نجم الحسن عارف
عاشقِ ختمِ نبوّت عابد ہاشمی، غیر انسانی سلوک کا نشانہ
قادیانیوں کو اپنی دکان پر آنے سے منع کرنے کے لیے پوسٹر لگانے والے حفیظ سنٹر لاہور کے تاجر عابد ہاشمی کو پولیس حکام نے تقریباً تنتالیس گھنٹے تک مکمل بھوکا اور پیاسا رکھا۔ جب کہ رات کو سونے کے لیے ایک چادر تک نہیں دی گئی۔ بڑا ’’مجرم‘‘ ثابت کرنے کے لیے متعلقہ تھانے کے بجائے پویس زیرِ حراست تاجر کو کبھی ایک اور کبھی دوسرے تھانے میں لے جاتی رہی۔ رہائی کے بعد تاجروں نے عابد ہاشمی کا ایک ہیرو کے طور پر والہانہ استقبال کر کے اس سے اظہارِ یکجہتی کیا۔ پھولوں کے ہار پہنائے اور کندھوں پر بٹھا لیا۔ ضمانت پر رہائی کی درخواست دائر کرنے کے لیے حفیظ سنٹر کی انجمن تاجران نے خود وکیل اور اس کی فیس کا بندوبست کیا۔ اب پولیس ایک دوسرے تاجر نعمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی ہے۔ نعمان ولد رفیق الحسن پر بھی الزام ہے کہ اس نے اپنی دکان میں قادیانیوں کی آمد کو روکنے اور ان سے تجارتی لین دین نہ کرنے کے لیے تحریری اعلان آویزاں کیا ہے۔
دستیاب اطلاعات کے مطابق گزشتہ سترہ برسوں سے موبائل فونز کے کاروبار سے منسلک عابد ہاشمی کو پولیس نے ہفتے کی شام اس وقت ایک ریستوران سے گرفتار کیا، جب وہ اپنی دکان احمد موبائلز پر کام کرنے والے معاون حافظ محمد قدیم کے ساتھ سوپ پینے کے لیے موجود تھے۔ پولیس عابد ہاشمی اور ان کے معاون کو گرفتار کر کے گلبرگ تھانے کی بجائے ماڈل ٹاؤن لے گئی جہاں رات تین بجے تک جگائے رکھنے کے علاوہ انھیں بھوکا پیاسا بھی رکھا گیا۔ جب کہ تفتیش کے بعد عابد ہاشمی کو حوالات سے ریکارڈ روم میں منتقل کر دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق سخت سردی کی اس رات میں پولیس حکام نے قادیانیو ں سے نفرت کے الزام میں پکڑ کر لائے گئے تاجر عابد ہاشمی اور ان کے ملازم کو کوئی کمبل یا بستر تو درکنار عام چادر تک فراہم نہیں کی۔ بعد ازاں رات کے پچھلے پہر تین بجے پولیس حکام نے دونوں افراد کو انوسٹی گیشن سنٹر سے تھانہ کاہنہ میں منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔ پولیس نے یہاں بھی اتوار کا سارا دن دونوں کو بھوکا پیاسا رکھا۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ کوئی پولیس اہلکار یہ ’’رسک‘‘ لینے کو تیار نہیں تھا کہ اعلیٰ حکام تک یہ بھنک پہنچے کہ ایک مذہبی خیالات کے حامل شخص اور اس کے ملازم کو اہلکاوں نے کوئی سہولت دی ہے یا کھانا کھلایا ہے، کیونکہ خدشہ تھا کہ اس طرح ان کے لیے بھی مشکل پیدا ہو سکتی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ تھانہ کاہنہ میں دونوں حراست میں لیے گئے افراد کا اسی انداز سے ریکارڈ اور فنگر ٹپس مکمل کیے گئے جس طرح بڑے نامی گرامی مجرموں اور دہشت گردوں کے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔ تاہم پولیس نے کوئی جسمانی تشدد نہیں کیا۔ واضح رہے کہ لاہور کی تقریباً ہر مارکیٹ میں قادیانیوں کے سماجی اور تجارتی بائیکاٹ کے حوالے سے اسٹیکر لگے ہوئے ہیں۔ لیکن اس واقعہ کا سبب خود ایک قادیانی دکان دار بنا، جو عابد ہاشمی اور بعض دوسرے دکاندارووں کو اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر قادیانیت کی تبلیغ کرتا رہتا تھا۔ جس کے ردِّ عمل میں ان دکانداروں نے مارکیٹ کے دوسرے افراد کو باخبر کرنے کے لیے ایسے اسٹیکر آویزاں کیے، جن میں قادیانیوں کے بائیکاٹ اور ان کے دکانوں میں داخلے کی ممانعت کے لیے کہا گیا ہے۔ اس حوالے سے ’’اُمّت‘‘ نے انجمن تاجران حفیظ سنٹر کے صدر فیاض بٹ سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ: ’’مقدمہ تو اس قادیانی کے خلاف بننا چاہیے تھا جو مسلمانوں کو مرتد بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔ لیکن پولیس نے مقدمات مسلمانوں کے خلاف بنانا شروع کر دیے ہیں، ہم نے اس پر سخت احتجاج کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر پولیس نے اپنا رویہ نہ بدلا تو پورے شہر کے تاجر مل کر احتجاج کریں گے کہ یہ ہمارے عقیدے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا معاملہ ہے۔ اس پر اپنی جان بھی قربان کرنے کو تیار ہیں، کاروبار تو کوئی معنی نہیں رکھتا۔‘‘
