مرزا غلام نبی جانباز مرحوم
غلامی کا ہر سال جدوجہد ’’آزادی ‘‘کے لیے مصائب وآلام کے کوہِ گراں لے کر آیا ۔ ان دنوں ہر صبح کا طلوع ہونے والا آفتاب اپنی کرنو ں میں محبان وطن کے لیے ایسے فیصلے لے کر طلوع ہوتا کہ جن میں دارورسن کے فیصلے جلی طور پر رقم ہوتے ۔
لیکن ۱۹۲۶ء کا سورج عجب انداز سے ابھرا کہ غیر ملکی استعمار اگر ایک طرف آتشیں اسلحہ سے لیس تھا تو دوسری طرف سیاسی بساط کے مہرے اس رخ پر چلائے کہ ان کی ہرچال شہ مات دیتی ہوئی چلی گئی ۔
سائمن کمیشن میں ہندوستان کی عدم شمولیت ، لارڈبرکن ہیڈ کا چیلنج اور ہندوستانی رہنماؤں کے فیصلے ہنوز متصادم تھے کہ آریہ سماج اور مرزائیوں کی چپقلش نے ہندوستان میں تحریک شاتم ِ رسول ﷺکو جنم دیا ۔
۱۸۷۵ء میں پنڈت دیانند کی کتاب’’ستیارتھ پر کاش ‘‘پہلی بار بنارس میں شائع ہوئی۔ قادیانی مذہب کے بانی مرزا غلام احمد نے ’’ستیارتھ پر کاش ‘‘ کے شائع ہوتے ہی کتاب ہٰذا کے مصنف اور دوسرے رہنماؤں کو چیلنج کیا کہ ’’جو کتاب میں (مرزاغلام احمد قادیانی )مستقبل قریب میں لکھنے والا ہوں، اگر ہندو اور سوامی دیانند مجھے اس کا جواب دیں تو میں انہیں دس ہزار روپے انعام دوں گا ‘‘۔اس کے بعد مرز اغلام احمد کی کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘کا سلسلہ شائع ہونا شروع ہوا۔ جس میں ہندو دھر م ،وید ،آریہ سماج ،پنڈت دیانند پر اعترا ضات و الزامات تراشے گئے ۔
اکتوبر ۱۸۸۳ء میں پنڈت دیا نند کی موت واقع ہوئی اور ۱۸۸۴ء میں ’’براہینِ احمدیہ‘‘کی چوتھی جلد شائع ہوئی ۔ اس میں پنڈت دیانندکی موت پر اس کے خلاف زورِ قلم کا مظاہرہ دیکھا گیا ۔ آخر اسی سال ستیارتھ پر کاش کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا تو اضافی طور پر جن دو ابواب کو شامل ِ اشاعت کیا ، ان میں داعئی اسلام حضور خاتم الا نبیا ﷺ کی ذات گرامی پر براہِ راست حملے کیے گئے تھے ،جنہیں مسلمان بر داشت نہ کرسکا اور کتابِ ہذا کے خلاف ہندوستان بھر میں احتجاجی مظاہرے اور جلسے ہوئے، نیز حکومت سے اس کتاب کی ضبطی کا مطالبہ کیا گیا ۔
انہی دنوں قاسم علی (مرزائی )کی کتاب ’’انیسویں صدی کا مہارشی دیا نند ‘‘شائع ہوئی۔ جس میں پنڈت دیا نند کو ہدف ِ تنقید بنایا گیا تھا ۔ اس کتاب کے باز ار میں آتے ہی ہندو مسلمان پھر ایک دوسرے کے آمنے سامنے آکھڑے ہوئے ۔ قاسم علی (مرزائی )کے جواب میں آریہ سماجی لیڈر پنڈت چمپا وتی ایم ، اے (پروفیسر ڈی ، اے ، وی کالج لاہور) نے (نعوذ باﷲ)’’رنگیلارسو ل ‘‘ایسی رسوائے عالم کتاب لکھی ۔
یہ سارا تماشا ان دنوں ہوا۔ جب لارڈ برکن ہیڈ وزیر ہند کا چیلنج قبول کرتے ہوئے رہنمایان ِ ِ ہند نے سائمن کمیشن کے بائیکاٹ نیز باہم مل کر بیٹھنے کی تجویزیں پاس کی تھیں ۔
