حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ
دینی مدارس کی قدرومنزلت
حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن وحدیث کی تعلیم کا آغاز ایک ایسے چبوترے سے کیا تھا جس کے اوپر چھت بھی نہیں تھی، مطبخ تو بڑی بات ہے لوگ کھجور کے خوشے ایک جگہ آویزاں کردیا کرتے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حسبِ ضرورت چند کھجوریں کھا کر باقی دوسروں کے لیے چھوڑ دیا کرتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بعض اوقات شدتِ بھوک کی وجہ سے بے ہوش ہو کر گرجایا کرتے تھے فرماتے ہیں کہ لوگ سمجھا کرتے تھے کہ مرگی کا دورہ پڑگیا ہے ، جس کی وجہ سے لوگ میری گردن پر پاؤں رکھ کر (بطور علاج) گزرا کرتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم! مرگی نہیں ، بلکہ سخت بھوک کی وجہ سے بے ہوشی طاری ہوا کرتی تھی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ عظیم قربانیاں دے کر دین ہم تک پہنچایا، یہی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہ انھیں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طویل صحبت میسر نہیں آئی۔ ۷؍ہجری میں غزوہ خیبر کے موقع پر مشرف باسلام ہوئے اور ۹ ہجری میں آفتابِ نبو ت غروب ہوگیا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس مختصر ترین مدت میں بہت زیادہ کسبِ فیض کیا، بلکہ کثرتِ روایت کے اعتبار سے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نمایاں نظر آتے ہیں۔ مرویاتِ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی تعداد ۵۳۶۴ ہے، جو سب سے زیادہ ہے۔ آج یہ سادہ سے مدارس جو نظر آرہے ہیں، اگرچہ بے رنگ ہوں، بیٹھنے کے لیے بورے بھی میسر نہ ہوں لیکن اس میں بیٹھ کر علومِ قرآنی وحدیث حاصل کرنے سے حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو ایک نسبت قائم ہوجاتی ہے یہ اتنی بڑی نعمت ہے کہ جس کا حق اور شکر ادا نہیں ہوسکتا۔
دین ہم تک کیسے پہنچا:
دین ہم تک اس طرح پہنچا ہے کہ ہر کسی نے باادب ہو کر زانوئے تلمذ تہہ کرکے ان اساتذہ سے سیکھا جن کی سند رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک متصل ہے۔ کتاب کا آپ خود مطالعہ کر لیجئے ایک کتاب کسی کامل استاذ سے پڑھ لیجئے جس کا سلسلۂ سند حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہو، دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہوگا، آج کل اسٹیڈی (مطالعہ) کرنے کا رواج اور وبا پھیلی ہوئی ہے، مطالعہ کرنے کا بڑاشوق ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اجتہادات کا ایک باز ار گرم ہے۔ یاد رکھیے! اگر علم کا حاصل ہونا صرف مطالعہ کے ذریعے بغیر کسی استاذ کے ممکن ہوتا تو آسمانی کتابوں کے ساتھ کسی رسول کو بھیجنے کی حاجت نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی مشکل نہ تھا کہ کسی رات ہر مسلمان کے سرہانے قرآن پاک کا ایک ایک عمدہ نسخہ اور خوبصورت جلد میں مجلد رکھ دیا جاتا اور غیب سے یہ آواز لگادی جاتی کہ اسے پڑھو او راس پر عمل کرو! لیکن ایسا نہیں ہوا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے ساتھ شارحِ قرآن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا اور فرمایا: ’’یُعَلِّمُھُمْ الْکِتَابَ‘‘ تاکہ وہ پیغمبر کتاب کی ان کو تعلیم دیں، ایسا تو ہو اہے کہ انبیاءِ کرام علیہم السلام تشریف لاتے، مگر کتاب نہیں تھی لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کتاب بغیر صاحبِ کتاب کے نازل ہوئی ہو۔ وجہ یہ ہے کہ کتاب بغیر معلم ومربیّ کے انسان کی ہدایت کے لیے کافی نہیں، اگر انسان کتاب کا خود مطالعہ کرتا تو جب اسے مطلب سمجھ نہ آتا تو گمراہ ہوجاتا۔
