مولانا مشتاق احمد چنیوٹی رحمۃ اﷲ علیہ
معیار نمبر۳۶: انبیا ءِ کرام علیہم السلام کی طرح کوئی عزت نہیں پا سکتا:
دنیاداروں کے نزدیک اگرچہ عزت وقدرومنزلت کا معیاردولت اورعہد ے ہیں لیکن حقیقت میں یہ معیار غلط ہے اور عزت کا دارومدار صرف اور صرف ایمان اور تقویٰ ہے۔ اﷲ جل شانہ نے اس حقیقت کو یوں بیان کیاہے:یقولون لئن رجعنا إلی المدینۃ لیخرجن الأعز منہا الأذل، وﷲ العزۃ ولرسولہ ولکن المنافقین لا یعلمون (المنافقون: 8)
ترجمہ: کہتے ہیں اگر ہم لوٹ کر مدینے پہنچے تو عزت والے ذلیل لوگوں کو وہاں سے نکال باہر کریں گے حالانکہ عزت اﷲ کی اور اس کے رسول کی اور مومنوں کی لیکن منافق نہیں جانتے۔
سورت النساء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: الذین یتخذون الکفرین أولیاء من دون المؤمنین، أیبتغون عندہم العزۃ فإنَّ العزۃ ﷲ جمیعا (النساء:139)
ترجمہ: جومومنوں کو چھوڑ کا کافروں کو دوست بناتے ہیں، کیا یہ ان کے ہاں عزت حاصل کرنی چاہتے ہیں تو عزت سب خدا ہی کی ہے۔
مرزا قادیانی کا دعویٰ ہے :
آثرک اﷲ علی کل شئی۔ اﷲ تعالیٰ نے ہر ایک چیز پر تجھے ترجیح دی۔(تذکرہ 372طبع چہارم)
انی فضلتک علی العالمین۔ میں نے تجھے تمام جہانوں پر فضیلت دی ہے۔(تذکرہ ص7طبع چہارم)
انا کفیناک المستھزئین۔ وہ لوگ جو تیرے پر ہنسی ٹھٹھاکرتے ہیں ہم ان کے لیے کافی ہیں۔
(تذکرہ ص 37طبع چہارم)
انبیاء ورسل سے ہر ایک کا نام اﷲ تعالیٰ نے میرا رکھا ہے۔(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22ص72حاشہ)
اپنے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود دنیا کی نظر میں مرزا قادیانی کی عزت یہ تھی:
1۔ اس کی زندگی میں اسے کذاب، مکار اور دجال کہا گیا۔
2۔ اس کے روبرو اسے خود غرض، عشرت پسند، بدزبان کے لقب دئیے گئے۔(روحانی خزائن جلد 22ص591)
3۔ اسے مولانا کرم دین نے عدالتوں میں ذلیل و خوار کیا۔
4۔ اسے اس کے ماننے والوں پر کفر کے فتوے سب مسلمانوں نے متفقہ طور پر دئیے۔
5۔ اس پر مخالفین کا خوف مسلط رہا اور وہ باربار برطانوی حکومت کو اپنے وفادار ہونے کا یقین دلاتا رہا۔
6۔ حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی اگست 1900ء کو بادشاہی مسجد لاہور میں مرزا قادیانی سے مناظرہ و مباہلہ کے لیے تشریف لائے ، مرزا مقابلہ کے لیے نہ آیا اور رسوا ہوا۔
7۔ مولانا محمد حسن ؒ فیضی اور دیگر اکابر نے مرزا کی علمی غلطیوں اور خیانتوں کی نشان دہی کر کے اس کی پردہ داری کی۔
8۔ مولانا رشید احمد گنگوہی نے مرزا کے خلاف فتویٰ لکھ کر چھپوایا اور تمام ہندوستان میں پھیلایا جس پر مرزا نے چیں بجبیں ہوکر انہیں اندھا شیطان کا لقب دیا۔
9۔ علماءِ لدھیانہ نے سب سے پہلے مرزا قادیانی کے کفر کی نشاندہی کی۔
10۔ مولانا ثناء اﷲ امر تسری کے مقابل مرزا نے دعا کی کہ یا اﷲ جو جھوٹا ہے اسے زندہ کی زندگی میں موت دے دے۔ مرزا قادیانی مولانا ثناء اﷲ صاحب کی زندگی میں مر گیا اور اس طرح اس نے خود اپنے جھوٹے ہوتے کی تصدیق کردی۔