’’اُمّت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ عابد ہاشمی اورا ن کے ساتھی حافظ محمد قدیم کو ہفتے کی شام ایک ریستوران سے حراست میں لینے سے دو روز قبل ٹی ایم او کے نام کا ذکر کرنے والے ایک شخص نے دکان پر آ کر کہا تھا کہ اسے ٹی ایم او کے دفتر سے بھیجا گیا ہے تاکہ دیکھے کہ آپ نے قادیانیوں کے بارے میں کیا لکھ کر لگا رکھا ہے۔ دو روز بعد پولیس نے گرفتار کیا تو مقامی تاجروں نے پولیس حکام سے کہا کہ یہ کوئی ایسا بڑا جرم نہیں ہے جس پر آپ ایک تاجر کو گرفتار کریں یا مقدمہ بنائیں۔ اس کے لے زیادہ سے زیادہ ایک انتباہ کریں اور انھیں چھوڑ دیں۔ لیکن پولیس نے ان کی نہ سنی۔ پولیس نے دو دنوں تک ان دونوں افراد کو حراست میں رکھا۔ لیکن بعد میں عدالت میں صرف دکان کے مالک عابد ہاشمی کو پیش کیا گیا، جب کہ دکان پر بطور ملازم کام کرنے والے حافظ قدیم کو عدالت میں پیش کرنے سے پہلے ہی اچانک رہا کر دیا۔ البتہ عابد ہاشمی کے خلاف گلبرگ تھانے میں منافرت پھیلانے کے جرم میں ایف آئی آر نمبر 2093میں دفعہ 295اے اور سولہ ایم پی او کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ عابد ہاشمی اور نعمان رفیق ان دنوں حفیظ سنٹر سے متصل حسن ٹاور میں اپنی الگ الگ دکانیں چلا رہے ہیں۔ پولیس کی طرف سے مدعی بننے والے پولیس اہلکار ملک اعجاز نے ’’اُمّت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اس گرفتاری سے پہلے حفیظ سنٹر کی انجمن تاجران کے صدر یا کسی دوسرے عہدیدار سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ کیونکہ یہ معاملہ حکامِ بالا کے علم میں آ چکا تھا اور انھی کے حکم پر کارروائی عمل میں آئی ہے۔ دکانداروں نے قادیانیوں کے بارے میں اسٹیکرز پر کتوں کا لفظ بھی لکھ رکھا تھا۔
پولیس کی حراست سے ضمانت پر رہائی پانے والے عابد ہاشمی نے ’’اُمّت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ: ’’مجھے گرفتار کرنے والوں نے بار بار پوچھا کہ میرا تعلق کس جماعت سے ہے لیکن میں نے کہا کہ آپ میرا ریکارڈ چیک کر لیں، میں ایک عام مسلمان ہوں۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ میں اپنے والدین کی تربیت کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت و محبت کو ایمان کا حصہ سمجھتا ہوں۔ اس لیے نبی آخر الزماں کے باغی قادیانیوں کو اپنے گھر میں آنے کی اجازت دیتا ہوں نہ دکان پر اور نہ ہی ان کے ساتھ کوئی سماجی یا تجارتی لین دین کرنے کو درست سمجھتا ہوں۔‘‘ ایک سوال پر عابد ہاشمی نے کہا کہ : ’’امریکہ میں اگر یہ حق قانون دیتا ہے کہ آپ کسی مسلمان کے ساتھ ڈیلنگ نہ کرنا چاہیں تو نہ کریں، تو ہمیں پاکستان میں یہ حق کیوں نہیں کہ ہم بھی جس کے ساتھ چاہیں کاروبار کریں اور جس کے ساتھ چاہیں نہ کریں۔ میں سترہ اٹھارہ سال سے کاروبار کر رہا ہوں۔ میں تجارت کو سمجھتا ہوں، لیکن ایمان کو نہیں بیچ سکتا۔ جب میں نے پولیس والوں سے کہا کہ میں بس ایک عاشقِ رسول ہوں، اس کے علاوہ کچھ نہیں تو وہ چپ ہو جاتے تھے۔‘‘
دوسری جانب مجلس احرار اسلام پاکستان کے سیکرٹری جنرل عبداللطیف خالد چیمہ نے اس واقعے کے بارے میں ’’اُمّت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ: ’’معصوم مسلمانوں کی وطن عزیز میں گرفتاریوں کا سلسلہ اسی منصوبے کا حصہ ہے، جس کے تحت حکومت آئین سے تحفظ ختمِ نبوّت اور ناموسِ رسالت سے متعلق دفعات کو حذف کرنا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے انتظامیہ حکومتی ہدایات کی روشنی میں مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے۔ لیکن عجب بات ہے کہ اپنے کارباروی لین دین میں قادیانیوں کو شریک نہ کرنے والا تو گرفتار ہو جاتا ہے، لیکن جو قادیانی پاکستان کے آئین کو مانتے ہیں نہ ملکی قوانین کو، انھیں گرفتار کیا جاتا ہے نہ ان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا جاتا ہے۔ قادیانیوں کے سماجی و تجارتی بائیکاٹ کا فتویٰ تمام مکاتب فکر کے علماء کا متفقہ فیصلہ ہے۔ اس لیے جو اس فتوے پر عمل کرتا ہے، وہ غلط نہیں کرتا۔‘‘
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق تاجر نعمان رفیق الحسن کی ضمانت قبل از گرفتاری بھی منظور ہو گئی ہے۔
(مطبوعہ: روزنامہ ’’اُمّت‘‘کراچی، ۱۶؍ دسمبر ۲۰۱۵ء)