سید عزیزالرحمن
اخلاق حمیدہ میں سے ایک ایثار بھی ہے، اور حضور اکرم نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے جس اسوۂ حسنہ اور خلق عظیم کی اتباع کی ہمیں تاکید کی گئی ہے، ایثار کی صفت بھی اس کا ایک اہم جزہے۔ ایثار کیا ہے؟ ایثار دوسروں کی ضرورتوں کو اپنے اوپر ترجیح دینے اور انہیں اپنی ضرورتوں پر فوقیت دینے کا نام ہے خود بھوکے رہ کر دوسروں کو کھلانا، خود تکلیف اٹھا کر دوسروں کو راحت پہنچانا۔ اس اعتبار سے یہ جود وسخا اور فیاضی کا اعلیٰ ترین اور سب سے آخری درجہ ہے۔
ایثار بھی دوسری صفات حسنہ کی طرح ایمان کی پہچان اور مومن کا شعار ہے، اس کی حیثیت محض اتنی ہی نہیں، یہ تبلیغ دین کا بھی ایک مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ جب انسان کسی دوسرے شخص کی مشکل وقت میں مدد کرتا ہے، تو اس کے دل میں یقینا اپنے لئے نرم گوشہ بھی پیدا کرلیتا ہے، پھر جب مدد اور تعاون ایثار کے درجے میں ہو، تو اس کا تاثر زیادہ مضبوط اور دیر پا ہوتا ہے، اس معاملے کا یہی ایسا پہلو ہے جو ہمارے لئے دور جدید اور عصر حاضر میں اہم ہے اور ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے، خصوصاً اس کے دعوتی پہلو سے پہلو تہی اور صرف نظر کیا جا رہا ہے ،حال آں کہ ابتدائے اسلام میں فروغ اسلام میں اس صفت نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔
ایثار کے حوالے سے انصار ِ مدینہ کا کردار نہایت اہم ہے۔ اسی لیے قرآنِ حکیم نے بھی ان کے جذبے کو سراہا اور اسے قابلِ تقلید قرار دیا۔ جب بنو نضیر کی زمین مسلمانوں کے قبضے میں آئی اور اس کا بڑا حصّہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مہاجرین کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے انہیں عطا کر دیا تو انصار نے اس فیصلے کو نہایت خوش دلی سے قبول کیا۔ قرآنِ حکیم میں ان کے اس جذبے کی ستائش کرتے ہوئے فرمایا گیا:
وَا لَّذِےْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَوَالْاِےْمَانَ مِنْ قَبْلِھِمْ ےُحِبُّونَ مَنْ ھَاجَرَ اِلَےْھِمْ وَلَاےَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِھِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَےُؤُثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْکَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌقفطوَمَنْ ےُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنOَ(۱)
اور ان لوگوں کے لیے جو مہاجرین سے پہلے ہجرت کے گھر(یعنی مدینے) میں مقیم اور ایمان میں (مستقل) رہے اور جو لوگ ہجرت کرکے ان کے پاس آتے ہیں ان سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ ان کو ملا اس سے اپنے دل میں کچھ خواہش اور خلش نہیں پاتے اور ان کو اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں خواہ ان کو خود احتیاج ہی ہو اور جو شخص حرص نفس سے بچا لیا گیا تو ایسے لوگ ہی مراد پانے والے ہیں۔
ملاحظہ کیجئے یہاں حضرات انصار کے صرف جود وسخاکا ہی ذکر نہیں ہے، بل کہ اﷲ تعالیٰ ان کے جذبۂ ایثار کا ذکر فرماکر ان کی تحسین فرمارہاہے،اور قرآن کریم کے اسلوب میں یہ انداز انت کی تعلیم کے لئے اختیار فرمایاجاتا ہے۔
ایک مرتبہ ایک شخص کو آں حضـرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے دوپہاڑوں کے درمیان پھیلا ہوا ریوڑ عنایت فرمایا، وہ اس امر سے اس قدر متاثر ہوا کہ وہ اپنی قوم میں جا کر کہنے لگا :
یا قومی اسلموا ، فان محمداً یعطی عطاءً لا یخشی الفاقۃ(۲)
