مولانا ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی
غزواتِ نبوی میں شرکت:
ایک تاریخی واقعہ اور نبوی سنت یہ رہی ہے کہ عہدِ نبوی میں خواتین غزوات میں شرکت کیا کرتی تھیں، عام خواتین کے علاوہ ازواجِ مطہرات کی بعض غزوات میں شرکت و خدمت کی ناقابلِ تردید روایات ملتی ہیں، ان کا غزوات اور بعض سرایا میں جانا محض رفاقت کی بنا پر نہیں تھا جیسا کہ ازواجِ مطہرات رضی اﷲ عنہن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے، بلکہ وہ خدمت اور فوجی فرائض کی بجا آوری بھی کرتی تھیں اور بعض خواتین نے تو باقاعدہ سیف و سنان کے ساتھ جہاد بھی کیا تھا، رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب ہاشمی نے اپنے قلعۂ حفاظت میں ایک دشمن کو مار گرایا تھا، میدانِ جنگ میں ان کی موجودگی، کارگردگی اور خدمت گزاری بابِ جہاد کا ایک حسین ترین عنوان ہے اور وہ سچ بات یہ ہے کہ ایک الگ تحقیقی مطالعے کا موضوع ہے۔
اُمِّ ایمن رضی اﷲ عنہا، انھیں مجاہدات اور سرفروش خواتین میں سے ایک تھیں، جنھوں نے رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ بعض غزوات میں شرکت کی تھی اور جہاد و قتال کے میدان میں اپنے حصے کا فریضہ انجام دیا تھا، ان کا زیادہ تر کام زخمیوں کی دوا دارو کرنا اور سپاہیوں کو پانی پلانا وغیرہ وغیرہ فوجی کام ہی بتایا گیا ہے، لیکن قوی امکان ہے کہ اس کے علاوہ بھی انھوں نے اور دوسرے فرائض انجام دیے ہوں کہ میدانِ جنگ اپنے خاص تقاضے رکھتا ہے۔
غزوۂ بدر میں خواتین بالخصوص حضرت اُمِّ ایمن رضی اﷲ عنہا کی شرکت کا سوال نہیں پیدا ہوتا کہ اصلاً رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم قریش سے جنگ کے لیے نہیں تشریف لے گئے تھے بلکہ شام سے واپس آنے والے قریشی کارواں کے ارادے سے گئے تھے، بدر کی جنگ بلا ارادہ و منصوبہ پیش آ گئی تھی، لہٰذا اس میں مرد غازیانِ کرام کی شرکت ہی ضرورت سے کم تھی تو خواتین کی شرکت کیا ہوتی، البتہ بعد کے دوسرے غزوات منصوبہ بند تھے اور ان میں خواتین بھی باقاعدہ شریک کی گئی تھیں، حضرت اُمِّ ایمن رضی اﷲ عنہا کی شرکت جہاد کی روایات غزواتِ اُحد، خیبر و حنین وغیرہ کے حوالے سے ملتی ہیں۔
غزوۂ اُحد۳ھ؍ ۶۲۵ء:
ابنِ سعد نے واقدی کی روایت میں صرف یہ بیان کیا ہے کہ حضرت اُمِّ ایمن رضی اﷲ عنہا نے جنگِ اُحد میں شرکت کی، وہ پانی پلاتی اور زخمیوں کا دوا دارو کرتی تھیں۔ (۴۶) مگر بلاذری نے اس واقعے کے ساتھ دوسرا دلچسپ جنگی واقعہ بھی بیان کیا ہے کہ رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اَنّا حضرت اُمِّ ایمن رضی اﷲ عنہا، انصار کی کچھ خواتین کے ساتھ مسلمانوں کو پانی پلا رہی تھیں، دشمن سپاہی حبان ابن العرقہ نے ان کو تیر کا نشانہ بنایا، جس نے ان کے دامن کے ذیل کو زمین میں پیوست کر کے ان کا ستر کھول دیا، دشمن اپنی حرکتِ ناشائستہ پر خوب ہنسا، رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن ابی وقاص زہری رضی اﷲ عنہ کو ایک تیر دے کر فرمایا کہ اس کا نشانہ لو، حضرت سعد رضی اﷲ عنہ نے تیر چلایا جو اس کو جا لگا اور اس کا کام تمام کر دیا، وہ لڑھک کر گرا تو رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم ہنس دیے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دندانِ مبارک کھل گئے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سعد! نے ان کا بدلہ لے لیا، پھر ان کو دعا دی کہ اﷲ تعالیٰ تمھاری دعا کو ہمیشہ قبول فرمائے اور تمھاری تیر اندازی کو پکّا کر دے۔ (۴۷) دوسری خواتینِ احد تھیں: حضرت اُمّ سلیم بنت ملحان، حضرت عائشہ، حمنہ بنت جحش اور حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہن۔
