ماسٹر تاج الدین انصاری رحمۃ اﷲ علیہ
اب میں سمجھا کہ جرنیلی سڑک ’’ڈِھلواں‘‘ سے جانب جنوب واقع ہے اور میں شمال کی جانب چلا آیا ہوں، جس پنجرے سے نکل کر آیا تھا اسی کی طرف واپس آنا پڑا۔ جوں جوں آبادی قریب آ رہی تھی، گھبراہٹ میں اضافہ ہو رہا تھا، اس حد تک کہ مجھے اپنے دل کی دھڑکن تک سنائی دیتی تھی۔ آبادی کے باہر ایک چھوٹا سا تکیہ تھا جس کے گرد کانٹوں کی باڑ تھی، میں تکیہ کے نزدیک پہنچا تو دیکھا کہ دھونی سلگ رہی ہے، آگ جل رہی ہے اور چند بے فکرے رات کے سناٹے کو حقے کی گُڑ گُڑ سے توڑ رہے ہیں
بے جان بولتا ہے مسیحا کے ہاتھ میں
میں اس باڑ کے گرد اندر جانے کا راستہ ڈھونڈنے لگا، جب ناکامی ہوئی تو میں نے حوصلہ کر کے دونوں ہاتھ باڑ کے اندر ڈال کر کانٹوں کو پرے ہٹا دیا اور ہمت کر کے باڑ سے پار ہو کر تکیے کے صحن میں پہنچ گیا۔ مجھے دیکھ کر ایک حقے باز نے للکارا: تم کون ہو میں نے آگے بڑھ کر السلام علیکم کہا اور جرنیلی سڑک کا اتا پتا دریافت کیا، وہ مجھے راستے کے متعلق معلومات پہنچانے لگے، میں ان کے پاس بیٹھ گیا۔ اطمینان کے لیے میں نے مطلب کا ذکر بڑی احتیاط سے چھیڑا، یہ لوگ پہلے ہی بھرے بیٹھے تھے، دبی دبی آواز میں کہنے لگے: کیا پوچھتے ہو، چند چودھریوں کو بُولَتھ کے جلسے سے پکڑ لائے ہیں، بڑی بے عزتی کی ہے۔ بے چاروں کو حوالات میں بند کرنے کی جرأت نہیں ہوئی، جنج گھر میں بند کر کے پہرہ لگا دیا ہے، بڑا ظلم ہو رہا ہے ریاست میں، ہم غریب آدمی کیا کر سکتے ہیں ان لوگوں کی باتوں سے مجھے ایک گونہ تسلی ہو گئی کہ ابھی تک میرے پہرہ دار سو رہے ہیں۔ میرے وہاں سے نکل آنے کی کسی کو خبر نہیں ہے، بیدار ہوگئے ہوتے تو گاؤں بھر میں ہنگامہ بپا ہو جاتا۔ ان تکیہ والوں کے پاس ایک پرانی سی مدھم روشنی کی لالٹین تھی، میں نے انھیں کہا کہ ایک آدمی کو لالٹین دے کر میرے ہمراہ کر دو جو مجھے جرنیلی سڑک کے قریب چھوڑ آئے۔ غریب لوگوں میں بے مُزد خدمت کرنے کا کتنا پاکیزہ جذبہ ہوتا ہے۔ ان لوگوں نے لالٹین دے کر ایک نوجوان رہبر سے کہا کہ باہر کے راستے سے چلو، ہم ایک فرلانگ چلے ہوں گے کہ کافی دور سڑک پر سے ایک موٹر گزری جس کی روشنی مجھے بہت بھلی معلوم ہوئی، اب میں مطمئن ہو گیا۔ میں نے اپنے رہبر سے کہا تم نے مجھ پر بڑا احسان کیا ہے، میں تم کو دھوکے میں رکھنا نہیں چاہتا۔ جن لوگوں کو پولیس والے بُولَتھ کے جلسے سے پکڑ کر لائے ہیں میں اُن میں سے ایک ہوں، تم مجھے سڑک کی بجائے ایسے راستے پر ڈال دو کہ میں گاؤں سے زیادہ دور ہو جاؤں اور جرنیلی سڑک بھی مجھ سے دور نہ رہے۔ نوجوان میری بات سن کر گھبرا گیا، میں نے اسے تسلی دی اور کہا کہ میں تو جا ہی رہا ہوں، تمھیں کاہے کا ڈر ہے، میں نے محسوس کیا کہ میرا نوجوان رہبر اب خوشی سے آگے چلنے کے لیے راضی نہ تھا۔ میں نے حقیقت حال بیان کرنے کے بعد نوجوان سے کہا کہ لالٹین بجھا دو، اس کی روشنی ہم کو پکڑوا دے گی، لالٹین بجھا دی گئی۔ اب چاروں کھونٹ اندھیرا ہی اندھیرا تھا، نوجوان الٹے پاؤں واپس چلا گیا۔
میں اکیلا جرنیلی سڑک کے رخ کھیتوں میں سے چلا جا رہا تھا۔ ان کھیتوں میں تازہ تازہ ہل چلایا گیا تھا، مٹی کے بڑے بڑے ڈھیلے قدم قدم پر آڑے آ رہے تھے، بھوکا پیاسا، تھکا ہارا، جسم چُور، رات کی تاریکی، دشمن کی آمد کا کھٹکا، قدم کہیں رکھتا ہوں پڑتا کہیں ہے۔ اب مجھے یہ اندازہ نہیں رہا تھا کہ میں سیدھی سمت جا رہا ہوں یا اپنی راہ سے بھٹک گیا ہوں۔ میں تھوڑی دیر کے لیے رُک گیا کیونکہ بظاہر کوئی فوری خطرہ موجود نہ تھا میں انتظار کرنے لگا کہ کوئی لاری یا ٹرک گزرے تو جرنیلی سڑک کا پتا چلے کدھر ہے، کتنی دُور رہ گئی ہے، گاؤں میں سے گزر کر آتاتو راستہ سیدھا اور صاف تھا۔ تھا بھی مختصر میں تو مگر چکر کاٹ آ رہا تھا، کچھ عرصہ بعد اچانک ایک کار گزری تو مجھے معلوم ہو گیا کہ سڑک بالکل قریب ہے۔ ہمت سے کام لے کر سڑک کی جانب قدم بڑھایا مگر حالت یہ تھی کہ پاؤں ڈگمگا رہے تھے اور میں گرا پڑا تھا، جوں توں کر کے میں سڑک سے چند قدم کے فاصلے پر پہنچ گیا، اتنے میں لاہور کی جانب سے ایک اور موٹر تیزی سے آتی ہوئی دکھائی دی۔ میں نشیب میں تھا، پاؤں بوجھل ہو چکے تھے۔ ہمت سے کام لیا اور سڑک پر آ گیا۔ موٹر والوں کو ہاتھ دیا مگر وہ تیزی سے گزر گئی، مجھے اس قدر افسوس ہوا کہ دل بیٹھ گیا۔ خدایا اس کا پہیہ پنکچر ہو جاتا یا کچھ اور ہو جاتا کہ رک جاتا۔ ٹھنڈا سانس بھر کر نظر اٹھا کر دیکھا کہ وہی موٹر کچھ فاصلے پر بریک لگا کر رکی، پھر آہستہ آہستہ واپس مڑی۔
میں نے دل میں کہا کتنے شریف لوگ ہیں اس موٹر والے، کسی انجانے مسافر کے لیے کون اپنا وقت ضائع کرتا ہے۔ اس طرح رات کے وقت کون اپنا سفر کھوٹا کرتا ہے۔ موٹر میری جانب چل کر مجھ سے چند قدم کے فاصلے پر آ کر رکی، رائفلیں تھامے اس میں سے چند سپاہی کود کر میری طرف جھپٹے اور للکارا: یہی ہے پکڑ لو اور میری حماقت ملاحظہ ہو کہ میں نے خود ہی ہاتھ دکھا کر انھیں کہا آبیل مجھے مار۔ پھر کیا تھا ’’وہ بہادر سورما‘‘ مجھے بندوقوں کے کندوں سے مارنے لگے۔ میں بے ہوش گیا اس کے بعد مجھے کچھ معلوم نہیں کہ کیا ہوا۔
