’’آبِ شفا‘‘کے نام پر قادیانی فراڈ
(خاص رپورٹ)
سرگودھا، وہاں سے سلانوالی! وہ سڑک جو سلانوالی سے جھنگ جاتی ہے۔ آپ کو بیس میل کے سفر کے بعد پابند کرے گی۔ سڑک کے بائیں جانب کسی کھوکھے، کسی پیڑول پمپ حتیٰ کہ بے آباد جگہ پربھی آپ کو ہوش ربا فراڈ کے آثار سنگ میل بنتے دکھائی دیں گے۔ یہ آثار اور نشانات بڑے سائز، درمیانے سائز اور چھوٹے سائز کی پانی کی وہ بوتلیں ہیں۔ جن کے سفید ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ بڑی، چھوٹی اور درمیانی یہ بوتلیں، جو سفید پلاسٹک سے تیار کردہ ہیں، کسی موٹر سائیکل، کسی چنگ چی رکشے حتیٰ کہ پرائیویٹ گاڑیوں پر سوار ہو کر چک منگلہ (168/171 شمالی تھانہ شاہ نکڈر تحصیل سلانوالی ضلع سرگودھا) کے اس ڈیرے پر پہنچ جاتی ہیں۔ جہاں دوبھائی رائے منیر احمدمنگلہ اور رائے عطاء القدیر منگلہ پسران خضر حیات اپنی ڈیڑھ درجن ٹیم کے ہمراہ بڑی تن دہی سے ان بوتلوں کو اُن پمپوں سے بھر کے دے رہے ہیں جن کی تعداد دو ہے۔ یہ دوپمپ علی الصبح سے رات گئے تک مسلسل چلتے رہتے ہیں۔ بجلی نہ ہونے کی صورت میں پیٹر (جنریٹر) سے ان کی روانی برقرار رکھی جاتی ہے۔ جیسے ہی آپ پانی کے کین بھروانے کے لیے آگے بڑھتے ہیں، دونوں بھائیوں میں سے کوئی ایک نہایت میٹھے لہجے میں کہے گا کہ پانی مفت ہے، البتہ آپ پیڑول سے چلنے والے پمپوں کی مد میں اپنا نذرانہ یا حصہ دے سکتے ہیں جو کہ سو روپے سے لے کر ایک ہزار روپے تک بھی ہوسکتا ہے۔ اگر آپ زیادہ ضعیفُ الاعتقاد واقع ہوئے ہیں تو اِس سے زیادہ دینے میں بھی عار نہیں سمجھیں گے۔ آخر اس پانی میں ہے کیا؟ پنجاب کے چھوٹے بڑے شہروں و قصبوں اور دیہات سے روزانہ ٹنوں کی تعداد میں پانی ڈھونے والے معتقد حضرات کو بتایا گیا کہ اس پانی سے شوگر، جلدی بیماریوں حتیٰ کہ کینسر کا بھی علاج ہوسکتا ہے اور ہو رہا ہے۔ ثبوت کے طور پر آنے والوں کو ایک ڈائری دکھائی جاتی ہے۔ جس میں مختلف لوگوں کے تاثرات ان کے اپنے ہاتھ سے مع موبائل فون نمبر درج ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ اس کے پینے سے ان کی شوگر ختم ہوگئی۔ حتیٰ کہ انسولین کے عادی مریضوں کو انسولین سے نجات مل گئی۔ اگر آپ شکی مزاج واقع ہوئے ہیں تو اِس اسکینڈل کے کرتا دھرتا دونوں بھائی آپ کو ایک نامعلوم لیبارٹری کی رپورٹ دکھائیں گے، جس کے تجزیے سے کیا ظاہر ہوتا ہے، کچھ پتا نہیں چلتا۔
اگر آپ مطالبہ کریں کہ یہ رپورٹ عنایت فرما دیں تو وہ یکسر انکار کر دیں گے۔ آپ رپورٹ کی فوٹو کاپی یا تصویر ہرگز نہیں لے سکتے۔ البیان انوسٹی گیشن ٹیم نے جیسے ہی چک منگلہ سٹاپ سے بائیں جانب مڑنے والے کچے راستے کا رخ کیا، بوتلوں کے ڈھیر بڑھتے چلے گئے۔ تقریباً دو میل کا سفر طے کرنے کے بعد چک منگلہ کو سیدھا کراس کرتے ہوئے ہم اس ڈیرے پر پہنچے۔ جہاں پانی بھرنے والوں کا ایک جم غفیر تھا۔ دھان کے کھیتوں کے کنارے، ہری بھری فصلوں کے بیچوں بیچ ڈیرے میں پیپل کا ایک قدیم درخت ایستادہ تھا۔ جس کے نیچے پانی کے موٹر پمپ لگے ہوئے تھے۔ آگے بنے چوبچے میں ضعیف الاعتقادی کی ماری کچھ عورتیں پانی کی دھار کے آگے نہا رہی تھیں۔ ان کے ’’پوتر غسل‘‘ کی فلم بندی اس کیمرے سے ہو رہی تھی جو بلندی پر نصب تھا اور درخت کی شاخوں کے پیچھے عام نگاہوں سے اوجھل تھا۔ کچے راستے کے کنارے بہنے والے کھال کے اوپر چائے کا ایک کھوکھا بھی تھا۔ جہاں سے زائرین اپنی بھوک پیاس مٹا رہے تھے۔ جیسے ہی ’’البیان‘‘ کی ٹیم کے کیمرہ مین نے تصاویر لینا شروع کیں، ایک آدمی نے کہ جس نے گلے میں ’’انچارج ڈیرہ‘‘ کا بیج لٹکا رکھا تھا۔ آگے بڑھ کر کیمرہ مین کو دھمکاتے ہوئے تصویریں لینے سے منع کیا۔ اس دوران ان کی ٹیم کے ایک اور آدمی نے ڈیرے کے مالک رائے عطاء القدیر کے کان میں سرگوشی کی۔ اس نے ہماری طرف دیکھا اور کہا کہ اگر آپ میڈیا سے ہیں تو آئیے بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ اس نے اپنے آدمیوں کو بائیں جانب کھڑے آم کے ایک بہت بڑے درخت کے نیچے چار پائیاں بچھانے کو کہا اور اپنی فرشی نشست سے اٹھ کر ہمارے قریب آگیا۔ اس کے ایک اشارے پر چائے کے کھوکھے سے آناً فاناً چائے آگئی۔ ہمارے استفسار پر کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ اس پانی میں شفا کا کیا راز ہے؟ آپ خود کون ہیں؟ رائے عطاء القدیر نے بڑے فخریہ لہجے میں بتایا کہ ان دونوں بھائیوں کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے۔ یہ ڈیرہ خود اُنہی کی ملکیت ہے اور وہ خود اِس گاؤں منگلہ 168/171 شمالی کا نمبردار ہے۔ اس نے جس دھڑلّے سے خود کو جماعت احمدیہ سے متعلق ظاہر کیا، اس نے البیان انویسٹی گیشن ٹیم کو ششدر کر دیا، کیونکہ عام طور پر قادیانی حضرات اپنی شناخت چھپاتے ہیں۔ پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ وہ یہاں کے قدیمی رہائشی ہیں۔ قادیانی ہونے پر اُن کے جان ومال کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ گاؤں کے مسلمان ان سے اچھا سلوک اس لیے بھی کرتے ہیں کہ یہاں گاؤں میں احمدی اکثریت میں ہیں۔ یعنی کل آبادی کا تین چوتھائی حصہ۔ کیا وہ پہلے مسلمان تھے اور بعد میں قادیانی ہوگئے؟ اس سوال کا جواب دینے سے اس نے گریز کیا اور کہا کہ وہ خدمت خلق کر رہے ہیں۔ اس پانی میں معجزہ ہے اور لوگ دھڑا دھڑ اِس سے شفایاب ہو رہے ہیں۔ اس کے بقول نہ صرف پنجاب بھر میں لوگ شب و روز یہ پانی لے جا رہے ہیں بلکہ اسے ٹرین کے ذریعے کراچی بھی بھیجا جاتا ہے اور جلد ہی باہر کے ملکوں میں بھی جانے لگے گا۔ اپنی بات کی تائید میں اس نے وہ ڈائری بھی دکھائی۔ جس میں ان لوگوں کے تاثرات درج تھے جو یہاں سے پانی بھر کے لے گئے تھے اور ان ’’احمدی‘‘ لوگوں کے بقول شفا یاب ہوگئے تھے۔
یہ سلسلہ آخر کہاں سے شروع ہوا تھا؟ اس سوال کے جواب میں رائے عطاء القدیر قادیانی نے کہا کہ دو برس پہلے اسی ڈیرے پر پیپل کے درخت کے نیچے نلکا (ہینڈ پمپ) لگا ہوا تھا۔ شوگر کی ایک مریضہ نے پیا تو اُس کو شفا ہوگئی، پھر یہ بات پھیل گئی اور ایک سال کا عرصہ ہوا کہ لوگ صبح شام رات جوق در جوق آرہے ہیں۔ ہم نے عوام کی سہولت (یا اپنے کاروبار؟) کے لیے ہینڈ پمپ کی جگہ موٹر سے چلنے والے یہ دو پمپ لگا دیے ہیں اور اپنی (درجن سے زائد) ٹیم کے ساتھ دن رات لوگوں کو پانی بھر بھر کے دے رہے ہیں۔ جب پانی کی شفایابی والی تاثیر پر اُن سے سوال کیا گیا کہ آپ نے یہ بورڈ لگا رکھا ہے۔ اور پروپیگنڈہ ہو رہا ہے کہ 41 دن مسلسل پانی پینے سے شفا ہوگی، اس کا آپ کیا جواز پیش کرتے ہیں تو اُن کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ اس سوال کے جواب کہ آپ زمیندارہ چھوڑ کر اور درجن بھر بندوں کے ساتھ سینکڑوں لٹر پیڑول پھونک کر اپنے اخراجات کس طرح پورے کرتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ وہ کارِ ثواب کر رہے ہیں۔ اُن کی خدمت خلق کمیٹی پندرہ افراد پر مشتمل ہے۔ پانی مفت دے رہے ہیں۔ البتہ پیٹرول کے نذرانے کی درخواست کرتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پانی بھرنے کے لیے آنے والوں کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے پٹرول کی مد میں لوگوں سے لیا جانے والا یہ نذرانہ تقریباً ایک لاکھ روپے روزانہ ہے۔ اگر پانی کے کین تیار کرنے والی فیکٹری کے ساتھ اُن کا گٹھ جوڑ ہے تو گاؤں کی مسلمان آبادی کے مطابق اس فیکٹری نے گزشتہ ششماہی میں 14 کروڑ روپے سے زائد کے کین اس علاقے میں اس مقصد کے لیے فروخت کیے ہیں۔ رائے عطاء القدیر جو خود کو گاؤں منگلہ کا نمبردار کہتا ہے، اس کے مطابق اس ڈیرے کے لیے دونوں بھائیوں کو کسی نے پندرہ لاکھ روپے ماہانہ ٹھیکے کی پیش کش کی ہے جو اُس نے مسترد کردی ہے۔ (ظاہر ہے کہ اگر ایک لاکھ روپے روزانہ کمائی ہو رہی ہے تو آدھی قیمت پر کون بے وقوف دے گا؟) اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ میڈیا والے آتے ہیں اور پیسے مانگتے ہیں۔ ہم دونوں بھائی کہتے ہیں کہ پیسے نہیں دیں گے ہمت ہے تو جو سچ ہے وہ لکھو۔البیان انوسٹی گیشن ٹیم نے دونوں بھائیوں کا یہ چیلنج قبول کیا اور سچ کی تلاش میں گاؤں کے معززین سے رابطہ کیا۔ جن میں مقامی مسجد کے امام جناب امیر راشد، کونسلر منظور احمد، قاری حفیظ اللہ صاحب، حکیم ضیاء اللہ، اظہار الحق، ماسٹر مقیت اللہ، اکرام الحق، عامر ممتاز اور دیگر اہل دیہہ تھے۔
ہمارے بات کرنے کی دیرتھی کہ گویا سارا گاؤں جمع ہوگیا۔ جب اُن سے پانی کے بارے میں سوال کیا گیا تو وہ پھٹ پڑے۔ تقریباً سبھی نے یک زبان ہو کر کہا کہ یہ دونوں بھائی فراڈ کر رہے ہیں۔ عام سے سادہ پانی کو اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ’’آب شفا‘‘ بنا دیا اور سادہ لوح عوام سے پٹرول کے نام پر نذرانے کی صورت میں لاکھوں روپے بٹو رہے ہیں۔ مقامی جامع مسجد کے خطیب صاحب نے کہا کہ یہ قادیانی مسلمانوں کے عقیدے اور اُن کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔ ان کے مطابق دونوں بھائی مبینہ طور پر کہتے ہیں کہ آپ مسلمانوں نے ہمیں خانہ کعبہ جانے، وہاں حج کرنے اور زم زم پینے سے منع کر رکھا ہے، چنانچہ اللہ نے ہمیں یہیں پر ’’آب زم زم‘‘ دے دیا ہے۔ ان لوگوں نے کیمرہ لگا رکھا ہے اور سارے دن کی فلم بندی کو اِنٹرنیٹ پر جاری کر کے دنیا بھر سے عطیات بھی لے رہے ہیں اور اپنے غیر ملکی آقاؤں کو یہ پیغام بھی دے رہے ہیں کہ پانی بھرنے کے لیے آنے والے سبھی لوگ قادیانی مسلک سے متاثر ہیں۔ جب گاؤں کے ان سرکردہ افراد سے پوچھا گیا کہ کیا منگلہ میں واقعی احمدیوں کی آبادی تین چوتھائی ہے تو انہوں نے سختی سے اس بات کی تردید کی اور کہا کہ یہ کل آبادی کا نواں حصہ ہیں۔ گاؤں والوں نے یہ بھی بتایا کہ ان دونوں احمدی بھائیوں کے دادا پردادا اصلی مسلمان تھے۔ ان کے باپ اور انہوں نے قادیانیت اختیار کی اور قادیانیوں کے ایجنٹ بن کر بہت سے لوگوں کو یورپ، امریکہ کے ویزے لگوا کر دیے۔ یورپ جانے والے نوجوانوں کی شادیاں قادیانیوں سے کروائیں اور یوں گاؤں میں ان کی آبادی ذرا سی بڑھ گئی مگر اب بھی مسلمان یہاں اکثریت میں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ رائے عطاء القدیر گاؤں کے نہیں، صرف احمدی آبادی کے نمبردار ہیں۔ مسلمانوں کا نمبردار الگ ہے۔ ایک سوال کے جواب میں گاؤں کے معززین نے کہا کہ غیرت ایمانی کے تحت مسلمان نوجوانوں نے دونوں قادیانیوں سے کہا کہ آپ اس سادہ پانی کو ’’آب زم زم‘‘ سے تشبیہ نہ دیں تو جھگڑا ہوتے ہوتے رہ گیا۔ ہم نے نوجوانوں کو منع کیا کہ اگر ان کو مارا پیٹا گیا تو یہ انٹرنیٹ کے ذریعے یورپ، امریکہ سے فریادیں لگائیں گے۔ یہ انتظامیہ کا فرض ہے کہ وہ اس فتنہ کو پھیلنے سے روکے۔ ہم نے اپنی حد تک یہاں تین روزہ رد قادیانیت کورس رکھوایا تھا اور 25,26,27 جولائی 2015ء کو یہاں چک منگلہ میں سرگودھا سے علماء تشریف لائے تھے اور انہوں نے مسلمانوں کی رہنمائی کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف سادہ عام سا پانی ہے اور مسلمان ان قادیانیوں کے چکمے میں نہ آئیں۔ گاؤں کی مسلمان آبادی نے آج تک اس پانی کو چکھا بھی نہیں۔ قادیانی اس پانی سے شوگر کے علاج کا ڈھونگ رچا رہے ہیں۔ انتظامیہ کے حوالے سے جب گاؤں والوں سے پوچھا گیا کہ کیا مقامی پولیس کو اس واقعہ کا علم نہیں ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ تھانہ شاہ نکڈر کی پولیس روزانہ دو تین بار ڈیرے پر چکر لگاتی ہے اور مبینہ طور پر اپنا حصہ وصول کر کے چلی جاتی ہے۔
چک منگلہ میں مضر صحت پانی کو ’’آب شفا‘‘ کا نام دے کر پیسہ بٹورنے کے اس واقعے کے متعلق جب نمائندہ ’’البیان‘‘ پاکستان نے ڈی سی او سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ تا حال ایسا کوئی واقعہ ان کے علم میں نہیں ہے، البتہ وہ اپنے سٹاف کی ڈیوٹی لگا رہے ہیں کہ وہ اس واقعے کی مکمل چھان بین کر کے ان کو اطلاع کرے۔ اگر عوامی مفاد کے خلاف کوئی حرکت پائی گئی تو عوام سے دھوکا دہی کے مرتکب افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا اور ذمہ داروں کو کڑی سزا دی جائے گی۔
انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹ کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی مولانا محمد الیاس چنیوٹی کا کہنا تھا کہ یہ آب شفا کے نام پر زبردست دھوکہ اور فراڈ ہے اور سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنانے کی گھناؤنی حرکت ہے۔ قادیانی چک منگلہ میں جو کچھ کر رہے ہیں۔ حکومت کو اُس کا نوٹس لینا چاہیے۔
(روزنامہ ’’البیان‘‘، فیصل آباد۔ 2؍ اکتوبر 2015ء)