اسی غزوہ کا ایک اور واقعہ بلاذری نے یہ نقل کیا ہے کہ غزوۂ اُحد میں قریشی شہ سوار دستے کے اچانک حملے کی بنا پر جب افراتفری پھیل گئی اور کچھ مسلمان مجاہدوں کے پاؤں اکھڑ گئے تو حضرت اُمّ ایمن بھاگنے والوں کے چہروں پر خاک پھینک کر ان کو غیرت دلانے لگیں: ’’بھگوڑو کہاں بھاگے جاتے ہو، واپس لوٹو۔ (۴۸)
واقدی کی روایت سے واضح ہوتا ہے کہ وہ دوبار میدانِ جنگ تشریف لے گئی تھیں اور اُن کے ساتھ بعض دوسری خواتین بھی تھیں، قلعۂ حفاظت سے حضرت صفیہ بنت عبد المطلب ہاشمی نے مسلمانوں کی ہزیمت کا دل دوز نظارہ دیکھنے کے بعد جب میدانِ جنگ کا رخ کیا تو بنو حارثہ کے محلے میں اُن کی ملاقات حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا اور بعض انصاری خواتین سے ہوئی اور وہ سب دوڑ کر خدمتِ نبوی میں پہنچیں اور رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم خیریت دریافت کی۔ (۴۹)
غزوۂ مُرَیْسِیْع:
۵ھ؍ ۶۲۷ء میں رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک اہم قبیلے بنو المصطلق کے خلاف فوجی کارروائی کی، اس کو مقامِ جنگ کے نام سے موسوم کر کے بالعموم غزوۂ مُریسیع کہا جاتا ہے، یا قبیلے کی طرف نسبت دے کر غزوۂ بنو المصطلق کا نام دیا جاتا ہے۔ غزوے سے واپسی کے سفر میں اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا پر بعض منافقین نے تہمت لگائی، جس کا شکار بعض مسلمان بھی ہو گئے۔ مدینے واپس آ کر رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس واقعۂ اِفک کی تحقیق فرمائی اور اپنے اہلِ بیت کے مردوں اور عورتوں سے مشورہ کیا، مردوں کے علاوہ خواتین میں حضرت بریرہ باندی (رضی اﷲ عنہا) سے پوچھا اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی برأت کی اور اسی طرح دوسری زوجۂ مطہرہ حضرت زینب بنت جحش رضی اﷲ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے اعلیٰ کردار، پاک و صاف زندگی اور عفت و طہارت کی بہت خوبصورت گواہی دی، پھر رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا سے دریافت فرمایا، ان کا جواب تھا: میرے کان و آنکھ محفوظ رہیں، میں نے ان کے بارے میں سوائے خیر کے نہ کچھ جانا اور نہ کچھ گمان کیا۔ (ثم سأل رسول اللّٰہ ﷺ اُمّ ایمن فقالت حاشی سمعی و بصری ان اکون علمت او ظننت بہا قط الا خیرا)
رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اہلِ بیت کے ایک متفقہ اظہار و اعلانِ برأت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے بعد خطبہ عطا فرمایا۔ (۵۰) حضرت بریرہ رضی اﷲ عنہا سے استفسار حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے مشورے پر کیا تھا۔
قیاس کہتا ہے کہ حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا اس غزوے میں شریک تھیں اور دوسری خواتین اہلِ بیت بھی، جن سے رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے کردار کے بارے میں تحقیق فرمائی تھی، روایات سے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مرد صحابہ کرام اور خواتین صحابیات میں سے صرف مخصوص لوگوں سے ہی دریافت فرمایا تھا، نہ سب قریبی صحابہ سے اور نہ تمام اہلِ بیت و ازواجِ مطہرات سے، دوسرے جن سے تحقیقِ حال کی تھی اُن میں مرد و خواتین میں سے بیشتر کی شمولیت کی تصدیق ہوتی ہے، تیسرے یہ کہ واقعۂ افک ایک مخصوص مقام و موقع سے متعلق تھا، لہٰذا اس غزوے کے شرکاء سے ہی تحقیق حال منطقی لگتی ہے۔ ان وجوہ سے ان کی شرکت کا یقین ہوتا ہے۔
غزوۂ خیبر ۷ھ؍ ۶۲۹ء:
ابنِ سعد نے صرف ایک جملے میں بیان کیا ہے کہ حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا غزوۂ خیبر میں رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھیں، اس کے علاوہ انھوں نے اس روایت کی کوئی تفصیل نہیں دی ہے، جیسی کہ غزوۂ اُحد کے بارے میں دی ہے۔ (۵۱) واقدی نے بیان کیا ہے کہ اس غزوے میں مدینہ سے بیس خواتین نے حصہ لیا تھا اور ناموں کی فہرست میں حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کا بھی نام لیا ہے۔
غزوۂ خیبر کے ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ ابنِ اسحاق کی سیرت میں ضمناً آ گیا ہے، حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہ کے فرزند حضرت ایمن بن عبید خزرجی رضی اﷲ عنہ غزوۂ خیبر میں شریک نہیں ہوئے اور وہ بنو عوف بن الخزرج کے ایک فرد و مرد کار تھے: (وکان قد تخلف عن خیبر وہو من بنی عوف بن الخزرج وکانت اُمہ اُم ایمن مولاۃ رسول اللّٰہ صلی اﷲ علیہ وسلم)۔
حضرت اُم ایمن باوجود خاتونِ خانہ ہونے کے اس غزوے میں شرکت کی تھی، ان کو فرزندی کی بزدلی یا کوتاہی پر غصہ آیا اور انھوں نے فرزند کو سرزنش کی، حضرت حسان بن ثابت خزرجی نے حضرت اُم ایمن کی جناب میں ان کے فرزند کی طرف سے عذر پیش کیا اور چند اشعار میں اس کو ڈھال دیا:
علی حین ان قالت لأیمن أمہ
1جبنت ولم تشہد فوارس خیبر
3و أیمن لم یجبن ولکن مہرہ
7أضرَّ بہ شرب المدید المخمر
;ولولا الذی قد کان من شان مہرہ
5لقاتل فیہم فارسا غیر أعسر
+ولکنہ قد صدہ فعل مہرہ
5و ما کان منہ عندہ غیر ایسر
Ö ابن ہشام کا تبصرہ ان اشعار پر یہ ہے کہ ابو زید نے یہ اشعار حضرت کعب بن مالک کے بطور ان کو سنائے تھے۔ (۵۲)
دوسرے غزوات میں حضرت اُم ایمن رضی اﷲ عنہا کی شرکت خارج از امکان و بعید از قیاس نہیں ہے، خصوصاً اس روایت کے بعد کہ انھوں نے مجاہدینِ اسلام کو غزوۂ حنین کے موقع پر ثبات قدمی کی دعا دی تھی، مگر اپنی تنگیٔ زبان کے سبب ’’ثبت‘‘ کو ’’سبت‘‘ بنا دیا تھا اور اس کا ذکر ان کی عربی زبان میں غلطی کے حوالے سے آتا ہے، واقعات کی تاریخی ترتیب تقاضا کرتی ہے کہ حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا فتحِ مکہ اور غزوۂ حنین دونوں میں شریک تھیں، کیونکہ انھوں نے یہ دعا میدانِ جنگ میں جاتے وقت دی تھی، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ اسلامی فوج کے ساتھ مکہ مکرمہ اور وہاں سے حنین گئی تھیں۔
سریۂ اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہ:
اپنی دنیاوی حیات طیبہ کے اواخر میں رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ بن زید کلبی کو سریۂ فلسطین کا امیر مقرر فرمایا، اس کا بنیادی مقصد رومیوں سے حضرت زید بن حارثہ کلبی کی شہادت اور ان کے رفقا کی الم ناک موت کا انتقام لینا تھا، واقدی کے مطابق رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دو شنبہ ۲۶؍ صفر ۱۱ھ کو مسلمانوں کو ’’غزوۂ روم‘‘ کے لیے تیار رہنے کا حکم دیا اور دوسرے دن منگل کو حضرت اسامہ بن زید کلبی رضی اﷲ عنہ کو بلا کر فوج کی کمان سونپی، اس کے ایک دن بعد ہی رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیماری شروع ہو گئی اور اسلامی لشکر اپنی منزل کے لیے روانہ نہ ہو سکا۔
اس دوران لوگوں کو باتیں بنانے اور تنقید کرنے کا موقع مل گیااور بعض حلقوں نے حضرت اسامہ رضی اﷲ عنہ کی امارت پر اعتراض کیا کہ وہ نوجوان اور غلام زادے ہیں اور اس سے قبل انھوں نے حضرت زید کلبی کی امارت پر اسی طرح اعتراضات کیے تھے اور رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو ان کی اطلاع ملی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت زید اور ان کے فرزند حضرت اسامہ رضی اﷲ عنہما دونوں کی کی امارت کے لیے ان کی لیاقت کی تصدیق کی اور اپنے خطبۂ عالیہ میں معترضوں کے اعتراضات کو شد و مد سے رد فرما دیا اور فوج کی امارت پر ان کو برقرار رکھا۔ (۵۳)
حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا جو نوجوان امیر لشکر کی ماں تھیں، رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمتِ عالی میں حاضر ہوئی اور درخواست کی کہ حضرت اسامہ رضی اﷲ عنہ کو لشکر گاہ میں قیام کرنے سے بچانے اور ان کی حالت سدھارنے کے لیے وقت عطا فرمایا جائے کہ موجودہ حالت میں وہ کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکیں گے، ان کا مقصد وہی تھا کہ ان کو امارت سے معاف کر دیا جائے لیکن آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ لشکرِ اسامہ کو ضرور روانہ کیا جائے اور حضرت اسامہ کو لشکر گاہ کا حکم عطا فرمایا۔
و دخلت اُم ایمن فقالت : ای رسول اللّٰہ لو ترکت أسامۃ یقیم فی معسکرہ حتی تتمائل فان أسامۃ إن خرج علی حالتہٖ لم ینتفع بنفسہ فقال رسول اللّٰہ ﷺ انفذوا بعث اسامۃ۔(۵۴)
حضرت اسامہ اپنے لشکر گاہ سے روانہ ہونے والے تھے کہ ان کی والدہ حضرت اُم ایمن کے قاصد نے ان کو اطلاع دی کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا وقتِ آخر آ گیا، لہٰذا وہ مدینے اکابر صحابہ کے ساتھ لوٹ آئے، جن میں حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اﷲ عنہما شامل تھے:
فبینا اسامۃ یرید أن یرکب من الجرف أتاہ رسول اُمّ أیمن وہی أمہ ، تخبرہ أن رسول اللّٰہ یموت۔(۵۵)
قیامِ مدینہ کے واقعات
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا اُمّ ایمن کی زیارت کے لیے تشریف لے جانا:
حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کی زیارت کرنا اور ان کے گھر پابندی سے جانا رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا معمول تھا، ابنِ اثیر اور دوسرے اہلِ سیر و سوانح کا بیان ہے کہ رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم باقاعدہ ان کے گھر جا کر ان کی زیارت فرماتے تھے، و کان یزورھا فی بیتھا۔(۵۶)
بظاہر یہ زیارت مدنی دور سے متعلق معلوم ہوتی ہے لیکن اس کو مطلق واقعہ اور مستقل سنت سمجھنا چاہیے، کیونکہ حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا، حضرت زید بن حارثہ کلبی سے مکہ مکرمہ میں منسوب ہونے کے بعد ایک الگ مکان میں رہنے لگی تھیں، ان کے مقام و مرتبہ اور رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے ان کے تعلق و ربط کی بنا پر آپ کے دوسرے اعزہ و اقربا اور صحابہ بھی ان کی زیارت کو جایا کرتے تھے، ان میں حضرات شیخین، حضرت ابوبکر صدیق و عمر فاروق رضی اﷲ عنہما سب سے زیادہ نمایاں تھے: و قیل إنَّ أبا بکر و عمر کانا یزورانہا کما کان رسول اللّٰہ صلی اﷲ علیہ وسلم یزرورھا۔(۵۶)
ابن اثیرنے یہ روایت کلمۂ ضعف کے ساتھ بیان کی ہے کہ وہ مجروح، کمزور یا غلط روایت ہے، لیکن یہ درست نہیں کیونکہ اس کی تائید دوسرے مصادر کی روایات سے ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم بالخصوص حضرات شیخین ان کی زیارت کے لیے جایا کرتے تھے، حیاتِ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم میں بھی اور رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خاص طور سے، امام مسلم نے حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کے فضائل پر ایک باب باندھا ہے، جس میں واضح حدیث ہے کہ رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لے جایا کرتے تھے، ایک دوسری حدیث ہے کہ ایک بار تشریف لے گئے تو انھوں نے شربت پیش کیا، مگر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے واپس کر دیا تو حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا غصے ہوئیں، تیسری حدیث میں حضراتِ شیخین رضی اﷲ عنہما کے جانے کا ذکر ہے۔ (۵۸) حدیث کے الفاظ یہ ہیں: عن انس انطلق رسول اللّٰہ صلی اﷲ علیہ وسلم إلی أم أیمن فانطلقت معہ ، فناولتہ إناء فیہ شراب، قال لا أدری أ صاد فتہ صائما أو لم یردہ فجعلت تصخب علیہ و تذمر علیہ۔(۵۹)