یہ سب حقائق اس بات کے دلائل ہیں کہ مرزا قادیانی نے حضرات انبیاءِ کرام علیہم السلام والی عزت نہیں پائی۔
معیار نمبر۳۷:انبیاء کرام ّ کا انداز دعوت و تبلیغ مثالی ہوتا ہے:
حضرات انبیاء کرام ّ کی دعوت و تبلیغ اور مواعظ حسنہ سے ہوں تو تمام قرآن مجید بھرا ہوا ہے۔ خصوصیت سے درج ذیل آیات ملاحظہ فرمائیں:
البقرہ:54، المائدہ:21، الانعام:78،135،الاعراف: 59،61،65،72،73،79،85،93،
یونس: 84،71، ھود:50،30،29،28،تا93،92،89،88،88،84،78،64،63،63،61،
طہ: 90۔86،المومنون:23النمل:46العنکبوت:32یس:20، الزمر:39،غافر 41،38،32،30،29،نوح:4۔
ان آیات پر غوروفکر کرنے سے انبیاء کی دعوت وتبلیغ کی درج ذیل خصوصیات واضح ہوتی ہیں۔
1۔ بے خوفی:
انبیاءِ کرام علیہم السلام کسی کی شان وشوکت،بادشاہت اور دولت سے مرعوب نہیں ہوتے۔نمرود کے سامنے حضرت ابراہیم علیہ السلام، فرعون کے سامنے حضرت موسیٰ علیہ السلام، قریش کے سرداروں کے سامنے نبی کریم ﷺکا کلمہ ٔ حق کہنا ہر ایک کو معلوم ہے، باقی انبیاء کرام کا بھی یہ حال تھا۔
2۔فصاحت وبلاغت:
انبیا ءِ کرام علیہم السلام فصیح وبلیغ ہوتے ہیں، حضرت موسی ؑ کی زبان میں لکنت تھی جو کہ ان کی دعا کی برکت سے ختم ہوگئی۔ نبی کریم ﷺ تو افصح العرب تھے، پیغام حق کو پہچانے کے لیے فصاحت وبلاغت ایک بنیادی شرط ہے۔
3۔ پیغام کی وضاحت:
انبیاء کرام اپنی دعوت، اپنی تعلیمات گول مول الفاظ میں کبھی بھی پیش نہیں کرتے بلکہ تمام ارکان دین کے ایک ایک نکتہ کی وضاحت کرتے ہیں۔
4۔ روحانیت:
انبیاءِ کرام علیہم السلام کی تعلیمات تقدس اور روحانیت سے بھری ہوتی ہیں اور ان کی تعلیمات پر عمل کرنے والوں کے دل و دماغ میں اخلاص اور محنت کے بقدر نورانیت وروحانیت پیدا ہوجاتی ہے۔
5۔جامعیت:
انبیاءِ کرام علیہم السلام کی تعلیمات اپنے اپنے زمانہ کے لحاظ سے جامعیت رکھتی ہیں اور اپنے زمانہ کے تمام تقاضوں کو پورا کرتی ہیں۔
6۔شیطانی مداخلت سے حفاظت:
انبیاءِ کرام علیہم السلام کی وحی شیطانی مداخلت سے محفوظ ہوتی ہے اگر ایسا نہ ہو تو ان کی وحی پر سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے اور انبیاءِ کرام علیہم السلام کی بعثت کا مقصد ہی پورا نہ ہوسکے۔
7۔دعوت بالحکمۃ
انبیاءِ کرام علیہم السلام کی دعوت ہمیشہ حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ ہوتی ہے۔ انبیاء اپنے مخاطبین کو سیدھی صاف باتیں عمدہ لہجے اور دلنشین بیان میں سناتے ہیں کہ سننے والوں کے لیے اس سے انکار کا کوئی سبب باقی نہیں رہتا۔
مرزا قادیانی کے انداز دعوت و تبلیغ کا جائزہ:
ہمیں افسوس سے لکھنا پڑتا ہے کہ مرزا قادیانی کی دعوت وتبلیغ اور 83 کتابوں کا ذخیرہ مذکورہ خصوصیات سے خالی ہے۔مرزا قادیانی سچا نبی ہوتا تو سچے انبیاء کرام کا اسلوب اپنایا۔ وہ متنبی تھا اس لیے متنبیوں کا انداز ہی اپنایا جو کہ مذکورہ سات خصوصیات کا بالکل الٹ تھا یعنی