اے لوگو! اسلام لے آؤکیوں کہ محمد ( صلی اﷲ علیہ وسلم ) اتنا دیتے ہیں کہ وہ اپنے فقیر ہونے کی بھی پروا نہیں کرتے۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں اس کے علاوہ ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں، جب آپ نے دوسروں کی ضرورتوں کو اپنی حاجتوں پر ترجیح دی اور خود بھوکے رہ کر دوسروں کو نواز دیا ان و اقعات کا تعلق زیادہ تر مسلمانوں یعنی صحابہ کرام سے ہے، مگر اس میں کوئی تفریق نہیں تھی، جیسا کہ اوپر بیان ہونے والے واقعے سے اندازہ ہوتا ہے۔
ایک بار ایک صحابی رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے شادی کی، ولیمے کے لئے گھر میں کچھ ساما ن نہ تھا، رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کو علم ہوا تو فرمایا کہ جاؤ اور عائشہ (رضی اﷲ عنہا) سے آٹا مانگ لاؤ، وہ گئے اور آٹا لے آئے۔ راوی کا بیان ہے کہ کا شانہ نبوت میں اس روز اس آٹے کے علاوہ شام کو کھانے کو کچھ نہ تھا۔ (۳) اور وہ بھی ایک ضرورت مند کو دے دیا گیا تھا۔
ایسے ہی ایک واقعہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک بار ایک غفاری قبیلے کا شخص آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاں آکر مہمان ہوا، اس رات کا شانہ نبوت میں رات کے کھانے کی جگہ صرف بکری کا دودھ تھا، وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس مہمان کی نذر کردیا اور نبی رحمت کے ہاں اس رات فاقہ رہا۔ ہمارے لئے مقام تفکر یہ ہے کہ اس سے پہلی شب میں بھی خانہ نبوت میں فاقہ ہی تھا۔ (۴)
ایثار کی ایک اس سے بھی بڑھ کر اعلیٰ قسم ہے کہ انسان اپنے اہل خانہ اور قریبی متعلقین کی جائز ضرورتوں پر عام لوگوں کی ضرورتوں کو ترجیح دے، نبی اول وآخر رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں اس کے بھی عمدہ عملی نمونے ملتے ہیں۔ ایک بار حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے کسی امر کی درخواست کی، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی یہ درخواست رد کردی اور فرمایا :
لا اعطیکم و ادع اہل الصفۃ، تلوی بطونہم من الجوع(۵)
یہ نہیں ہوسکتا کہ میں تم کو تو دے دوں اور اہل صفہ کو اس حال میں چھوڑ دوں کہ وہ بھوک سے اپنے پیٹ لپیٹے پھریں۔
ایک بارحضرت علی رضی اﷲ عنہ نے حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اﷲ عنہا کے ہم راہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ حضرت فاطمہ کے چکی پیستے پیستے اور آٹا گوندھتے گوندھتے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے ہیں۔ حالیہ غزوے کے مال غنیمت میں جو لونڈیاں آئی ہیں، ان میں سے ایک دو مل جائیں، باوجود ے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ آپ کی صاحب زادی کس حالت اور فاقہ کشی و تنگ دستی کی کس کیفیت سے دو چار ہیں، مگر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی درخواست قبول نہیں فرمائی، بل کہ ان سے فرمایا:
واﷲ لا اعطیکما واد ع اھل الصفۃ تطوی بطونہم، لا اجد ما انفق علیھم، ولکنی ابیعھم وانفق علیھم اثمانھم(۶)
خدا کی قسم میں تمہیں نہیں دے سکتا۔ میں تمہیں کیسے دے دوں، حالانکہ اہل صفہ بھوکے بیٹھے رہیں۔ میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو ان پر خرچ کر سکوں، لیکن میں ان غلاموں کو بیچوں گا اور ان کی رقم اہل صفہ پر خرچ کروں گا۔
ایک جانب سیرت طیبہ کے یہ روشن واقعات ہیں اور دوسری جانب ہمارے تاریک اعمال اور ظلمتوں سے بھرے ہوئے طور و طریقے، جہاں ہر برائی بلا دلیل رواج پاسکتی ہے، مگر کسی اچھائی کو بار نہیں مل سکتا، صفت ایثار بھی ہمارے اسی طرز عمل کا شکار ہے۔ہماری فیاضی میں کوئی شک نہیں، مگر اب وہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جواز ڈھونڈنے لگی ہے، اور ایثار کا تو ہماری زندگیوں میں کہیں دور سے بھی گزر نہیں۔