حجاب:
حضرت اُمّ ایمن کا تعلق اہلِ بیت نبوی سے تھا کہ وہ موالی نبوی ہونے کے سبب گھر والوں میں سے تھیں، رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اسی بنا پر ان سے محبت بھی فرماتے تھے اور ان کے لیے وہی پسند کرتے تھے جو اہلِ بیت کے لیے کرتے تھے، چنانچہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کے لیے بھی حجاب کا حکم دیا تھا: عن النبی صلی اﷲ علیہ وسلّم، قال: غطی قناعک یا اُمّ ایمن ۔(۶۰)
اقطاع؍ عطیۂ نبوی:
امام بخاری اور امام مسلم کی روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہجرتِ مدینہ کے بعد مہاجرین کو انصار کے اصرار و محبت پر ان کے باغات میں شریک و سہیم بنا دیا تھا اور ان کو کھجور کے درخت اور اراضی ہبہ کر دی تھی، غزوۂ بنو نضیر کے بعد رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مہاجرین کو یہودی اراضی سے قطائع (زمین کے عطیات) عطا فرمائے اور ان سے انصار کے باغات کے حصص اور ان کی اراضی ان کے مالکوں کو واپس کرادی۔ کچھ انصاری عطایا و اراضی پھر بھی مہاجرین و مہاجرات کے قبضے و ملکیت میں رہ گئی، کیونکہ ان کو نضیری اراضی سے زمین و جائیداد نہیں ملی تھی۔ غزوۂ بنی قریظہ کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس موہوبہ انصاری اراضی کو بھی ان کے اصل مالکوں کو واپس لوٹانے کا فیصلہ کیا۔ ان میں ایک اراضی اور باغ کا حصہ حضرت انس بن مالک خزرجی رضی اﷲ عنہ کے خاندان کا تھا، جو حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کے تصرف میں تھا، حضرت انس رضی اﷲ عنہ کے گھر والوں کو جب رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارادے کا علم ہوا تو انھوں نے حضرت انس رضی اﷲ عنہ کو خدمتِ نبوی میں بھیجا کہ وہ اپنے حصۂ باغ کی واپسی کی درخواست کریں۔ حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کو حضرت انس رضی اﷲ عنہ کے آنے کا علم ہوا تو وہ بھی فوراً جنابِ نبوی میں پہنچیں اور حضرت انس رضی اﷲ عنہ کی گردن میں کپڑا ڈال کر فرمانے لگیں کہ رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنا عطیہ ہرگز واپس نہیں کریں گے، رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو زمین واپس کرنے کا حکم دیا، لیکن وہ راضی نہ ہوئیں، آخر کار آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُمّ ایمن کو انصاری آراضی کا دس گنا یا اس کے مساوی دے کر ان کو راضی کر لیا۔ (۶۱)
عن انس قال کان الرجل یجعل للنبی ﷺ النخلات حتی افتتح قریظۃ والنضیر و ان اہلی امرونی ان آتی النبی ﷺ فاسالہ الذی کانوا آعطوہ او بعضہ ، و کان النبی ﷺ قد اعطاہ ام ایمن ، فجائت ام ایمن فجلعت الثوب فی عنقی تقول کلا والذی لا الہ الا ھو ، لا یعطیکم و قد اعطاتیہا ، او کما قالت ، والنبی ﷺ یقول : لک کذا، و تقول کلا واللّہ ، حتی اعطاھا ، حسبت انہ قال: عشرۃ امثالہ ، او کما قال۔
حافظ ابن حجر شارح مسلم، امام نووی کے حوالے سے حضرت اُمّ ایمن کے رویے کے تشریح کی ہے کہ وہ اس عطیے کو مستقل و تا ابد سمجھتی تھیں اور رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی تالیف قلب اور لحاظِ محبت کی بنا پر ان کے خیال و گمان کی تردید نہ کی اور اپنی طرف سے ان کو عطا فرمایا، اتنا عطا فرمایا کہ وہ راضی ہو گئیں، کیونکہ وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اَنّا تھیں۔
نبوی تعلقِ خاطر:
لاڈ پیا ر کا ایک رشتہ بھی رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کے ساتھ استوار کر رکھا تھا، ایک بار وہ خدمتِ نبوی میں تشریف لائیں تو رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ان کو ایک اونٹ برائے سواری عطا فرمائیں، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ازراہِ مذاق فرمایا کہ میں آپ کو اونٹنی کے بچے پر سوار کروں گا، حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! وہ میرا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا اور مجھے اس کی خواہش بھی نہیں، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تو آپ کو اونٹنی کا بچہ ہی دو ں گا‘‘۔ رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم ان سے اسی طرح مزاح فرماتے تھے اور مزاح میں بھی سچ بات ہی کہتے تھے، اس واقعے میں واضح ہے کہ تمام اونٹ اونٹنیوں کے بچے ہی ہوتے ہیں۔ (۶۲)
زبان کی رخصت:
حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا حبشی تھیں اور غالباً عربی حروف میں سے بعض کے مخارج صحیح نہیں نکال پاتی تھیں اور ان کی زبان میں بھی کچھ گرہ تھی، اسی بنا پر ان کو عسراء اللسان کہا گیا ہے، رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے انھوں نے غزوۂ حنین کے موقع پر مسلمانوں کو ثبات قدمی کی دعا دی تو ’’سبت اللّٰہ اقدامکم‘‘جس کا مفہوم کچھ اور ہو گیا، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو تنبیہ فرمائی اور خاموش رہنے کا حکم دیا، (۶۳) حضرت اسامہ کے بارے میں بھی یہ روایت آتی ہے کہ وہ ’’ث‘‘ کی آواز کو ’’س‘‘ سے جدا نہ کر پاتے اور ’’الثرید‘‘ کو ’’السرید‘‘ کہتے تھے، (۶۴) لیکن اسی کے ساتھ ان کو رخصت بھی عطا فرمائی، وہ خدمت میں آتیں تو لا سلام کہتیں، غالباً وہ السلام علیکم واضح طور سے نہیں کہہ پاتی تھیں، لہٰذا رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب ان کو ’’سلام لا علیکم‘‘ کہتے سنا تو اجازت عطا فرما دی کہ وہ صرف ’’سلام یا السلام‘‘ ہی کہہ لیا کریں، وہی ان کے لیے کافی ہے۔ (۶۵)
جانوروں کی چَرائی:
رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس بہت سے مویشی تھے جو مختلف چراگاہوں میں رہتے تھے، وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذاتی مویشی بھی اور اسلامی ریاست کے جانور بھی ان میں شامل تھے، ان کی دیکھ بھال اور چَرانے کے لیے متعدد چروالے تھے، حضرت اُمّ ایمن بھی ان میں سے ایک تھیں، بلاذری کے مطابق نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس سات دودھاری اونٹنیاں تھیں جن کو اُمّ ایمن چَراتی تھیں:
کانت للنبوی ﷺ منائح سبعۃ اعفر ترعاہن ام ایمن۔بلاذری نے ان کی تفصیل بھی دی ہے۔ (۶۶)
غالباً اسی خدمتِ نبوی کے حوالے سے مدتوں بعد حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہما اُموی نے حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کے فرزند حضرت اسامہ بن زید کلبی رضی اﷲ عنہما سے ایک گفتگو کے دوران فرمایا: اﷲ اُمّ ایمن پر رحم فرمائے، میں ان کو اب بھی گویا دیکھ رہا ہوں کہ وہ دونوں بکریاں؍ مویشی لے جا رہی ہیں، اس پر حضرت اسامہ رضی اﷲ عنہ نے جواب دیا: اﷲ کی قسم! وہ ہند یعنی حضرت معاویہ کی ماں سے بہتر تھیں اور زیادہ معزز بھی، حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کو ان کے معزز تر ہونے پر تعجب ہوا اور اس کا اظہار کیا تو حضرت اسامہ رضی اﷲ عنہ نے آیتِ کریمہ پڑھی: اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتََقَاکُمْ۔(۶۷)، غالباً حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ نے اس سے اتفاق کیا تھا۔ (۶۸)