1۔ وہ اپنی وحی کے اظہار میں لوگوں سے اور حکومت برطانیہ سے ڈرتا تھا۔
2۔ اس کی تحریر و تقریر فصاحت و بلاغت سے خالی ہوتی تھی۔
3۔ اس کا پیغام واضح نہیں، اجمال، دجل اور تحریفات بہت ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس کے ماننے والے کئی گروہوں میں منقسم ہیں اور ہر گروہ مرزا قادیانی کو الگ الگ حیثیت سے مانتا ہے۔
4۔ مرزا قادیانی کی تحریروں میں روحانیت کی جگہ ظلمت ہے جس کا پڑھنے والوں پر برا اثر پڑتا ہے۔
5۔ مرزا قادیانی کی تعلیمات میں جامعیت نہیں اسی فی صد سے زیادہ تحریریں ختم نبوت، رفع و نزول عیسیٰ ؑکے انکار، اپنی جھوٹی نبوت کے دلائل پر مشتمل ہیں۔ ان معدودے چند موضوعات کے علاوہ قرآن و حدیث کے تفصیلی مباحث کی درست ترجمانی بہت کم ہے۔
6۔ اس کی وحی شیطانی اثرات سے محفوظ نہ تھی۔
7۔ اس کی تعلیمات دعوت بالحکمۃ کے اصولوں کے یکسر خلاف ہے۔
معیار نمبر: ۳۸: انبیاءِ کرام علیہم السلام کی خطرناک امراض سے حفاظت ہوتی ہے:
انبیاءِ کرام علیہم السلام چونکہ مرجع خلائق ہوتے ہیں اور شان محبوبیت رکھتے ہیں اس لیے وہ خاطر خواہ جسمانی وجاہت رکھتے ہیں تاکہ لوگ ان کے قریب آنے میں حجاب محسوس نہ کریں۔ اسی طرح وہ ایسی امراض سے محفوظ رکھے جاتے ہیں جو کسی بھی طرح متعدی، خطرناک یا نفرت آمیز(مثلا بد بوداریا صورت مسخ کرنے والے) ہوں۔ حضرت ایوب علیہ السلام کی مرض کی جو تفصیلات بعض کتب میں لکھی ہیں وہ اسرائیلی روایات پر مبنی اور ناقابل اعتبار ہیں۔
مرزا قادیانی کا اعتراف:
انبیاء خبیث امراض سے محفوظ رکھے جاتے ہیں۔(ملفوظات جلد اول ص397طبع جدید)
اسی طرح مرزا قادیانی نے اپنے متعلق دعوٰی کیا کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے یہ الہام کر رکھا ہے۔
مرزا قادیانی کا الہام:
ہم نے تیری صحت کا ٹھیکہ لیا ہے۔(تذکرہ ص 685 طبع چہارم)
واضح رہے کہ مرزا قادیانی کے نزدیک وحی اور الہام مترادف ہیں۔
مرزا قادیانی کی خطرناک امراض
ہسٹیریاکے دورے:
بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود کو پہلی دفعہ دوران سر اور ہسٹیریا کا درد بشیر اول کی وفات کے چند روز بعد ہوا تھا۔(سیرت المھدی جلد اول ص 17،16)
مراق اور کثرت بول:
دیکھو میری بیماری کی نسبت بھی آنحضرت نے پیش گوئی کی تھی جو اسی طرح وقوع میں آئی آپ نے فرمایا تھا کہ مسیح آسمان پر سے جب اترے گا تو وہ زرد چادریں اس نے پہنی ہوں گی تو اسی طرح مجھ کو دو بیماریاں ہیں ایک اوپر کے دھڑ کی اور ایک نیچے کے دھٹرکی یعنی مراق اور کثرت بول۔(ملفوظات جلد پنجم ص33،32)
قولنج زحیری:
ایک مرتبہ میں قولنج زحیری سے سخت بیمار اور سولہ دن پاخانہ کی راہ سے خون آتا رہا اور سخت درد تھا جو بیان سے باہر ہے۔(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22ص246)
ذیابیطس، سو سو دفعہ پیشاب:
مجھے کئی سال سے ذیابیطس کی بیماری ہے، پندرہ بیس مرتبہ روز پیشاب آتا ہے اور بعض دفعہ سو سو دفعہ ایک ایک دن میں پیشاب آیا ہے اور بوجہ اسکی کہ پیشاب میں شکر ہے کبھی کبھی خارش کا عارضہ بھی ہو جاتا ہے اور کثرت پیشاب سے بہت ضعف تک نوبت پہنچتی ہے۔(نسیم دعوت روحانی خزائن جلد 18ص432)
