شاہ بلیغ الدین رحمۃ اﷲ علیہ
حضرت ابو عبدؔالرحمن سلمیٰ نے کامل بیالیس سال مسجد میں قرآن کا درس دیا۔ خود انھوں نے امیر المؤمنین حضرت عثمان، امیرالمؤمنین حضرت علی اور حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہم سے کلام اﷲ کی تعلیم حاصل کی تھی۔کوفے کے تابعی بزرگوں میں ابوعبدالرحمن عبداﷲ سلمیٰ بڑے پائے کے قاری سمجھے جاتے تھے۔ درسِ قرآن کا انھوں نے کبھی کوئی معاوضہ نہیں لیا۔ عمرو بن حریث کے لڑکے کو انھوں نے قرآن پڑھایا تھا۔ عمرو نے نیاز مندی اور محبت میں سواری کا ایک اونٹ اور اس کی جھول نذر کی۔ انھوں نے شکریے کے ساتھ لوٹا دی ۔ فرمایا عزیزم! اس کتاب کے پڑھانے کی کوئی اجرت نہیں۔خود ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے قرآن کس طرح پڑھا تو فرمایا دس آیات پڑھنے کے بعد جب تک ان آیتوں کے مطالب اور احکام نہ سمجھ لیتا آگے نہ بڑھتا۔ عزیزو! میں قرآن پڑھنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل بھی کرتاجاتا تھا! یہ کہہ کر بڑی سو گواری سے بولے کہ ہمارے بعد مسلمان اس طرح قرآن پڑھیں گے کہ یہ ان کے حلق کے نیچے نہ اترے گا۔ مطلب ان اﷲ کے بندے کا یہ تھا کہ اسے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کازیادہ میلان باقی نہ رہے گا۔
آج ہم اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو یہ حقیقت واضح طور پر نظرآجائے گی۔ ہم سب اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ ملک اﷲ کے نام پر بنا ہے۔ قدر کی رات رمضان میں اس کی ابتدا ہوئی۔ نظامِ اسلام کے کے نفاذ کے لیے ارضِ ہمالہ میں مسلمانوں نے دو گوشے حاصل کیے ۔ لیکن اس نظریاتی مملکت میں سب سے زیادہ کسی چیز کی ناقدری کی گئی ہے تو وہ اﷲ کی کتاب ہی ہے۔پاکستان بنتے ہی عربی کو لازمی مضمون کی حیثیت سے نصاب میں داخل ہونا چاہیے تھا اور ڈگری کلاسوں تک تفسیر اور فقہ کی تعلیم کا لازمی انتظام ہونا تھا لیکن برسوں گزر جانے کے باوجود اس ملک کی تعلیمی پالیسی ہر پھر کر وہی ہے جو لادینی مملکتوں میں ہوتی ہے۔ درسگاہوں میں طالب علم کیسے کیسے مطالبات منظور کرالیتے ہیں لیکن اﷲ تعالیٰ کی کتاب پڑھنے کے لیے وہ کبھی کوئی استدعا نہیں کرتے۔ جامعات کے وائس چانسلر ایسے لوگ منتخب ہوتے ہیں جو یا تو نظریۂ پاکستان پر یقین نہیں رکھتے یا اسلامی تعلیمات کو رجعت پسندی کا مظہر سمجھتے ہیں۔نتیجہ یہ کہ کالجوں سے فارغ التحصیل نژادِ نوخزاں رسیدہ خشک پتوں کی طرح آوارہ گرد رہتی ہے۔ ان کا کوئی نصب العین نہیں، انھیں قرآن ، حدیث اور احکامِ اسلام کے بارے میں اتنا بھی نہیں معلوم جتنا علم فلمی گانوں کے بارے میں ہوتا ہے۔حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے تاریخِ اسلام میں سب سے پہلے نصابِ تعلیم بنایا تو قرآن کی تعلیم اور فوجی تربیت کو سب سے مقدم رکھا۔حضرت ابوعبدالرحمن عبداﷲ سلمیٰ اپنے شاگردوں کو قرآن پڑھاتے تو انھیں اس کی پابندی پر بھی آمادہ کرتے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ خود نمونہ بن کر انھیں بتلاتے۔ہمارے نظامِ تعلیم میں اسی بات کا فقدان ہے۔
