ڈاکٹرعمرفاروق احرار
برصغیرکے سیاسی افق پر 29؍دسمبر1929کومجلس احراراسلام ایک نئی سیاسی جماعت کے طورپر اُبھری۔جس کے بانیوں میں وہ شخصیات نمایاں تھیں ،جن کا شمارتحریک خلافت کی صف ِ اوّل کی قیادت میں ہوتاتھا۔جن میں سیدعطاء اﷲ شاہ بخاری،مولاناحبیب الرحمن لدھیانوی،مولانا سیدمحمدداؤدغزنوی ،چودھری افضل حق،مظہرعلی اظہر اورشیخ حسام الدین شامل ہیں۔سیاسی سطح پر کانگریس اورمسلم لیگ اورجمعیت علماء ہندکی موجودگی میں مجلس احراراسلام کاقیام انفرادیت کی انوکھی مثال تھی۔مجلس احراراِسلام دیگرجماعتوں کے برعکس متوسط طبقہ کے رہنماؤں اورکارکنوں کی ترجمان تھی،جوپہلے دن ہی سے کسی مخصوص طبقے ،گروہ یافرقے کی بجائے ایک ایسامتحدہ پلیٹ فارم بن گئی ۔جس میں بلاتفریق مسلک ہرطبقہ کا نمائندہ رہنماموجودتھا،چونکہ مجلس احراراسلام کے بنیادی مقاصدمیں آزادیٔ وطن اورتحفظ ختم نبوت ایسے عظیم اہداف شامل تھے ۔اس لیے کسی بھی مکتبہ فکرکے لیے احرارمیں شمولیت کے لیے بے پناہ کشش پائی جاتی تھی۔احرارمیں نہ صرف علماء کرام اورسیاست دان ،بلکہ شاعروں ،ادیبوں اوردانشوروں کی بھی ایک معقول تعدادموجودتھی۔جس سے احرارکی عوامیت اورمقبولیت کا اندازہ کیاجاسکتاہے۔
احرارنے1931میں پہلی ملک گیر تحریک کشمیری مسلمانوں کے حق میں چلائی۔جو تحریک خلافت کے بعدسب سے بڑی تحریک ثابت ہوئی۔جس میں پچاس ہزاراَحرارکارکن گرفتارہوئے۔اِس تحریک نے ہرطبقے کو متاثر کیا۔ علامہ اقبال نے تحریک کشمیرمیں احرارکی تائید میں بیان جاری کیا۔ ممتاز شاعر اَختر شیرانی اورڈاکٹردین محمدتاثیرجیسے مشاہیرنے منظومات اورناموراِشتراکی دانشور باری علیگ وغیرہ نے نثر کے ذریعے احرارمیں شمولیت کی دعوت عام کی۔ جمعیت علماء ہندکے رہنماؤں میں سے مفتی کفایت اﷲ دہلوی اورمولانا احمدسعید نے تحریک کشمیرمیں احرارکابھرپور ساتھ دیا۔تحریک کشمیرکے بعد اَحرار کی مقبولیت آسمانوں کو چُھونے لگی۔ہندوستان کے ہرعلاقے میں احرار کا طوطی بولنے لگا۔ احرار پِسے ہوئے طبقات اور غریبوں کی حالت بدلنے کا عزم لے کر اُٹھے تھے۔ جب مشرقی پنجاب کے علاقہ کپورتھلہ میں حکمرانوں نے غریب عوام کا معاشی استحصال کیا تو سُرخ پوشانِ احرار اُن کی مدد کو آئے اور گرفتاریوں اور صعوبتوں کے سہنے کے بعد وہ بالاآخرکامیاب ہوئے اور مقامی حکام کو غریب عوام کے مطالبات کے آگے جھکناپڑا۔مستقبل میں بھی معاشی ناہمواریوں کے خلاف احرارکی آوازہمیشہ بلندہوتی رہی۔ سامراج دشمنی اورغریب دوستی احرارکا نشانِ امتیازرہا۔یہی وجہ تھی کہ ترقی پسندحلقوں کے ساتھ احرارکے تعلقات ہمیشہ دوستانہ رہے۔
قادیانیت،احرارکے نزدیک انگریزسامراج کالگایاہوا پوداہے۔وہ سمجھتے تھے کہ برصغیر میں انگریزکے قدم مضبوط کرنے میں قادیانیوں کی جہاددُشمنی اورختم نبوت کے خلاف مورچہ زنی ہی بنیادی پتھرہے۔لہٰذا اُنھوں نے قادیانیوں کا سیاسی تعاقب کیا اوروہ مسلسل محنت سے یہ حقیقت عوام پر واضح کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ قادیانیت مذہب کے پردے میں ایک سیاسی تحریک ہے جو اُمت مسلمہ کو تفریق وتقسیم کرنے اوربرطانوی اقتدارکودَوام دینے کے لیے وجودمیں لائی گئی ہے۔1934 ء میں قادیانیوں کے مرکز قادیان میں مجلس احراراسلام نے فاتحانہ قدم رکھا اور’’احرارختم نبوت کانفرنس‘‘ کا انعقادکیا۔جس میں ہندوستان کے تمام مسالک کے علماء،مشائخ اورقومی رہنماؤں نے شرکت کی۔جب کہ ملک بھر سے کانفرنس میں شریک ہونے والوں کی تعداد2لاکھ سے تجاوزکرگئی تھی۔یہ کانفرنس تحریک ختم نبوت کا پیش خیمہ ثابت ہوئی اورمسلسل جدوجہدکے بعد1974ء قادیانیوں کو قومی اسمبلی نے متفقہ طورپر غیرمسلم اقلیت قراردے دیا۔مجلس احراراسلام کی بپاکردہ تحریک ختم نبوت سے جدید تعلیم یافتہ حضرات پر قادیانیت کی اصلیت کھل گئی۔اِسی تحریک کے اثرات کے نتیجہ میں علامہ محمداقبال نے بھی حکومت سے قادیانیوں کو غیرمسلم قراردینے کا مطالبہ کیا اوراُن کے قلم سے مسلسل قادیانیوں کے خلاف نظم ونثرمیں اظہارخیال ہوتارہا۔