اسہال:
مجھے اسہال کی بیماری ہے اور ہر روز کئی کئی دست آتے ہیں۔(ملفوظات جلد اول ص565طبع جدید)
دردسر، کثرت بول اور اسہال:
احادیث میں ہے کہ مسیح موعود وزرد رنگ چادروں میں اترے گا ایک چادر بدن کے اوپر کے حصہ میں ہوگئی اور دوسری چادر بدن کے نیچے کے حصہ میں سو میں نے کہا یہ اس طرف اشارہ تھا کہ مسیح موعود دوبیماریوں کے ساتھ ظاہر ہوگا کیوں کہ تعبیر کے علم میں زرد کپڑے سے مراد بیماری ہے اور وہ دونوں بیماریاں مجھ میں ہیں یعنی ایک سر کی بیماری اور دوسری کثرت پیشاب اور دستوں کی بیماری۔(تذکرہ الشہادتین روحانی خزائن جلد 20ص42)
دو ہولناک امراض:
مجھے دو بیماریاں مدت دراز سے تھیں ایک شدید درد سر جس سے میں بیتاب ہوجاتا تھا اور ہولناک عوارض پیدا ہوجاتے تھے اور یہ مرض قریبا پچیس برس تک دامن گیر رہی اور اس کے ساتھ دوران سر بھی لاحق ہو گیا اور طبیبوں نے لکھا ہے کہ ان عوارض کا آخر نتیجہ مرگی ہوتی ہے۔ چنانچہ میرے بڑے بھائی مرزا غلام قادر قریبا دوماہ تک اسی مرض میں مبتلا ہو کر آخر صرع میں مبتلا ہوگئے اور اسی سے ان کا انتقال ہو گیا۔(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد22ص376)
میرا دل اور دماغ سخت کمزور تھا اور میں بہت سے امراض کا نشانہ رہ چکا تھا اور دو مرضیں یعنی ذیابیطس اور درد سرمع دوران سر قدیم سے میرے شامل حال تھیں جن کے ساتھ تشنج قلب بھی تھا اس لیے میری حالت مردمی کالعدم تھی۔
(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15ص203)
خلاصہ کلام:
مرزا قادیانی کہتا ہے ” اس عاجز کی عمر اس وقت پچاس برس سے کچھ زیادہ ہے اور ضعیف اور دائم المرض اور طرح طرح کے عوارض میں مبتلاہے۔(سراج منیر روحانی خزائن جلد 12ص17)
دعوت فکر:
قادیانیوں سے گزارش ہے کہ مرزا قادیانی اپنی تحریروں کے مطابق بیس سے زائد امراض میں مبتلا تھا خدارا وہ سوچیں کہ کیا کسی نبی کو بھی اتنی امراض لاحق ہوئی ہیں اور مرزا قادیانی کی یہ وحی کیا رحمانی تھی کہ ”ہم نے تیری صحت کا ٹھیکہ لے لیا ہے ” کیا صحت کا ٹھیکہ لینے کا مطلب 20 سے زائد امراض میں مبتلا کرنا ہے؟
معیار نمبر ۳۹: انبیاء کرام علیہم السلام کی دعائیں قبول ہوتی ہیں:
حضرات انبیاءِ کرام علیہم السلام اﷲ تعالیٰ کے مقرب بندے اور مستجاب الدعوات ہوتے ہیں…… ان کی دعائیں اﷲ تعالیٰ سنتے اور قبول کرتے ہیں، کوئی نبی ایسا نہیں جس نے اہم امور کے متعلق دعائیں کی ہوں اور وہ قبول نہ ہوئی ہوں، مرزا غلام احمد قادیانی کو چونکہ بڑا شوق تھا خود کو انبیاء کرام کی فہرست میں شامل کرنے کا اس لیے اس نے اپنے متعلق مستجاب الدعوات ہونے کا دعویٰ بھی کر دیا۔
مرزا قادیانی کا دعویٰ:
میں کثرت قبولیت دعا کا نشان دیا گیا ہوں کوئی نہیں کہ جو اس کا مقابلہ کرسکے میں حلفا کہہ سکتا ہوں کہ میری دعائیں تیس ہزار قریب قبول ہو چکی ہیں اور ان کا میرے پاس ثبوت ہے۔(ضرورۃ الامام روحانی خزائن جلد 13ص197)