اوپر کی سطور میں جو واقعات ذکر کئے گئے وہ تو بہت زیادہ اعلیٰ درجے کے ہیں، مگر ہم تو عام نوعیت کے معاملات میں بھی دوسروں کا حق مار کر خوش ہوتے ہیں اور دوسروں کو تکلیف پہنچا کر ہمیں راحت ملتی ہے۔ اگر سڑک پار کرتے ہوئے بزرگ، خواتین اور بچوں کو دیکھ کر ہم اپنی گاڑیاں روک لیں تو ہمیں کتنے لمحات کی قربانی دینی ہوگی؟ اگر بل جمع کراتے ہوئے ہم قطار بنالیں تو سوچئے کہ فائدہ آخر کس کو ہوگا؟ اگر آج آپ بغیر قانون کے گاڑی آگے بڑھا کر لے جاتے ہیں اور ساتھ والی گاڑی کو اس کے استحقاق کے باوجود راستہ نہ دے کر خوش ہوتے ہیں تو ذرا دل تھام کر سوچئے کہ کل یہ صورت حال آپ کے ساتھ پیش آجائے تو آپ کا رد عمل کیا ہوگا؟ غلط اوور ٹیک کرنا، غلط جگہوں پر گاڑی پارک کرنا اور غلط راستے سے اپنی گاڑی نکال لینا بھی اس قسم کے معاملات ہیں، یہ تمام امور تھوڑا سا تحمل اور تھوڑا سا ایثار چاہتے ہیں۔ اگر ہم یہ فیصلہ کرلیں کہ ان تمام جگہوں پر تھوڑے سے تحمل اور تھوڑے سے ایثار کا مظاہرہ کرنے میں نہیں ہچکچائیں گے تو ہماری زندگی کے تقریباً چالیس فیصد لمحات خو ش گوار ہوسکتے ہیں، اتنے ہی فیصد ذہنی دباؤ اور پریشانی سے ہم نجات حاصل کرسکتے ہیں اوراس عمل کے بعد ہمارا وقت کس قدر بچتا ہے، یہ تجربے اور عمل ہی سے معلوم ہوگا۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ جس ایثار کا درس ہمیں سیرت طیبہ سے مل رہا ہے، وہ خود ہمارے لئے مفید ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے مذہب کا بھی حصہ ہے، سو کم از کم وہ حضرات جو دین کے ماشاء اﷲ بہت سے پہلوؤں پر نہایت د ل جمعی، خشوع وخضوع اور نہایت اہتمام سے عمل پیرا ہوتے ہیں اگر اس پہلو کو بھی نظر انداز نہ کریں تو کم از کم۳۰، ۲۴۰ فیصد معاشرہ تو ایثار پسند خود ہی ہو جائے۔
ایثار کا ایک اہم پہلودوسروں کے کام آنا ہے ، اہم بات یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال کے ذریعے یہ ثابت کرے کہ وہ قربانی دینا جانتاہے، اس کا عمل یہ بتائے کہ وہ اس لذت سے آشنا ہے جو کسی کے کوئی ضرورت پوری کرکے اور ایسے انداز میں ضرورت پوری کرکے اسے لذت حاصل ہوتی ہے جب وہ اپنی کسی ضرورت کی قربانی دیتاہے یا کم سے کم اپنے آرام یا آسائش کو تج کر ، مشقت اٹھاکر ، اور اپنی آرام کی قربانی دے کر کسی کے کام آتاہے اور اس کی ضرورتوں کی تکمیل کرتاہے۔ یوں تو اپنے کام خود اپنے ہاتھ سے انجام دینا بھی اچھی اور محمود صفت ہے، لیکن یہ تو ہمارے معاشرے میں عام طور پر ہوتاہی ہے، صرف اعلیٰ طبقے اور قائدین کی کلاس کے لئے یہ بات اہمیت رکھتی ہے، لیکن اس سے بھی بڑھ کر اور صحیح معنی میں کرنے کا کام یہ ہے کہ انسان دوسروں کے کام آئے اور حسبِ استطاعت اور حسبِ توفیق دوسروں کے کام کرکے خوشی محسوس کرے، جن کی ادائیگی سے بہ وجوہ وہ قاصرہوں، یا وہ بہ سہولت وہ کام نہ کرسکتے ہوں۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اور سیرتِ مطہرہ کا مطالعہ ہمیں اس پہلو کوبھی روشن مثالوں اور قابلِ تقلیدِ نمونوں سے روشن کرتاہے۔یہ بھی ایثار کی ایک قسم ہے۔
رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا معمول اس میدان میں بھی ہماری رہ نمائی کرتاہے ۔حبشہ سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس جو مہمان آتے تھے آپ ہمیشہ ان کی خود خدمت کرتے تھے۔ صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم کی خواہش ہوتی کہ یہ کارخیرہم انجام دیں، مگر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے کہ ان کی خدمت میں خود کروں گا۔ کیوں کہ انہوں نے میرے دوستوں کی خدمت کی ہے۔ ( ۷) اس میں ہجرتِ حبشہ کی طرف اشارہ تھا، جب صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم پر حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی اور قریش مکہ کے لالچ دینے، خوشامد کرنے اور سیاسی، سفارتی دباؤ ڈالنے کے باوجود شاہ حبش نجاشی نے نہ صرف انہیں قریش مکہ کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تھا، بل کہ انہیں رہائش وغیرہ کی بھرپور سہولتیں دے کر انہیں اپنے مہمان کی حیثیت سے اپنے ہاں ٹھہرایا تھا۔
