حجۃ الاسلام امام ابو حامد محمد الغزالی رحمۃ اﷲ علیہ
توبہ کی بنیاد پشیمانی ہے ۔ پشیمانی کی علامت یہ ہے کہ توبہ کرنے والا ہمیشہ حسرت میں مبتلا رہے۔ گریہ و زاری اور تضرع اس کا کام ہو جائے، اس لیے کہ جو اپنے آپ کو ہلاک ہوتے دیکھتا ہے وہ غم و حسرت سے کیسے خالی ہو گا۔ اگر کسی کا لڑکا بیمار ہو اور کوئی طبیب کہہ دے کہ بیماری خطرناک ہے، امیدِ زیست کم ہے تو باپ کا جو حشر ہو گا وہ سبھی کو معلوم ہے اور ظاہر ہے کہ اپنی جان تو بیٹے سے بھی زیادہ عزیز ہوتی ہے۔
اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم طبیبِ حاذق سے زیادہ سچے ہیں اور آخرت کی ہلاکت کا خوف مو ت کے خوف سے زیادہ ہے۔ اﷲ کے غصہ پر گناہ کی دلالت موت پر بیماری کی دلالت سے بڑھ کر ہے۔ پھر آدمی کو ان امور سے خوف و حسرت پیدا نہ ہوتو مطلب ہے کہ گناہ کے نقصان ابھی اَلَمْ نَشْرح نہیں ہوئے اور جس قدر یہ آگ تیز ہوتی ہے اسی قدر گناہوں کو سیاہ مٹی بنانے میں زیادہ مؤثر ہوتی ہے، کیونکہ گناہوں کے سبب آدمی کے آئینۂ دل میں جو زنگ لگ جاتا ہے اور جو تاریکی چھا جاتی ہے، حسرت و ندامت کی آگ کے سوا کوئی چیز اسے دور نہیں کر سکتی۔ اس کی سوزش سے آدمی کا دل صاف اور رقیق ہو جاتا ہے۔ حدیث شریف میں توبہ کرنے والوں کے ساتھ بیٹھنے کا حکم دیا کیونکہ ان کا دل رقیق ہوتا ہے۔
پیدائش سے موت تک گناہوں سے پاک رہنا فرشتوں کا کام ہے اور تمام عمر گناہوں میں غرق رہنا شیطان کا۔ جب کہ نادم ہو کر توبہ کرنا اور معصیت کی راہ چھوڑ کر شاہراہِ عبادت میں قدم دھرنا آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کا کام ہے۔ جس آدمی نے توبہ کر کے پچھلے گناہوں کی تلافی کر لی، اس نے حضرت آدم علیہ السلام سے اپنی نسبت درست کر لی اور جس نے مرتے دم تک گناہوں پر اصرار کیا اس نے شیطان سے اپنی نسبت مضبوط کر لی۔
توبہ کی شرائط:
علماء کرام نے فرمایا ہے کہ توبہ ہر ایک گناہ سے ضروری ہے، پس اگر معصیت اﷲ تعالیٰ اور بندہ کے درمیان ہو اور کسی آدمی کا حق اس کے ساتھ وابستہ نہ ہو، تو پھر اس کی تین شرطیں ہیں۔ ایک یہ کہ معصیت سے باز آ جائے، دوسرے یہ کہ اپنے کیے ہوئے پر نادم ہو۔ اور تیسرے اس بات کا پختہ ارادہ کرے، کہ پھر کبھی اس قسم کی معصیت میں مبتلا نہ ہوں گا۔ لہٰذا ان تینوں شرطوں میں سے اگر ایک بھی نہ پائی جائے گی تو توبہ درست نہ ہو گی اور اگر معصیت کسی انسان کے ساتھ وابستہ ہے تو پھر علماء نے چار شرطیں بیان فرمائیں ہیں، مندرجہ بالا تینوں شرطیں اور چوتھی شرط اس کے علاوہ کہ اس شخص کے حق سے اپنی برأت ظاہر کرے۔ مثلا: اگر اس کا مال لیا ہے یا اور کوئی اسی قسم کی چیز ہے تو اس کو واپس کر دے اور اگر کسی قسم کی تہمت وغیرہ لگائی ہے تو اس کو بھی اجازت دے یا معاف کرائے اور اگر غیبت ہو تو غیبت کو اس سے درگزر کرائے اور تمام گناہوں سے توبہ واجب ہے۔