1۔ جب تو دعا کرے تو میں تیری سنوں گا۔ (تذکرہ ص432طبع چہارم)
2۔ دیکھ میں تیری دعاؤں کو کیسے قبول کرتا ہوں۔ (تذکرہ ص94 طبع چہارم)
مرزا قادیانی کی غیر مقبول دعائیں:
1۔ مرزا قادیانی نے دعا کی کہ الٰہی میری عمر 95برس کی ہوجائے۔ (تذکرہ ص414طبع چہارم)
مگر وہ 68 یا 69 برس کی عمر میں فوت ہو گیا۔
2۔ مرزا قادیانی نے اپنے مرید مولوی عبدالکریم سیالکوٹی کی صحت کے لیے دعا کی اور کئی الہامات شائع کیے۔
(تذکرہ 472،472طبع چہارم)
لیکن مولوی عبد الکریم اپنی بیماری سے شفایاب نہ ہوسکا اور فوت ہوگیا۔
3۔ مرزا قادیانی کا بیٹا مبارک احمد بیمار تھا مرزا قادیانی نے دعوٰی کیا کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے اس کی صحت کی بشارت دی ہے۔ (تذکرہ ص616طبع 4)لیکن مرزا مبارک احمد صحت یاب ہونے کی بجائے فوت ہو گیا۔(تذکرہ ص617)
4۔ ڈپٹی عبداﷲ آتھم کی ہلاکت کے لیے مرزا قادیانی نے وظیفے پڑھوائے۔ (سیرت المھدی روایت نمبر312طبع جدید)دعائیں مانگیں (روز نامہ الفضل قادیان 20جولائی 1950)
لیکن یہ دعائیں قبول نہ ہوئیں، آتھم نہ صرف زندہ رہا بلکہ عیسائیوں نے اس کا جلوس بھی نکالا۔
(سیرت المھدی روایت نمبر 175طبع جدید)
5۔ مرزا قادیانی کے مرید پیر منظور محمد کے گھر میں امید تھی، مرزا نے بیٹا ہونے کی دعا دی اور پیشگی اس لڑکے کے متعدد نام بھی تجویز کردئیے۔ بشیر الدولہ، عالم کباب، کلمۃ اﷲ خان وغیرہ۔
(تذکرہ 434،433طبع چہارم)
لیکن یہ دعا قبول نہ ہوئی اور لڑکے کی بجائے لڑکی پیدا ہوئی۔(روحانی خزائن جلد 22 حاشیہ 103)
مرزا قادیانی نے کہا کہ کوئی بات نہیں لڑکا آئندہ پیدا ہو جائے گا۔ مگر لڑکا پیدا ہونے کی بجائے پیر منظور محمد کی بیوی فوت ہوگئی۔ نہ رہا بانس نہ بجی بانسری
قا رئین کرام! مرزا قادیانی کے غیر مقبول دعاؤں کی ایک لمبی فہرست ہے، سردست صرف پانچ دعائیں تحریر کی گئیں ہیں جو کہ مرزا قادیانی کی وحی کے من جانب اﷲ نہ ہونے کی کھلی دلیل ہیں۔
معیار نمبر ۴۰: انبیاءِ کرام علیہم السلام کافروں سے جہاد کرتے ہیں:
حضرات انبیاءِ کرام علیہم السلام نے ہمیشہ کافروں سے جہاد کیا ہے تاکہ اﷲ کا دین سر بلند ہو جائے، کسی سچے نبی کے متعلق یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کافروں سے جہاد کرنے کی بجائے ان سے محبت کرے، ان سے جہاد کو حرام قرار دے اور ان کی اطاعت کو واجب کہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
1۔ یہ دین قائم رہے گا اس حالت میں کہ مسلمانوں کی ایک جماعت اس کے لیے جنگ کرتی رہے گی۔ حتیٰ کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ (صحیح مسلم)
2۔ جو شخص اس حال میں مرجائے کہ اس نے کبھی جہاد نہیں کیا اور نہ اس سلسلہ میں کبھی خواہش کا اظہار کیا تو وہ نفاق ایک پہلو پر مرتا ہے۔ (صحیح مسلم)
