تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

حضرت شاہ جی رحمۃ اللہ علیہ

حضرت شاہ جی رحمۃ اللہ علیہ
اہلیہ ڈاکٹر ضیاء الدین (ڈیرہ اسماعیل خان)
گاؤں سے گئے ملتان آئے ہوئے مشکل سے ایک ماہ ہی گزرا تھا کہ ایک دن میاں جی نے گھر آتے ہوئے کہا۔ ’’آپ کو ایک بات بتاؤں؟‘‘ ’’جی بتائیے۔‘‘ ہم نے تجسس سے پوچھا، مگر وہ ٹال گئے۔ دو دن بعد یہی سوال پھر دہرایا گیا۔ ہمیں بڑا تجسس ہوا، آخر وہ کیا بات ہے، جو بتانا بھی چاہ رہے ہیں، مگر بتا بھی نہیں رہے۔ یہ جس وقت کی بات ہے، اس وقت موبائل کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ ایک دوسرے سے خط کے ذریعے حال احوال معلوم کیا جاتا تھا۔ ہوا کچھ یوں کہ گاؤں سے موصول ہونے والے خط میں میرے والد کی وفات کی خبر تھی۔ اس لیے وہ نہیں بتا رہے تھے، اگر نہ بھی بتاتے تو کتنے دن تک مجھ سے چھپاتے۔ آخر ایک دن بتا دیا کہ آپ کے والد محترم اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ہم نے تو رو، رو کر ساری رات گزار دی۔ ایک توو الدین سے جدائی، دوسرا وطن سے دوری….. ادھر بھی کوئی اپنا نہیں تھا، سب غیر، سوائے اللہ کے اور کوئی سہارا۔ میرے میاں جی کے استاد محترم جناب سید ابوذر بخاری ؒ جو کہ سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے بڑے صاحب زادے تھے، فرمانے لگے کہ اپنی اہلیہ کو ہمارے گھر بھیج دیجیے کہ اس کاکچھ غم ہلکا ہو جائے۔ ہم بھی میاں جی کے ساتھ ہو لیے۔ شاہ جی کے گھر میں داخل ہوتے ہی سب گھر والوں نے بڑی خوشی سے استقبال کیا۔ کیا ہی پرکشش منظر تھا! جب شاہ جی عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نے مجھے پیار بھرے لہجے میں تسلی دی کہ بیٹا! میں تیرا ابا ہوں اور یہ (اپنی اہلیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) تیری اماں ہے۔ پھر کہا کہ شاگرد تو اپنے بچوں کی طرح ہوتے ہیں، آپ ہماری بیٹی بھی ہیں بہو بھی… یہ سنتے ہی بے چین دل کو یکایک سکون میسر آگیا۔ یوں لگا کہ کسی نے زخم پر مرہم رکھ دیا ہو۔ دل تشکر کے کلمات سے لبریز ہوا کہ ہمارا بھی کوئی سہارا ہے۔ میں اپنے آپ کو بہت ہی ہلکا پھلکا اور پر سکون محسوس کرنے لگی۔ پورا ایک ہفتہ ادھر ہی قیام کیا۔ میری اس وقت عمر چودہ سال کے لگ بھگ تھی۔ شاہ جی کی اکلوتی بیٹی سیدہ صادقہ بانو ؒ کے ساتھ مل کر خوشی خوشی گھر کا کام کرتی تھی اور قرآن پاک بھی بچوں کو پڑھاتی۔ اماں جی ہم دونوں کو دیکھ کر خوش ہوتیں اور خوب دعائیں دیتیں۔ میاں جی جب لینے کے لیے آئے تو اماں جی کے اصرار پر ایک دن اور گزارنے کی اجازت دے دی، پھر جب گھر جانے کا وقت آیا تو بطور تحفہ دوعدد سوٹ، دیسی گھی، چائے کا ڈبہ، گڑ، خشک میوہ جات کی مٹھائی، چار ٹکیاں صابن اور ساتھ تانگے کا کرایہ بھی۔ اماں جی نے پر خلوص دعاؤں سے رخصت کیا۔