مجھے جب ہوش آیا تو میں ایک کشادہ کمرے میں کھڑا تھا۔ ایک سپاہی نے مجھے دائیں سے اور دوسرے نے بائیں سے پکڑ رکھا تھا۔ سامنے نواری پلنگ پر ننگے سر سکھ مجسٹریٹ بیٹھا ہوا تھا۔ اب میرے حواس درست ہو چکے تھے، میں فوراً سمجھ گیا کہ جب مجھے مار مار کر بے ہوش کر دیا گیا تو پولیس مجھے موٹر میں ڈال کر مجسٹریٹ کے بنگلے پر لے آئی ہے اور میں اب ان ظالموں کی حراست میں ہوں۔ اسی کمرے میں ایک سپاہی نے مجھے گالی دے کر کہا کہ اس شخص نے ہمیں سخت پریشان کیا ہے، میں نے سپاہی سے تو کچھ نہیں کہا البتہ مجسٹریٹ کو مخاطب ہو کر کہا کہ سردار صاحب میں ان لوگوں کو اجازت دیتا ہوں کہ یہ مجھے جتنا چاہیں ماریں پیٹیں مگر یہ بات آپ بھی سن لیں کہ اب مجھے گالی دی گئی تو میں معاف نہیں کروں گا۔ سردار صاحب نے سپاہی کو ڈانٹا پھر مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے آپ بغیر اطلاع کیے رات کو کدھر چل دیے تھے؟ میں نے جواب دیا کہ میں قیدی تو نہیں تھا، دل گھبرایا، اٹھ کر لاہور پہنچنے کا بندوبست کر رہا تھا۔ آپ نے مجھے یہ تو نہیں کہا تھا کہ میں آپ کی حراست میں ہوں، اب فرمائیے کہ صورتِ حال کیا ہے، کیا میں حراست میں ہوں؟ سردار صاحب نے کہا ہاں۔ میں نے فوراً مطالبہ کیا کہ پھر آپ مجھے حوالات میں بھیج دیں، تب سردار صاحب نے سپاہیوں سے کہا کہ انھیں تھانے میں لے جا کر حفاظت سے رکھو مگر دیکھو کسی قسم کی بکواس نہ کرنا۔ چنانچہ پولیس کے سپاہی مجھے تھانے میں لے آئے، دروازے میں داخل ہوتے ہی حوالات تھی۔ میرے چاروں ساتھی جو جنج گھر میں زیرِ حراست تھے تھانے کی حوالات میں پہنچ چکے تھے۔ مجھے احاطے میں لے جا کر ایک سپاہی کی خالی کوٹھڑی میں جس میں بستر کے بغیر ایک خالی چارپائی کے سوا اور کچھ نہ تھا بند کر کے باہر سے دروازے کو تالا لگا دیا گیا۔ چوٹیں درد کر رہیں تھیں، رات بھر کی پریشانی اور مصیبت نے مجھے نڈھال کر رکھا تھا، سردی محسوس ہو رہی تھی خالی چارپائی پر لیٹ تو گیا مگر نیند کہاں
برے پھنسے:
صبح ہونے کو تھی میں نے اٹھ کر دروازہ کھٹکھٹایا، مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ نمازِ فجر کا وقت تنگ ہو رہا تھا، میں نے دروازہ کھکھٹانا شروع کیا، مسلسل جدوجہد ہمیشہ کامیاب ہوتی ہے۔ بالآخر پہرہ دار نے صبح سویرے گالی دے کر مجھ سے دروازہ کھٹکھٹانے کی وجہ دریافت کی، میں نے مدعا بیان کیا، پہرہ دار انکار کر کے چلا گیا۔ مجھے بھی غصہ آ گیا، اب دروازہ تھا اور میں، میرے بازوؤں کی مسلسل کوشش کا نتیجہ خاطر خواہ برآمد ہو، دروازہ کھل گیا۔ تھانے کے صحن میں ایک کنواں تھا، جس پر ایک شخص نہا رہا تھا۔ یہ نہانے والا تھا تو سپاہی مگر شریف آدمی تھا، اس نے پانی کالوٹا بھر دیا، میں نے جلدی جلدی وضو کیا، نماز پڑھی، نماز سے فارغ ہوا تو دیکھا کہ قریب کے کمرے تقریباً خالی پڑے ہیں۔ تھانیدار اور سپاہی سیر سپاٹے یا رفع حاجت کے لیے باہر جا چکے ہیں۔ دو ایک صحن ہی میں داتن (مسواک) منہ میں دبائے پھر رہے ہیں، اپنی کوٹھڑی کی بجائے میں نے تھانیدار کے کمرے کا رخ کیا تو پہرہ دار نے گرج کر مجھے کہا کہ کدھر منہ اٹھایا ہے؟ میں نے سنی ان سنی کر دی۔ میں نے تھانیدار کے کمرے میں داخل ہو کر دروازہ اندر سے بند کر لیا، چٹخنی لگائی اور تھانیدار کے نرم و گداز بستر پر دراز ہو گیا۔ تھانے والے گالیاں بکتے رہے، دروازہ کھکھٹاتے رہے، مگر میں نے صرف اتنا کہا کہ سو کر اٹھوں گا تو دروازہ کھولوں گا۔ دس بجے کے قریب اٹھا، دروازہ کھولا، تھانیدار موجود نہ تھا، البتہ ہندو ہیڈ کانسٹیبل اور چند سپاہی موجود تھے۔ دروازہ کھلتے ہی وہ سب میری طرف متوجہ ہوئے، گالیوں سے استقبال کرنے کے بعد میری طرف بڑھے، مگر ہیڈ کانسٹیبل کو خدا جانے کیا ہوا، اس نے سپاہیوں سے کہا ، ٹھہر جاؤ، مجھے بات کر لینے دو۔ وہ مجھے بازو سے پکڑ کر ایک اور کوٹھڑی میں لے آیا، مجھے اندر بٹھا کر کوٹھڑی کو باہر سے مقفّل کر دیا۔ مجھے خیال تھا کہ یہ لوگ مار پیٹ کریں گے، مگر خیریت گزری، ایک ملزم کا تھانیدار کے بستر پر سو جانا بہت بڑا جرم ہے، خیال آیا کہ سزا تو ضرور ملے گی۔ بہرحال یہ جرم تو مجھ سے سرزد ہوہی چکا تھا، دل نے کہا جو ہو گا دیکھا جائے گا
ڈاکا تو نہیں ڈالا چوری تو نہیں کی ہے
