عبداللطیف خالد چیمہ
آزادیٔ کشمیر کا پہلا شہید
5؍ فروری کو پورے ملک میں ’’یوم یکجہتی کشمیر ‘‘اہتمام کے ساتھ منایا گیا ،دنیا بھر میں جہاں جہاں پاکستانی اور کشمیری موجود ہیں۔ ہر جگہ پر مظلوم کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے پروگرام ہوئے، کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت اور استصواب رائے کو اقوام متحدہ 1948 ء اور 1949 ء کی قراردادوں تسلیم کرچکی ہے مگر آزادی کی اس تحریک کے دبانے کے لیے شروع سے اب تک انڈین حکومت ظلم وسفاکی اختیار کیے ہوئے ہے اور عالمی اداروں نے خاموشی سادھ رکھی ہے۔ نریندر مودی کی حکومت کشمیریوں کی اس تحریک آزادی کو کچلنے میں نئے ریکارڈ قائم کر چکی ہے اور مسلم حکمران بے حسی کی حدود کراس کر چکے ہیں۔ کشمیری بھارت سے آزادی چاہتے ہیں اور یہ آزادی ان کا بنیادی حق ہے۔ جب کہ جمہوریت کا دعوی رکھنے والے خود ہی اس کی نفی بھی کر رہے ہیں۔ 1946 ء میں برٹش ایمپائرنے برصغیر کی تقسیم کا اصولی فیصلہ کرلیا تھا لیکن بھارتی حکمران ہر صورت کشمیر کو ہندوستان کا حصہ ہی رکھنا چاہتے تھے ،کشمیر کو جانے کا راستہ ضلع گو ر داسپور تھا جو مرزا غلام احمد قادیانی کے ماننے والے قادیانیوں کا ہیڈ کوارٹر تھا ، 52 فیصد آبادی گورداسپور میں مسلمانوں کی تھی اصولی تقسیم کے فارمولے کے مطابق یہ پنجاب (پاکستان)کا حصہ ہونا تھا ،لیکن قادیانیوں نے باؤ نڈری کمیشن کو میمورنڈم پیش کیا کہ ہم ہر صورت ہندوستان میں رھنا چاہتے ہیں ،ہندو،قادیانی سازش کو انگریز سرکار نے کیوں رد کرنا تھا تاکہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کے لیے دردِ سر بنا رہے ،یہ سب کچھ تاریخ میں ریکارڈ میں موجود ہے ۔یہاں ہم مرزاغلام نبی جانباز مرحوم کی مشہور زمانہ کتاب’’ کاروان احرار‘‘ سے صرف یہ اقتباس پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
’’جہلم کا محاذ شیخ محمد اشرف عطاء(جو بعد میں روزنامہ زمیندار کے ایڈیٹر مقررہوئے )مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی (جنہیں خطیب پاکستان کا خطاب ملا )اور راقم کی ذمہ داری میں تھا ۔ سول نافرمانی شروع ہوتے ہی اوّل الذکر دونوں حضرات کو مرکز کے حکم پر رضا کاروں کی بھرتی اور فراہمی زر کے لیے پنجاب کے دوسرے اضلاع میں بھیج دیا گیا ۔اس طرح اس محاذ کی تمام تر ذمہ داری راقم کے سر آن پڑی ۔میرے فرائض میں تھا کہ باہر سے آئے ہوئے قافلوں کو ترتیب دیتا اور انہیں رخصت کرنے پتن تک جاتا۔
یکم نومبر (1931ء)کو چنیوٹ سے آئے 30 رضا کاروں کی محاذ پر جانے کی باری تھی چنانچہ حسب معمول نماز ظہر کے بعد چنیوٹ کا قافلہ جس کی قیاد ت شیخ الٰہی بخش کررہے تھے ۔سینکڑوں لوگوں کے ہجوم میں جہلم شہر سے محاذ پر روانہ ہوا کچھ لوگ پیدل ،کچھ تانگوں اور لاریوں کے ذریعے پتن تک قافلے کے ساتھ گئے ۔دریا اپنے پورے بہاؤ پر تھا ۔پتھر وں سے سر ٹپکتا ہوا پانی چیخ چیخ کرکہہ رہا تھا کہ آج دشمن کا ارادہ نیک نہیں ۔ڈوگرہ شاہی کی سنگینیں مسلمان کے خون کی پیاسی ہیں ،ہندو سامراج فرزندان ِ اسلام سے آج اپنا انتقام لے گا ۔