ایک دفعہ شاہ جی کا جلسہ منعقد کیا گیا۔ میں نے اپنی پیاری بہن سیدہ صادقہ بانو اور بہت سی خواتین کے ہمراہ جلسے میں شرکت کی۔ کیا ہی پیارا منظر تھا اور کیا ہی خوب نظارہ تھا۔ بہت ہی کھلا میدان، شامیانے لگے ہوئے تھے۔ کافی لوگوں کا ہجوم تھا۔ شاہ جی منبر پر تشریف لائے اور بڑے پیارے انداز میں خطاب فرمایا۔ جب اختتام ہوا تو بہت سی خواتین ہمیں محبت اور عقیدت سے ملتی رہیں۔ کوئی کہتا کہ یہ بہو ہے، کوئی کہتا نہیں یہ بیٹی ہے، ہم بھی شاہ جی کی اہلیہ جنہیں میں بھی اماں جی کہا کرتی تھی، نے مجھے بیٹی والا ہی پیار دیا اور بیٹی ہی بنا کر رکھا۔ میں کبھی بھی ان کے احسانات اور پیار نہیں بھول سکتی۔ اس وقت میری شادی کو دوسال ہی گزرے تھے کہ اماں جی کو میری فکر ہوئی کہ بیٹی اللہ تعالیٰ تیری گود ہری کرے۔ مجھے پیار بھرے الفاظ میں تسلی دی، تانگے میں اپنے ساتھ بٹھا کر لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے گئیں۔ اماں جی کو دیکھتے ہی لیڈی ڈاکٹر نے کھڑے ہو کر استقبال کیا اور کہا کہ یہ آپ کے نہیں، ہمارے اپنے ہی بچے ہیں۔ یہ ان کا احسان تھا کہ میرے ساتھ گئیں، ورنہ ان کے گھرانے کی خواتین زیادہ تر گھر سے نہیں نکلتیں۔ پھر ان کی دعائیں رنگ لائیں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے خوب صورت اور نیک بیٹے کی ماں بنایا جو کہ شاہ جی کے نواسے سید کفیل احمد شاہ بخاری کا ہم عمر تھا۔ اس وقت میں دو بچوں کی ماں تھی۔ جب شاہ جی کو فالج کا اٹیک ہوا۔ ملنے گئی تو دیکھ کر خوب روتی رہی۔ حضرت شاہ جی کے ساتھ یہ ہی آخری ملاقات تھی۔ اس کے بعد ہم ملتان سے سندھ پہنچے۔ ٹھیک ایک ماہ بعد ہمیں شاہ جی کی وفات کی خبر پہنچی۔ سنتے ہی میرے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔ پھر کچھ نہ پوچھیے میرا حال کیا تھا۔ آج وہی میرا عظیم سائبان منوں مٹی تلے سو گیا، آج تو تسلی دینے والا کوئی ہوتا، آج بھی تو میرے سر پر شفقت کا کوئی ہاتھ پھیرے، آج بھی تو کوئی کہے کہ میں تیرا ابا ہوں۔ اللہ رب العزت کے بعد ایک ہی تو پُرسانِ حال تھا وہ بھی چل بسا۔ روتے روتے آخر کو صبر آہی جاتا ہے، اس کے بعد ہم اپنے گاؤں آگئے۔
وقت کا پہیہ تیزی سے گھومتا رہا۔ کئی برس گزر گئے۔ ایک بار پھر دل مچلنے لگا کی ملتان جا کر اماں جی اور بہن کو تو مل کر آؤں۔ آج سے پچیس سال پہلے بڑے بیٹے غضنفر اللہ کے ہمراہ گئی (ان کا جنوری ۲۰۱۴ء کو انتقال ہوگیا، اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے اور ان کی قبر کو جنت کا باغ بنائے) ملتان پہنچتے ہی شاہ جی کے گھر گئے۔ اماں جی اور بہن نے بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے گلے لگایا۔ گھر میں خوشی کا سماں پھیل گیا۔ ایسے لگا جیسے کافی عرصے سے بچھڑا ہوا بندہ گھر واپس لوٹ آئے۔ کہنے لگے آپ اتنی مدت بعد آئی ہیں، ایک ہفتہ تو ٹھہرنا ہوگا، لیکن وقت کی کمی کے باعث اُن کے پر زور اصرار کے باوجود معذرت کرلی۔ گھر سے رخصت ہوتے وقت ایک عدد سوٹ، ایک گرم شال بطور تحفہ دی اور پر خلوص دعاؤں سے رخصت کیا۔ ان کی محبت کا کیا کہنا… ان کے سلوک اور پیار کو میں آج تک نہیں بھول پائی۔