مجلس احراراسلام کے قائدین بے غرضی اوربے لوثی میں اپنے مثال آپ تھے ۔جرأت وبے باکی اورحق گوئی میں وہ ضرب المثل تھے۔اس پرمستزادیہ کہ اﷲ نے انہیں خطابت کا بے نظیر ملکہ عطاکیاتھا۔جس کی بدولت انہوں نے کروڑوں ہندوستانیوں کے دلوں سے انگریزی جبروت اوردہشت کا خوف دُورکیا۔اُن کی زندگی ریل وجیل سے عبارت رہی،مگر وہ کلمۂ حق کہنے سے کبھی بازنہ آئے۔جس پر اُنہیں شہرت کی بلندیاں ملیں۔1937ء آمدہ انتخابات میں احرارکو شکست دینے کی خاطراگر1935ء میں پنجاب کے انگریزگورنراَیمرسن کے ذریعے مسجدشہیدگنج کا ملبہ مجلس احرارپر نہ گرایا جاتا تو پنجاب میں پہلی مرتبہ جاگیرداروں کی بجائے ایک متوسط طبقے کی نمائندہ حکومت کے قیام کی توقع کی جاسکتی تھی،مگر اَنگریز،قادیانی اوروَڈیروں کے گٹھ جوڑ نے احرارکی متوقع کامیابی کے راستے مسدودکرکے یونینسٹ حکومت کی راہ ہموارکردی۔اُس کے باوجودمجلس احرارکے سخت جانوں نے اپنے وجوداَوراِستقامت کا لوہامنوایا اوروہ وقتی ناکامی کے باوجودآنے والے وقت میں پوری قوت کے ساتھ اپنے مقاصدمیں کامیاب رہے۔اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو مجلس احراراسلام نے اپنے قیام کے جو مقاصدمتعین کیے تھے ،وہ اُن میں کامیاب رہی ۔ہندوستان سے انگریزکا انخلااحرارکا مطمح نظرتھا،تحفظ ختم نبوت اُن کا منشورتھا۔انگریزکو1947ء میں ہندوستان چھوڑناپڑا۔1974ء ختم نبوت کا مسئلہ قومی اسمبلی کے ایوان تک پہنچایا اورقادیانیوں کو کیفرکردارتک پہنچانے میں بھی کامیابی بالواسطہ طورپراحرارہی کے حصہ میں آئی۔
پاکستان بناتو مجلس احراراسلام نے 1949میں سیاست سے دستبرداری کا اعلان کیا اورسب سے بڑی اپوزیشن جماعت ہوتے ہوئے بھی اپنی سیاسی حیثیت کو ختم کرکے مسلم لیگ کے لیے میدان خالی کردیا۔بعداَزاں مجلس احرارنے دینی معاملات پر یکسوئی کے ساتھ توجہ مرکوزرَکھی ،لیکن سیاسی میدان میں نہ ہونے کے باوجودقومی اموراورعوامی مسائل پر اُس کی توانا آوازسنائی دیتی رہی۔اگست1961ء میں جماعت کے قائدامیرشریعت سیدعطاء اﷲ شاہ بخاری کی رحلت کے بعداُن کے جانشین وفرزندحضرت مولانا سیدابوذربخاری ؒ نے احرارکا شیرازہ جمع کیااورحکومت الہٰیہ کے نفاذ،تحفظ ختم نبوت اورتحفظ ناموس صحابہؓکے لیے احرارکو منظم اورمتحرک کیا۔بعداَزاں فرزندانِ امیرشریعت مولانا سیدعطاء المحسن بخاریؒ،مولانا سیدعطاء المومن بخاری ؒاورمولانا سیدعطاء المہیمن بخاری کی قیادت میں عہدبہ عہدمجلس احراراسلام کا قافلہ رواں رہاہے ۔اب ابن امیرشریعت مولانا سیدعطاء المہیمن بخاری مدظلہ‘کی امارت میں مجلس احراراسلام، قیامِ حکومت الہٰیہ اورتحفظ ختم نبوت کے لیے اپنی جدوجہدجاری رکھے ہوئے ہے۔قائدین اگرتدبروبصیرت کے ساتھ خلوص واِیثار کی دولت سے بہرہ ورہوں اورمقاصدومنشورمحض اﷲ کی رضا اورمخلوق کی خدمت پراُستوارکیے جائیں ہوتو جماعتیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مجلس احراراسلام عزم وہمت کا 88برس کا طویل عرصہ طے کرکے اب بھی دین کی حاکمیت کے لیے سرگرم عمل ہے اوراَب 29دسمبر کو اَپنا 89واں یومِ تاسیس منارہی ہے۔
متاعِ علم وحکمت لُٹ نہیں سکتی پیمبرﷺکی
ابھی محفل میں پائندہ ترے احرارہیں ساقی