دوپہر کو میری کوٹھڑی کا قفل کھولا یا، دروازہ کھلا تو وہی چوکیدار، جس کی تحویل میں مجھے جنج گھر میں رکھا گیا تھا، ایک تھالی میں روٹی اور کٹوری میں دال لے کر ہیڈ کانسٹیبل کے ہمراہ آموجود ہوا۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا واہ میاں جی واہ، رات کہاں چلے گئے تھے؟ آپ نے تو ہماری بے عزتی کرا دی۔ ہیڈ کانسٹیبل نے چوکیدار کو ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا بک بک مت کرو، روٹی رکھ دو اور دوڑو یہاں سے۔ چوکیدار کھسیانا ہو کر واپس چلا گیا، اب میں تھا اور ہیڈ کانسٹیبل، باقی سپاہی یا تو اپنے کمروں میں تھے یا ڈیوٹی پر گئے تھے۔ ہیڈ کانسٹیبل نے کہا ماسٹر جی میں آپ کو جانتا ہوں، میں نے لدھیانہ ٹاؤن ہال میں آپ کی متعدد تقریریں سنی ہیں، مجھے آپ سے عقیدت ہے۔ رات جب آپ کو لایا گیا تو میں ڈیوٹی آف تھا،صبح جو آپ کو دیکھا تو میں نے بمشکل اپنی طبیعت پر قابو پایا اور خود کو سنبھالے رکھا، تھانیدار اپنا خاص آدمی ہے، وہ آج ضلع کچہری میں پیشی پر گیا ہے۔ واپس آئے گا تو میں اسے ایسا ٹھنڈا کروں گا کہ آپ سے بات بھی نہ کرے گا۔ مجھے ہیڈ کانسٹیبل نے کھانے کھانے کے لیے کہا، میں نے انکار کر دیا۔ اس شریف آدمی نے کہا کہ وہ اپنے گھر سے کھانا منگوا دے گا، پھر سپاہی کو آواز دی کہ کھانا اٹھا لو، یہ کھانا نہیں کھائیں گے۔ اب مجھے پھر اسی کوٹھڑی میں مقفّل کر دیا گیا۔ دو چار دن یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا۔ اب نہ مجھے سے کوئی بات کرتا تھا اور نہ مجھے کسی سے سروکار تھا، ہیڈ محرر اپنے گھر سے کھانا بھجواتا رہا، اب میں اسی کا مہمان تھا۔ چار دن کے بعد علی الصبح کیا دیکھتا ہوں کہ تھانے میں خاص طور پر صفائی ہو رہی ہے، بہشتی صحن میں پانی چھڑک رہے ہیں، عمدہ کرسیاں اور میزیں بچھائی جا رہی ہیں۔ تھوڑی دیر بعد مجسٹریٹ مع اپنے عملے کے تشریف لے آئے، سپاہی اپنی وردیاں ٹھیک ٹھاک کر کے اٹینشن ہو کر کھڑے ہو گئے۔ میری کوٹھڑی کو کھولا گیا، مجھے وہاں سے نکال کر سامنے ایک کمرے میں بند کر دیا گیا، میں نے سمجھا کوئی بڑا آدمی آ رہا ہے۔ کون آ رہا ہے؟ تجسس پیدا ہوا، میں نے دروازہ کے سوراخ میں سے دیکھا، باہر کوئی بھی نیا آدمی یا بڑا حاکم نہ تھا۔ مجسٹریٹ بار بار ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرتا اور کوٹ کے بٹن دست کرنے میں مصروف تھا، تب مجھے یقین ہو گیا کہ کوئی بہت ہی بڑا حاکم آنے والا ہے۔ میرے کمرے کے سامنے جہاں میز اور کرسیاں بچھائی گئی تیں، ایک نفیس آرام دہ کرسی بچھا دی گئی۔ تھوڑی دیر بعد موٹر کا ہارن سنائی دیا، پولیس والے چوکنے ہوئے، مجسٹریٹ نے ڈیوڑھی کی طرف رخ کیا۔ وہ غالباً ڈیوڑھی پر افسر اعلیٰ کے استقبال کے لیے پہنچ گیا تھا، چند منٹ بعد قائم مقام چیف منسٹر صاحب تشریف لائے، ماتحت افسران ان کے ہمراہ تھے، چونکہ آرام کرسی صحن میں میرے کمرے کے متصل بچھی ہوئی تھی۔ مجھے دروازے کے سوراخ میں سے سب کچھ نمایاں نظر آ رہا تھا، میں ان کی باتیں بھی سن رہا تھا۔ قائم مقام چیف منسٹر مجھے بہت اچھی طرح جانتے تھے، وہ بہت بھلے آدمی تھے۔ دراصل وہ چیف جج تھے، جو چیف منسٹر کی عدم موجودگی میں قائم مقام چیف منسٹر کی ڈیوٹی ادا کر رہے تھے۔ وہ مہاراجہ کے وفادار تھے اور برطانوی اثر و رسوخ کا ان پر کچھ اثر نہ تھا۔ ان کی اپنی پارٹی تھی جس کا چیف منسٹر کی جابرانہ پالیسی سے اختلاف تھا۔ صحن میں دربار لگ گیا، اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں، بالآخر میرا ذکر بھی آ گیا، مجسٹریٹ نے مختصراً واقعہ بیان کیا، اس کے بعد پولیس پارٹی جس نے مجھے پکڑا، مارا اور بے ہوش کر دیا تھا، پیش ہوئی۔ پولیس والوں نے فخریہ بیان کیا کہ حضور! ہم نے اس ملزم کو ایسی سزا دی ہے کہ وہ اپنی سات پشتوں کو وصیت کر جائے گا کہ ریاست کپور تھلا کی حدود کے اندر کبھی قدم رکھنے کی جرأت نہ کرنا۔ جب پولیس والے اپنی شاندار کارکردگی بیان کر چکے تو چیف منسٹر صاحب نے ارشاد فرمایا کہ ملزم کو ہمارے سامنے لاؤ۔ اب تھانیدار میرے کمرے کی طرف آیا، میں نے اندر سے چٹخنی لگا لی، پہلے تو اس نے رعب جما کر کہا ’’او مولویا! بوہا کھول‘‘۔ میں خاموش رہا، کوئی جواب نہ دیا، پھر اس نے ذرا زور سے کہا تو میں نے بے اعتنائی سے جواب دیا’’بھی اس وقت میں آرام کر رہا ہوں‘‘۔ تھانیدار خفا ہو کر بولا، آرام کے بچے! ریاست کے سب سے بڑے حاکم آئے ہوئے ہیں، تمھیں ان کے سامنے پیش کرنا ہے۔ میں اب مطمئن تھا، مجھے مذاق سوجھنے لگا، اسی انداز میں، مَیں نے پھر کہا ’’تھانیدار صاحب! انھیں کہہ دو کل آئیں‘‘۔ غرضیکہ پانچ سات منٹ بم چخ ہوتی رہی۔ میں نے دروازہ کھولا، تھانیدار لال پیلا ہو رہا تھا۔ چیف منسٹر جس آرام کرسی پر بیٹھے تھے، میری طرف اس کرسی کی پشت تھی، مجھے پکڑ کر جب ان کے سامنے لایا گیا تو ایک دم گھبرا گئے اور اسی گھبراہٹ میں مجسٹریٹ وغیرہ کو کہنے لگے ظالمو! تم نے یہ کیا ظلم کیا ہے اور پھر مجھ سے مخاطب ہو کر فرمانے لگے،ماسٹر صاحب ہمارا اس میں کیا قصور ہےاس شریف انسان نے مجھے مخاطب ہوتے ہوئے معذرت شروع کر دی۔ گھبراہٹ میں چیف صاحب کو یہ بھی خیال نہ رہا کہ ماتحت افسران سامنے موجود ہیں۔ جب انھیں اپنے ماتحت ساتھیوں کی موجودگی کا خیال آیا تو سب کو ڈانٹ پلائی اور حکم دیا کہ سب چلے جاؤ، دور ہو جاؤ میری آنکھوں سے۔ اس کے بعد مجھے پاس ہی کرسی پر بٹھا کر کہنا شروع کیا، آپ یہاں کیوں چلے آئے آنا ہی تھا تو مجھے اطلاع کر دی ہوتی، آپ کے ساتھ یہ بدسلوکی؟ مجھے بے حد ندامت محسوس ہو رہی ہے۔ میں نے کہا سردار صاحب چھوڑیے اس قصے کو، ایسا بھی ہو جایا کرتا ہے۔ اس کے بعد ادھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں، وہ فرمانے لگے:میں آگے دیہات کے دورے پر جا رہا ہوں، شام کو واپسی پر اپنی موٹر میں آپ کو جالندھر چھوڑ آؤں گا۔ آپ اتنی دیر یہاں آرام فرمائیں، چنانچہ چیف منسٹر صاحب درورے پر تشریف لے گئے اور میں اب ملزم نہ تھا بلکہ معزز مہمان تھا۔ یہاں کا مجسٹریٹ،دیوان سر عبدالحمید چیف منسٹر کی پارٹی سے منسلک تھا، یہ عجیب اتفاق ہے کہ اسی صبح دیوان سر عبدالحمید چیف منسٹر ولایت سے واپس تشریف لائے۔ مجھے گمان ہے کہ مجسٹریٹ بھی جان گیا تھا کہ اس نے کس ملزم کو پکڑا ہے اور اس سے کیا سلوک کیا، مگر میں ریاست کے اندرونی پالیٹکس سے زیادہ باخبر نہ تھا۔ گمان غالب ہے کہ مجسٹریٹ نے دیوان سر عبدالحمید چیف منسٹر کپور تھلا کو فوراً صورتِ حال سے خبردار کر دیا ہو گا۔ شام کے وقت چیف جج صاحب واپس تشریف لائے، میں تھانے سے باہر آ گیا۔ چیف صاحب نے مجھے اپنی موٹر میں بٹھایا اور موٹر جرنیلی سڑک کی جانب چل پڑی۔ جب کچا راستہ ختم ہوا اور جرنیلی سڑک سامنے نظر آئی تو مجھے اس رات کا خوفناک منظر یاد آ گیا۔ میرے لیے یہ جگہ منحوس ثابت ہوئی، ہماری موٹر سڑک پر اس جگہ پہنچی ہی تھی کہ سامنے سے ایک سرکاری موٹر آتی ہوئی دکھائی دی۔ اس پر ریاست کپور تھلا کا نشان لہرا رہا تھا، میرا دل بیٹھنے لگا، میں نے سمجھ لیا کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
موٹر میں سے سرکاری قاصد نکلا،چیف صاحب اپنی موٹر سے نکلے، میں موٹر ہی میں بیٹھا رہا۔ انھیں ایک سرکاری بند لفافہ سپرد کیا گیا، لفافہ کھول کر پڑھتے ہوئے چیف صاحب کا چہرہ غمّازی کرنے لگا، میں سمجھ گیا کہ دال میں کالا ہے۔ لفافہ جیب میں ڈال کر وہ آہستہ آہستہ موٹر کی طرف آئے، مجھے کہنے لگے: گھبرانے کی بات نہیں، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میں فوراً بھانپ گیا کہ دیوان سر عبدالحمید کا حکم نامہ ہے، مجھے حراست ہی میں رکھا جائے گا۔ چنانچہ چیف صاحب مجھے تھانے میں واپس لے آئے، تھانیدار کو بلا کر کہا کہ انھیں عزت و احترام سے رکھنا، کھانے وغیرہ کی تکلیف نہ ہو، ہم جلد واپس آئیں گے۔ وہ مجھے تھانے میں چھوڑ کر واپس چلے گئے۔ امید بندھ کر ٹوٹ جائے تو حوصلہ بھی ٹوٹتا ہے۔ قارئین کرام جب سرگزشت لکھنے بیٹھا تو حافظہ پوری طرح ساتھ نہیں دے رہا تھااور اب یہ صورت ہے کہ گزرے ہوئے واقعات فلمی ریل کی طرح سامنے آ رہے ہیں۔ ایک ایک بات یاد آ رہی ہے اور میں اس وقت ایسے محسوس کر رہا ہوں، جیسے واقعی مخالفین کے نرغے میں پھنسا ہوں اور نجات اور چھٹکارے کی تمام راہیں مسدود ہو چکی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ رہائی کے بعد جب میں نے لاہور پہنچ کر یہ سارا واقعہ چودھری افضل حقؒ کو سنایا تو وہ سنتے سنتے بے تابی سے پوچھنے لگے: اچھا پھر کیا ہوا، ہاں تو پھر کیا ہوا۔ شاید اُن کی اس قسم کی بے تابی اس لیے تھی کہ میں ان کا فرماں بردار اور قابلِ اعتماد رفیق تھا، مجھے اپنے محبوب رہنما سے بے پناہ عقیدت تھی اور وہ بھی مجھ سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔
پھر کیا ہوا
اب میں پھر اسی تھانے میں نظر بند تھا۔ دن جوں توں کر کے گزرتے گئے، ریاستی سربراہوں کا دماغ میری تقدیر کی طرح چکر میں تھا، ابھی تک وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچے تھے۔ خدا جانے وہ اتنے دن کیا سوچتے رہے؟ مجھ سے بات کرنے کے لیے آتے تو میں کچھ سمجھ لیتا، خاموش بیٹھا قیاس آرائیاں کرتا رہا ۔ بالآخر ایک روز اچانک بغیر کسی اطلاع کے خنداں و شاداں چیف صاحب تھانے میں تشریف لائے، میں نے اٹھ کر مصافحہ کیا، افسران پہلے سے موجود تھے۔ مجسٹریٹ صاحب پیش پیش تھے، چیف صاحب نے ان سب کو رخصت کر دیا۔ چیف صاحب نے اپنے اردلی کو حکم دیا، موٹر میں سے سب سامان اٹھا لاؤ۔ مٹھائی کی ایک ٹوکری کے علاوہ سفید رومال میں خاص قسم کے بسکٹوں کے ڈبے، چائے کی دو تین پرچ پیالیاں اور چائے کا بھرا ہوا ایک تھرماس تھا، میز آ گئی۔ چائے کا سامان قرینے سے میز پر لگا دیا گیا۔ چیف صاحب مجھے فرمانے لگے: لیجیے مٹھائی کھائیے اور چائے پی کر میرے ساتھ چلیے، میں نے پوچھا کہاں؟ اجی گھر چلیے نا، آپ کو رہا کر دیا گیا ہے۔ بات یہ ہوئی کہ ٹکّا صاحب کے ہاں لڑکا پیدا ہوا ہے، اسی خوشی میں قیدی چھوڑے گئے ہیں۔ اسی سلسلہ میں آپ کی رہائی کا حکم بھی ہو گیا ہے۔ میں نے معاملہ کو فوراً سمجھ لیا کہ انگریز نے ہندوستانی افسروں کے دماغ اپنے سانچے میں ڈھال لیے ہیں، اپنے مخالف کو قید خانے میں بند رکھنا نقصان دہ ہو تا ہے۔ مَرَن دن جنم دن اور اسی قسم کے حیلے بہانوں سے قیدی کو چھوڑا جاتا ہے۔ اب مجھے یہ تو اطمینان تھا کہ ریاستی حکام گھبرا چکے ہیں، ریاست میں ہلچل ہے۔ ریاست سے باہر بھی ہنگامے بپا ہونے کا خدشہ ہے، ان حالات نے حکامِ ریاست کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ مجھے فوراً رہا کردیں۔ مجھے یہ تو اطمینان تھا کہ بندِ سلاسل ٹوٹ چکے ہیں، میں پھر دُسہرے کا نیل کنٹھ کیوں بنوں مجھے حقیقت کے ترازو میں صحیح اوزان سے تُلنا چاہیے۔