3۔ مشرکوں کے خلاف جہاد کرو اپنے مالوں کے ساتھ اپنی جانوں کے ساتھ اپنی زبانوں کے ساتھ۔(سنن ابی داؤد)
جہاد کے متعلق مرزا قادیانی کی تعلیمات:
1۔ میں اِس بات کا فیصلہ نہیں کر سکتا کہ اِس گورنمنٹ محسنہ انگریزی کی خیر خواہی اور ہمدردی میں مجھے زیادتی ہے یا میرے والد مرحوم کو۔ بیس برس کی مدّت سے میں اپنے دلی جوش سے ایسی کتابیں زبان فارسی اور عربی اور اردو اور انگریزی میں شائع کر رہا ہوں جن میں بار بار یہ لکھا گیا ہے کہ مسلمانوں کا فرض ہے جس کے ترک سے وہ خدا تعالیٰ کے گنہگار ہوں گے کہ اس گورنمنٹ کے سچے خیر خواہ اور دلی جان نثار ہو جائیں اور جہاد اور خونی مہدی کے انتظار وغیرہ بیہودہ خیالات سے جو قرآن شریف سے ہرگز ثابت نہیں ہوسکتے دست بردار ہو جائیں۔(مجموعہ اشتہارات جلد دوم 355 طبع جدید)
2۔ میں نے بیسوں کتابیں عربی اور فارسی اور اردو میں اس غرض سے تالیف کی ہیں کہ اس گورنمنٹ محسنہ سے ہر گز جہاد درست نہیں بلکہ سچے دل سے اطاعت کرنا ہر ایک مسلمان کا فرض ہے۔۔۔ اور جو لوگ میرے ساتھ مریدی کا تعلق رکھتے ہیں وہ ایک ایسی جماعت تیار ہوتی جاتی ہے کہ جن کے دل اس گورنمنٹ کی سچی خیر خواہی سے لبالب ہیں ان کی اخلاقی حالت اعلیٰ درجہ پر ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ وہ تمام اس ملک کے لیے بڑی برکت ہیں اور گورنمنٹ کے لیے دلی جان نثار۔(مجموعہ اشتہارات جلد دوم ص 27،26 طبع جدید)
3۔ ہم اور ہماری ذریت پر یہ فرض ہو گیا کہ اس مبارک گورنمنٹ برطانیہ کے ہمیشہ شکر گزار رہیں۔
(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 ص 166)
4۔ میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں گزرا ہے اور میں نے ممانعت اور جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتا بیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کیے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکھٹی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں میں نے ایسی کتابوں کو تمام ممالک عرب اور مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچا دیا ہے۔ میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان اس سلطنت کے سچے خیر خواہ ہوجائیں اور مہدی خونی اور مسیح خونی کے بے اصل اور جہاد کے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں ان کے دلوں سے معدوم ہو جائیں۔(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 ص 156،155)
5۔ مجھ سے سرکار انگریزی کے حق میں جو خدمت ہوئی وہ یہ تھی کہ میں نے پچاس ہزار کے قریب کتابیں اور رسائل اور اشتہارات چھپوا کر اس ملک اور نیز دوسرے بلاد اسلامیہ میں اس مضمون کے شائع کیے کہ گورنمنٹ انگریزی ہم مسلمانوں کی محسن ہے لہذٰا ہر ایک مسلمان کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ اس گورنمنٹ کی سچی اطاعت کرے اور دل سے اس دولت کا شکر گزار اور دعاگو ہے۔(ستارہ قیصر یہ روحانی خزائن جلد5 1ص114)