طبقاتِ ابن سعد میں ہے کہ ابوعبدالرحمن درس دینے کی خاطر اور باجماعت نماز کے لیے ہمیشہ مسجد میں بیٹھے رہتے۔ حتیٰ کہ آخری عمر میں بیمار پڑے۔ بیماری حد سے بڑھی تو عزیزوں ،رشتہ داروں نے کہا خدارا! اب تو گھر چلئے! مرض الموت میں بولے کہ میں نے سنا ہے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: جو مسجد میں نماز کے انتظار میں رہتا ہے وہ گویا نماز ہی کی حالت میں ہوتا ہے اور فرشتے اس کے لیے دعائے رحمت کرتے رہتے ہیں۔ عزیزو! جب یہ بات ہے تو کیوں نہ میں مسجد ہی میں مروں! (ماخوذ:تجلی)
مولانا عابد الرحمن صدیقی
کھانے کے آداب
امورِ خیر میں سے ہر کام کو داہنے ہاتھ سے کرنا:
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے ہی مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا دایاں ہاتھ پاکیزگی حاصل کرنے اور کھانے کے لیے ہوتا تھا اور بایاں ہاتھ آپ استنجا کرنے کے لیے، اور جو کچھ گندگی کی چیزیں ہوں ان کے لیے استعمال کرتے تھے۔ (ابو داؤد)
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم دائیں ہاتھ کا استعمال اپنی تمام چیزوں میں پسند فرماتے تھے۔ اپنے وضو کرنے میں اور اپنی کنگھی کرنے میں، اپنے جوتے پہننے میں۔ (بخاری و مسلم)
بسم اﷲ پڑھ کر کھانا:
عَن عُمَرَ بْنِ اَبِی سَلَمَۃ رَضِیَ اللّٰہُ عَنھُمَا قَالَ: قَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ صلَّی اللّٰہ علیہ وسَلَّم ’’سَمِّ اللّٰہَ وَکُلْ بِیَمِیْنِکَ، وَکُلْ مِمَّا یَلِیْکَ‘‘ مُتَّفَقٌ عَلَیہِ۔
ترجمہ: حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بسم اﷲ پڑھ کر (کھانا) کھاؤ اور اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ، اور اپنے سامنے سے کھاؤ ۔
وَعَن جَابِرٍ رضی اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَّلَم یَقُولُ: ‘‘اِذَا دَخَلَ الرَّجُلُ بَیْتَہٗ فَذَکَرَاللّٰہَ تَعَالیٰ عِندَ دُخُولِہٖ وَعِندَ طَعَامِہٖ قَالَ الشَّیطَانُ لِاَ صْحَابِہٖ:لَامَبِیْتَ لَکُم وَلَاعَشَآءَ، وَاِذَا دَخَلَ فَلَمْ یَذ کُرِ اللّٰہِ تَعَالیٰ عِندَ دُخُولِہٖ قَالَ الشَّیطَانُ: اَدْرَکْتُمُ المَبِیتَ، وَاِذَا لَم یَذکُرِ اللّٰہَ تَعَالیٰ، عِندَ طَعَامِہٖ قَالَ: اَدْرَکْتُمُ المَبِیْتَ وَالعَشَآءَ‘‘ رَوَاہُ مُسلِمٌ۔
ترجمہ: حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنا،کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم فرمارہے تھے کہ جب کوئی شخص اپنے گھر میں قدم رکھتے ہی اﷲ رب العزت کو یاد کرے اور کھانا کھاتے وقت بھی (اﷲ تعالیٰ کا ذکر کرے) تو شیطان اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے کہ چلو تمہارے لیے گھر میں نہ تو رات گزارنے کی جگہ ہے اورنہ کھانا ہے، اور جو اس طرح گھر میں داخل ہو کہ اﷲ رب العزت کا ذکر نہ کرے توشیطان کہتا ہے کہ تم کو ٹھکانا تو مل گیا ہے اور جب کھانا کھاتے وقت اﷲ تبارک وتعالیٰ کا نام نہ لے تو شیطان کہتا ہے کھانا اور ٹھکانا دونوں چیزیں تم کو مل گئیں ۔
وَعَن اُمَیَّۃَ بْنِ مَخْشِیِّ الصَّحَابِیِّ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم جَالِسًا وَرَجُلٌ یَأکُلُ فَلَم یُسَمِّ اللّٰہَ حَتّٰی لَم یَبْقَ مِن طَعَامِہٖ اِلَّا لُقْمَۃٌ، فَلَمَّا رَفَعَھَا اِلیٰ فِیْہِ قَالَ: بِسمِ اللّٰہِ اَوَّلَہٗ وَاٰخِرَہٗ فَضَحِکَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَّلَم قَال: ’’مَازَالَ الشَّیْطَانُُ یَاکُلُ مَعَہٗ، فَلَمَّا ذَکَرَ اسْمَ اللّٰہِ اسْتَقَاءَ مَافِی بَطْنِہٖ‘‘ رَوَاہُ اَبُودَاوٗدَ وَالنِّسَآئِیُّ۔