مویشی چرانے کی ایک روایت حضرت اُمّ ایمن کے بارے میں اب تک مل سکی ہے اور وہ بھی مدنی دور کی، اس سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہو گا کہ مویشی چرانے کا کام انھوں نے صرف مدنی دور میں اور ایک آدھ بار کیا تھا اور حضرت اسامہ و حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہما کے مکالمے سے اس کام کی سماجی فروتنی اور ناپسندیدہ حیثیت کا اشارہ سمجھنا بھی غلط ہے، گھریلو جانوروں کا چرانا اور اجرت پر چرواہی کرنا دونوں کام عرب روایات میں سماجی طور سے مقبول و پسندیدہ تھے اور اشراف خاندانوں کے لڑکے، موالی اور باندیاں اور معزز افراد و اشخاص یہ کام کرتے تھے، دراصل یہ نبیوں والا کام تھا اور تمام انبیائے کرام کے علاوہ خود رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے لڑکپن میں جانوروں کو چرانے کا کام کیا تھا۔ (۶۹)
تجہیز و تکفین کی خدمت:
خاندانِ رسالت کی ایک بزرگ و عزیز فرد ہونے کا سبب حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا تمام دکھ سکھ کے واقعات میں ضرور شریک رہتی تھیں، یہ روایات کا قصور اور راویوں کی کوتاہی ہے کہ وہ مکی سماج اور مدنی معاشرے کے اجتماعی کاموں میں ان کی شرکت اور افرادِ خاندان کی خدمت میں ان کی سعادت کا بالعموم ذکر نہیں کرتے ہیں، البتہ بعض اہم واقعات کے ضمن میں ان کے کام، کار گزاری اور خدمت کا حوالہ آ جاتا ہے۔
۸ھ؍ ۶۲۹ء میں رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سب سے بڑی صاحبزادی حضرت زینب رضی اﷲ عنہا کا انتقال ہوا، ان کو غسل دینے والوں میں رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی دو ازواجِ مطہرات، حضرت سودہ بنت زمعہ اور حضرت اُمّ سلمہ کے علاوہ حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہن بھی شریک تھیں، راوی نے تجہیز و تکفین کرنے کی سعادت پانے والوں میں ان کو سرِفہرست رکھا ہے ۔ (۷۰)
اس سے قبل ۲ھ؍ ۶۲۴ء میں رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی دوسری صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اﷲ عنہا کا انتقال غزوۂ بدر کے دوران انتقال ہو گیا تھا، رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم جہاد میں شرکت کے سبب شریک نہ ہو سکے اور ان کی نمازِ جنازۃ اُن کے شوہر حضرت عثمان بن عفان اُموی نے پڑھائی تھی، ان کو غسل دینے کا فریضہ صرف حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا نے اداکیا تھا۔ (۷۱) ۹ھ؍ ۶۳۰ء میں رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تیسری دختر حضرت اُمّ کلثوم رضی اﷲ عنہا کی وفات ہوئی تو غالباً ان کو بھی حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا نے ہی غسل دیا تھا۔
مکہ مکرمہ میں ہجرت سے تین سال قبل حضرت خدیجہ بنت خویلد اسدی رضی اﷲ عنہا، اوّلین زوجۂ مطہرہ کا انتقال ہوا، کلبی وغیرہ راویوں کا بیان ہے کہ ان کو حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا اور حضرت اُمّ الفضل رضی اﷲ عنہا، رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی چچی اور حضرت عباس رضی اﷲ عنہ کی زوجۂ مکرمہ نے غسل دیا تھا، ان کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی گئی تھی کہ تب وہ مسنون نہ ہوئی تھی۔ (۷۲) ان روایات کی بنا پر یہ نتیجہ نکالنا غلط نہ ہو گا کہ خواتینِ اہلِ بیت کی تجہیز و تکفین کے کاموں میں حضرت اُمّ ایمن کی شرکت لازمی امر تھا۔
روایتِ حدیث:
حافظ ابن حجر نے بعض احادیثِ نبوی حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کی سند و روایت پر قدیم کتب سے نقل کی ہیں:
اوّل حدیث ہے کہ چور کا ہاتھ صرف ڈھال میں کاٹا جائے گا: لا یقطع السارق الا فی جنۃ۔اس روایت کو مسند ِ یحییٰ الحمانی اور حافظ ابو نعیم نے اپنی سند سے نقل کیا ہے، اس کے مطابق عہدِ نبوی میں اس کی قیمت ایک دینار یا دس درہم کے برابر سمجھی جاتی تھی، لیکن اس کی سند پر کلام کیا گیا ہے۔