لیکن دریا کی یہ زبان کون سمجھتا تھا پھر جبکہ رضا کا رکفن بردوش ہو ۔ایسی ترشی سے شہادت کا نشہ کہاں اتر سکتاہے ۔قافلہ پہنچنے سے پیشتر پیرازغیب کے پتن پر انگریزی علاقے کی پولیس مجسٹریٹ اور دوسرے حکام موجود تھے ۔ان کی ہدایت پر پتن کی تمام کشتیاں کنارے سے ہٹالی گئی تھیں ۔لیکن رضا کاروں کے عزم ِ شہادت نے دریائے جہلم کی طغیانی کو شکست دینے کے لیے بے خطر دریا میں چھلانگیں لگادیں ۔
دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
اس نظارے کو سرکاری حکام اور سینکڑوں دوسرے عوام نے حیرت اور جرأت کے ملے جلے جذبات سے دیکھا ۔ کنارے پہنچ کر قافلہ سالار شیخ الٰہی بخش نے بھیگے ہوئے سرخ کپڑوں کے باوجود تمام رضا کاروں کو از سر نو منظم کیا ۔یہ قافلہ کسٹم ہاؤس سے گزر کر جب کشمیر کی حدودمیں داخل ہوا اور ایک چھوٹی سی خشک نہر کا پل عبور کرنے کو بڑھا ہی تھا کہ ریاستی پولیس کے ایک دستے نے جس کی کمان پنڈت وشوامتر کورٹ انسپکٹر کے ہاتھ میں تھی ۔آگے بڑھ کر اور خود انسپکٹر مذکورنے اچانک ایک جھاڑی سے نکل کر شیخ الٰہی بخش پر اپنی سنگین کا ایسا مہلک وار کیا کہ راقم کے دیکھتے ہی دیکھتے اس بہادر جانباز نے جام شہادت نوش کیا ۔غیر کشمیری مسلمان کا کشمیر کی سر زمین پر یہ پہلا خون تھا ۔جو اپنے کشمیری مسلمان بھائی کو ایک ظالم حکمران سے نجات دلانے کے لیے گرا تھا ۔الٰہی بخش کی شہادت نے کشمیر کو نئی زندگی دی اور یہی وہ خون تھا جس نے زعفران کے کھیتوں کو پھر سے رنگ و روغن بخشا ۔سالار قافلہ کی شہادت کے باوجود یہ قافلہ حافظ دوست محمد جو چنیوٹ سے قافلے کے ساتھ آئے تھے کی قیادت میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا چلا گیا ۔درمیانہ قد گھٹیلا جسم ، گندمی رنگ کے خوبصورت چہرے پر سیاہ داڑھی ۔یہ تھے شیخ الٰہی بخش جو یکم جولائی 1900 ء کو شیخ کریم بخش تجار کے گھر چنیوٹ میں پیدا ہوئے ۔اسی طرح دوسرے محاذوں پر بھی گرفتاریاں شروع ہو گئیں پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں سے بھی رضا کار سیالکوٹ جہلم اور راولپنڈی پہنچنے لگے اور ریاست کے اندر جموں میں بھی تحریک سول نافرمانی شروع ہوگئی اور شیخ اﷲ رکھا ساغر پہلے ڈکٹیٹر مقرر ہوئے ۔‘‘(کاروان احرار جلد اوّل صفحہ نمبر 209 تا 211 )
تبلیغی جماعت کی دعوتی سرگرمیوں پر بھی پابندیاں
دہشت گردی کے اصل محرکات و عوامل کی طرف توجہ ’’نہ‘‘ دینے والے ہمارے حکمرانوں نے اب خالص دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دینے والی مشہور زمانہ تبلیغی جماعت پر بھی مختلف عمل سطحوں پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے جو نہایت مضحکہ خیز ہی نہیں، بلکہ انتہائی قابل مذمت بھی ہے۔ ہر قسم کی فرقہ واریت اور طبقہ واریت سے پاک تبلیغی جماعت دنیا بھر میں انسانوں پر انفرادی محنت کرتی ہے۔ اپنا مال و جان اور وقت لگا کر اﷲ کے احکامات اور جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنتوں کو پھیلانے والے یہ بے ضرر اور مسکین لوگ چیونٹی کو مارنے کے بھی روا دار نہیں!
