ابوواسع
(تیسری اورآخری قسط)
مظہر احمد کا مزید کہنا تھا کہ ’’جب میری بیوی سے طلاق ہوگئی تو میرے گھروالوں اور خاص طورپر میرے والدنے مجھے کہا کہ تم واپس قادیانی ہوجاؤ ، تو ہم تمہاری کسی کنواری قادیانی لڑکی سے شادی کرا دیں گے، بس تم مرزا پر ایمان لے آؤ اور اپنی یہ داڑھی چھوٹی کرا لو،کیونکہ تمہاری بیوی نے بھی تم سے طلاق لے کر ایک کنوارے مرد سے شادی کر لی ہے، چنانچہ تمہاری بھی شادی کرا دیتے ہیں، چونکہ میرے والد جب باہر سے واپس آئے تو یہاں آکر انہوں نے رشتے وغیرہ کرانے کا کام شروع کردیا تھا، لیکن میں نے دین اسلام چھوڑنے سے قطعی انکارکردیاتھا۔ شاید انہیں اس بات کا بھی احساس ہوچکا تھا کہ ہم نے اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ بہت زیادتی کی ہے ، کیوں کہ وہ اب میری حالت سے پریشان ہوجاتے ہیں، اگر وہ مجھے گھر سے نہ نکالتے اور جم وغیرہ نہ چھینتے تو آج میں بھی اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ خوش و خرم زندگی بسر کررہا ہوتا۔وہ اب وہ مجھے کہتے ہیں کہ گھر میں آجاؤ اور جم میں کام وغیرہ کرو، اب ان کا یہ تقاضہ بھی ختم ہوچکا تھاکہ میں کس مذہب پر ہوں ، اب وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ میں دربدر دھکے نہ کھاؤں۔جب سے طلاق ہوئی ہے ، اب ان کارویہ بہت تبدیل ہوگیا ہے۔ دراصل وقت سب کچھ بتا دیتا ہے کہ کون غلط تھا اور کون صحیح، پہلے یہ مجھے کہتے تھے کہ جو قادیانیت چھوڑتا ہے ،وہ ذلیل خوار ہوتا ہے ، پھر جب میری بیوی سے علیحدگی ہوئی تو انہوں نے مجھے طعنے دینے شروع کردئیے کہ ہم نہ کہتے تھے کہ ذلیل ہوجاؤگے لیکن بعد میں انہیں اندازہ ہوگیا تھا، یہ سب کچھ تواُنہی کی وجہ سے ہوا ، میرے مسلمان ہونے کی وجہ سے نہیں ہوا۔ میرے خاندان والوں اور جماعت احمدیہ نے میری طلاق کراکے ٹھیک نہیں کیا، میرے خاندان کا میری طلاق میں یقینا ہاتھ پڑتا تھا،اور وہ اب اسی پر پشیمان ہیں۔ ورنہ وہ ایک مسلمان کو کیسے گھر میں رہنے کی آفر کرسکتے ہیں، بلکہ وہ تو جماعت احمدیہ میں ابھی تک مجھے قادیانی ڈکلیئر کیے ہوئے ہیں اور جماعت نے بھی مجھے پاگل قادیانی ڈکلیئر کیا ہوا ہے، میرا ابھی جماعت احمدیہ والوں نے اخراج نہیں کیا ،ان کا کہنا ہے کہ اس کا دماغ خراب ہے، یہ کبھی قادیانی ہوجاتاہے اور کبھی مسلمان، اب صورتحا ل یہ ہے کہ چودہ برس تک میں ان کی نظروں میں پاگل رہا ہوں، ایک جرمن قادیانی لڑکی کو قائل کرکے اس سے شادی کرچکا ہوں،اسے مسلمان کیا،اس سے بچے ہوئے ،ایک بڑا جم اور کاروبار کھڑا کرکے دکھا چکا ہوں، سات برس تک اپنے بیوی بچوں کی خوش اسلوبی سے کفالت کرتارہا ہوں،پھر بھی اگر وہ لوگ مجھے پاگل کہتے ہیں تو’ ٹھیک ‘ہی کہتے ہوں گے ، آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میں پاگل ہوں یا وہ لوگ پاگل ہیں، اس پر میں کچھ نہیں کہوں گا۔
