مولانا زاہدالراشدی
مسلم ممالک کا فوجی اتحاد
گزشتہ سعودی عرب نے ۳۴ اسلامی ملکوں کے فوجی اتحاد کے قیام کا اعلان کیا ہے جس کامقصد دہشت گردی کے مختلف گروپوں کی کارروائیوں کا انسداد بتایاگیا ہے۔ اس اتحاد کا ہیڈکوارٹر ریاض میں ہوگا اور اس میں شامل ممالک میں پاکستان کا نام بھی موجود ہے جب کہ ایران، عراق اور شام اس کا حصہ نہیں ہیں۔پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس کی تفصیلات سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے اصولی طور پر اس کاخیر مقدم کیا ہے مگر شمولیت کے بارے میں کہا ہے کہ تفصیلات حاصل کی جارہی ہیں۔ اس کے بعد ہی اس کے بارے میں بتایا جاسکے گا کہ پاکستان اس اتحاد میں کس حد تک شریک ہوگا۔ ۳۴ ممالک کی اس فہرست میں شامل بہت سے دیگر ممالک بھی ابھی خاموش ہیں اور ان کی طرف سے کوئی ردِعمل سرِدست سامنے نہیں آیا۔ امریکا کے صدر باراک اوباما نے اتحاد کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اتحاد کا قیام امریکی حکمتِ عملی کے عین مطابق ہے ۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے وزیرِخارجہ جناب جبیرالعادل نے گزشتہ روز پیرس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب داعش کے خلاف امریکا کی قیادت میں قائم ہونے والے اتحاد کا حصہ ہے اور اس کے مطابق داعش کے خلاف فضائی حملوں میں شریک کار ہے۔ جب کہ سعودی عرب کی سربراہی میں بننے والا ۳۴ ملکوں کا یہ اتحاد بھی داعش دیگر دہشت گرد گروپوں سے نمٹنے کے لیے بنایا جارہا ہے۔اس سے قبل ۲ ؍دسمبر کو ایک اخبار میں شائع ہونے والی یہ تفصیلی خبر اس سلسلہ میں قابلِ توجہ ہے کہ:
’’امریکی کانگریس کے دوسر کردہ ارکان نے تجویز پیش کی ہے کہ شام اور عراق سمیت دنیا کے دوسرے ملکوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تنظیم داعش کی سرکوبی کے لیے امریکی فوج کے ساتھ کم از کم ایک لاکھ سنی جنگجوؤں کا ایک لشکر تیار کیا جائے جو دولت اسلامیہ نامی اس انتہا پسند گروہ کے خلاف جنگ میں معاونت کرے۔ ایوان نمائندگان کے دواراکین جان مکین اور لینڈی گراہام نے دورۂ عراق کے موقع پر بغداد میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران یہ تجویز پیش کی اور کہا کہ امریکا کے باہر کے سنی مسلمان جنگجوؤں کا ایک لشکر تیار کیا جائے جس میں کم از کم ایک لاکھ جنگجو شامل ہوں۔ انھیں شام اور عراق میں سرگرم ’’داعش‘‘ کے خلاف جنگ میں استعمال کیا جائے ۔ جان مکین کا کہنا ہے کہ ایک لاکھ سنی مسلمانوں کا لشکر تیار کرنا کوئی مشکل نہیں یہ کام تنہا مصر بھی انجام دے سکتا ہے۔ خیال رہے کہ جان مکین امریکی ایوان نمائندگان میں مسلح افواج سے متعلق کمیٹی کے چیئر مین جب کہ لینڈی گراہام اس کے رکن ہیں۔ ان دونوں امریکی سیاستدانوں نے داعش کے خلاف اپنی حکومت کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے حکومتی پالیسی کو غیر تسلی بخش قراردیا۔ انھوں نے کہا کہ داعش کو شکست سے دوچار کرنے میں ناکامی کی ذمہ داری امریکی حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ واشنگٹن نے وہ اقدامات نہیں کیے جو داعش کا قلع قمع کرنے کے لیے ناگزیر ہیں۔ جان مکین کا کہنا ہے کہ امریکا نے داعش کے خلاف زیادہ سے زیادہ فضائی حملوں تک اپنی پالیسی محدود رکھی یا امریکی فوج کی نگرانی میں محدود شامی گروپ کو عسکری تربیت فراہم کی گئی ہے۔‘‘
(روزنامہ انصاف لاہور، ۲؍دسمبر ۲۰۱۵)
اس تفصیلی خبر میں امریکی کانگریس کی افواج سے متعلقہ کمیٹی کے چیئر مین جان مکین نے داعش کو شکست سے دوچار کرنے میں جس ناکامی کا ذکر کیا ہے وہ صرف ان کا ذاتی تاثر نہیں ہے بلکہ امرکی صدر باراک اوباما بھی ایک حالیہ بیان میں کہہ چکے ہیں کہ داعش ابھی تک عراق اور شام کے ساٹھ فی صد علاقے پر قابض ہے جبکہ بعض بین الاقوامی رپورٹوں میں بتایاگیا ہے کہ داعش ان علاقوں پر صرف قابض نہیں ہے بلکہ ایک مستقل نظام رکھتی ہے اور منظم طریقہ سے حکومت کر رہی ہے۔
داعش کے بار ے میں ہم ایک سابقہ کالم میں عرض کرچکے ہیں کہ یہ شام اور عراق کے ان جنگجو گروپوں کے اتحاد کا نام ہے جو ایک عرصہ نوری مالکی اور بشارالاسد کے خلاف لڑتے آرہے ہیں اور اب انھوں نے متحد ہو کر ایک مضبوط قوت کی شکل اختیار کر لی ہے جس سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر خدا جانے کیا کیا پاپڑبیلنا پڑرہے ہیں۔ ہم اپنی اس گزارش پر بھی قائم ہیں کہ داعش اگر ’’داھش‘‘ نہ بن جاتی اور دہشت گردی، تکفیر اور قتال کے فتنے سے خود کو بچالیتی تو خلافتِ اسلامیہ کے قیام اور مشرق وسطیٰ کے سنی ممالک وعوام کے تحفظ کے مقاصد میں اسے عالم اسلام کے معتدبہ حصے کی حمایت مل سکتی تھی، اس لیے کہ خلافت کا احیاء وقیام بہر حال عالمِ اسلام کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ اور مشرق وسطیٰ کی سنی ریاستوں بالخصوص سعودی عرب کو جس طرح فرقہ وارانہ کشمکش کے حصار میں جکڑ لیا گیا ہے اسے زیادہ دیر تک نظرانداز کرنا بھی اب ممکن نہیں رہا۔ ہم بار بار یہ گزارش کر چکے ہیں کہ ان دونوں ملی مقاصد کے لیے خود عالمِ اسلام کو اپنے علمی اور فکری دائرے میں سوچنا چاہیے کیونکہ یہ کام دراصل اوآئی سی، خلیجی تعاو ن کو نسل، عرب لیگ اور رابطہ عالمِ اسلامی جیسے اداروں کے کرنے کا ہے کہ وہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے آگے بڑھیں۔ اس کے لیے جان مکین اور لینڈی گراہام کے کسی فارمولے کی ضرورت نہیں ہے۔
ہمارے خیال میں داعش کو کچلنے کے لیے فیصلہ کن اور متحدہ عسکری کارروائی سے پہلے دوکام کرنا زیادہ ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ خلافتِ اسلامیہ کے قیام اور مشرق وسطیٰ کے سنی ماحول کے تحفظ کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے لیے پر امن جدوجہد کا کوئی مؤثر فورم مہیا کیا جائے تاکہ ان ملی مقاصد کی خاطر محنت کا جذبہ رکھنے والے نوجوانوں کے لیے صرف ’’داعش‘‘ ہی واحد آپشن نہ رہے اور وہ دہشت گردی کی طرف مائل ہونے کی بجائے پرامن جدوجہد کا راستہ اختیار کرسکیں۔ دوسرا کام یہ کہ عالمِ اسلام کے علمی مراکز مشترکہ طور پر کوئی لائحہ عمل طے کر کے نہ صرف داعش بلکہ اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والے تمام گروپوں سے مذاکرات، افہام وتفہیم او ر ملی مقاصد کے حصول کے متبادل ذرائع سامنے لانے کا اہتمام کریں۔ کیونکہ جب تک اصل مسائل موجود رہیں گے اور ان کے حل کے لیے کوئی متبادل آپشن دکھائی نہیں دے گا، اس دہشت گردی کا راستہ نہ ایک لاکھ سنی جنگجوؤں کے لشکر کے ذریعے روکا جاسکے گا اور نہ ہی ۳۴ ملکوں کا عسکری اتحاد اس سلسلہ میں کوئی حتمی کامیابی حاصل کرپائے گا۔ پاکستان کے دفتر خارجہ سے بھی ہماری گزارش یہی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دفتر خارجہ ہونے کے ناتے سے وہ ملی ضروریات کا احساس کرے اور اُمتِ مسلمہ کی صحیح سمت راہ نمائی میں اپنا کردار ادا کرے۔