عبداللطیف خالد چیمہ
مجلس احرار اسلام اپنے ’’ یوم تاسیس ‘‘(29 ؍دسمبر 1929 ء )سے آج تک ’’نیکی کے ہر کام میں تعاون اور برائی کے ہرکام میں مخالفت‘‘کے اصول پر قائم ہے ،حکمرانوں ، مختلف سیاسی جماعتوں اور ان کی وضع کردہ پالیسیوں کے حوالے سے ہم آج تک الحمد ﷲ ! اِسی اصول پر قائم ہیں ،جو دراصل قرآنی آیت مبارکہ کا مفہوم ہے
وَتَعَا وَنُوْا عَلَی الْبَرِّ وَالتَّقْوٰیوَلَا تَعَا وَنُوْا عَلَی الْاِ ثْمِ وَ الْعُدْ وَان ۔(المائدہ:۲)
ترجمہ : اور تم نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کرو،اور گناہ اور ظلم وزیادتی کے کاموں میں تعاون مت کرو۔
12؍ ربیع الاوّل 1437 ھ ،24 ؍دسمبر 2015 ء ،جمعرات کو چناب نگر (سابق ربوہ)میں مثالی سالانہ ختم نبوت کانفرنس اور کامیاب ترین دعوتی جلوس میں بھی قائدین ِاحرار اور زعماء تحریک ِ ختم نبوت نے یہی پیغام دیا ہے کہ اﷲ کی دھرتی پر اﷲ کے قانون کے نفاذ اور عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کی پرامن جدوجہد کو آگے بڑھانے والے بن جاؤتو امن پا لو گے!آج دنیا ، اِنسا نی (Man Made) قوانین کے ذریعے بری طرح استحصال کا شکار ہے ،بدامنی کا راج ہے اور 68 سالوں سے ہمارے حکمران بھی ہمارا استحصال کررہے ہیں ،سرمایہ پرستانہ نظام کی چکی میں غریب عوام کو مسلسل پیسا جارہاہے ، الیکشن دولت والوں کا کھیل بن کررہ گیاہے ،قومی وبلدیاتی انتخابات کے نتائج وعوامل قوم کے سامنے ہیں ، وزیر اعظم جناب میاں محمد نواز شریف نے مارچ 2012 ء کو معروف صحافی اور روزنامہ ’’ جنگ‘‘کے کالم نگار جناب انصار عباسی کو یہ موبائل مسیج کیا تھا :
“I vow to make Pakistan a true Islamic welfare state if the Almighty Allah blesses me with an opportunity infuture.
ترجمہ:’’میں عہد کرتا ہوں کہ اگر اﷲ تعالیٰ نے مجھے مستقبل میں (حکومت کرنے کا)موقع دیا تو میں پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست بناؤں گا ۔‘‘(روزنامہ ’’جنگ ‘‘لاہور 19 ؍ جنوری 2016 ء)
لیکن صورتحال پوری دنیا کے سامنے ہے اور جناب وزیر اعظم اِس ملک کو ’’ لبرل ‘‘اور پوری سیاسی رجیم وطن عزیز کو ’’ سیکو لر‘‘بنانے کے لیے امریکی ویورپی ایجنڈے کے سامنے سر تسلیم خم کرچکی ہے ، مشرق وسطیٰ میں لگائی گئی آگ ’’پاکستان ‘‘میں دھکیلنے میں کوئی کسر باقی نظر نہیں آ رہی ،اپنی مرضی کا منظر بنوانے کے لیے عالمی استعمار(شیعہ سنی کشیدگی سمیت )ہر حربہ استعمال کررہاہے، بھارتی در اندازی عروج پر ہے ،پے در پے دہشت گردی کے واقعات، قتل وغارت گری ، بے گناہ انسانوں کا خون ! مگر یہ سب کچھ کیوں ہو رہاہے ،ہم اِس کی اصل وجوہ تلاش کرنے کی بجائے کہاں کھوئے ہوئے ہیں ؟ ہمیں ایسے لگتا ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت سیاستدانوں کی قدر مشترک دین دشمنی ہے، جس کے نتائج ریاست اور قوم دونوں کو بھگتنے پڑ رہے ہیں۔سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا قول ہے ’’الملک والدین توامان‘‘ ’’ریاست اور اسلام دونوں جڑواں بھائی ہیں۔‘‘
ہم حکمرانوں اور سیاستدانوں کی خدمت میں بانیٔ پاکستان جناب محمد علی جناح مرحوم کا ایک قول نقل کرنا چاہیں گے تاکہ بات واضح ہو کر سامنے آ سکے کہ قائد اعظم کے فرمودات کی روشنی میں بات کون سا طبقہ کررہا ہے اور مجرمانہ انحراف کون کررہا ہے ؟