میں نے چیف صاحب صاحب سے کہا: سردار صاحب اخلاقی قیدی ان رعایتوں کے مستحق ہیں۔ میری پارٹی اور آپ کی ریاست دو متحارب طاقتیں ہیں، جنگ جاری ہے، جب تک تصفیہ نہ ہو جائے نہ آپ مجھے چھوڑ سکتے ہیں نہ میں رہا ہو کر جا سکتا ہوں۔ سیاسی قیدیوں کو بری عادت نہ ڈالیے کہ جیل میں قید ہوں تو محل کی طرف کان لگائے رکھیں کہ کب رانی صاحبہ بچہ جنیں، کب شہنائی بجے اور قیدیوں کی بند خلاصی ہو، میری جگہ کسی اور کو رہا کر کے گنتی پوری کر لیجیے۔ جھگڑا تو چل ہی رہا ہے، آپ مجھے پھر پکڑیں گے، اس رہائی کا فائدہ سردار صاحب زیادہ گہرے آدمی نہ تھے، بہت صاف دل اور شریف النفس انسان تھے، وہ اصل فیصلے کو چھپا نہ سکا۔ حقیقت یہ تھی کہ بُولَتھ کے ہنگامے کے بعد ریاست کے کونے کونے میں بے چینی پھیل گئی، ریاستی حکام کا درجہ حرارت جتنی جلدی اوپر چڑھتا ہے اسی قدر عجلت سے نیچے اتر آتا ہے۔ مجھے رہا کر دینے کا فیصلہ سردار صاحب نے اپنی ذمہ داری پر کیا تھا، انھیں یقین تھا کہ چودھری عبدالعزیز بیگووالوی کو بحالات موجودہ مزید مدت کے لیے جیل میں بند رکھنا، آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے، ان کی رہائی سے قبل میرا رہا ہونا اور بھی ضروری تھا۔ ان کی رائے میں چودھری عبدالعزیز کے بعد دوسرا شخص میں تھا جو ریاست کے قضیّہ کو بہ احسن وجوہ نپٹا سکتا تھا، چنانچہ ریاستی ذمہ دار حکامِ بالا کی میٹنگ میں یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ مجھے چھوڑ دیا جائے اور ساز گار فضا میں ریاستی قضیہ کا حل تلاش کر لیا جائے۔ چائے کی میز پر سردار صاحب نے کسی ایچ پیچ کے بغیر اندر کی ساری بات میرے سامنے رکھ دی، حقیقت کھل کر میرے سامنے آ گئی تو میں نے سردار صاحب سے واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ اپنے مرکزی رہنما سے تَبادُلِ خیال کیے بغیر میں کسی رائے کا اظہار نہیں کر سکتا۔ سردار صاحب نے آخری مطالبہ مجھ سے یہ کیا کہ میں چیف منسٹر دیوان سر عبدالحمید سے بات کر لوں، میں نے انھیں ملنے سے صاف انکار کر دیا۔ سردار صاحب اگر اس مطالبے پر اڑ جاتے تو شاید میں ملاقات کرنے پر طوعاً و کرہاً رضامند ہو ہی جاتا، مگر وہ شریف انسان مجھے فوراً رہا کر دینے کے لیے بے تاب تھا۔ چنانچہ سردار صاحب نے میرے ہاتھ پکڑا، مجھے اپنے ہمراہ لیا اور یہ کہتے ہوئے موٹر کی جانب قدم بڑھایا، آیے ماسٹر صاحب! آپ کو جالندھر چھوڑ آؤں۔ موٹر کچے راستے کو طے کر کے جب جرنیلی سڑک کے موڑ پر پہنچی تو میں نے سردار صاحب سے ازارہِ مذاق کہا، سردار صاحب! ٹھہریے، میں حسبی اﷲ پڑھ لوں، خطرناک مقام آ گیا ہے۔ کہیں سرکاری موٹر میں کوئی شخص آپ کے نام بند لفافہ لے کر نہ آ جائے۔ سردار صاحب میری بات سن کر ہنس دیے، اس طرح غپ شپ کرتے ہوئے ہم جالندھر پہنچ گئے۔ دفتر میں پہنچا تو جالندھر شہر کے احرار کا جمگھٹا ہو گیا۔ کہاں چلے گئے تھے اخبار کا بندوبست نہیں کیا اور نہ جاتے وقت بتایا کہ کہاں جانا ہے، لاہور یا لدھیانے؟ سوالات کی بوچھاڑ تھی، میں خاموشی سے سنتا رہا اور مسکراتا رہا۔ میں نے ان سب احباب سے صرف اتنا کہا کہ آج رات آپ کے پاس آرام کروں گا، صبح لاہور چلا جاؤں گا۔ میں ریاست کے اندر بتا کر گیا تھا، آج سیدھا وہیں سے آ رہا ہوں، مجھ پر کیا گزری؟ سنو گے تو مزہ آ جائے گا۔ علی الصبح میں لاہور کے لیے روانہ ہو گیا۔ اپنے مقتدر رہنما چودھری افضل حق سے ملاقات ہوئی، کپور تھلا ایجی ٹیشن کی راہیں ہموار ہو گئیں۔ چودھری صاحب سے مُبادلۂ خیال کے بعد میں لاہور سے جالندھر چلا آیا۔
فیصلہ کن مرحلہ:
فریق مخالف پریشانی میں مبتلا ہو جائے تو اسے سنبھلنے کا موقع نہ دینا چاہیے۔ بولتھ (ریاست کپور تھلا) کے علاقہ میں عوام بیدار ہو چکے تھے۔ مسلمانوں میں وزیر اعظم کے خلاف اچھی خاصی نفرت موجود تھی۔ چودھری عبدالعزیز بیگوالوی کا خاندان ریاست کپور تھلا کا معزز ترین بااثر خاندان تھا۔ لوگوں کے دلوں میں سارے خاندان کے لیے بے پناہ محبت اور عقیدت تھی، مگر میرے راستے میں سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ وزیر اعظم سر عبدالحمید صاحب خیر سے مسلمان تھے، صاحب اقتدار اور صاحبِ ثروت بھی تھے، سرکار دربار میں ان کا کافی رسوخ تھا۔ ہر ریاست میں ذمہ دار عہدے پر برطانوی سامراج اپنے خاص مہرے بٹھا کر ان کی پشتی بانی کرنا اپنا فرض سمجھتا تھا، چنانچہ وزیر اعظم کا قلعہ بہت زیادہ مضبوط معلوم ہوتا تھا۔ وزیر اعظم کے دماغ میں یہ خبط سوار تھا کہ اس ہندو ریاست میں قیام اور نوکری کے استحکام کی ایک ہی صورت ہے کہ ریاست کے کسی بڑے سے بڑے مسلمان کو ابھرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ چودھری عبدالعزیز کا خاندان چونکہ ریات کپور تھلا میں سربرآوردہ، معزز اور انتہائی اثر و رسوخ کا مالک تھا، نیز چودھری عبدالعزیز نے خدمتِ خلق کا پرچم لہرا رکھا تھا۔ وہ مجلس احرار اسلام کی مجلس عاملہ کے رکن کی حیثیت سے صوبہ پنجاب میں بھی نمایاں شہرت حاصل کر چکے تھے، یہی خوبیاں مصیبت کا باعث بن گئیں۔
