو مرزا صاحب کے خلیفہ اول حکیم نورالدین کے انتقال کے بعد احمدیوں کی اکثریت نے مرزا کے صاحبزادے مرزا بشیر الدین محمود کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ مولوی محمد علی صاحب نے مرزا بشیرالدین محمود کے ہاتھ پر بیعت کرنے اور انہیں خلیفہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ یاد رہے کہ مولوی محمد علی کی مستقل رہائش قادیان میں تھی۔ مرزا محمود کے خلافت کا منصب سنبھالنے کے بعد مولوی صاحب کو سوقیانہ نعروں کا نشانہ بنایا جانے لگا اور انہیں مرزا محمود کی بیعت نہ کرنے پر کھلے عام فاسق کہا گیا۔ اس طرح مولوی صاحب کا قادیان میں رہنا مشکل ہوگیا۔ جب حالات بہت خراب ہوگئے تو وہ 20 اپریل 1914ء کو قادیان چھوڑ کر لاہور آگئے، جہاں انہوں نے اپنے رفقا کے اشتراک سے الگ جماعت قائم کی۔ یہ تھا اصل اختلاف جس کے نتیجے میں جماعتِ احمدیہ لاہور کا قیام عمل میں آیا۔ ایک صاحبِ دانش کی رائے کے مطابق اپنی علیحدگی کے جواز کی فراہمی، جماعتِ قادیان سے بغض اور مسلمانوں کی ہمدردیوں کا حصول، وہ محرکات تھے جن کے تحت مولوی محمد علی لاہوری اور ان کی جماعت نے اپنے سابقہ عقائد اور تحریروں سے رجوع کا اعلان کیے بغیر یہ کہنا شروع کیا کہ ہم مرزا غلام احمد کو نبی نہیں بلکہ مجدد مانتے ہیں۔
مرزا غلام احمد قادیانی کے دعاوی اور محمد علی لاہوری کی تحریروں پر اپنے معروضات پیش کرنے کے بعد جاوید غامدی سے درخواست ہے کہ وہ اپنے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے واضح اعلان کریں کہ 7 ستمبر 1974ء کی آئینی ترمیم جس کے تحت احمدیوں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا، قرآن اور سنت کے مطابق ہے۔ یہ اعلان اُن کی حق پرستی کا مظہر ہو گا اور وہ ہدیۂ تبریک کے مستحق قرار پائیں گے۔