اسی طرح حضرت خباب رضی اﷲ عنہ ایک معروف صحابی ہیں، انہیں ایک بار آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کسی مہم کے سلسلے میں روانہ کیا، ان کے گھر میں کوئی مرد نہ تھااور نہ ان کے گھر کی خواتین کو دودھ دوھنا آتا تھا، اس لئے جب تک وہ واپس نہیں لوٹے، اس وقت تک آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پابندی سے ان کے ہاں جاتے اور دودھ نکالا کرتے تھے۔( ۸)
رسول رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ رویہ اور انداز مہربانی وخدمت گزاری صرف اپنے ساتھیوں، رفقا، خدام اور صحابہ کرام ہی کے ساتھ نہیں تھا، بل کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی یہی برتاؤ رکھتے تھے اور ان کے ساتھ بھی آپ کابرتاؤ اسی نوعیت کی مہربانی، ہم دردی اور خدمت گزاری والا ہوتا تھا۔ طائف کے اس سفر سے کون واقف نہیں؟ کفارِ ثقیف نے نہ صرف یہ کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے تعاون نہیں کیا، بل کہ الٹا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایذا دہی کے درپے ہوگئے اور آپ کو اس قدر تکالیف دیں کہ آپ لہولہان ہوگئے۔ سن ۹؍ ہجری کا واقعہ ہے کہ یہی کفارِ ثقیف اپنا وفد لے کر آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس موقع پر آپ نے خود ان کی خدمت کی، انہیں مسجد نبوی میں ٹھہرایا، اور ان کی میزبانی کے فرائض بہ نفس نفیس ادا کئے۔ (۹)
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ طرزِ عمل ہر ایک کے ساتھ بلا تفریق ہوتا تھا اور جیسا کہ اوپر تحریر کیا گیا اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں فرماتے تھے۔ نہ تو مرد اور عورت کی بنیاد پر، نہ جان پہچان کی بنیاد پر، نہ معزز وغیرمعزز کی بنیاد پر، بل کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ ہم دردانہ اور تعاون وخدمت پر مبنی رویہ ان لوگوں کے ساتھ بھی تھا جو عقل وشعور کے اعتبار سے بھی کم زور حیثیت کے حامل تھے۔ اخلاقِ حسنہ، خلق عظیم اور عظمتِ انسانی کی یہ وہ معراج ہے، جس پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم فائز تھے۔ ایک مرتبہ ایک خاتون نے جو مدینہ منورہ میں رہتی تھی اور اس کی ذہنی کیفیت درست نہ تھی، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر کہا کہ محمد! مجھے تم سے کچھ کام ہے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کی بات کا نہ صرف یہ کہ برا نہیں منایا، بل کہ اسے کہا کہ جہاں تم کہو، میں جانے کے لئے تیار ہوں چناں چہ وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو کچھ دور لے گئی اور وہاں جاکر بیٹھ گئی، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم بھی وہیں اس کے ساتھ بیٹھ گئے اور پھر اس کا جو بھی کام تھا وہ پورا کیا، تب واپس لوٹے۔ (۱۰)
اسی طرح ایک مرتبہ ایک بدو آیا اور آکر اس نے پاس ادب کئے بغیر بدویانہ طریقے سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا دامن مبارک تھام لیااور کہا کہ میرا یہ کام رہ گیا ہے اسے آپ خود کردیں، ایسا نہ ہو کہ میں اسے بھول جاؤں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اس وقت مسجد میں تھے اور جماعت تیار تھی، اس کے باوجود آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اس کے ساتھ باہر نکل آئے اور اس کا مطالبہ پورا کیا، پھر نماز ادا کی۔ (۱۱)
