امام اہلِ سنّت، مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری رحمۃ اﷲ علیہ
(معروف شاعر اور ادیب جناب سید امین گیلانی رحمۃ اﷲ علیہ مجلس احرار اسلام سے وابستہ تھے اور حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری سے خصوصی محبت کا تعلق رکھتے تھے۔ ان کی شاعری کے موضوعات میں دینی وقومی مباحث بالخصوص عقیدہ ختم نبوّت کے تحفّظ کو سر نامہ کی حیثیت حاصل تھی۔ تحریکِ مقدّس ختم نبوت کے دورِ اوّل سن ۱۹۵۳ء میں ان کو قید و بند کی صعوبتوں سے بھی گزرنا پڑا۔ اس کے بعد بھی تا آخر دم وہ اس مبارک جدّ و جہد سے جڑے رہے، تحریک کے جلسوں میں وہ اپنی ہی کہی ہوئی نعتیں اور نظمیں ترنّم کے ساتھ پڑھتے تو مجمع جھوم جھوم جاتا، زیرِ نظر تحریر ان کی نظموں کے مجموعے ’’آئینِ جواں مرداں‘‘ پر مقدمہ کے طور پر لکھی گئی اور ان کی کتاب میں شاملِ اشاعت ہے۔ ادارہ)
الحمدُ للّٰہ
وَحدہٗ والصَّلوٰۃُ والسّلامُ عَلَی مَنْ لَّا نَبِیَّ بَعْدَہٗ و عَلَیٰ آلہٖ وَ اَصْحَابِہٖ وَ اَزْوَاجِہٖ وَ ذُرِیَّاتِہٖ وَ اَتْبَاعِہٖ الَّذِیْنَ اوفوا عَہْدَہُ امّا بَعْدُ !
(۱) دنیا میں کوئی اچھائی اور بھلائی ایسی نہیں جو اسلام میں موجود نہ ہو۔ یقینا جو قانون دین و دنیا کو ایک صف میں لا کھڑا کرے اس کی جامعیت کے دعویٰ پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔
نبوّت اپنے معنی اور مقصد کے لحاظ سے چونکہ عام انسانی سطح سے بے انتہا بلند ہے، اس لیے وہ کسب اور سعی کی مرہونِ منت نہیں ہوتی، اس کا قاعدہ وحی و الہام ہے، اس کا لاؤ لشکر دلائل و معجزات ہیں، اس کے ہتھیار اخلاق و اعمال اور ان سب کی جلوہ گری کا بالکل فطری اور عقلی ذریعہ فصاحت و بلاغت کے دریا بہانے والا طرزِ ادا اور طریقِ بیان ہوتا ہے۔ جسے صرف و نحو کے مصنوعی سانچوں اور شعر و انشاء کے خود ساختہ پیمانوں میں ڈھالنے اور ناپنے سے خالق مطلق نے ہمیشہ کے لیے بے نیاز کر دیا ہے، لیکن انبیاء علیہم السلام کو چھوڑ کر ساری مخلوق انھی ذرائع کو اختیار کرنے پر طبعاً و فطرتاً مجبور ہے، مگر ضابطہ کی پابندی اور حفظِ مراتب کی قید یہاں بھی اسلام نے لگا دی تاکہ زندگی کا یہ گوشہ بھی آوارہ اور بے لگام نہ رہ جائے۔
(۲) شعر کے متعلق افصح العرب والعجم صلی اﷲ علیہ وسلم کا اپنا ارشاد ہے: ھُوَ کَلَامٌ فحسنُہٗ حَسَنٌ وَ قَبِیْحُہٗ قَبِیْحٌ۔ یعنی وہ بھی کلام ہی کی ایک قسم ہے۔ اس کا اچھا اچھا ہے اور بُرا بُر۔