ان واقعات کے یہاں پہنچنے تک ۱۹۲۷ء کا سال اپنے سفر کی ایک تہائی منز ل طے کر چکا تھا۔ لیکن آریہ سماجی اور مرزائیوں کی باہم تلخ نوائی نیز ان کی تحریری جنگ نے ہندوستان کے سنبھلتے ہوئے حالات کو از سرِ نو پلٹا دیا ۔گو شدھی و سنگھٹن کی بادسموم کے باعث صحن چمن کی ہر روش اپنی نگاہوں کے ڈور ے سرخ کیے بیٹھی تھی ۔ تاہم احساس ہورہا تھا کہ شبنم کے آنسو اور بادِ صبح گاہی کے معانقے سے فضاؤں میں انقلاب رونما ہوگا اور صیاد کے ظلم وجور کی بجلیوں سے جلتے ہوئے آشیانوں کو پھر سے تنکے جمع کرنے کا مو قع ملے گا، مگر بکھرے ہوئے زہر نے دریا کے ہرقطرے کو مسمو م کر دیا ۔
اس مسمو م فضا میں امرتسر کے ایک ہندی رسالہ ’’ورت مان ‘‘نے بھی خاتم الا نبیاء علیہ السلام کی ذاتِ گرامی پر کیچڑ اچھالا۔ جسے رائج الوقت قانون نے چھ ماہ کی سزادی، لیکن کتاب ’’رنگیلارسول ‘‘(نعوذباﷲ)نے حالات کو بد سے بدتر کردیا ۔ علمائے دین کی توجہ جب کتاب ِ ہذا کی طرف ہوئی تو جمعیت علماء ہند نے شاتم ِ رسول کو واجب القتل قرار دیا ۔ اس فتویٰ کے شائع ہوتے ہی عبدالعزیز نامی شخص نے کتابِ ہذا کے ناشر مہاشہ راجپال پر ، جس نے کہ مصنف کی ذمہ داری بھی قبول کرلی تھی ،لاہور میں قاتلانہ حملہ کیا ، جس سے راج پال زخمی ہوا اور حملہ آور کو چودہ سال کی سزا ہوئی ۔
اس کے بعد خدابخش نامی (المعروف اکو جیا )نے حملہ کیا ،مگر یہ وار بھی جان لیواثابت نہ ہوا ۔خدابخش کو چھے سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔
ہندو ستان کے مسلمانوں نے حکومت ہند سے مطالبہ کیا کہ راج پال کو گرفتار کرکے اس پر مقدمہ چلایا جائے ۔ آخر مسلسل قاتلانہ حملوں اور مسلمانوں کے اضطراب کے رد عمل پر حکومت نے مہاشہ راج پال کو گرفتا ر کرلیا ۔ عدالت نے تین سال قید اور جرمانے کی سزادی لیکن سیشن جج نے جرمانہ معاف کردیا اور سزابحال رکھی ۔ ہائی کورٹ میں اپیل پر جسٹس کنور دلیپ سنگھ (عیسائی)نے راج پال کوبری کردیا ۔ اس فیصلہ پر لاہور کے انگریزی روزنامہ ’’مسلم آؤٹ لک‘‘ نے تبصرہ کیا تو اسے تو ہین عدالت پر سزاہوئی ۔ جسٹس کنور دلیپ سنگھ کے اس رویہ پر عوام کا احتجاج اس قدر عام ہوا کہ حکومت کو عدالت عالیہ کی پوزیشن محفوظ کرنا مشکل ہوگئی ۔
۴اور ۵؍جولائی ۱۹۲۷ء کی درمیانی رات کو مسلمانان لاہور کی طرف سے دہلی دروازہ کے باغ میں ایک جلسے کا اعلان کیا گیا ، جس میں شاہ جی ، مولانا احمد سعید ، مولانا مفتی کفایت اﷲ، چودھری افضل حق ،خواجہ عبدالرحمن غازی نے تقریریں کرنی تھیں ۔ لیکن اسی روز لاہور کے ڈپٹی کمشنر مسٹر او گلوی نے دفعہ ۔ ۱۴۴لگا کر جلسے کو ممنوع قرار دے دیا ۔ مگر شاہ جی کی تجویز پر جلسہ میاں عبدالرحیم کے احاطہ میں منعقد کیا گیا ۔ (یہ احاطہ مو جودہ مزار حضرت شاہ محمد غوث ؒ بیرون دہلی دروازہ کے بالمقابل واقع ہے۔) اس وسیع احاطہ میں ہزاروں لوگ جمع ہوگئے اور جلسے کی صدارت چودھری افضل حق نے کی ۔ فوج اور پولیس کے علاوہ مسٹر اوگلوی ذاتی طور پر بھی احاطہ کے باہر موجود تھے او ر اندر آکر اعلان کیا کہ:
’’دفعہ ۱۴۴کے باعث یہ مجمع خلاف ِ قانون ہے ۔ آپ لوگ پانچ منٹ کے اندر یہاں سے چلے جائیں، ورنہ مجھے گولی چلانے کا حکم دینا پڑے گا‘‘۔
ڈپٹی کمشنر کے اس اعلان پر خواجہ عبد الرحمن غازی نے ڈپٹی کمشنر کو انگریزی میں کہا:
’’ہم اس قانون کو اپنے پاؤں تلے روندتے ہیں ، جو قانو ن ہمیں ناموس ِ پیغمبر کی حفاظت کی ضمانت نہیں دیتا۔ تم جو چاہو کرو، ہم یہ جلسہ کریں گے۔‘‘
اس کے بعد شاہ جی نے تقریر کرتے ہوئے کہا:
’’آج ہم سب فخرِ رسل ﷺکی ناموس کو بر قرار رکھنے کے لیے جمع ہوئے ہیں ۔ بنی نوع انسان کو عزت بخشنے والے کی عزت خطرے میں ہے۔ آج اس جلیل القدر ہستی کا ناموس معرض ِ خطر میں ہے۔ جس کی دی ہوئی عزت پر تمام مو جودات کو ناز ہے ۔
آج مفتی کفایت اﷲ صاحب اور مولانا ااحمد سعید صاحب کے دروازے پر ام المومنین عائشہ صدیقہ اور ام المومنین حضرت خدیجۃالکبریٰ رضی اﷲ عنہماآئیں اور فرمایا کہ ہم تمہاری مائیں ہیں ۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ کفار نے ہمیں گالیاں دی ہیں ؟
ارے دیکھو تو ام المو منین عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا دروازے پر تو کھڑی نہیں ‘‘؟
یہ سن کر حاضرین میں کہرا م مچ گیا اور مسلمان دھاڑیں مار مار کر رونے لگے ۔ شاہ جی نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا:
’’تمہاری محبت کاتو یہ عالم ہے کہ عام حالتوں میں کٹ مرتے ہو ، لیکن کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آج سبز گنبد میں رسول اﷲﷺ تڑپ رہے ہیں اور خدیجۃ الکبریٰ ؓاور عائشہ صدیقہ ؓپریشان ہیں ۔ بتاؤ!تمہارے دلوں میں امہات المو منین ؓ کی کیا وقعت ہے ؟ آج ام المو منین عائشہ تم سے اپنے حق کا مطالبہ کر رہی ہیں ۔ وہی جنہیں رسول اﷲ ’’حمیرا‘‘ کہہ کر پکارتے تھے ۔ جنہوں نے سید دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کو رحلت کے وقت مسواک چبا کر دی تھی ۔
اگر تم خدیجۃؓ اور عائشہ ؓ کی ناموس کی خاطر جانیں دے دو تو کچھ کم فخر کی بات نہیں ۔ یاد رکھو !یہ موت آئے گی ، تو پیام حیات لے کر آئے گی ‘‘۔ (روزنامہ زمیندار ۷؍جولائی ۱۹۲۷)
یہ تقریر اس قدر مؤ ثر اور جذباتی تھی کہ تمام مجمع میں حشر بپا تھا ۔ شاہ صاحب کی تحریک پر لو گوں کے جتھے باغ میں جلسہ گاہ جاتے اور گرفتار ہو جاتے ۔ ان پر لا ٹھی چارج بھی کیا جاتا ۔ یہ سلسلہ تھوڑی دیر جاری رہا۔ بعد ازاں شاہ جی نے عوام کو اپنے جذ بات پر قابو رکھنے کی اپیل کی اور کہا:
’’ہمارا مؤقف قتل وغارت گری نہیں ۔ بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ بر طانوی حکومت تعزیرات ہند میں ایک ایسی دفعہ کا اضافہ کرے جس کی رُو سے بانیانِ مذ ہب کے خلاف تقریر و تحریر کی پابندی ہو اور اس کی خلاف ورزی کرنے والا مجرم قرار پائے ‘‘۔
اس قرار داد کے بعد جلسہ بر خاست کر دیا گیا لیکن عوام کو پر امن طور پر احاطہ سے باہر نکالنے کے لیے شاہ جی خود دروازے پر کھڑے ہوگئے ۔ ان کے سامنے مسٹر او گلوی کھڑا تھا ۔شاہ جی اپنے مخصوص انداز میں لو گوں کو پر امن رہنے کی تلقین کر رہے تھے اور ساتھ ہی مسٹر او گلوی سے پنجابی میں کہا :
’’او گلوی !او کھے گھر نیو ندرہ پایا ای ‘‘!(اوگلوی !تم نے مشکل گھرانے سے ٹکر لی ہے ‘‘) (ازحیات امیر شریعت، صفحہ ۱۰۰ تا ۱۰۵)