اصل حقیقت تو یہ ہے میں حق کو پاگیا ہوں۔ چاہیے اس کے لیے مجھے بہت اذیت ناک مراحل سے گزرنا پڑا لیکن حقیقت بہرحال مجھ پر کھل چکی تھی۔اب میرے بہن بھائیوں کا مجھ سے صرف اتنا تقاضا ہوتاہے کہ میں گھر میں رہوں، کھاؤں پیوں لیکن دینی بات ہرگزنہ کروں۔مثلاً میں گھر میں چلا جاؤں اورٹی وی پر قادیانی چینل لگا ہو، اور میں تبدیل کرکے مولاناطارق جمیل صاحب کی تقریر لگا دوں تو وہ کمرے سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں اور ان باتوں کو پسند نہیں کرتے ۔اب میں گھر کی بیٹھک میں رہتا ہوں ، مجھے گھروالوں نے الگ کمرہ نہیں دیا ہوا۔باقی سب کو کمرے ملے ہوئے ہیں، میں وہاں اس کمرے میں الگ نماز ادا کرلیتاہوں ۔
چناب نگر میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو خفیہ طور پر مسلمان ہوچکے لیکن خوف کے باعث اعلان نہیں کرتے ،میری اپنی ایک کزن ہے، وہ بھی مسلمان ہوچکی ہے لیکن اس نے ابھی اس کا اظہار نہیں کیا، وہ چناب نگر میں نہیں رہتی، میں اس کے بارے تفصیلات نہیں بتا سکتا، کیوں کہ اس کے لیے مشکلات کھڑی ہوجائیں گی۔وہ قادیانیوں کو مرزائی کہتی ہے ، قادیانی دراصل خود کو احمدی کہلوانا پسند کرتے ہیں، انہیں مرزائی کہیں تو آگ لگ جاتی ہے، لیکن وہ انہیں مرزائی کہتی ہے اور وہ خوب جانتی ہے کہ یہ لوگ بھٹکے ہوئے ہیں۔اسی طرح یہاں ایک مربی ہیں(ان کا نام بوجوہ نہیں لکھا جارہا) انہیں ڈیڑھ برس ہوچکا کہ اسلام قبول کرچکے ہیں۔میں نے ایک بار انہیں مسجد میں دیکھ لیاتھا،تو انہوں نے مجھے ساری حقیقت بتا دی تھی، وہ مجھے اپنے ساتھ ان کے مراکز لے کر جاتے رہے ہیں ۔وہ بتا رہے تھے کہ کافی قادیانی ہیں جو قادیانیت سے تائب ہوچکے ہیں لیکن جماعت احمدیہ کے خوف سے ابھی ان کا اعلان کرناباقی ہے۔ آپ کو ایک دلچسپ بات بتاؤں کی میرا ایک کزن ہے، وہ جماعت احمدیہ سے اس قدر تنگ ہے کہ وہ مجھے اکثر کہتا ہے کہ اگر مجھے موقع ملے تو میں جماعت احمدیہ کے خلیفہ کو بم سے اڑا دوں، کہیں سے خود کش جیکٹ ملے تو میں اپنے ساتھ اسے بھی اڑا دوں،اسی سے اندازہ کریں کہ جماعت احمدیہ سے لوگ کس قدرتنگ ہیں،لوگ جان چکے ہیں کہ جماعت احمدیہ ایک بہت بڑا ڈرامہ ہے، جو اُن کی زندگی سے کھیلتی ہے۔ یہ لوگ اعلان کیوں نہیں کرتے ، یہ سب سے بڑا سوال ہے ، جس کا جواب نہایت آسان ہے، دراصل اعلان نہ کرنے کی بڑی وجہ چناب نگر میں وہ زمین ہے، جس پر وہ اس وقت مکان ڈال کر بیٹھے ہوئے ہیں،یہ جو مسلمان جماعتیں اکثر یہ تقاضا کرتی ہیں کہ چناب نگر والوں کو مالکانہ حقوق دئیے جائیں ، اگر آج یہ حقوق مل جائیں تو میں آپ کو دعوے سے کہتا ہوں کی سیکڑوں قادیانی مسلمان ہونے کا اعلان کردیں گے۔ اب اگر وہ مسلمان ہونے کا اعلان کرتے ہیں تو جماعت احمدیہ فوری طور پر زمین خالی کرنے کا نوٹس دے کراُنہیں وہاں سے بھگا دے گی، صرف اشٹام پیپر پرجگہ دی جاتی ہے، جب آپ اپنی جگہ اپنی مرضی سے بیچ نہیں سکتے جب تک جماعت احمدیہ رضا مند نہ ہوتو باقی کیا رہ جاتاہے۔ ایسی صورت میں قادیانیت چھوڑنے والے اپنے بیوی بچوں کو لے کرکہاں دھکے کھائیں گے،اس کے علاوہ ان کا سوشل بائیکاٹ بھی پیش نظررہتا ہے، پورا خاندان حتیٰ کہ اپنے بہن بھائی جماعت احمدیہ کے خوف سے قطع تعلق کرلیتے ہیں۔ بعض اوقات بیوی اور بچے بھی چھوڑ جاتے ہیں، آخر انسان ہیں، میری مثال آپ کے سامنے ہے ، آج ایک برس سے زائد ہوچکا ہے میں اپنی بیٹی سارہ کو نہیں دیکھ سکا، آپ محسوس کرسکتے ہیں کہ مجھ پر کیا بیت رہی ہوگی، لوگ مجھے پاگل سمجھتے ہیں لیکن جب میں اپنی بچی سے نہیں مل پاتا تو میں خود کو پاگل محسوس کرتاہوں۔میری بیٹی ایک مسلمان کے ہاں پل رہی ہے ، اس کے باوجود میری اس سے ملاقات نہیں ہوپاتی ، اگر وہ قادیانیوں میں ہوتی تو اندازہ کریں کہ کیا عالم ہوتا۔
قادیانی دراصل چناب نگر میں قانونی طورپر خود کو بہت مضبوط کرچکے ہیں، انہوں نے خدا جانے کب سے پلاننگ کی ہوئی ہے، ان کا اپنا عدالتی نظام ہے، جو کہ بہت مضبوط ہے، یہاں تھانے میں جو تھانیدار ہے، وہ بھی احمدی ہی پوسٹ ہوتا ہے، ایسی صورت میں کوئی کیسے اختلاف کرسکتا ہے۔ان کی پلاننگ کیا ہے آپ کو اندازہ ہی نہیں ہے ، ان کے سب بڑے لندن وغیرہ میں ہیں ،اور وہ ایسی قوتوں کی گود میں بیٹھے ہیں جو پاکستان کے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ سو برس پہلے کی پلاننگ کرتے ہیں اور پھر اس پر آہستہ آہستہ عمل پیرا ہوتے ہیں۔ آپ کو شاید معلوم نہ ہو کہ یہ پاکستان پر بھرپور نظر رکھتے ہیں، خاص طور پر سیاست پر اُن کی نگاہ ہوتی ہے، ووٹ تو خیر یہ کبھی نہیں ڈالتے، کیوں کہ ان کا موقف ہے کہ پاکستان کی اسمبلی نے ہمیں کافر قراردیا ہے ،ہم اس میں جانے والے کسی فرد کو ووٹ نہیں ڈالیں گے۔ ہاں سپورٹ ضرور کرتے ہیں، بلکہ ریفرنڈیم میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ ابھی مشرف دور میں بھی انہوں نے اس میں حصہ لیا تھا، لیکن سیاسی طور پرووٹ ڈالنے کے حق میں نہیں ہیں۔آپ ان کے تعصب کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ پہلے مسلمان اور قادیانی نوجوان ایک دوسرے کے ساتھ ملتے جلتے تھے اور کھیل کود میں حصہ لیتے تھے،لیکن اب جماعت احمدیہ نے اپنے نوجوانوں پر پابندی لگائی ہوئی ہے کہ وہ مسلمان نوجوانوں کے ساتھ کھیل میں شریک نہیں ہوتے کہ کہیں کوئی مسلمان نہ ہوجائے، بلکہ جماعت احمدیہ والے اکثر اُن قادیانیوں کو جو قادیانیت چھوڑنے پر مائل ہوتے ہیں،میری مثال دیتے ہیں کہ دیکھو مظہر نے قادیانیت چھوڑی تھی تو اس کا کیا حال ہوگیا تھا، وہ پاگل ہوگیا ہے ۔اب انہیں کیا معلوم کہ مجھے پاگل بنایا گیا ہے، جس میں جماعت احمدیہ کے ساتھ ساتھ میرے خاندان کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے ۔میں نے جماعت سے ہمیشہ دُوری بنائے رکھی، جو انہیں ساری زندگی کھٹکتے رہی۔ میرا چندہ وغیرہ بھی ساری زندگی میرے والد نے دیا، میں نے انہیں کبھی ایک روپیہ نہیں دیا۔یہی وجہ ہے کہ جماعت احمدیہ اپنا بغض مجھ سے اس طرح نکال رہی ہے کہ مجھے پاگل ڈکلیئر کرکے دوسروں کے سامنے مثال بنا کر پیش کرتی ہے۔‘‘