پس اگر بعض گناہوں سے توبہ کی، تو اہل حق (اہل سنت) کے نزدیک ان گناہوں سے توبہ درست ہو جائی گی اور باقی گناہوں سے توبہ کرنا اس کے ذمہ باقی رہے گی۔ توبہ کے فرض ہونے پر کتاب اﷲ اور احادیث رسول کے دلائل شاہد ہیں۔
ارشاد باری ہے: تُوْبُوْا اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا أَیُّہَا الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ۔
ترجمہ: اے مسلمانو! اﷲ کی طرف رجوع کرو تاکہ فلاح و کامیابی حاصل کرو (سورۃ النور)
اور اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : اِسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْا اِلَیْہِ۔
ترجمہ: تم اپنے رب سے اپنے گناہ معاف کراؤ اور توبہ کرو(سورۃ الہود)
ایک جگہ اورشاد فرمایا: یٰأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْا اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا۔
ترجمہ: اے ایمان والو! تم اﷲ کے آگے سچی توبہ کرو (سورۃ التحریم)
توبہ کی فضیلت:
رسو ل اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص توبہ کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کے گناہ ان فرشتوں کو بھلا دیتے ہیں جنھوں نے وہ گناہ لکھنے ہوتے ہیں اور اس کے ہاتھ پاؤں کو بھلا دیتے ہیں جن سے گناہ کیے تھے اور اس جگہ کو بھی بھلا دیتے ہیں جہاں وہ گناہ سرزد ہوئے تھے ، تاکہ جب وہ شخص احکم الحاکمین کے سامنے حاضر ہو تو اس کے گناہ کا کوئی گواہ نہ نکلے۔
ایک اور حدیثِ مبارکہ میں ارشاد ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنا دستِ کرم اس شخص کے لیے پھیلائے ہوئے ہیں جس نے دن کو گناہ کیا ہو، تاکہ وہ رات کو توبہ کرے اور میں قبول کر لوں اور اس شخض کے واسطے جس نے رات کو گناہ کیا ہو، تاکہ وہ دن کو توبہ کرے اور میں قبول کروں۔ یہ دستِ شفقت اس وقت تک کھلا رہے گا جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو۔
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص گناہ سے توبہ کرتا ہے وہ ایسا ہے جس نے کبھی گناہ کیا ہی نہیں اور فرمایا کہ گناہ سے توبہ کا معنی یہ ہے کہ پھر اس گناہ کے قریب بھی نہ جائے۔حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مغرب کی طرف سے آفتاب نکلنے سے پہلے توبہ کر گیا تو اس کی توبہ ضرور قبول ہو گی اور فرمایا کہ پشیمانی و ندامت ہی توبہ ہے۔حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ جناب سرورِ کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ جس بندے کو گناہ پر نادم جانتا ہے اسے بخشش مانگنے سے پہلے بخش دیتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ کو اپنے گناہ گار بندے کی توبہ پر خوشی ہوتی ہے:
رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ بندے کی توبہ سے اس بدوی کی نسبت زیادہ خوش ہوتے ہیں جسے خطرناک جنگل میں نیند آ جائے، اس کے پاس ایک اونٹ ہو جس پر اس کا زادِ راہ اور سرمایہ لدا ہو۔ جب جاگے تو اونٹ موجود نہ ہو، گھبرا کر اٹھے اور سرگرمی سے اس کو تلاش کرنا شروع کر دے اور ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہ حال ہو جائے کہ بھوک پیاس کے سبب موت کا خطرہ لاحق ہو جائے۔ وہ بیزار ہو کر اپنی جگہ پلٹ آئے کہ مرنا ہے تو وہیں مرا جائے اور مرنے کے لیے تیار ہو کر بازو پر سر رکھ کر سو جائے۔ اچانک آنکھ کھلے تو اونٹ اسی طرح لدا پھندا سامنے موجود ہو۔ اﷲ کا شکر ادا کرنا چاہے اور خوشی میں یہ کہنے کے بجائے کہ تو میرا رب اور میں تیرا بند ہ ہوں، یہ کہنے لگے کہ اے اﷲ! تومیرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں۔ یہ اعرابی بدوی اپنے لٹے ہوئے سرمایہ کو پا کر جتنا خوش ہوتا ہے اس سے زیادہ اﷲ تعالیٰ کو اپنے گناہ گار بندے کی توبہ سے خوشی ہوتی ہے۔
بدعتی کی توبہ قبول نہیں ہوتی:
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَہُمْ وَ کَانُوْا شِیَعًا۔(سورۃ الانعام)وہ جنھوں نے دین میں جدا جدا راہیں نکالیں اور کئی گروہ ہو گئے)اس سے اہلِ بدعت مراد ہیں۔ ہر گناہ گار کی توبہ قبول ہوتی ہے لیکن بدعتی قبولِ توبہ سے محروم رہتا ہے، میں ان سے بیزار ہوں وہ مجھ سے بیزار ہیں۔
زندگی کا ہر سانس قیمتی موتی ہے:
حضرت سلیمان دارانیؒ نے فرمایا کہ انسان اگر کسی چیز پر نہ روئے اور فقط اُس زمانے کا ماتم کرے جو اس نے ضائع کیا تو مرتے دم تک یہی رنج کافی ہے تو اس شخص کا کیا حال ہو گا جو گزرے دور کی طرح آئندہ وقت بھی ضائع کرتا ہے۔ جو شخص اس عزیز وقت کو گناہوں میں صرف کرے گا جو اس کی ہلاکت کا سبب ہو تو اگر اُسے مستقبل کی مصیبت کی خبر ہو تو اس کا کیا حال ہو گا مگر یہ مصیبت ایسی ہے کہ آدمی اس وقت مطلع ہوتا ہے جب حسرت و ندامت کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
اﷲ تعالیٰ نے کتنی صحیح بات فرمائی: وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰکُمْ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّأْتِیَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْ لَاْ أَخَّرْتَنِیْ اِلٰی أَجِلٍ قَرِیْبٍ۔(سورۃ المنافقون)
ترجمہ: اور خرچ کر لو اس رزق سے جو ہم نے تمھیں دیا۔ اس سے قبل کہ تم میں سے کسی کے پاس موت آ جائے پھر وہ کہے کہ اے میرے رب مجھے تھوڑی دیر کی مہلت دے دے۔‘‘
اہلِ علم نے کہا ہے کہ اس کا معنیٰ یہ ہے کہ مرتے وقت بندہ ’’ملک الموت‘‘ کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ کوچ کا وقت آ گیا تو اس کے دل میں حسرت پیدا ہوتی ہے، اتنی جس کی کوئی حد نہیں اور کہتا ہے: اے فرشتۂ اجل! مجھے ایک دن کی مہلت دے دے کہ میں توبہ کر لوں۔ فرشتہ کہتا ہے کہ تجھے بہت مہلت دی گئی اور اب تیری زندگی کا کوئی دن باقی نہیں۔ وقتِ مقررہ آ پہنچا، وہ ایک ساعت کی مہلت مانگتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بڑی ساعتیں گزریں اب کوئی ساعت نہیں۔
