ریاض احمدچودھری
انڈیا کے ایک خفیہ ادارے کے اعلیٰ افسرآنجہانی ایم کے دھرانے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی کے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا سب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں مسلکی اختلافات کے ذریعے آگ بھڑکائی جائے۔ اس سلسلے میں طے کیا گیا کہ شدت پسند نظریات والے ہندو نوجوانوں پر مشتمل ایک ایسا گروہ تیار کیا جائے جو اس مقصد کے ساتھ انتہائی مخلص ہو۔ ایسے ہندو نوجوانوں کا جب ایک گروپ تیار ہوگیا تو اس کی ٹریننگ اس طرح کی جانے لگی کہ وہ نہ صرف دین اسلام کے باریک سے باریک نکات سے واقف ہوگئے، بلکہ ایک بہترین عالم کی طرح ہر موضوع پر بحث و مباحثہ بھی کر سکتے تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت دہلی میں موجود ایک فارم ہاؤس پر ایک افسر شیام پروہت عرف مولوی رضوان نے کی۔ انٹیلی جنس کے محکمے میں آنے سے پہلے شیام پروہت ایک انتہاء پسند ہندو تنظیم کا بہت ایکٹو رکن تھا۔ اسے دین اسلام کے متعلق عام مسلمانوں سے زیادہ علم تھا۔ اپنے ایک شاگرد گوتم رے کی ٹریننگ کرنے کے بعد شیام پروہت نے اسے مزید اسلامی تعلیم کے لئے دارالعلوم دیوبند بھیج دیا۔ گوتم رے نے وہاں عام طالبعلم کے روپ میں اسلامی علوم میں قابل رشک مہارت حاصل کر لی۔ خاص طور پر مناظرے کے میدان میں اس کی مہارت بے مثل تھی۔
دارالعلوم دیوبند کے علماء نے اپنے کچھ علماء کو بریلی کے علماء سے مناظرے کے لئے بریلی بھیجا۔ ان علماء کے گروپ میں گوتم رے جو کہ اب ایک جید عالم سمجھا جاتا تھا، بھی شامل تھا۔ علماء کا یہ گروپ بریلی پہنچا۔ مناظرے سے دو روز پہلے ایک رات گوتم رے اپنے اندر کی فطری خباثت سے مجبور ہوکر ایک طوائف کے کوٹھے پر چلا گیا۔ وہ طوائف یہ جان کر حیران ہوگئی کہ مسلمانوں کے نام والا وہ مولوی شخص بغیرختنے کے تھا۔ اس نے جب اس بات کا ذکر اس دلال سے کیا جو مولوی صاحب کو اس کے پاس لایا تھا تو دلال حقیقت جاننے کے لئے مولوی صاحب کے پیچھے چلا گیا۔ یہ جان کر دلال کے حیرت سے ہوش اڑ گئے کہ وہ مولوی صاحب علماء کے اس وفد میں شامل تھے جو دیوبند سے مناظرے کے لئے آیا تھا۔ دلال نے یہ بات جا کر بریلی کے علماء کو بتائی۔ چند گھنٹوں میں یہ خبر ہر طرف پھیل گئی کہ دیوبند سے آنے والے علماء کے وفد میں ایک بڑے عالم کے ختنے نہیں ہیں اور وہ طوائف کے پاس بھی گیا تھا۔ گوتم رے تک یہ بات پہنچی تو وہ اسی وقت فرار ہوکر دلی پہنچ گیا۔ اس واقعہ کے بعد انٹیلی جنس چیف نے حکم جاری کیا کہ ایسے مشن پر جانے والوں کے ختنے کروائے جائیں۔
یہ صرف ایک مثال ہے اور صرف بھارت نہیں، بلکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف یہ سازش انتہائی کامیابی سے جاری ہے۔ نواب شطاری کامشہور واقعہ ہے کہ لندن میں ایک بار ان کے ایک انگریز دوست ان کو ایک جگہ پر لے گئے، جہاں بہت بڑی تعداد میں نوجوان، جن کے سروں پر خوبصورت ٹوپیاں سجی ہوئی تھیں، ایک بہت بڑے ہال میں بڑی ہی خوش الحانی کے ساتھ تلاوت قرآن پاک کر رہے تھے۔ کچھ نوجوان ایک قاری صاحب سے سبق لے رہے تھے اور کچھ سبق دہرا رہے تھے۔ وہ صاحب کہتے ہیں، وہ بیحد حیران ہوئے۔ اس کے بعدانہیں ایک اور ہال میں لے جایا گیا۔ وہاں پر کچھ طلباء آپس میں دینی مسائل پر بحث کر رہے تھے۔ اپنی بحث کے دوران وہ احادیث اور قرآن پاک کے حوالے دے رہے تھے۔ ان کی مدلل گفتگو اور حوالہ جات اتنے متاثر کن تھے کہ وہ صاحب ان کے دینی علم پر عبور کے حوالے سے عش عش کر اٹھے۔ ان کے انگریز دوست ان کو ایک اور کمرے میں لے گئے۔ وہاں ان کو مختلف فرقوں کے علماء بیٹھے نظر آئے جو آپس کے فقہی اختلافات پر بحث کر رہے تھے۔ ان کے انگریز دوست نے ان سے سوال کیا کہ کیا آپ ان کو جانتے ہیں یہ کون ہیں؟ وہ صاحب بولے کہ نہیں۔ تب اس انگریز دوست نے انکشاف کیا کہ یہ سب عیسائی ہیں، ان میں سے کوئی بھی مسلمان نہیں۔
اس مقصد کے لئے انتہائی ذہین اور انتہائی متاثرکن شخصیت والے خوبصورت نوجوانوں کا انتحاب کیا جاتا ہے، ان کو اسلام کے دینی امور کے متعلق ماہر بنایا جاتا ہے ،اس کے بعدان کو مختلف مکاتب فکر کے لوگوں میں ایک بہترین عالم دین کے طور پر داخل کر دیا جاتا ہے۔ یہ مدلل اور خوبصورت گفتگو کے ذریعے مسلمانوں کے آپس کے مذہبی اختلافات کو ہوادیتے ہیں۔ ان کی شخصیت دینی علوم پر مہارت اور گفتگو کی خوبصورتی کی وجہ سے لوگ ان کے خیالات سے متاثر ہوجاتے ہیں، یوں جو کام بڑی سے بڑی فوج نہیں کرسکتی، یہ آسانی سے کرسکتے ہیں۔اس سارے معاملے میں سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ایسے لالچی افراد کو پاکستان میں سے بھی تلاش کیا جاتا ہے جو شدید قسم کی فرقہ پرستی کی بیماری کا شکارہوتے ہیں۔ ایسے افراد کو بھاری رقوم کے لالچ میں غیرملکی ایجنسیاں اپنے ساتھ ملا کر ان کی برین واشنگ کرتی ہیں یا اپنے مخصوص ایجنٹوں سے ان کو تیار کرواتی ہیں۔ ایسے افراد اپنے مخالف فرقے والوں کے خلاف کفر کے فتوے دیتے نظر آتے ہیں۔ امت مسلمہ کے ان دشمنوں کو پہچاننا اور ان کی حوصلہ شکنی کرنا آپ کا کام ہے۔