ترجمہ: حضرت امیہ بن مخشی صحابی رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم (ایک مرتبہ) تشریف فرما تھے، اور ایک شخص کھانا کھا رہا تھا، اور اس نے اﷲ کا نام نہیں لیا(بسم اﷲ نہیں پڑھی) یہاں تک کہ اس کے کھانے میں سوائے ایک لقمہ کے اور کوئی چیز باقی نہ رہی جب اس لقمہ کو اپنے منہ میں لے جانے لگا تو کہا ’’بسم اﷲ اولہ و آخرہ‘‘ (یہ منظر دیکھ کر) رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مسکرائے، پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ شیطان برابر اس کے ساتھ کھانا کھاتا رہا لیکن جب اس نے اﷲ کا نام لیا (بسم اﷲ پڑھی) تو شیطان نے جو کچھ اس کے پیٹ میں تھا اس کو باہر الٹ دیا۔
کھانے میں عیب نہ نکالنااور اس کی تعریف کا استحباب:
عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: مَاعَابَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم طَعَامًا قَطُّ: اِنِ اشْتَھَاہُ اَکَلَہٗ وَاِنَ کَرِھَہٗ تَرَکَہٗ، مُتَّفَقٌ عَلَیہِ۔
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی علیہ نے کبھی بھی کسی کھانے میں عیب نہیں نکالا اگر اس کی خواہش اور رغبت ہوتی تو تناول فرمالیتے اور اگر اس کی رغبت نہ ہوتی تو اس کو چھوڑ دیتے ۔
وَعَنْ جَابِرٍ رضی اللّٰہ عنہ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَّلَم سَأَلَ اَھلَہٗ الُاُدْمَ فَقَالُوا: ما عِندَنَا اِلَّا خَلٌ، فَدَعَابِہٖ، فَجَعَلَ یَأْکُلُ وَیَقُولُ: ’’نِعْمَ الأُدْمُ الخَلُّ، نِعْمَ الْاُدْمُ الخَلُّ‘‘ رَوَاہُ مُسلِمٌ۔
ترجمہ: حضرت جابر رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں سے سالن طلب فرمایا تو انھوں نے جواب دیا کہ ہمارے پاس سرکہ کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں ہے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسی کو منگوالیا اور کھانے لگے اور فرماتے جاتے کہ بہترین سالن سرکہ ہے، بہترین سالن سرکہ ہے (مسلم)۔
اپنے سامنے سے کھانا اور جس کوکھانے کا طریقہ نہ آتا ہو اس کو تعلیم دینے کا بیان:
عَن عُمَرَ بْنِ اَبِی سَلَمَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنھُمَا قَالَ: کُنْتُ غُلَامًا فِی حِجْرِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَّلَم وَکَانَتْ یَدِیْ تَطِیْشُ فِیْ الصَّحْفَۃِ فَقَالَ لِیْ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَّلَم ’’یَاغُلَامُ سَمِّ اللّٰہَ، وِکُلْ بِیَمِینِکَ،وَکُل مِمَّا یَلِیْکَ‘‘ مُتَّفَقٌ عَلَیہِ،
ترجمہ: حضرت عمر و بن ابی سلمہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں بچہ تھا اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پرورش اور تربیت میں تھا میرا ہاتھ (کھانے کے وقت) پیالے میں گھومتا تھا،چنانچہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ اے لڑکے اﷲ کا نام لے (یعنی بسم اﷲ پڑھ)اور ارپنے داہنے ہاتھ سے کھا، اور اپنے سامنے سے کھا ۔
پیالہ اور برتن کے کنارہ سے کھانے کا حکم اور برتن کے درمیان سے کھانے کی ممانعت:
وَعَنِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنھُمَا عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَّلَم قَالَ: ’’البَرَکَۃُ تَنْزِلُ وَسَطَ الطَّعَامِ، فَکُلُوْا مِن حَافَتَیْہِ وَلَا تَأْکُلُوا مِن وَسَطِہٖ‘‘ رَوَاہُ اَبُو دَاوٗدَ، وَالتِّرمِذِیُّ۔
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: برکت کھانے کے درمیان میں نازل ہوتی ہے تو اس کے کناروں پر سے کھاؤ اور اس کے درمیان میں سے نہ کھاؤ۔
وَعَنْ عَبدِ اللّٰہِ بْنِ بُسْرٍ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ: کَانَ لِلنَّبِیِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَّلَم قَصْعَۃٌ یُقَالُ لَھَا الغَرَّآءُ یَحْمِلُھَا اَربَعَۃُ رِجَالٍ فَلَمَّا اَضْحَوْا وَسَجَدُوْا الضُّحیٰ اُتِیَ بِتِلکَ القَصْعَۃِ، یَعنِی وَقَد ثُرِّدَ فِیھَا، فَالتَقُّوْا عَلَیھَا، فَلَمَّا کَثُرُوا جَثَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَّلَم فَقَالَ اَعرَابِیٌّ مَاھٰذِہِ الجلْسَۃُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَّلَم ’’اِنَّ اللّٰہَ جَعَلَنِی عَبدًا کَرِیمًا وَّلَم یَجْعَلْنِی جَبَّارًا عَنِیدًا‘‘ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَّلَم ’’کُلُوْا مِن حَوَالَیْھَا وَدَعُوْا ذِرْوَتَھَا یُبَارَکْ فِیھَا‘‘ رَوَاہُ اَبُودَاوٗد۔
ترجمہ: حضرت عبداﷲ بن بسر رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ایک پیالہ تھا جس کو ’’غراء‘‘ کہا جاتا تھا (اور وہ بہت وزنی تھا) اس کو چار آدمی اٹھاتے تھے ، سو جب چاشت کا وقت ہوتا اور لوگ چاشت کی نماز پڑھ لیتے تو اس پیالہ کو لایا جاتا اور اس میں ثرید (ایک قسم کا کھانا) تیار کیا جاتا ، تو اس کے ارد گرد سب لوگ بیٹھ جاتے اور جب آدمیوں کی تعداد زیادہ ہوجاتی تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے۔ (ایک روز) ایک دیہاتی نے کہا کہ یہ کیسی نشست ہے؟ تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ رب العزت نے مجھے متواضع بندہ بنایا ہے اور مجھ کو سرکش اور حق سے روگردانی کرنے والا نہیں بنایا ہے، پھر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس پیالے کے کناروں پر سے کھاؤ اور اس کے بلند حصہ کو چھوڑ دو، کیونکہ اس میں برکت نازل کی جائے گی۔
فوائد: برتن کے دمیان کا حصہ افضل اور عمدہ ہے، اس لیے اس میں برکات کا نزول ہوتا ہے او رجب درمیان کا کھانا محل برکت ہوا، تو اس کا آخر تک باقی رکھنا مناسب اور افضل ہے، تاکہ برکات باقی رہیں اور اس کا فنا اور ختم کردینا اچھا نہیں ہے، اس لیے حکم ہو ا کہ کناروں پر سے کھاؤ او راس کے اعلیٰ یعنی درمیانی حصہ میں سے نہ کھاؤ، واﷲ اعلم۔
جو شخص کہ کھائے اور سیر نہ ہو تو اس کو کیا کرنا اور کیا کہنا چاہیے:
عَنْ وَ حشِیِ بْنِ حَرْبٍ رضی اللّٰہ عنہ اَنَّ اَصحَابَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَّلَم قَالُوا: یَارَسولَ اللّٰہِ اِنَّا نَأ کُلُ وَلَا نَشْبَعُ؟ قَالَ: ’’فَلَعَلَّکُمْ تَقْتَرِقُونَ‘‘ قَالُوا: نَعَمْ۔ قَالَ: ’’فَاجْتَمَعُوْا عَلیٰ طَعَامِکُمْ، وَاذکُرُواسْمَ اللّٰہِ یُبَارَکُ لَکُمْ فِیہِ‘‘ رَوَاہُ اَبُودَاوٗدَ۔