اس کی مثال توایسے ہے کہ ایک آدمی علمِ طب پر لکھی ہوئی کتب کا خود مطالعہ کر کے مطب کھول کر بیٹھ جائے تو سوائے اس کے کہ وہ قبرستان آباد کرے، انسانیت کی کوئی خدمت انجام نہیں دے سکتا، کسی ڈاکٹر سے یہ علم حاصل کرنا پڑے گا، اس کے سامنے زانوئے تلمذتہہ کرنے پڑیں گے، وگرنہ حکومت بھی اس کی اجازت نہیں دے گی، یہی معاملہ دین کا بھی ہے کہ اسے سیکھنے کے لیے کسی کامل مُربی ومُعلّم کے پاس رہنا ہوگا، وگرنہ گمراہی کے سواکچھ حاصل نہیں ہوگا، ان مدارس کی قدر پہچانئے، ان کی بدولت اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہے اور دین اپنی اصلی شکل میں محفوظ ہے، اُن ممالک میں جا کر دیکھئے جہاں یہ مدارس ختم کردیئے گئے، ان کا بیج ماردیا گیا، وہاں بے دینی کا سیلاب امڈرہا ہے اور کوئی بندباندھنے والا نہیں۔ بقول ہمارے حضرت علی میاں رحمتہ اللہ علیہ کے:’’ردہ ولاابابکر لھا‘‘ ارتد ادکابازار گرم ہے، لیکن کوئی ابوبکر رضی اللہ عنہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے دنیا کے بیشتر اسلامی ممالک میں جانے اور وہاں کے اہلِ علم اور دینی حلقوں سے ملاقات کا موقع عطا فرمایا، پہلے تو تقلیداً یہ بات سمجھتا تھا کہ یہ مدارس جن کا تعلق حضراتِ علماء دیوبند سے ہے، ہمارے لیے بہت بڑی نعمت ہیں، لیکن ان ممالک میں حالات دیکھنے کے بعد تحقیقاً یہ سمجھا ہے کہ دین کی حفاظت،تحفظ کا ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ان دینی مدارس کو بنایا ہوا ہے، خواہ بہ ظاہر یہ کتنے ہی سادہ کیوں نہ ہوں؟ معاشرے پرا ن کی برکات واثرات الحمدللہ!آج بھی نمایاں ہیں جہاں یہ مدرسے نہیں، وہاں بے عملی وبے راہ روی کی عجیب و غریب شکلیں اور مناظر دیکھنے میں آئے۔
یہ مناظر بھی دیکھے گئے کہ منہ میں سگریٹ، گلے میں ٹائی ، کلین شیو اور انگریزی لباس زیب تن کیے ہوئے ایک آدمی بخاری شریف پڑھا رہا ہے، یہ مناظر بھی دیکھنے گئے کہ درس بخاری کا ہورہا ہے لیکن نماز پڑھنے کا سوال ہی نہیں یہ منظر بھی دیکھا گیا کہ مردوزن باہمی مخلوط بیٹھے ہیں اور اسلامی تعلیمات کا درس ہورہا ہے کیا کیا بتاؤں یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھاہے۔
آج سے کچھ عرصہ قبل مجھے عراق جانا ہوا، آج تو وہاں ایک طوفان برپا ہے وہاں میں نے بعض دوستوں سے کہا کہ اگر کوئی پرانی طرز کا عالم ہوتو اس کی زیارت کو جی چاہتا ہے۔ یہ تقاضا اس لیے پیدا ہوا کہ وہاں ایسے علما وصلحا کا بیج ماردیاگیا ہے تو کسی نے بتایا کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار کے قریب ایک مدرسہ میں پرانی طرز کے بزرگ ہیں، آپ ان سے ملاقات کیجئے۔ میں وہاں پہنچا جا کر دیکھا تو واقعی ایک بزرگ جن کی چال ڈھال میں، اندازِ گفتگو میں، نشست برخاست میں اَسلاف کی جھلک نظر آئی۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا: آپ پاکستان میں کیا کرتے ہیں؟ میں نے کہا کہ کراچی میں ہمار ایک دارالعلوم ہے، اس میں پڑھنے پڑھانے کا کچھ سلسلہ ہے، انھوں نے پوچھا: وہ کون سی یونیورسٹی سے متعلق ہے؟ میں نے کہا: ہمارے ہاں! یہ سلسلہ نہیں ہے بلکہ عوامی قسم کے مدارس ہیں، انھوں نے حیران ہو کر پوچھا: کیا تمہارے ہاں عوامی قسم کے مدارس ہیں؟پھر خود ہی فرمایا: ہم تو اس قسم کے تصور کو بھول گئے، آپ پر تواللہ تعالیٰ کی یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ پھرپوچھا: وہاں کیا پڑھاتے ہو؟ میں نے مدارس میں پڑھائی جانے والی چند کتب کانام لیا مثلاً شرح جامی اور سُلَّم وغیرہ جب شیخ نے ان کتب کا نام سنا تو ان کی چیخ نکل گئی، پھر فرمایا: میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ جب تک تمہارے دم میں دم ہے اس طریقِ کار اورنصابِ تعلیم کونہ چھوڑنا کیونکہ ہمارے ہاں عراق میں جب اس نصاب کی کتابیں زیرِتعلیم تھیں تو فضا کچھ اور تھی اور جب سے یونیورسٹیوں کا نظام رائج ہوگیا اور دینی کتب چھوڑدی گئیں اس وقت سے فضا بالکل تبدیل ہوگئی پھر فرمایا: کسی زمانہ میں ہم بھی یہ کتابیں پڑھاتے تھے اس وقت علماء متبع سنت اور دینی جذبہ رکھنے والے پیدا ہوتے تھے بعد میں تمام مدارس سرکار کی تحویل میں لیے گئے جس کانتیجہ یہ نکلا کہ اس وقت سے سرکاری مولوی پیدا ہونے لگے۔‘‘