فرائض ادا کرنا اور گناہوں سے بچنا:
فرائض کے بارے میں چاہیے کہ آدمی جس دن سے بالغ ہوا ہے اس دن سے ایک ایک دن کا خیال کرے، اگر نماز فوت ہو گئی ہے یا کپڑا پاک نہیں رکھا، یا اس کی نیت میں فتور تھا اور یہ لا علم تھا یا عقائد میں خلل تھا تو جتنی نمازیں ہوئیں سب کی قضا کرے۔ اور جس تاریخ سے مال دار ہوا ہے اس تاریخ سے حساب کر کے جتنی زکوٰۃ نہیں دی زکوٰۃ دے، یا دی تو ہو لیکن مستحق کے حوالہ نہ کی ہو تو حساب کر کے زکوٰۃ دے۔ یا اگر رمضان کے روزں میں کوتاہی کی یا نیت بھول گیا یا اس کی شرط ادا نہیں کی تو روزوں کی بھی قضا کرے۔ جن میں شک ہے ان میں جس طرف ظن غالب ہو اسے اختیار کرے اور غور و تامل کر کے جس قدر یقینی ہو اس کا حساب کر لے، باقی قضا کرلے۔
رہ گئے گناہ تو انھیں ابتدائے بلوغ سے دیکھنا چاہیے کہ آنکھ، کان، ہاتھ، زبان، معدہ وغیرہ اعضاء سے کیا کیا گناہ کیے ہیں۔ اگر کبیرہ گناہ ہیں جیسے زنا، لواطت، چوری، شراب نوشی اور دوسرے گناہ جن پر شرعی حد واجب ہے تو ان سے توبہ کرنا ضروری ہے۔ حاکم کے سامنے جا کر اقرار کرنا ضروری نہیں کہ وہ حد جاری کرے بلکہ گناہوں کو پوشیدہ رکھے۔ توبہ اور کثرت عبادت سے ان کی تلافی کرے اور ضعائر ہوں تو بھی ایسا ہی کرے۔
اﷲ تعالی کا ارشاد ہے: اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّئاتِ۔(سورۃ الھود)
ترجمہ: ’’نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں‘‘
حکایت: بنی اسرائیل میں ایک شخص بڑا گنہگار تھا۔ اس نے توبہ کرنی چاہی یہ معلوم نہ تھا کہ توبہ قبول ہو گی یا نہیں۔ لوگوں نے ایک عابد کا پتہ بتایا۔ یہ عابد کے پاس گیا اور کہا کہ میں بڑا گنہگار ہوں۔ ننانوے آدمیوں کو بلا وجہ قتل کیا ہے۔ میری توبہ قبول ہو گی؟ عابد نے کہا نہیں۔ اس شخص نے اس عابد کو بھی قتل کر کے سو کا عدد پورا کر دیا۔ پھر لوگوں نے ایک عالم کا پتہ دیا۔ اس نے اس عالم سے پوچھا تو اس نے کہا ضرور ہو گی مگر اپنی زمین سے نکل جا کہ یہ فساد کی جگہ ہے اور فلاں جگہ چلا جا۔ وہاں صالح لوگ رہتے ہیں، وہ چلا تو راستے میں مر گیا۔ رحمت و عذاب کے فرشتوں میں اختلاف ہوا۔ ہر ایک نے کہا کہ اس پر ہماری ولایت ہے۔ ارحم الراحمین کا حکم ہوا کہ اس کی زمین ناپو۔ زمین جو ناپی تو وہ صالح لوگوں کی طرف بالشت بھر بڑھ چکا تھا۔ پس رحمت کے فرشتے اس کی روح کو لے گئے۔
اس سے معلوم ہوا کہ نجات کے لیے یہ شرط نہیں کہ گناہوں کا پلہ بالکل خالی ہو بلکہ نیکی کا پلہ بھاری ہونا چاہیے، اگر تھوڑا سا ہی جھکا ہو تو ان شاء اﷲ نجات ہو جائے گی۔
(ماخوذ:کیمیائے سعادت)