ترجمہ: حضرت وحشی بن حرب رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اﷲ عنہم نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہم کھاتے ہیں، اور سیرنہیں ہوتے؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شاید تم الگ الگ ہو کر کھاتے ہو صحابہ رضی اﷲ عنہم نے عرض کیا جی ہاں! آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سب اپنے کھانے پر جمع ہو کر کھاؤ اور اﷲ رب العزت کا نام لے لو، تمہارے لیے اس چیز میں برکت دی جائے گی ۔
انگلیوں اور پیالے (برتن) کو چاٹنا، گرے ہوئے لقمہ کو کھانا:
عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم اِذَا اَکَلَ طَعَامًا لَعِقَ أَصَابِعَہُ الثَّلَاْثَ وَ قَالَ: اِذَا سَقَطَتْ لُقْمَۃُ أَحَدِکُمْ فَلْیَأْخُذْہَا وَلْیُمِطْ عَنْہَا الْأَذَی وَلْیَأْکُلْہَا وَ لَاْ یَدَعْہَا لِلشَّیْطانِ ، وَ اَمَرَنَا أَنْ نَسْلُتَ الْقَصْعَۃَ وَ قَالَ: اِنَّکُمْ لَاْ تَدْرُوْنَ فِیْ أیِّ طَعَامِکُمْ الْبَرَکَۃُ (رواہ مسلم)
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جب کھانا تناول فرماتے تو اپنی تین انگلیوں کو چاٹ لیتے اور ارشاد فرماتے ہیں کہ جب تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو اس کو اٹھا لینا چاہیے، اس سے گندگی کو دور کر دے اور اس کو کھالے، اور شیطان کے لیے اس کو نہ چھوڑے۔ اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کو معلوم نہیں ہے کہ تمھارے کون سے کھانے میں برکت ہے۔
تکیہ (ٹیک) لگا کر کھانا کھانے کی کراہت کا بیان:
حضرت ابو جحیفہ وہب بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں تکیہ لگا کر نہیں کھاتا۔ (صحیح بخاری)
امام نَوَوی بیان فرماتے ہیں کہ امام خطابی نے کہا ہے کہ تکیہ لگانے والے سے اس جگہ مراد وہ شخص ہے جو کہ کسی ایسے بستر وغیرہ پر ٹیک لگائے ہوئے جو اس کے نیچے ہو اور خطابی بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا مقصود اس سے یہ ہے کہ انسان بستروں اور تکیوں کے سہارے سے نہ بیٹھے، اس شخص کی طرح جو کہ زیادہ کھانے کا ارادہ رکھتا ہو، بلکہ مجتمع ہو کر بیٹھے۔ تکیہ پر ٹیک نہ لگائے اور اس کو کافی سمجھ کر کھائے۔ بعض اہلِ علم نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ تکیہ لگانے والے سے مراد وہ شخص ہے جو کہ ایک جانب جھک کر کھائے۔ واﷲ اعلم
حمدو ثنا پر اختتام کرنا:
وَعَن مُعَاذِ بنِ اَنَسٍ رضی اﷲ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’مَن اَکَلَ طَعَامًا فَقَال: اَلحَمدُ الِلّٰہِ الَّذِی اَطعَمَنِی ھٰذَا وَرَزَقَنِیہِ مِن غَیرِ حَولٍ مِّنِّی وَلَاقُوَّۃٍ غُفِرَلَہُ مَاتَقَدَّمَ مَن ذَبِہٰ‘‘ رَوَاہُ اَبُو دَاوٗدَ، وَالتِّرمِذِیُّ، وَقَالَ حَدِیثٌ حَسَنٌ۔
ترجمہ: حضرت معاذ بن انس رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے کھانا کھایا اور اس کے بعد یہ کلمات کہے ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ أَطْعَمَنِیْ ہٰذا وَرَزَقَنِیْہِ مِنْ غَیْرِحَوْل مِنِّی وَلَاْقُّوَّۃ‘‘
یعنی تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ثابت ہیں جس نے مجھ کو کھانا کھلایا اور مجھ کو زرق عطا کیا بغیر میری کوشش اور طاقت کے تو اس کے تمام اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں۔