شاہ جیؒ کے حسن اخلاق کی کیا بات کہ جن کے بارے میں آتا ہے کہ ترکی کے ایک عالم نے خواب دیکھا کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم مع صحابہ کرامؓ گھوڑوں پر سفر پر تشریف لے جا رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ آقا کہا ں کا ارادہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا بیٹا عطاء اللہ شاہ بخاری پاکستان سے آرہا ہے، اُسے لینے جا رہے ہیں۔ ترکی کے یہ عالم دین سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو نہیں جانتے تھے، پاکستان میں وہ صرف حاجی محمد اکرم، سلطان فاؤنڈری لاہور کو جانتے تھے۔ انہیں خط لکھا کہ فلاں رات خواب میں اس طرح دیکھا۔ آپ فرمائیں کہ یہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کون ہیں اور اس رات کیا واقعہ پیش آیا؟ خط پڑھا تو معلوم ہوا خواب کی وہی رات تھی، جس رات سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا وصال ہوا تھا۔ (تذکرہ مجاہدین ختم نبوت صفحہ نمبر ۳۵۴) سبحان اللہ! کتنے عظیم انسان تھے، ان کی کیا ہی نرالی شان تھی۔
یہ تھیں میری دادی اماں کی ایک داستان، جو آپ نے لفظ بہ لفظ انہی کی زبانی سنی، جب بھی دادی اماں اُن کے احوال سناتی ہیں تو دل ماضی میں چلا جاتا ہے۔ کاش کہ ہم بھی دادی اماں کے ساتھ ہوتے اور ایسی عظیم ہستی کا دیدار کیا ہوتا۔ انکی بہن جی کا تحفہ جو کہ گرم شال تھی، وہی دادی اماں نے مجھے عنایت کی ہے۔ ان کے ظرف کی کیا بات…. آج بھی اتنے عرصے بعد قابل استعمال اور جوں کی توں میرے پاس موجود ہے۔ جب بھی پہنتی ہوں تو اُن کے لیے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب ضرور کرتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ اُن سب کی قبروں کو جنت کا باغ بنائے اور ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ دادی اماں آج بھی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اور اُنہی کی دعاؤں کی برکت سے بغیر کسی سہارے اور دوائی کے چل پھر سکتی ہیں اور کھڑے ہو کر نماز ادا کر لیتی ہیں۔ اللہ تا دیر اُن کا سایہ ہمارے سر پر قائم رکھے اور ہمیں بھی ان کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کا خاتمہ ایمان پر فرمائے (آمین)۔ وقت تو بغیر کسی انتظار کیے ہی گزر جاتا ہے اور یادیں ہمیشہ باقی رہتی ہیں۔ خاص کر ایسے عظیم بزرگوں کی۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
سپرد خاک کر دی جائے گی جب زندگی میری
تمہیں پھر یاد تڑپایا کرے گی، ہر گھڑی میری
الجھ کر غم کی دنیا میں، بھٹک جاؤ گے، راہوں پر
تمہیں شام و سحر، محسوس ہوگی، پھر کمی میری
(ہفت روزہ ’’خواتین کا اسلام‘‘، کراچی۔ 19؍ اگست 2015ء)
*۔۔۔*۔۔۔*

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.