سر عبدالحمید نے چودھری عبدالعزیز کو اسی لیے تختۂ مشق ستم بنا رکھا تھا۔ اس معزز خاندان کی مظلومیت نے مسلمانانِ کپور تھلا کو خصوصاً اور مسلمانانِ پنجاب کو عموماً آتش زیر پا کر رکھا تھا، مگر ریاست کے ہندوؤں کی ہمدردیاں عام طور پر سر عبدالحمید وزیر اعظم کپور تھلا کے ساتھ تھیں۔ اس لیے ہندو پریس مظلوم مسلمانانِ کپور تھلا سے ہمدردی کرنے کی بجائے سر عبدالحمید کا حامی و مدد گار تھا۔ پنجاب کے مسلم پریس کو سر عبدالحمید نے اپنے مسلمان ہونے کا رونا رو کر ہموار کر رکھا تھا، مسلم پریس کو ہموار کرنے میں دوسرے عوامل بھی شامل تھے۔ غرضیکہ تحریک کپور تھلا حق بجانب ہونے کے باوجود،ہم اپنوں اور بیگانوں کی ہمدردیوں سے محروم تھے، خواص ہندو ہوں یا مسلمان، نوے فیصد سر عبدالحمید کے حق میں تھے۔ میرے لیے اس کے سوا چارۂ کار نہ تھا کہ میں پریشان حال مخالف کو اور زیادہ پریشانی میں مبتلا کر کے حق و انصاف کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کر دوں۔ میں نے جالندھر کے محاذ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ میرے ایک پرانے کانگرسی دوست سرے سے ریاستی نظام ہی کے خلاف تھے اور انھیں چودھری عبدالعزیز سے ہمدردی بھی تھی، اکثر میرے پاس آتے اور دو چار دن قیام بھی کرتے تھے، انھیں اخبار نویسی کا شوق تھا۔ میں نے انھیں کہا کہ میرا ہاتھ بٹاؤ، کچھ لکھا کرو اور ہو سکے تو نیا محاذ قائم کرنے میں مشورہ بھی دو۔ جب تک تحریک کسی انجام تک پہنچ نہیں جاتی ، دفتر میں مستقل قیام کرو۔ وہ صاف دل ہندو تھے، کھانا میرے ساتھ دفتر ہی میں کھایا کرتے تھے، میں نے انھیں منا لیا۔ انسان جو بات مسلسل لکھتا ہے، اس کا اثر دل و دماغ پر زیادہ نہیں تو تھوڑا ضرور پڑتا ہے۔ دو تین ہفتے لکھنے کے بعد وہ اپنی تحریر کے نفسِ مضمون پر پختہ ہونے لگے، میں انھیں نئے محاذ پر پھَگواڑے (ریاست کپور تھلا) لے گیا۔ میں مسلمانوں میں کام کرنے لگا اور اپنے دوست کو ہندوؤں کے ہاں بھیج دیا۔ آدمی ذہین تھا، ہفتہ عشرہ میں سر عبدالحمید کے خلاف فرنٹ کھل گیا، ریاست کے ساہوکاروں نے وزیر اعظم کے خلاف ایک میٹنگ کی، پھر جلسہ ہوا اور اس کے بعد شکایات کا پلندہ کھل گیا، ریاست کے گوشے گوشے میں ہلچل شروع ہوئی۔ میں ریاست کپور تھلا کے اکثر علاقوں سے اچھا خاصہ واقف اور باخبر ہو گیا۔ اب اس ریاست کی نبضوں پر میرا ہاتھ تھا، مجھے صحیح درجۂ حرارت سمجھ لینے میں کوئی مشکل درپیش نہ تھی۔ انھی دنوں مہاراجہ کپور تھلا ولایت سے واپس تشریف لے آئے، وہ سیر سپاٹے کے آدمی تھی۔ زیادہ وقت ولایت کی سیر و تفریح میں گزارنے کے عادی تھے، ریاست میں واپسی پر انھیں لیل و نہار بدلے ہوئے نظر آئے۔ سر عبدالحمید جو اُن کے چہیتے وزیر اعظم تھے، مہاراج کو مطمئن نہ کر سکے، اوپر کے دباؤ کے باوجود مہاراج، سرعبدالحمید کو علیحدہ کرنے پر مجبور ہو گئے، مگر وہ سر عبدالحمید کو علیحدگی کا حکم دیتے ہوئے تذبذب میں مبتلا تھے۔ آخری فیصلہ یہ ہوا کہ ایجی ٹیشن بند ہو جائے تو سر عبدالحمید کو علیحدہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے جب اس صورتِ حال کی اطلاع ملی تو میں نے خانقاہ امام ناصرؒ میں جلسوں کا تانتا باندھ دیا۔ ریاست کے اندر بھی تحریک زور پکڑنے لگی، چیف جج کو معلوم تھا کہ میں سر عبدالحمید سے گفتگو کرنے کے حق میں نہیں ہوں، وہ میرے پاس جالندھر میں تشریف لائے اور مجھے کپور تھلا لے جانے کے لیے زور دیتے رہے مگر میں جانتا تھا کہ میرا کپور تھلا جانا ہر طرح سے خسارہ کا سودا ہے، میں نے انکار کیا تو وہ مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ دو دن بعد پھر تشریف لائے اور کہنے لگے کہ وزیر اعظم صاحب لاہور پہنچ جائیں تو آپ ان سے لاہور میں ملاقات کر لیں گے میں نے یہ کہتے ہوئے آمادگی کا اظہار کر دیا کہ وہاں چودھری افضل حق صاحب موجود ہیں، میں اُن سے مُبادلۂ خیال بھی کر لوں اور ملاقات بھی ہو جائے گی۔
لاہور میں آخری ملاقات:
میں لاہور پہنچا تو دوسرے دن چیف جج صاحب مجھے سر عبدالحمید سے فلیٹی ہوٹل میں ملاقات کی غرض سے لینے آ گئے، چودھری افضل حق سے مشورہ ہو چکا تھا، میں فلیٹی ہوٹل پہنچا۔ سر موصوف سے مختصر ملاقات ہوئی، میں نے انھیں صاف الفاظ میں بغیر کسی ایچ پیچ کے بتا دیا کہ ہمارا آپ کا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ آپ نے ہمارے معزز رفیق کو جیل میں ڈال رکھا ہے، انھیں رہا کر دیجیے، ہم سے آپ کیا چاہتے ہیں؟ سر موصوف خاموش ہو گئے۔ چیف جج صاحب باہر آ کر شکوہ کرنے لگے کہ میں نے تو آپ کی بڑی تعریف کر رکھی تھی کہ بڑے بااخلاق، نرم مزاج اور مرنجاں مَرَنْج انسان ہیں۔ آپ نے تو ایک دم لٹھ مار دیا ہے۔ میں نے انھیں سمجھایا کہ سردار صاحب آپ کو معلوم ہو یا نہ ہو مگر میں جانتا ہوں کہ سر موصوف آپ کے ہاں چند روز کے مہمان ہیں، مہاراج اب انھیں مستقل طور پر چھٹی دے دیں گے اور چودھری عبدالعزیز کو رہا کر دیں گے۔ ان شاء اﷲ ایسا ہی ہو گا، میں نے تو آپ کے ارشاد کے مطابق ملاقات کر لی ہے۔
چنانچہ کچھ ہی دنوں بعد سر عبدالحمید وزارتِ عظمیٰ سے علیحدہ کردیے گئے اور چودھری عبدالعزیز کو غیر مشروط رہائی مل گئی۔
اب:
اب نہ وہ ریاست کپور تھلا رہی اور نہ وہاں کوئی مسلمان رہا۔ مہاراج بھی پرلوک کو سدھار گئے، ریاست کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ دیوان سر عبدالحمید پچھلے دنوں تو زندہ تھے، اب معلوم نہیں کس گوشۂ گمنامی میں زندگی کے دن گزار رہے ہیں؟ اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر اﷲ کا خوف اور یومِ آخرت کو بھلا دیا جائے تو انجام بخیر نہیں ہوتا
فاعتبروا یا اولی الابصار
تحریکِ مدحِ صحابہؓ …… نواب زادہ لیاقت علی خان مرحوم کی تائیدی تقریر
خطاب: شہید ِ ملّت نواب زادہ لیاقت علی خان مرحوم
’’مجلس احرارِ اسلام ہند کی برپا کردہ تاریخی ’’تحریکِ مدحِ صحابہ‘‘ ۱۹۳۶ء کی حمایت میں سابق وزیر اعظم پاکستان اور مسلم لیگ کے رہنما،شہیدِ ملّت، نواب زادہ لیاقت علی خان کی یوپی اسمبلی میں تقریر کی جو اخبار النجم، لکھنؤ، ۱۳؍ نومبر ۱۹۳۶ء میں شائع ہوئی۔ ادارہ ریکارڈ محفوظ کرنے کے لیے اس یادگار اور تاریخی تقریر کوجناب عرفان الحق ایڈووکیٹ کے شکریے کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہے۔
سٹی مجسٹریٹ کا اعلان:
یکم جون ۱۹۳۶ء کو لکھنؤ کے شیعہ سٹی مجسٹریٹ ابو طالب نقوی نے حسبِ دفعہ ۱۴۴ ، ایک اعلان شائع کیا کہ ۳؍ جون کے جلوس محمدی میں مدحِ صحابہ نہ پڑھی جائے، اس سلسلہ میں ان کے الفاظ درج ذیل ہیں:
’’ہر گاہ ایک جلوس لکھنؤ میں تاریخ ۳؍ جون ۳۶ء بروز بارہ وفات حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے اعزاز میں نکالا جانے والا ہے۔ و ہرگاہ یہ جلوس چند سال ہوئے پہلے نکالا گیا تھا تو شیعہ اور سنی مسلمانان کا مشترکہ جلوس تھا اور اس وقت اب تک یہ مشترکہ جلوس رہا ہے۔ ہر گاہ امسال بھی جلوس کے سنی منتظموں نے شیعہ مسلمانوں کو جلوس میں شرکت کرنے کے لیے مدعو کیا ہے اور انھوں نے بھی اپنی شرکت کی منظوری دے دی ہے اور ہر گاہ کہ پولیس کی اطلاع و نیز دیگر ذرائع کی اطلاع پر یہ یقین کرنے کے لیے کافی وجوہ موجود ہیں کہ کچھ غیر ذمہ دار لوگ ایسی نظمیں جو مختلف فیہ ہیں، اس جلوس میں پڑھیں گے، جن کی معقول گنجائش نہیں ہے اور ہر گاہ ایسی نظموں کے پڑھنے سے اندیشہ نقضِ امن عام کا ہے۔ میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ لکھنؤ…… حسب ذیل حکم زیر دفعہ ۱۴۴ ضابطۂ فوجداری نافذ کرتا ہوں کہ:
۱۔ کوئی شخص جلوس میں یا جلوس کے لوگوں کی سماعت کے اندر کسی شارع عام پر یا مجمع میں مدحِ صحابہ نہیں پڑھے گا
۲۔ کوئی شخص دشنام آمیز الفاظ یا کوئی اور الفاظ یا اشعار جن سے کسی دوسرے فرقہ کے پیروؤں کی ذلت یا ہتک ہوتی ہو، اس جلوس کے راستے میں یا جلوس کے لوگوں کی سماعت کے اندر یا کسی شارع عام پر یا کسی مجمع میں نہ پڑھے گا۔ وغیرہ وغیرہ
نواب زادہ لیاقت علی خاں کی تقریر:
لنچ کے بعد ٹھیک ڈھائی بجے نواب زادہ صاحب نے تحریک التواء پیش کی ۔ تحریکِ مدحِ صحابہ کے حوالے سے پیش آمدہ صورتِ حال کے حوالے سے اپنی تقریر میں آپ نے کہا:
’’میں متعصب نہیں ہوں اور جب کبھی دو فرقوں میں کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے تو میرے دل کو سب سے زیادہ دکھ ہوتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ حکومت کا موجودہ معاملہ میں کچھ ایسا رویہ رہا ہے کہ کوئی انصاف پسند شخص خاموش نہیں رہ سکتا۔ مدحِ صحابہ کے سلسلہ میں حکومت رعایا کے جائز حقوق میں مداخلت کر رہی ہے اور جس کام کا ہر شخص کو حق حاصل ہے، اسے کرنے سے روک رہی ہے۔ علی الاعلان مدحِ صحابہ پڑھنا، سنّیوں کا مذہبی اور شہری حق ہے۔ مدحِ صحابہ پڑھنے کی عام اجازت دینے پر اعتراض یہ کیا جا رہا ہے کہ بعض لوگ خلفاءِ ثلاثہ کی عظمت کو نہیں مانتے، اس لیے حکومت کو حق ہے کہ وہ ان اصحاب کے معتقدین کو اپنے بزرگوں کی تعریف کرنے سے روک دے، جبکہ یہ دلیل سرا سر غیر منطقی اور عقلِ سلیم کے خلاف ہے، میں ایوان کو مطلع کرنا چاہتا ہوں کہ یہ اصحاب جن کی تعریف کرنا جرم قرار دیا گیا ہے، اسلام کے زبردست محسنوں میں سے اور انھی کی ذات سے ساری دنیا میں اسلام کی روشنی پھیلی۔ یہ حضرات نہ صرف جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خاص دوستوں اور جاں نثاروں میں تھے، بلکہ ان کے قریبی اعزاء میں سے بھی تھے۔
حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے خسر تھے اور حضرت عثمان و علی رضی اﷲ عنہما آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے داماد تھے۔ مسلمان ان تمام حضرات کی عزت کرتے ہیں، لہٰذا کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ ان اصحاب کے ماننے والوں کو ان کی تعریف سے روکے۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ سنّیوں کو اپنے بزرگوں اور اسلام کے محسنوں کی تعریف سے روکا جائے، وہ آخر کس وجہ سے ایسا کرنا چاہتے ہیں سنّی کسی کو گالی نہیں دیتے تو پھر بگڑنے کی کیا وجہ ہے اگر اس اصول پر دنیا کاربند ہونے لگے تو پھر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ عیسائی حضرات جناب عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا تصور کرتے ہیں، لیکن مسلمان ایسا نہیں مانتے اس لیے عیسائیوں کو اس کی اجازت نہیں ملنی چاہیے کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کی اپنے خیال کے مطابق تعریف کریں۔ حقیقت اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جب تک میں کسی دوسرے پر سبّ و شتم نہ کروں، مجھے اپنے بزرگوں کی تعریف کرنے کا حق حاصل ہے، جس پر کوئی روک ٹوک نہیں ہونی چاہیے اور یہی آج سنّیوں کا مطالبہ ہے۔ حکومت نے اپنے آرڈر مجریہ ۱۹۰۹ء میں صاف صاف یہ لکھ دیا ہے کہ ان اصحاب کی علی الاعلان تعریف کو پورے سال نہیں روکا جا سکتا۔
ایک اعلان کی یاد:
نواب زادہ صاحب نے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے مزید کہا:
’’اس وقت کے ڈپٹی کمشنر مسٹر ریڈیچی نے بھی فساد ہونے کے بعد سنّیوں کو اطمینان دلانے کے لیے صاف صاف یہ اعلان کر دیا تھا کہ سنیوں کو پورے سال مدحِ صحابہ پڑھنے سے نہیں روکا جا سکتا، مگر مقامی حکام نے نہ صرف تین دنوں کے لیے مدحِ صحابہ بند کی بلکہ وہ اپنی حد سے گزر کر حکم پر حکم دیتے چلے جا رہے ہیں کہ اب مسلمان سال کے کسی دن میں بھی مدحِ صحابہ نہیں پڑھ سکتے۔
ہوم ممبر کے جوابات سے معلوم ہوتا ہے کہ لکھنؤ میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی حقیقت اور اصلیت سے وہ لاعلم ہیں، جس پر مجھے افسوس ہے، بہرحال میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ لکھنؤ کی طرف سے اس قسم کا کوئی تحریری حکم شائع نہیں ہوا ہے کہ لکھنؤ میں مدحِ صحابہ علی الاعلان پڑھنا ہمیشہ کے لیے ممنوع ہو گیا ہے۔ جو حکم ہر جمعہ کو دیا جاتا ہے وہ صرف یہ ہوتا ہے کہ ٹیلہ کی مسجد لکھنؤ کے گرد نصف میل کے اندر پانچ آدمیوں سے زیادہ لوگ جمع نہ ہوں۔ اب اس حکم کی خلاف ورزی کوئی نہیں کرتا، مگر جب ایک یا دو آدمی مسجد سے مدحِ صحابہ پڑھتے ہوئے نکلتے ہیں تو ان کو فوراً گرفتار کر لیا جاتا ہے، لہٰذا بتایا جائے کہ اب یہ گرفتاری کس جرم اور کس قانون کی رُو سے ہوتی ہے؟ کیا انصاف اسی کو کہتے ہیں‘‘۔
یوپی اسمبلی میں مدحِ صحابہؓ:
انھوں نے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے مزید کہا:
’’میں ایوان کی آگاہی کے لیے وہ اشعار بھی پڑھ کر سنائے دیتا ہوں جن کو لوگ عام طور سے پڑھتے ہیں تو گرفتار کر لیے جاتے ہیں۔ ان اشعار میں ایک شعر یہ بھی خاص طور سے پڑھا جاتا ہے:
جن کا ڈنکا بج رہا ہے چار سو لیل و نہار
وہ ابوبکرؓ و عمرؓ ، عثمانؓ و حیدرؓ چار یار
میں پوچھتا ہوں کہ کیا ان اشعار میں کوئی اسی قابلِ اعتراض بات ہے ، جس کی کوئی شخص مخالفت کرے، یہ بات نہایت قابلِ افسوس ہے کہ حکومت تو یہ کہتی ہے کہ ہر فرقہ کو اپنے مذہبی پیشواؤں کی تعریف کا حق ہے اور مسلمان بھی اپنے بزرگوں کی علی الاعلان تعریف کر سکتے ہیں، مگر پھر بھی دفعہ ۱۴۴ کی آڑ میں مسلمانوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ یہ بات بھی قابلِ افسوس اور قابلِ مذمت ہے کہ حکام دفعہ ۱۴۴ سے زیادہ کسی اور قانون کا غلط طریقہ سے استعمال نہیں کرتے۔ دفعہ ۱۴۴ کا منشا یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ لوگوں کو ان کے جائز حقوق کے استعمال سے روک دیا جائے، بلکہ اس قانون کے سہارے عوام کے جائز حقو ق کا نفاذ کرانا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس دفعہ کو غلط استعمال کیا جا رہا ہے اور لکھنؤ کے مسلمانوں کو ان کے جائز اور غیر دل آزار حقوق سے محروم کر کے ان کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہے، حکومت کے لیے یہ افسر نوازی کی پالیسی نہایت نقصان دہ ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اور برا ہو گا، اگر حکومت نے اس طرح اپنے آدمیوں کی حمایت کی تو کیا یہ انصاف کہا جائے جائے گا۔ کیا یہ حکومت کا فرض نہیں کہ وہ اپنے افسروں کو اس چیز سے روکے کہ وہ دوسروں کے جائز حقوق کو غصب نہ کریں۔ مجھے امید ہے کہ تمام ممبر میری اس تحریک سے متفق ہوں گے‘‘۔
(النجم لکھنؤ، ۱۳؍ نومبر ۱۹۳۶ء)