پھر اچھائی اور برائی کامعیار بھی خود قائم فرمایا کہ: مِن حُسنِ اسلام الْمَرْءِ تَرْکہُ مَا لا یَعْنِیْہِ۔یعنی کسی آدمی کے اسلام کی خوبی اس کا بے مصرف اور فضول باتوں کو چھوڑ دینا ہے۔
پھر لایعنی امور کی تعیین کے ضمن میں خود ہی یہ ارشاد فرمایا کہ: ھَلَکَ الْمُتَنَطِّعُوْنَ ! یعنی تصنُّع اور مبالغہ والے زبان درازوں کی ہلاکت اور بربادی مقدر ہو چکی ہے۔
پھر ان تصنُّع اور مبالغہ کرنے والے زبان درازوں کی ہلاکت کا بنیادی سبب بھی خود ہی بتا دیا کہ: مَنْ تَعَلَّمَ صَرَفَ الْکَلاْمِ لیَسبی بِہٖ قُلوبَ الرِّجَال إلیہ لَمْ یَقْبَل اللّٰہُ مِنْہِ یومَ القِیٰمَۃِ صرفاً وَلا عدلاً یعنی جس نے باتوں کا الٹ پھیر صرف اس لیے سیکھا کہ لوگوں کے دل قابو کر سکے تو اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا کوئی حیلہ اور فدیہ قبول نہیں کریں گے۔
پھر باتوں کے ریاکارانہ الٹ پھیر کی مذموم حرفت کی اصل علت اور غرض پر بھی خود ہی تنبیہ فرمائی کہ: لَا تَقُوْم السَّاعَۃُ حَتّی یَخْرُجَ قَومٌ یاکُلُونَ بِألْسِنَتِھِمْ کَمَا یَأ کل البَقَرَۃُ ! یعنی قیامت نہیں قائم ہو گی یہاں تک کہ ایک ایسی ’’قوم‘‘ پیدا ہو جائے گی جو اپنی زبانیں چلا کر یوں کما کھائے گی جیسے گائے بیل منہ مارتے اور چرتے ہیں۔
پھر ان ناپاک اغراض سے ملوث فنِ شعر کی حقیقت اور اس کے مکروہ اور گھناؤنے باطن کو بھی خود ہی یوں بے نقاب فرمایا کہ: لَأن یمتلیٔ جوفُ رجُلٍ قیحًا ، خَیْرٌ من اَن یمتلیٔ شِعْراً !یعنی کسی آدمی کا پیٹ ’’پیپ‘‘ سے بھرا ہوا ، بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ شعر سے پُر ہو۔
پھر اسی شعر کی اصل دینی غرض و غایت کی تمہید یوں بیان فرمائی کہ: اِنَ مِنَ الْشِعرِ لحِکْمَۃً ! یعنی یقینا بعض ’’شعر‘‘ سراپا ’’حکمت‘‘ ہوتے ہیں۔
پھر اسی حکمت اور دانائی کے اظہار کے لیے مطلوبہ اوصاف اور پیرایۂ بیان کی وضاحت یوں فرمائی کہ: اَصدَقُ کَلِمَۃُ قالھا الشَّاعرُ کَلِمَۃُ لِبید (رضی اللّٰہ عنہ) ’’ اَلَا کَلُّ شیئی مَا خَلا اللّٰہُ باطلا ‘‘ یعنی سب سے زیادہ سچی بات جو کسی شاعر نے کہی ہو وہ لَبید (رضی اﷲ عنہ) کا یہ قول ہے: ’’اچھی طرح سن لو! اﷲ کے سوا ہر چیز بے بنیاد اور فانی ہے‘‘۔
پھر اس مطلوبہ حکمت اور سچائی کی حقیقی قدر و منزلت اور اسلام میں اس کے عباداتی مقام کے اظہار کے لیے طریقہ اور سنت بھی خود ہی متعین فرما دیا:
عن عَائشۃَ (الصِّدیقۃِ سلام اﷲ علیہا) قالت کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَضعُ لحسَّانٍ منبرا فی المسجدِ یقوم علیہ قائماً یُفَاخر عن رسول اللّٰہ صلی اﷲ علیہ وسلم أو ینافح و یقول رسول اللّٰہ صلی اللّہ علیہ وسلم اِن اللّٰہ یؤیّد حسان بروح القدس ما نافح أو فاخر عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (مشکوٰۃ)
ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور علیہ السلام حسان بن ثابت (شاعرِ اسلام) کے لیے مسجد نبوی میں خود منبر رکھتے تھے تاکہ وہ اس پر کھڑے ہوں، پھر حالت یہ ہوتی تھی کہ وہ حضور علیہ السلام کی نسبت اور آپ کی طرف سے اظہارِ فخر اور دین کی مُدافَعت شروع کر دیتے ہیں اور حضور علیہ السلام، اسلام پر اظہارِ فخر اور دینی مدافعت کے لیے یہ فرماتے رہتے کہ بے شک اﷲ تعالیٰ روح القدس کے ذریعہ حسان کی مدد اور تائید فرماتے ہیں۔
۳۔ برادرِ عزیز سید امین گیلانی (ایَّدہ بروح القُدُس،آمین) کو ذاتی اور جماعتی دوگونہ تعلقات کی بنا پر دوسروں کی نسبت زیادہ اچھی طرح جانتا ہوں۔ تقسیم ملک سے پہلے ان کے ’’رندانہ ماضی‘‘ کی تندیوں اور جولانیوں کو دیکھا، اب ’’درویشانہ اور مجاہدانہ حال ‘‘کی وارفتگیوں اور سرمستیوں سے آنکھیں ٹھنڈی ہو رہی ہیں اور مومنانہ انجام کی برکتوں اور لطافتوں کے آثار محسوس کر کے دل و دماغ مسرور ہیں اور روح مسرور ہوئی جا رہی ہے۔ بَارَکَ اللّٰہُ فِی الدُّنیا وَالآخرۃ ۔ آمین!
خصوصاً ’’تحریک مقدس ختمِ نبوّت‘‘ میں زبان و قلم اور قید و بند کی عملی شرکت سے سعادت حاصل کرنے کے بعد ان کے فکر و عمل میں جو زلزلہ بپا ہوا ہے، اس نے ان کی کایا پلٹ کر رکھ دی ہے۔ مجھے یقین ہو چکا ہے کہ ان کی ’’دنیا‘‘، ’’دین‘‘ بن گئی ہے، کیونکہ وہ اسلام کے مردود لایعنی اور باطل پیشہ سخن وری کے بجائے حکمت و صداقت کے علمبردار فنِّ شعر میں قدم رکھ چکے ہیں۔ اس کے ذریعہ حصولِ رضائے ربانی، مدافعتِ دینِ قَیِّمَہ اور تحفظ ختمِ نبوت کا مقصود حقیقی حاصل کرنے اور ایمانی فرض ادا کرنے کے لیے ان کی زبان و قلم کی پوری صلاحیت صرف ہو رہی ہے، جوہر دن بدن نکھر رہا ہے۔ سن و سال جوانوں کا مگر روح بڑی معمر، آثار اچھے ہیں، کیونکہ مقصد اٹل ہے اور عزم راسخ، اس لیے کلام میں یقین کی منزل کی جھلک آنا عین فطری ہے۔ انھی کی زبان سے ان کی ترجمانی ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ اسلام کے نام پر کفر و ارتداد کی سرپرستی اور فسق و فجور کے جبری نفاذ پر موجودہ اقتدار کے متعلق غیرت ایمان و سوز و درد کا اظہار اور اس کے مقابلہ میں تبلیغ اور اعلاءِ کلمۃ الحق کے عزم اور ولولہ کا دو لفظی اظہار دیکھیے، کہتے ہیں:
خداوندا ! نظامِ گلستاں ہے کن کے ہاتھوں میں
ہر اک گل کی دریدہ ہے قبا دیکھا نہیں جاتا