’’میں لندن میں امیر انہ زندگی بسر کر رہاتھا ، اب میں اسے چھوڑ کر انڈیا اس لیے آیا ہوں کہ یہاں لا الہ الا اﷲ کی مملکت کے قیام کے لیے کوشش کروں ،اگر میں لندن میں رہ کر سرمایہ داری کی حمایت کرنا پسند کرتا تو سلطنت برطانیہ جو دنیا کی عظیم ترین سلطنت ہے ، مجھے اعلیٰ سے اعلیٰ مناصب اور مراعات سے نوازتی ،اگر میں روس چلا جاؤں یا کہیں بیٹھ کر سو شلزم ، مارکسزم یا کمیو نزم کی حمایت شروع کروں تو مجھے بڑے سے بڑا اعزاز بھی مل سکتا ہے اور دولت بھی ،مگر علامہ اقبال کی دعوت پر میں نے دولت اور منصب دونوں کو پرے دھکیل کر انڈیا میں محدود آمدنی کی دشوار زندگی بسر کرنا پسند کیا ہے ،تاکہ مسلمانوں کے لیے ایک اسلامی سلطنت وجود میں آئے اور اس میں اسلامی قوانین کا بول بالا ہو ،کیوں کہ انسانیت کی نجات اسلامی نظام ہی میں ہے ،صرف اسلام کے علمی ، عملی اور قانونی دائروں میں آپ کو عدل ، مساوات ، اخوت ، محبت ، سکون اور امن دست یاب ہو سکتا ہے۔برطانیہ ، امریکا اور یورپ کے سارے بڑے بڑے سیاست دان مساوات کا راگ الاپتے ہیں،روس کا نعرہ بھی مساوات اور ہر مزدور اور کاشت کار کے لیے روٹی ،کپڑا اور مکان مہیا کرنا ہے، مگر یورپ کے بڑے بڑے سیاست دان عیش و عشرت کی جو زندگی بسر کرتے ہیں ،وہ وہاں کے غریبوں کو نصیب نہیں ، محمد علی جناح کا لباس اتنا قیمتی نہیں ،جتنا لباس یورپ کے بڑے بڑے لوگ اور روس کے لیڈر زیب تن کرتے ہیں ۔نہ محمد علی جناح کی خوراک اتنی اعلیٰ ہے ،جتنی سوشلسٹ اورکمیونسٹ لیڈروں اور یورپ کے سرمایہ داروں کی ہے ، ہمارے پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اﷲ عنہم نے سارا اختیار ہوتے ہوئے غریبانہ زندگی بسر کی ، لیکن رعایا کو خوش اور خوش حال رکھا ۔ میں یہ دیکھ رہاہوں کہ انڈین کا نگریس حکومت بنانے کی صورت میں برطانوی ٹھگوں کو تو یہاں سے نکال دے گی، پھر خود ٹھگ بن جائے گی ،یہ لوگ صرف مسلمانوں کی آزادی ختم نہیں کریں گے ، بل کہ اپنے لوگوں (اچھوتوں )کی آزادی بھی ختم کر دیں گے ، اس لیے ہم سب کو پاکستان کے قیام کے لیے بھر پور کوشش کرنی چاہیے ۔ذرا خیال فرمائیے کہ اگر لا الہ الا اﷲ پر مبنی حکومت قائم ہو جائے تو افغانستان ،ایران ،ترکی ، اردن ، بحرین ، کویت ،حجاز ، عراق ، فلسطین ،شام ،تیونس ،مراکش ، الجزائر اور مصر کے ساتھ مل کر یہ کتنا عظیم الشان اسلامی بلاک بن سکتا ہے ۔اقبال کی طرح میرا بھی یہ عقیدہ ہے کہ کوئی سوشلسٹ یا کمیو نسٹ مسلمان نہیں ہو سکتا ،خواہ وہ پیر ، مولانا ہی کیوں نہ ہوں ،کیوں کہ سوشلزم اور کمیو نزم کے سارے بانی یہودی تھے ،آپ کو سمجھ لینا ہے کہ سوشلزم اور کمیو نزم مسلمانوں کے لیے ایسا زہر ہے ،جس کا تریاق نہیں ۔آپ کبھی نہ بھولیں کہ یہودی، انگریز ،سوشلسٹ ، کمیونسٹ اور ہندو، سب مسلمانوں کو مٹانے کے درپے ہیں۔پاکستان بن جانے کے بعد یہ پاکستان کو مٹانے کی کوشش کریں گے ، آپ کو اس وقت بھی ہوش یار رہنا ہوگا ۔(روزنامہ ندائے ملت ،لاہور15؍اپریل 1970 ء )
آخر میں ہم عرض کرنا چاہیں گے کہ مُقتدر حلقے وطن عزیز پر رحم فرمائیں اور جس مقصد کے لیے یہ خطہ حاصل کیا گیا تھا ،اُس کو نافذ کریں کہ اس کے سوا کوئی چارا ہی نہیں ہے ،ہمارا حال تو ہر حال میں یوں ہے کہ
شکوۂ ظلمت ِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے