منصور اصغر راجہ
گزشتہ روز قادیانیوں کی جانب سے چناب نگر میں واقع بستی متین شاہ کا رستہ بند کیے جانے پر مسلمانوں نے احتجاج کیا تھا۔ باخبر ذرائع کے مطابق جماعت احمدیہ چناب نگر سے ملحقہ مسلمانوں کی اس بستی کا راستہ بند کر کے یہاں سات کنال کے قیمتی پلاٹ پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ بستی متین شاہ میں زیادہ تر مزدور پیشہ غریب مسلمان رہائش پذیر ہیں۔ مذکورہ راستہ بند ہونے کی صورت میں مسلمانوں کو شہر آنے کے لیے ۱۴ کلومیٹر کا چکر کاٹنا پڑے گا۔ چند برس پہلے مقامی انتظامیہ کی ملی بھگت سے چناب نگر شہر کے اندر بھی دو مسلمان بستیوں پر اسی طرح قبضہ کیا جاچکا ہے۔ اس سلسلے میں مجلس احرار اسلام کے مرکزی سیکریٹری جنرل عبداللطیف خالد چیمہ کا کہنا ہے کہ جماعت احمدیہ چناب نگر کو پرانے ربوہ کی پوزیشن پر لانے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اس کا نوٹس لیں۔ واضح رہے کہ جمعرات کے روز چناب نگر سے ملحقہ مسلمانوں کی بستی متین شاہ کے سیکڑوں مردوخواتین نے مقامی جماعت احمدیہ کی طرف سے بستی کا راستہ بند کرنے اور وہاں پول اور خاردار تاریں لگانے کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ قادیانیوں نے چناب نگر کے تمام داخلی و خارجی راستوں کو پہلے ہی بیرئیر لگا کر بند کرر کھا ہے۔ اب ہمارے گھروں کی جانب جانے والے راستے بھی بند کیے جارہے ہیں۔ مقامی پولیس بھی قادیانیوں کے ایما پر ہمیں ہی تنگ کرتی ہے۔ اس سلسلے میں درست حقائق کیا ہیں؟ اس بارے میں جماعت احمدیہ میں موجود ایک بااعتماد ذریعے نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ بستی متین شاہ تھانہ چناب نگر کے بالکل سامنے واقع ہے۔ پہاڑیوں کے دامن میں واقع مین روڈ کی دائیں جانب چناب پل سے چونگی نمبر۳؍ احمد نگر تک مسلمانوں کی یہ بستی ہے، جو مقامی سطح پر پٹھان بستی کے نام سے بھی مشہور ہے۔ اس بستی میں زیادہ تر مزدور پیشہ غریب مسلمان رہائش پذیر ہیں۔ اس کے سامنے مین روڈ کی بائیں جانب ٹول پلازہ سے ریلوے اسٹیشن تک پھیلی ہوئی مسیحی آبادی ہے۔ اس بستی کی طرف جانے والے راستے سے ملحقہ مسیحی قبرستان اور ساتھ ہی سات کنال کا ایک قیمتی پلاٹ ہے۔ پٹھان بستی سے چناب نگر شہر آنے جانے کا راستہ اسی پلاٹ میں گزرتا ہے۔ ذریعے کے مطابق جمعرات کی صبح قریباً آٹھ بجے جماعت احمدیہ کا سیکریٹری امور عامہ شبیر باجوہ قریباً ۴۰؍مسلح افراد کے ہمراہ وہاں پہنچا اور پول لگانے شروع کردیے،جس پر پٹھان بستی کے سیکڑوں مرد وخواتین نے شدید احتجاج کیا۔ کیونکہ اس گزر گاہ کو بند کرنے کا مطلب ہے کہ اس بستی کے رہائشی مسلمانوں کا شہر آنے جانے کا راستہ بند ہوجائے گا اور انھیں تقریباً ۱۴کلومیٹر کا طویل چکر کاٹ کر شہر آنا پڑے گا۔ ذریعے کے مطابق یہ جماعت احمدیہ کا مخصوص طریقہ کار ہے۔ انھوں نے جب کسی جگہ پر قبضہ کرنا ہوتا ہے تو اسی طرح پہلے راستے بند کیے جاتے ہیں تاکہ لوگ خود ہی تنگ آکر جگہ خالی کردیں۔اب بھی مسیحی قبرستان سے ملحقہ سات کنال کے پلاٹ پر جماعت احمدیہ نظریں جمائے ہوئے ہے، جس پر قبضے کے لیے یہ ساراڈرامہ کیا جارہا ہے۔ ذریعے نے بتایا کہ ماضی میں بھی اس طرح کی مثالیں موجود ہیں۔ چند سال پہلے چناب نگر ریلوے اسٹیشن کے سامنے موجود ریلوے کالونی کو بھی اسی طرح خالی کرایا گیا، جہاں مسلمانوں کے تقریباً ۱۰۰؍ سے زائد گھر اور دکانیں تھیں۔ جماعت احمدیہ نے محکمہ ریلوے میں موجود کچھ قادیانی افسران کی ملی بھگت سے اس جگہ پر بلڈوزر چلا کر یہاں قبضہ کر لیا تھا۔ اس وقت بھی وہاں کے رہائشی مسلمان چیختے چلاتے رہ گئے، لیکن ان کی کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔ اس واقعے کے تقریباً چھ ماہ بعدجامعہ احمدیہ کے سامنے دارالعلوم کے نام سے مشہور ایک آبادی پر اسی طرح قبضہ کیا گیا،جہاں ساٹھ ستر مسلمان گھرانے آباد تھے۔ وہاں اب جماعت احمدیہ نے قادیانی نوجوانوں کے لیے ایک تربیت گا ہ قائم کررکھی ہے۔ اسی طرح مختلف جگہوں اورسرکاری اراضی پر گھاس اور چند پودے لگوا کر اسے گرین بیلٹ کا نام دے کر قبضے کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔قابل ذکر امر یہ ہے کہ ان سطور کے لکھے جانے تک پٹھان بستی کے مذکورہ راستے پر پول لگائے جانے کا کام جاری تھا۔ جس کے متعلق مقامی ذریعے کا کہنا ہے کہ چناب نگر میں یہ اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ جماعت احمدیہ نے مسیحی اور مسلمان بستی کے کچھ باثر لوگوں سے ڈیل کر لی ہے، جس کے بعد یہاں پول لگائے جانے کا کام جاری ہے۔ مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کی غیر قانونی حرکتوں کے لیے جماعت احمدیہ کو مقامی انتظامیہ کی سرپرستی بھی حاصل ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں ’’امت‘‘ کی جانب سے حال ہی میں تعینات ہونے والے ڈی ایس پی چناب نگر سرکل نصراﷲ نیازی سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ جو کچھ اخبارات چھاپتے ہیں ضروری نہیں کہ زمینی حقائق بھی اس کے مطابق ہوں۔ چناب نگر میں امن و امان کی صورتحال بہترین ہے، یہاں کسی قسم کی کوئی ٹینشن نہیں پائی جاتی ۔ نہ ہی یہاں کوئی مذہبی ایشو ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ جمعرات کے روز یہاں کسی قسم کا کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ اس حوالے سے چھپنے والی خبریں درست نہیں ہیں۔ پٹھان بستی والا معاملہ دراصل ایک دیوانی کیس تھا اور یہ کیس جماعت احمدیہ اور وہاں رہائش پذیر عیسائیوں کے درمیان چل رہا تھا۔ حال ہی میں مقامی عدالت نے اس کیس کا فیصلہ جماعت احمدیہ کے حق میں کردیا، جس کے بعد مذکورہ ۷؍ کنال کے پلاٹ پر قبضہ کیا جارہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں مقامی مسیحی بھی راضی ہیں اور ان کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ دوسری طرف مقامی ذریعے کا دعویٰ ہے کہ مذکورہ پلاٹ کے سلسلے میں کوئی دیوانی کیس عدالت میں نہیں تھا اور نہ ہی یہ قبضہ کسی عدالتی حکم کے تحت کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں مجلس احرار اسلام کے مرکزی سیکریٹری جنرل عبداللطیف خالد چیمہ نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’قادیانی جماعت نے چناب نگر میں ریاست کے اندر ریاست قائم کررکھی ہے۔ شہر کے داخلی و خارجی راستوں پر چیکنگ اور مسلمانوں کی جامہ تلاشی لی جاتی ہے اور انھیں مختلف حیلوں بہانوں سے تنگ کیا جاتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ہمارا سوال ہے کہ قادیانیوں کو یہ حق کس نے دیا ہے۔ قادیانی جماعت کو پالیسی ساز حلقوں میں موجود بااثر قادیانی لابی کی سرپرستی حاصل ہے اور وہ لوگ ارد گرد کی مسلمان بستیوں میں رہائش پذیر غریب مسلمانوں کو تنگ کر کے پرانے ربوہ کی پوزیشن بحال کرنا چاہتے ہیں‘‘۔ عبداللطیف خالد چیمہ کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس صورتحال کا فوری نوٹس لینا چاہیے۔ اگر چناب نگر میں امن وامان کی صورتحال خراب ہوئی تو اس کی ذمہ داری جماعت احمدیہ یا قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عائد ہوگی۔ اس سلسلے میں جماعت احمدیہ کا موقف جاننے کے لیے جماعت کے ترجمان سلیم الدین سے رابطے کی بار ہا کوشش کی گئی لیکن انھوں نے فون اٹینڈ نہیں کیا۔
(مطبوعہ: روز نامہ ’’امت‘‘ کراچی،20 ؍فروی 2016 ء )