ملعون شہباز کا دعوئ مہدویت اورسپریم کورٹ سے سزا
منصور اصغر راجہ
فیصل آباد کے شہری نے برطانیہ سے واپس آنے کے بعد امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا۔ مقامی ذرائع کے مطابق ملعون شہباز احمد نے 2005ء میں اپنی گمراہ کن تعلیمات کے پرچار کیلئے بھاری رقوم خرچ کیں اور چرب زبانی سے سادہ لوح افراد کا ایک گروہ اپنے گرد جمع کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ عیاش طبع شہباز قومِ لوط کا پیروکار ہے۔ اُس کیخلاف ایک مسلح جلوس کے ہمراہ اسلام آباد کی طرف مارچ کرتے ہوئے پولیس پر حملے ، اقدام قتل اور خوف وہراس پھیلانے کی دفعات سمیت 295بی اور 295سی کے تحت انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں مقدمہ چلا، جہاں سے امام مہدی ہونے کے جھوٹے دعویدار کو سزائے موت اور اس کے 27 ساتھیوں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ ملعون کی اپیل پر ہائی کورٹ نے بھی یہ سزا برقرار رکھی۔ آخر کار عدالت عظمیٰ نے کمزور استغاثے اور نامکمل شواہد کی بنیاد پر اُس کی سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا، جبکہ اس کے 2 درجن سے زائد پیروکاروں کو اُن کیخلاف شہادتوں کو ناکافی قرار دیتے ہوئے بری کر دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق شہباز احمد ولد شاہ محمد کا تعلق فیصل آباد سے ہے۔ اُس نے 15 سال قبل برطانیہ سے واپس آنے کے بعد 2005ء میں امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ فیصل آباد کے معتبر ذرائع کے مطابق شہباز برطانوی شہریت کا بھی حامل ہے،اور برطانیہ میں ہی اس کے ذہن میں یہ بات ڈالی گئی کہ وہ پاکستان جاکر امام مہدی ہونے کا دعویٰ کرے۔ اسے عزت اور شہرت کے ساتھ عقیدت مندوں کی ایک بڑی تعداد بھی مل جائے گی اور یہ کہ وہ بہت بااختیار شخصیت بن جائے گا۔ ذرائع کے مطابق اپنی دولت کے بل پر اُس نے گمراہ کن تعلیمات کا آغاز کیا اور جلد ہی تین چار درجن افراد کو اَپنے دام میں پھنسانے میں کامیاب ہوگیا۔ اس نے دعویٰ کیا تھا کہ لوگوں نے اگر اُس کو امام مہدی کے طور پر قبول نہ کیا توفیصل آباد سمیت پورا پاکستان غرق ہو جائے گا اور صرف وہ اور اس کے پیروکار ہی زندہ رہیں گے اور پاکستان کے مالک ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق بد قسمتی سے جب یہ ملعون اپنے شرکیہ عقائد کا پرچار کر رہا تھا تو پولیس اور انتظامیہ سمیت مقامی مذہبی جماعتیں بھی اس جانب متوجہ نہ ہوئیں۔ اپنے گرد چند درجن لوگوں کے جمع ہوجانے پر اس بد بخت کا حوصلہ اتنا بڑھ گیا کہ15دسمبر2005ء کو اُس نے چند درجن مسلح افراد پر مشتمل قافلے کے ہمراہ موٹروے کا رخ کیا۔ذرائع کے مطابق وہ اسلام آباد پہنچ کر اِمام مہدی ہونے کا اعلان کرنا چاہتا تھا۔ملعون شہباز کے قافلے میں کاریں، ویگنیں اور موٹر سائیکل سوار شامل تھے، جن میں کئی افراد مسلح تھے اور اسلحہ لہرا کرشہباز احمد کے دعوے کے حق میں جذباتی نعرے بازی کر رہے تھے۔ ذرائع کے بقول شہر میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان کے خدشے کے تحت اس قافلے کو نہیں روکا گیا، لیکن علاقے کی سڑکوں اور موٹروے کے داخلی اور خارجی راستے پر ہنگامی حالت کا اعلان کرتے ہوئے اسے بند کر دیا گیا۔ موٹروے پر داخلے کاراستہ بند پا کر شہباز اور اس کے پیروکاروں نے پولیس کی چیک پوسٹوں پر قبضہ کر کے فائرنگ شروع کر دی۔ جس پر ضلع بھر کی پولیس نے اس وقت کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر فیصل آباد امین وینس کی قیادت میں ان مسلح افراد کا گھیراؤ کر لیا۔ کئی گھنٹوں تک فضا کشیدہ رہی، لیکن مسلح افراد نے ہتھیار پھینکے اور اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔آخر کار ڈی پی او امین وینس(موجودہ سی پی او لاہور) نے حکمت عملی سے کام لیا اور شہباز احمد کو امام مہدی تسلیم کرتے ہوئے اس کی بیعت کرنے کا اعلان کر دیا۔ وہ اس سے جا کر گلے ملے۔ اس معانقے کے دوران پولیس کے مسلح کمانڈوز نے تمام ہتھیار بنداَفراد پر قابو پا کر انہیں گرفتار کر لیا۔ اس دوران مسلح افراد کی فائرنگ سے اُن کے اپنے ہی تین ساتھی زخمی ہوگئے، جن میں ایک شدید زخمی چند دن بعد ہلاک ہوگیا۔ ملعون شہباز سمیت لگ بھگ 30اَفراد کو گرفتار کر لیا گیا اور کچھ افراد فرار ہوگئے۔
اسی دن یعنی 15 دسمبر 2005ء کو ڈی ایس پی نشاط آباد سرکل فیصل آباد کی مدعیت میں دہشت گردی ایکٹ کے تحت، اقدام قتل ، دہشت گردی اور خوف وہراس پھیلانے کی دفعات کے علاوہ زیر دفعہ 295بی اور 295سی شہباز احمد و دیگر کیخلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ۔انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے کذاب شہباز احمد کو سزائے موت اور اُس کے 27 ساتھیوں کو عمر قید سنائی۔ہائی کورٹ نے بھی یہ سزا برقرار رکھی، لیکن اب چیف جسٹس پاکستان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے مرکزی ملزم شہبازکی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا ہے، جبکہ باقی ملزمان کو بری کرنے کا فیصلہ دیا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں سرکار کی جانب سے کذاب شہباز احمد کے وکیل میر محمد غفران خورشید امتیازی ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میں پولیس نے جو شواہد اور ثبوت پیش کئے، وہ ملزم کو سزا دینے کیلئے نا کافی تھے۔ اس کے خلاف 295 کی دفعات بھی مقدمے میں شامل کی گئیں، لیکن ایف آئی آر میں کہیں پربھی اس کے توہین آمیز الفاظ نقل نہیں کئے گئے اور نہ یہ لکھا گیا کہ اس نے ایسا کہا تھا ۔ جبکہ قتل اور اقدام قتل کی فوجداری دفعات میں کسی ایک ملزم یا دو چار افراد کو فائرنگ کرنے کے جرم میں نامزد نہیں کیا گیا، بلکہ ایف آئی آر میں درج تھا کہ ان 28 اَفراد نے فائرنگ کی۔غفران ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ اگر دوچار افراد نامزد ہوتے تو یقینا انہیں سزا مل سکتی تھی۔یہی وہ قانونی سقم تھے، جن کی بنیاد پر ملزمان کو عدالت نے ریلیف دیا۔ انہوں نے کہا کہ میری شہباز سے ایک سے زائد بار ملاقات ہوئی ہے، وہ ذہنی طور پر بالکل نارمل ہے۔دینی تعلیم کی کمی کی وجہ سے وہ شاید بہکاوے میں آگیا تھا، جس پر اُس نے 2005ء میں یہ دعویٰ کیا تھا۔
(مطبوعہ: روزنامہ ’’امت‘‘ کراچی، 24فروری2016ء)