تیری دنیا نے کیا کیا رنگ بدلے ! تونے دیکھا ہے
مگر مجھ سے تو اے میرے خدا دیکھا نہیں جاتا
مشکل ہی پڑے تو زیست کے دن ہوتے ہیں بسر آسانی سے
مشکل نہ پڑے جب تک کوئی، مشکل سے گزارہ ہوتا ہے
اور وہ ہونگے ہارنے والے ، ہار کے ہمت ہار گئے
تو؟ اور ہم کو جیت سکے گی؟ گردشِ دوراں! دیکھیں گے
دیکھنے، سننے والے خود ہی گواہی دیں گے کہ متانت، سلاست، پاکیزگی، درد و سوز ، حلاوت، بصیرت، ولولہ، عزم اور یقین و ایمان ان کے کلام کے حقیقی عناصر اور نمایاں اوصاف ہیں۔ مدت سے انتظار تو مکمل دیوان کا تھا مگر انھوں نے وقتی ضرورت کے تحت ’’آئین جوانمرداں‘‘ کے نام سے ایک مختصر سا شعری گلدستہ سجا کر قدر دانوں کے سامنے پیش کیا ہے۔ اس میں کچھ قومی اور سیاسی غزلیں ہیں۔ درمیان میں ختمِ نبوّت کے مقدس موضوع پر دل دوز اور پُرسوز نظموں اور قطعات کا حصہ ہے اور پھر دین کے حقیقی واسطہ کے سلسلہ میں کچھ منظومات اور قطعات سے خاتمہ بالخیر ہوا ہے۔ عجوبہ اور حادثہ یہ ہے کہ مجموعہ کے ابتدائی صفحات ’’نقد و نظر‘‘ کے عنوان سے مخصوص کر کے مجھ جیسے ’’مُلّائے مکتبی‘‘ کو نسبی اور جماعتی تعلق کی بنا پر انھوں نے تقدمہ نویسی کے لیے منتخب کیا ہے۔ یہ انتخاب محض ان کے اخلاص و محبت اور حسنِ ظن کا مظاہرہ ہے، ورنہ اپنے میں ’’نقد‘‘ کی تو سرے سے صلاحیت ہی نہیں اور ’’نظر‘‘ سے باطن پہلے ہی محروم ہے، اصل میں تو یہ کام اہل بصیرت و فن اور اساتذہ کا حصہ ہے۔ وَ لِکُل فن رِجال!
باقی رہا فن اور اس کے خصوصیات تو یہ بقامت کہتر بقیمت بہتر مجموعہ جو،اب ’’دامانِ خیال‘‘ کے نام سے چھپ چکا ہے، اپنے محاسن پر خود ایک واضح شہادت اور عمدہ مثال ہو گا۔ مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید
واﷲ اعلم یہ چند سطور خیالات ہیں، یا نظریات یا صرف وعظ؟ بہرحال امتثال امر کے لیے جو کچھ میسر ہوا قلم برداشتہ حاضر کر دیا گیا ہے۔ دعا ہے کہ پروردگارِ عالم اس مومن، مخلص، مجاہد، غیّور، رندِ فقیر اور جواں سال سخنور کو ’’شاعرِ اسلام‘‘ کے منصب عالی پر قائم و دائم فرمائے۔ اس کے دل و دماغ کو ملکوتی امداد اور تائیدِ غیبی سے بہرۂ وافر عطا کرے۔ اس کی زبان و قلم کو فن کی تمام خوبیوں سے مزین کر کے شعلۂ و شبنم کا امتزاج بخشے۔ کفر و باطل کے لیے سیفِ بے نیام اور دین و اہل دین کے حق میں سپر بنائے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ نسبی تعلق کی برکت سے دین و دنیا میں کامرانی نصیب فرمائے۔ آمین
وسلام علی المُرْسلِیْن والحمدُ لَلّٰہ رَبِّ العالمین۔ (۴؍ جمادی الاخریٰ، ۷۷ھ/۲۷؍ دسمبر ۵۷ء )