’’جاتی امرا‘‘ میں تشریف فرما ہمارے حکمرانوں کو نجانے رائے ونڈ کے ان درویشوں سے کیا شکایت پیدا ہوئی اس پر
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی!
پر امن رہنماؤں کی گرفتاریاں!
ختم نبوت کے محاذ پر کام کرنے والی جماعتوں ، رہنماؤں اور کارکنوں کو ملک بھر میں پریشان و ہر اساں اور گرفتار کیا جارہا ہے۔ 30 جنوری ہفتہ کو مجلس احرار اسلام پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات حافظ محمدعابد مسعود ڈوگر کو چیچہ وطنی ان کی دوکان سے اٹھالیا گیا جبکہ 31 جنوری اتور کو دارِ بنی ہاشم ملتان سے ہمارے مدرسہ معمورہ کے استاذ مفتی صبیح الحسن ہمدانی کو اٹھالیا گیا۔ ان کے علاوہ بھی متعدد مقامات سے اس قسم کی اطلاعات ہیں کہ تحریک ختم نبوت کے رہنماؤں اور کارکنوں کو تنگ کیا جارہا ہے۔
مقدمہ درج کیے بغیر اچانک اٹھا کر لے جانا اور گھر والوں کو ہر طرح سے بے خبر رکھنا یہ سراسرماو رائے قانون کارروائیاں ہیں جن سے امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا، اگر مذکورہ رہنماؤں کے خلاف کوئی الزام ہے تو قانون اور عدالتیں موجود ہیں۔ ماور ائے قانون اندھی گرفتاریوں اور تحریک تحفظ ختم نبوت کے کارکنوں کو پریشان کرنے سے لوگوں میں منفی ردِ عمل پیدا ہونا فطری عمل ہے۔ ان سطورکے ذریعے ہم انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں سے بھی درخواست کرناچاہیں گے کہ وہ دینی جماعتوں کے لاپتہ حضرات (MISSING PERSONS )کو بھی اپنی فہرست میں شامل کرلیں کہ یہ بھی انسان ہیں ۔ حکمرانوں سے ہم اتنا عرض کرنا چاہیں گے کہ
ہاتھ آنکھوں پہ رکھ لینے سے خطرہ نہیں جاتا
دیوار سے بھونچال کو روکا جاتا
(مظفر وارثی)
مولانا شیرانی کا حکومی درخواست پر ناموس رسالتؐ پر نظر ثانی کرنے کا عندیہ
چیئر مین اسلامی نظریہ کونسل محمد خان شیرانی نے کہا ہے کہ ناموس رسالت قوانین پر علماء کرام میں اختلاف رائے ہے حکومت کو درخواست بھیجنی اور اپنے موقف کی دلیل دینی ہوگی۔ کونسل سنجیدگی سے غور کرے گی۔ غیر ملکی خبر ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ناموسِ رسالت قانون پر بحث کے لیے حکومت کو کونسل کو باضابطہ درخواست دینا ہوگی۔ مولانا محمد خان شیرانی کا کہنا تھا کہ وہ ناموس رسالت کے قانون پر نظر ثانی کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اسلامی نظریہ کونسل اپنی تجاویز دے گی کہ آیا اس قانون کو اسی حالت میں برقرار رہنا چاہیے، مزید سخت کرنا چاہیے یا اس میں نرمی لانی چاہیے۔ اس حوالے سے محمد خان شیرانی نے اپنی ذاتی رائے کااظہار نہیں کیا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی کلمہ گو مسلمان ناموس رسالت کے معاملے پر سمجھوتہ نہیں کرسکتا اور ناموس رسالت جب رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا بین اظہار ہے اس قانون کو مزید بہتر اور سخت تو بنایا جاسکتا ہے لیکن اسے بے ضرر اور عضو معطل نہیں بنایاجاسکتا نہ ہی کسی کو اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ اس میں مین میخ نکالے اور اسے تنازعات کی بھینٹ چڑھایا جائے اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس کا استعمال غلط ہوسکتا ہے تاہم اس ملک کی عدلیہ آزاد ہے اور ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی کلی طور پر بے گناہ کو اس کے سخت سزاء دی جاسکے لیکن توہین رسالت کا کھلے بندوں اظہار اور ارتکاب کرنے والوں کو ان کے کیے کی قرار واقعی سزاء ملنی بھی ضروری ہے۔ مولانا شیرانی کو یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے قادیانیوں کو اقلیت قراردیا تھا اور اس وقت کے پائے علماء دین اور ارکان اسمبلی مولانا شاہ احمد نورانی اور مولانا مفتی محمود جیسے اکابر حق ڈٹ گئے تھے۔ آج اسمبلی میں ان جیسے دینداروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور سیکولر کی تعداد خاسی زیادہ ہے۔ مولانا شیرانی اس حوالے سے کسی نئے ایڈونچر سے باز رہیں اور طے شدہ معاملات کو نہ چھڑیں حکومت کو بھی ہوش کے ناخن لینا ہوں گے۔ جہاں تک کم سنی کی شادیوں کی قانون سازی ہے تو یہ معروضی حالات میں بھی اچھا اقدام ہے اور صغیر سنی کی شادیوں سے پیدا ہونیوالی پیچیدگیوں سے اس قانون پر عمل درآمد کر کے بچا جاسکتا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں ناموس رسالت کے اس قانون کے تحت سزائے موت دی جاسکتی ہے، تاہم اب تک اس قانون کے تحت کسی کو سزائے موت دی نہیں گئی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اسلامی نظریہ کونسل کا قانونی حق ہے کہ وہ ملکی قوانین کو دیکھے کہ وہ اسلام کے مطابق ہیں یا نہیں لیکن قابل صد افسوس امر یہ بھی ہے کہ ان سفارشات پر عمل قانونی طور پرلازم نہیں ۔ ہماری رائے میں محمد خان شیرانی نے درست کہا صدر کے قاتل کو معاف کرنے کے اختیار سمیت ملک میں کئی قوانین اسلام سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو فعال بنایا جائے اور اس کی سفارشات کو دری کی ٹوکری کی نذر نہ کیا جائے اور اس کی سفارشات پر عمل درآمد کو بھی یعنی بنایا جائے اور تمام مروجہ قوانین کو مرحلہ وار اسلامی قوانین کے سانچے میں ڈھالا جائے، اسلامی جزاء اور سزاء کے سنہری اصولوں کو اپنا جائے تاکہ ملک میں اسلامی قوانین کے نفاذ سے دہشت گردی ، فرقہ واریت، انتہاء پسندی اور لوٹ کسوٹ کا خاتمہ ہوسکے اور جرائم میں خاطر خاہ کمی آسکے۔
(مطبوعہ: روزنامہ ’’اوصاف‘‘ 30 جنوری 2016 ء)