دوسری طبرانی کی روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسجد سے حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کو مخاطب کر کے فرمایا کہ چٹائی دے دو تو انھوں نے حائضہ ہونے کے عذر کو پیش کیا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمھارا حیض تمھارے ہاتھ میں نہیں ہے۔
قالت اُمّ ایمن قال رسول اللّٰہ ﷺ ناولینی الخمرۃ من المسجد ، قلت : انی حائض ، قال: ان حیضتک لیست فی یدک ۔(۷۳) (جاری ہے)
حواشی:
(۴۶) ابن سعد: ج۸، ص: ۲۲۵۔ (۴۷) بلاذری: ج۱، ص: ۳۲۶۔ نیز ابن حجر۔ الاصابہ: ج: ۴، ص: ۴۱۶۔ (۴۸) بلاذری، ج: ۱، ص: ۳۲۶۔ واقدی،ج: ۱، ص: ۲۷۸۔ (۴۹) واقدی، ج: ۱، ص: ۲۸۸،۲۸۹۔ (۵۰) واقدی، ج: ۲، ص: ۴۳۰، ۴۳۱۔ بخاری۔ صحیح: کتاب المغازی، باب: حدیث الافک۔ مسلم۔ صحیح: کتاب التوبہ کے مطابق حضرت اُمّ ایمن رضی اﷲ عنہا کے نوجوان فرزند اسامہ بن زید کلبی سے بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا تھا اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے اعلیٰ کردار کی تصدیق کی تھی۔ نیز فتح الباری، ج: ۷، ص: ۵۳۸، ۵۴۷۔ فاما اسامۃ فاشار علی رسول اللّٰہ ﷺ بالذی یعلم من برأۃ اہلہ و بالذی یعلم لہم فی نفسہ فقال: اھلک ولا نعلم الا خیرا۔(۵۱) ابن سعد، ج:۸، ص: ۲۲۵۔وشہدت خیبر مع رسول اللّٰہ ﷺ۔ابن حجر ۔ الاصابہ، ج: ۴، ص: ۴۱۶۔ واقدی، ج: ۲، ص: ۶۰۰۔ (۵۲) ابنِ ہشام، ج: ۳، ص: ۴۰۱، ۴۰۲۔ واقدی، ج: ۲، ص: ۶۸۴، نے حضرت ایمن بن عبید خزرجی کے علاوہ اس غزوے میں شرکت نہ کرنے والوں کے نام گنائے ہیں، روایت میں یہ دلچسپ اور اہم اضافہ ہے کہ رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان پیچھے رہ جانے والوں کو بھی حصہ عطا فرمایا تھا۔ (۵۳) بخاری۔ صحیح: کتاب فضائل الصحابہ۔ مناقب زید۔ مسلم۔ صحیح: فضائل زید بن حارثہ۔ نیز بخاری۔ صحیح: کتاب المغازی، باب: بعثت النبی اسامہ بن زید فی مرضہ الذی توفی۔ فتح الباری، ج: ۸، ص: ۱۹۰، ۱۹۱۔ (۵۴) واقدی، ج: ۳، ص: ۱۱۱۹۔ (۵۵) واقدی، ج: ۳، ص: ۱۱۲۰۔ (۵۶) اسد الغابہ، ج: ۵، ص: ۵۶۷۔ حلبی، ج: ۱، ص: ۱۰۵، ۱۱۰۔ الاصابہ: ترجمہ اُمّ ایمن۔ (۵۷) اسد الغابہ، ج: ۵، ص: ۵۶۸۔ (۵۸) صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابہ، باب فضائل اُمّ ایمن۔ مسعود احمد، ص: ۸۵۸۔ (۵۹) ابنِ حجر۔ الاصابہ: ج: ۴، ص: ۴۱۶: فاقبلت تضاحکہ۔(۶۰) بلاذری، ج: ۱، ص: ۲۲۴۔ (۶۱) صحیح بخاری۔ کتاب المغازی، باب مرجع النبی صلی اﷲ علیہ وسلم من الاحزاب الخ۔ صحیح مسلم: کتاب الجہاد۔ باب رد المھاجرین الی الانصار منائحھم۔ فتح الباری، ج: ۷، ص: ۵۱۲، ۵۱۳۔ نیز ابن سعد: ج: ۸، ص: ۲۲۵ مثل مسلم۔ (۶۲) بلاذری، ج: ۱، ص: ۲۲۴۔ (۶۳) ابن سعد، ج: ۸، ص: ۲۲۵۔ (۶۴) بلاذری، ج: ۱، ص: ۳۰۳۔ (۶۵) ابن سعد، ج : ۸، ص: ۲۲۴۔ (۶۶) بلاذری، ج: ۸، ص: ۵۱۳، ۵۱۴۔ (۶۷) الحجرات: ۱۳۔ (۶۸) بلاذری، ج: ۱، ص: ۴۷۵۔ (۶۹) بخاری۔ صحیح: کتاب احادیث الانبیاء، باب: یعکفون علی اصنام لہم۔ فتح الباری، ج: ۲، ص:۵۳۳۔ و ما بعد۔ مسعود احمد کی تاریخ میں بخاری کا حوالہ کتاب، کتاب بدء الخلق ہے جو غلط ہے، قالوا: اکنت ترعی الغنم؟ قال : وہل من نبی الا وقد رعاھا۔(۷۰) بلاذری، ج: ۱، ص: ۴۰۰۔ و توفیت زینب بنت رسول اللّٰہ ﷺ فی سنۃ ثمان من الہجرۃ بالمدینۃ فغسلتھا اُمّ ایمن و سودہ۔(۷۱) بلاذری: ج: ۱، ص: ۴۰۱: و توفیت فی ایام بدر وھی عند عثمان و دفنت بالبقیع وصلی علیہا عثمان و غسلتھا اُمّ ایمن۔(۷۲) بلاذری، ج: ۱ ص: ۴۰۶۔ (۷۳) حافظ ابن حجر نے اس سند کو منقطع بتایا ہے: و ہذا فیہ انقطاع۔ الاصابۃ: ج: ۴، ص: ۴۱۶۔