احسان کوہاٹی عرف سیلانی
ہانپتے کانپتے بوڑھے چناب کنارے واقع چناب نگر جسے قادیانی ربوہ کہہ کر پکارتے ہیں ،پاکستان میں قادیانی مذہب کے پیروکاروں کی سب سے بڑی آبادی ہے ۔یہ واحد اکلوتی آبادی ہے، جہاں ملکی اکثریت واضح ترین اقلیت میں ہے۔ یہاں مسلمانوں کے گنتی کے گھر ہیں۔اس شہر میں قادیانیوں کے ایک لاکھ سے زائد ووٹرز ہیں لیکن ان ووٹرز کے الیکشن کے دن انگوٹھے کالے نہیں ہوتے۔ یہ جماعت احمدیہ کی ہدایت پر انتخابی عمل سے دُور رہتے ہیں ۔اس شہر میں عملًا جماعت احمدیہ کی حکمرانی ہے۔ ان کا اپنا سیکورٹی سسٹم ہے ۔یہاں کے تمام داخلی راستوں پر چوکیاں ہیں، یاقادیانی نوجوانون کا پہرہ، ان کے پاس جدید وائرلیس سسٹم اور ہتھیار ہیں ۔کسی اجنبی یا غیر قادیانی کے لئے ممکن نہیں کہ وہ ان کو تسلی کرائے بغیر چناب نگر کی کسی گلی میں داخل ہو۔ یہ نوجوان باقاعدہ پوچھ گچھ کرتے ہیں۔ آنے کا سبب پوچھتے ہیں ۔میزبان کے بارے میں سوال جواب کرتے ہیں اور پھر اپنی تسلی ہونے کے بعد شناختی کارڈ نمبر اور گاڑی کا نمبر رجسٹر میں لکھنے کے بعد جانے کی اجازت دی جاتی ہے ۔
اس آبادی کی ایک اور عجیب بات یہ کہ اس شہر کے مکین اپنے مکانوں کے مالک نہیں، یہاں کی تمام کی تمام ایک ہزار اَڑتیس ہزار ایکڑ کے مالکانہ حقوق جماعت احمدیہ کے نام ہیں اپنے اس حق کو جماعت احمدیہ اپنی رٹ قائم رکھنے کے لئے خوب استعمال کرتی ہے۔ ظاہر ہے جب مکین کو گھر سے نکالے جانے کا خوف ہو تو وہ مالک کی مرضی کے خلاف کیسے کچھ کر سکتا ہے۔ پھر بھی جن کے دلوں میں ایمان کی مشعل روشن ہو جائے وہ تاریکیوں سے لڑنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں عدالتوں میں چلے جاتے ہیں مجلس احرار اُن کی مدد کے لئے موجود ہوتی ہے ۔یہ نو مسلم پھر یہیں رہتے ہیں اور جماعت احمدیہ کے سینے پر مونگ دلتے رہتے ہیں ۔
دوسری عجیب بات یہ کہ یہاں کے مکینوں کو بنیادی سہولیات بھی جماعت احمدیہ کے راستے سے ملتی ہیں ۔یہاں کوئی سرکاری اسپتال نہیں ہے۔ طاہر انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی جماعت احمدیہ کا ہے یہاں چند ایک سرکاری کالج اور اسکول ہیں مگر شہر کے اچھے تعلیمی ادارے جماعت احمدیہ کے کنٹرول میں ہیں یہی کنٹرول جماعت احمدیہ کی رٹ قائم رکھے ہوئے ہے ۔کم لوگ جانتے
ہیں کہ قادیانیوں کی اپنی عدالتیں ہیں،جہاں قادیانی اپنے تنازعات لاتے ہیں ۔ان تنازعات کی باقاعدہ سماعت ہوتی ہے ۔تاریخیں پڑتی ہیں۔ ان عدالتوں کے لئےباقاعدہ وکلاء رجسٹرڈ ہوتے ہیں ۔یہ وکیل عدالتوں میں اپنے اپنے مؤکل کا دفاع کرتے ہیں ۔کیس جیتتے بھی ہیں اور ہارتے بھی ہیں۔ عدالتیں “مجرموں” کو سزائیں سناتی ہیں ان سزاؤں میں سماجی مقاطعہ بھی ہو سکتا ہے اور کچھ عرصے کے لئے بیگم کا بستر بھی الگ کیا جا سکتا ہے ۔
عجیب اسرار کے پردے لیے چناب کنارے چناب نگر آباد ہے۔ دیکھتے ہیں مجلس احرار اِن اسراروں کے پیچھے مستقل مزاجی سے پڑی ہوئی ہے دیکھتے ہیں یہ اسرار” احرار” کے ہاتھوں سے کب تک بچ رہتے ہیں۔
(فیس بک ڈاٹ کام)