ان ممالک میں گھومنے پھرنے کے بعد یہ احساس مزید پختہ اور قوی ہوگیا کہ یہ مدارس جن کا سلسلہ ماضی قریب میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ سے جڑا ہوا ہے او رپھر بالآخر سند متصل کے ساتھ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملتا ہے ایسی نعمتیں اور احسان ہے کہ جس پر شکرادا نہیں ہوسکتا۔
ایک مرتبہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدزکریا کاندھلوی قدس سرہ دارالعلوم کراچی تشریف لائے (یہ اللہ کے بندے اخلاص کے پیکر عنداللہ اتنے مقبول و منظور تھے کہ ان کی تصنیف شدہ کتب ’’فضائلِ اعمال وفضائلِ صدقات‘‘ چوبیس گھنٹوں میں سے کوئی لمحہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں دنیا کے کسی نہ کسی حصہ میں پڑھی نہ جاتی ہوں) ہم نے عرض کیا کہ حضرت نصیحت فرمادیجئے ، تقریر کرنے کا تومعمول نہ تھا، صرف ایک جملہ ارشاد فرمایا: ’’طالب علمو! اپنی حقیقت پہچانو! اپنی قدر پہچانو!‘‘ اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ بعض اوقات تمہارے دلوں میںیہ خیال پیدا ہوجاتا ہے کہ ہم تویوں ہی بوریوں پر بیٹھنے والے ہیں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی، لیکن اللہ تعالیٰ نے جو نعمتِ عظمیٰ تمہیں عطا کی ہے اس کا مقابلہ دنیا اور اس کی دولت نہیں کرسکتی وہ نعمت ہے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نسبت یہ جو ہم پڑھتے ہیں: ’’حدثنا فلان حدثنافلان، عن فلان، عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ اس سند متصل کے ساتھ اپنے کوجو ڑدینا آج تو شاید اس کی قدرومنزلت ہمیں معلوم نہ ہو لیکن جب آنکھیں بند ہوگی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں حاضری ہوگی اس وقت پتا چلے گا کہ اس سلسلہ کے ساتھ وابستگی کتنی بڑی نعمت ہے۔
میرے شیخ حضرت ڈاکٹر عبدالحئی عارفی رحمتہ اللہ علیہ مثال دیا کرتے تھے کہ کراچی سے صدر مملکت کی ایک ٹرین جارہی ہے، جس میں بہترین سیلون لگا ہو اہے عمدہ اور عالیشان ڈبے لگے ہوئے ہیں، اس کے ساتھ کھانے پینے کا بہترین انتظام موجود ہے، بہت ہی پرکیف خوشبوئیں ہیں ،روانگی کے وقت اسٹیشن ماسٹر نے ایک پرانا اور بوسیدہ ڈبہ بھی اس ٹرین کے ساتھ جوڑدیا یہ بھی ٹرین کے ساتھ منزل مقصود تک پہنچ جائے گا ایسے ہی ہم بوسیدہ اور خستہ حالت میں سہی لیکن ہمارا کنڈا اعلیٰ اور عمدہ ڈبوں پر مشتمل ٹرین کے ساتھ جڑا ہوا ہے، ہمارا تعلق سند متصل کے ساتھ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قائم ہوچکا ہے، اس نسبت اور تعلق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمتیں ہم پر نازل ہوں گی اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس سلسلے کی قدر پہنچانیں۔
پڑھنے پڑھانے والوں کے علاوہ دوسرے لوگ بھی اپنے آپ کو محروم نہ سمجھیں وہ اُن پڑھنے والوں کے ساتھ محبت کریں’’اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ‘‘ اگر کسی کی محبت اس سلسلہ والوں کے ساتھ ہوگئی تو ان کا حشر بھی انھیں کے ساتھ ہوگا خود بھی تعاون کریں دوسروں کو بھی توجہ دلائیں تو اس سلسلہ کے ساتھ وابستگی ہوجائے گی خدا کے لیے ان دینی مدارس کی قدر پہچاننے کی کوشش کریں۔