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پوری زندگی اور حیات طیبہ کے پورے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ خواہ اپنا کام ہو یا کسی اور کی کوئی خدمت، جب بھی کبھی ایسا کوئی موقع سامنے آتا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اس کی ادائیگی کے لئے دوسروں سے پہلے کھڑے ہوتے اور نہ صرف یہ کہ اپنے صحابۂ کرام کے ساتھ اپنے لئے کسی قسم کا امتیاز پسند نہیں کرتے تھے اور اپنے لئے ترجیحی بنیادوں پر کسی سلوک کے خواہش مند نہیں ہوتے تھے، بل کہ اس طرح کے ہر کام میں دوسروں سے بھی سبقت لے جاتے تھے۔ یہ صفت یقیناً انسانیت کی معراج ہے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اکمل الخلق اور احسن الخلق ہونے کی وجہ سے اس معراج کی بھی آخری بلندی پر فائز تھے، لیکن کیا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے عطافرمودہ اسوۂ حسنہ اور راہ عمل نے ہمیں بھی اس عمل کی کبھی تحریک بخشی ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ دوسری اور بہت سی اچھی صفات کی مانند اس صفت سے بھی ہم روز بہ روز دور ہوتے جارہے ہیں۔
اس بعد کی سب سے اہم وجہ ہمار افسرانہ کلچر ہے، جس میں خود اٹھ کر پانی پینا تو کجا، سامنے میز پر رکھے ہوئے گلاس کو اپنے ہاتھوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے ہونٹوں تک لانا بھی خلافِ شان تصور کیا جاتا ہے۔ یہ اندازِ زیست ان سے منتقل ہوکر کلرکوں تک پہنچتاہے،اور یہ کلاس جب اپنا آئیڈیل عملی طور پر کہیں نہیں پاتی تو گھر میں بادشاہی کے مزے لوٹتی ہے، اور اب دیکھا دیکھی یہ شان ہر طبقے کی کم زوری بن چکی ہے۔ نتیجتاً کوئی شخص بھی (الا ماشاء اﷲ) انہیں حدود اور اپنے اپنے دائرۂ کار میں اس وقت تک کچھ کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتا، جب تک کہ اس کے سرپر نہ آپڑے اور اس کے علاوہ کوئی چارۂ کارہی نہ رہ جائے۔
یہ صورتِ حالات تو اپنے کام کے بارے میں ہے، رہادوسروں کے کام آنا، تو اس کا تو تصور بھی امرِ محال ہے۔ بلاضرورت اور بے لوث طریقے سے دوسروں کے کام آنے کا تخیل بھی عنقا ہوچکاہے، اور کبھی کہیں کوئی ایسا موقع آجائے تو سب سے پہلے یہی سوال ہوتا ہے کہ ہمیں اس سے کیا فائدہ ہوگا؟ یہ سوداگرانہ ذہنیت ہماری ایک نہیں کئی ایک برائیوں کی جڑہے۔خصوصیت کے ساتھ ہمارا مقتدر طبقہ جس میں حکم ران، اہل ثروت، عمائدین، معززین اورسیاسی شخصیات بھی شامل ہیں اور اہل طریقت بھی اور اہل شریعت بھی یہ سب اگر یہ فیصلہ کرلیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے، آج سے دن میں صرف ایک بار بے لوث طریقے سے کسی کے کام آئیں گے اور پھر اپنے اس نیک عمل کو اپنے ذہن سے مٹادیں گے تو شایدچند ہی روز میں دوسروں کی شکایتیں کرنے والے خود ان کی شان میں رطب اللسان ہوجائیں۔
اس پہلو سے عمل کی راہیں منور کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت شاید ہمارے دین دار طبقے کو ہے، جس کی ذمہ داریاں اس حوالے سے ویسے بھی دوچند ہیں اور ان کا یہ پہلو کئی اعتبار سے کم زور بھی ہے، سو کیوں نہ اس کارِ خیر کا آج ہی سے آغاز کردیا جائے۔
اوپر صرف چند بنیادی پہلوؤں کا ذکر کیا گیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ ایثار ایسی ہمہ جہت صفت ہے کہ زندگی کے ہر شعبے سے اس کا تعلق نکلتا ہے، غور و فکر کے در وا کیجئے اس کی عملی صورتیں خود بہ خود آپ کے سامنے آتی چلی جائیں گی۔ اﷲ تعالیٰ عمل کی راہ آسان فرمائیں، آمین۔
حوالہ جات
۱۔ الحشر:۹__۲۔ مسلم:ج۴،ص۳۵۔ رقم۳۱۲ ۲__۳۔ احمد: ج ۴، ص۶۵۵۔رقم ۱۶۱۴۱__۴: احمد:ج۷،ص۵۴۴۔رقم ۲۶۶۸۴__۵۔ احمد:ج ۱،ص۱۲۸۔رقم ۵۹۷__۶۔ احمد:ج۱،ص ۱۷۱۔رقم ۸۴۰__۷۔ شرح الزرقانی__۸۔ طبقات ابن سعد، ترجمہ خباب__۹۔قاضی عیاض۔ الشفاء__۱۰۔ ابو داؤد۔ کتاب الادب__۱۱۔ ابو داؤد۔ کتاب الادب