6۔ ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ اسلام کی دوبارہ زندگی انگریزی سلطنت کے امن بخش سایہ سے پیدا ہوئی ہے تم چاہو دل سے مجھے کچھ کہو، گالیاں نکالو یا پہلے کی طرح کافر کو فتویٰ لکھو مگر میرا اصول یہی ہے کہ ایسی سلطنت سے دل میں بغاوت کے خیالات رکھنا یا ایسے خیال جن سے بغاوت کا احتمال ہو سکے، سخت بدخوئی اور خدا تعالیٰ کا گناہ ہے۔
(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد15ص156)
7۔ پس میں اس جگہ پر مسلمانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ان پر فرض ہے کہ وہ سچے دل سے گورنمنٹ کی اطاعت کریں یہ بخوبی یاد رکھو کہ جو شخص اپنے محسن انسان کا شکر گزار نہیں ہوتا وہ خدا تعالیٰ کاشکر بھی نہیں کرسکتا جس قدر آسائش اور آرام اس زمانہ میں حاصل ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔(لیکچرار لدھیانہ روحانی خزائن جلد20 ص272)
8۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ میں اس گورنمنٹ کے لیے بطور ایک تعویذ کے ہوں اور بطور ایک پناہ کے ہوں جو آفتوں سے بچا دے۔(نور الحق روحانی خزائن جلد 8ص45،44)
معیار نمبر ۴۱:نبی جہاں فوت ہوتا ہے وہیں دفن ہوتاہے:
عن عائشہ قالت لما قبض رسول اﷲ ﷺ اختلفوا فی دفنہ فقال ابوبکر سمعت مع رسول اﷲ ﷺ شیئا مانسیتہ قال ما قبض اﷲ نبیا الا فی الموضع الذی یحب ان یدفن فیہ، فدفنوہ فی موضع فراشہ۔(جامع ترمذی جلد اول صفحہ 121، ابواب الجنائز باب ماجاء فی قتلیٰ احد و ذکرحمزہ۔ وفاقی وزارت تعلیم اسلام آباد )
ترجمہ: حضرت عاشہ رضی اﷲ عنھا فرماتی ہیں کہ جب رسول اﷲ ﷺ کا انتقال ہوا تو ان کے مقام دفن میں لوگوں نے اختلاف کیا، حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا میں نے حضور علیہ السلام کویہ فرماتے ہوئے سنا ہے جسے میں بھولا نہیں کہ اﷲ نے کسی نبی کو وفات نہیں دی مگر ایسی جگہ میں جہاں وہ دفن ہونا پسند کرتے ہوں، تو لوگوں نے آپ ﷺ کو آپ ﷺ کے بستر کی جگہ دفن کیا۔
مرزا قادیانی اس معیار پر پورا نہیں اترتا اس لیے کہ وہ لاہور میں مرا اور قادیان میں دفن ہوا۔
(سیرت المھدی حصہ دوم ص446 طبع جدید)
قادیانی اس روایت کے متعدد جواب دیتے ہیں:
اوّلا: وہ یہود ونصاریٰ کی کتابوں اور اسرائیلی روایات سے ثابت کرتے ہیں کہ متعدد انبیاء کرام علیہ السلام کی وفات اور دفن ہونے کی جگہ مختلف ہے۔ حالانکہ یہود ونصاریٰ کی کتابوں کا محرَّف اور نا قابل اعتبار ہونا ظاہر ہے۔
ثانیا: مرزا قادیانی کے دفاع کے لیے وہ اسی مفہوم کی اسرائیلی روایات بھی پیش کرتے ہیں حالانکہ اسرائیلی روایات پر آنکھیں بند کر کے اعتبار کرنا ممکن نہیں ہے۔
ثالثا: وہ اس مذکورہ روایت کے بعض راویوں پر جرح کرکے انہیں ضعیف قرار دیتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک حدیث متعدد طریقوں سے مروی ہو تو اس کا ضعف دور ہوجاتا ہے۔
قادیانی بتائیں کہ جامع ترمذی کی زیر بحث روایت کے انہیں کتنے متتابعات درکار ہیں؟ تاکہ ہم پیش کر سکیں۔