ہانی طاہر (سابق قادیانی) ۔ ترجمہ: صبیح ہمدانی
میرے اسلام قبول کرنے کے تقریبا دو برس گزرنے پر جبکہ استاد حسن عودہ کی زیرِ ادارت شائع ہونے والے معروف مجلہ ’’التقوی‘‘ کی اشاعت اپنے تیسویں برس میں داخل ہو رہی ہے، مجھ سے انھوں نے پوچھ کہ ردّ قادیانیت میں میرا خاص طریقہ کیا ہے؟ اس کے جواب میں میں نے درج ذیل تحریر لکھی۔
۱: مرزا غلام احمد کی کتابوں کو موضوعِ بحث بنایا جائے۔ مرزا صاحب کی غلط بیانیاں، جھوٹی پیشین گوئیاں اور غیر مہذب لہجہ و زبان پر زیادہ سے زیادہ گفتگو کی جائے۔ وہ مسائل جن میں علمائے مجتہدین کی مختلف آراء ہیں یا جہاں مفسّرین نے مختلف اقوال نقل کیے ہیں ان پر گفتگو کرنے کا فائدہ نہیں ہے۔
۲: مرزا صاحب کی بد اخلاقی کو بطور خاص سامنے لایا جائے۔ جیسا کہ میں نے اس موضوع پر ایک مستقل کتاب بھی لکھی ہے۔ مرزا صاحب کا جرم صرف یہی نہیں ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ پر افتراء گھڑتے ہیں بلکہ ان کے روز مرّہ زندگی کے اخلاق بھی ایسے برے تھے کہ ان سے متأثر ہونے والے احمدیوں پر اس کا لازمی منفی نتیجہ مرتّب ہوتا ہے۔ اس طریقے سے ہم ان احمدیوں سے بھی بات کر سکتے ہیں جو احمدیت میں ہونے والے اپنے تجربات کی روشنی میں الحاد کی منزل تک پہنچ جاتے ہیں اور یہ جانتے ہوئے بھی مرزا صاحب کے دعوے جھوٹے تھے، ان کا کہنا ہوتا ہے کہ مرزا صاحب جھوٹے ہونے کے باوجود باقی دینی شخصیات سے بہتر تھے۔
۳: مرزا صاحب اور ان کی جماعت کے آپس کے تضادات کو سامنے لانا۔ مثلاً مرزا صاحب کے وہ اقوال جن میں وہ قطعیت کے ساتھ یہ فیصلہ سناتے ہیں کہ نبوت بالکل ختم ہو چکی ہے اور ہر گز ہر گز کسی کو کافر قرار دینا جائز نہیں ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں مرزا بشیر الدین محمود احمد نبوت کے دروازے کو کھول دیتے ہیں اور سب مسلمانوں کے کافر ہوے کا فیصلہ صادر کرتے ہیں۔
۴: اس بات کا اظہار کہ جماعت احمدیہ جس ریشنل اور معقولی دینی تفسیرات پر فخر کرتی ہے (خاص طور پر قصص الانبیاء کی توجیہات میں) مرزا صاحب کی باتیں اس کے بالکل بر عکس بہت سی غیر معقول اور غیبی نوعیت کے خیالات پر مشتمل ہیں۔ اسی طرح نسخ کے موضوع پر (کہ جماعت احمدیہ نسخ کو تسلیم نہیں کرتی، جبکہ مرزا صاحب اس کے قائل ہیں) یا خضر علیہ السلام کے مسئلہ پر (کہ جماعت انھیں کوئی تکوینی شخصیت نہیں تسلیم کرتی بلکہ اس سارے قصے کو استعارے کے رنگ میں تفسیر کرتی ہے جبکہ مرزا صاحب تو اسرائیلی روایات کی طرز میں خضر علیہ السلام کا شجرۂ نسب تک بیان کرتے ہیں) یا رجم کے مسئلہ پر (مرزا صاحب رجم کو حکم قرآنی مانتے ہیں) یا مرتد کے قتل کے مسئلہ پر۔
۵: بھٹکے ہوئے احمدی افراد کے ساتھ محبت اور نرمی سے پیش آنا۔ یہ بھی بہت ضروری ہے۔ لوگوں کو یہ پتہ چلنا چاہیے کہ جماعت احمدیہ کے بھی بہت سے شدت پسندانہ رویے ہیں، مثلاً جو شخص مرزا صاحب کے کذبات سے واقف ہو جائے جماعت اس کو فوراً اپنے سوشل بائیکاٹ کا نشانہ بنا لیتی ہے۔ بہت سے امن پسند تارکینِ احمدیت پر بے تحاشا جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ جماعت کی کوشش ہوتی ہے صورت حال انتشار پذیر ہو اور کوئی حادثہ پیش آئے (تا کہ جماعت کی مظلومیت زیادہ نمایاں کی جا سکے) اسی طرح جب امّت مسلمہ کو کوئی تکلیف پہنچے یا کسی محاذ پر شکست کا سامنا کرنا پڑے تو جماعت احمدیہ میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور ہماری مصیبتوں پر وہاں اطمینان و مسرت کا اظہار کیا جاتا ہے۔
۶: جماعت احمدیہ جن قرآنی آیات سے استدلال کرتی ہے ان کا جواب دیا جانا اور ان کے استدلال کے بطلان کو ظاہر کرنا بہت ضروری ہے۔ مثلاً آیتِ استخلاف، یا آیت: وآخرین منہم لما یلحقوا بہم، یا آیت: وإن یک کاذباً فعلیہ کذبہ، یا آیت ولو تقوَّل علینا بعض الأقاویل۔ یا حدیثِ نبوی: ثم تکون خلافۃ علی منہاج النبوَّۃ۔ وغیرہ
۷: اس بات کو بیان کرنا کہ مرزا صاحب کوئی نئی فائدہ مند چیز پیش نہیں کر سکے۔ بلکہ ان کے اقوال و افعال کا محرک اعظم ان کی انانیت اور خود پرستی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات یا علامات قیامت کے حوالے سے مرزا صاحب نے جتنا کچھ لکھا یا کہا اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ اس سے کوئی نفع بخش اعتقادی و عملی حالت پیدا کرنا چاہتے تھے بلکہ ان موضوعات پر لکھی گئی ان کی سب تحریروں کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ موضوعات ان کے دعووں سے متعلق تھے۔ اس لیے کہ ان کے اعلانات تبھی درست منوائے جا سکتے تھے کہ پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مردہ منوایا جائے اور علاماتِ قیامت کی وہ تفسیر کی جائے جو مرزا صاحب کو ان کے دعووں کے مطابق نظر آئے۔
۸: احمدی دوستوں کے ساتھ لگے رہنا اور ان کے اشکالات و مسائل کا جواب دیتے رہنے کی کوشش میں مصروف رہنا۔ اس کے ساتھ ساتھ میں ان دوستوں کو یہ بھی واضح کرتا رہتا ہوں کہ (قادیانی ہونے کے زمانے میں) میرے پرانے اقوال کی وجہ کیا تھی؟ اور احمدیت کے حیلوں کا پردہ میرے سامنے سے کیسے ہٹا اور مجھے احمدیت کے مبنی بر کذب ہونے کا ادراک کس طرح ہوا۔
۹: احمدی متکلمین سے مہذب انداز میں مکالمہ کا مطالبہ کرنا، اگر وہ اس سے فرار ہونا چاہیں تو پھر ان سے مباہلہ کی درخواست کرناخواہ وہ جس قسم کی شرائط بھی لگائیں۔یہ اس وجہ سے کہ وہ اپنی جماعت کے بھولے بھالے لوگوں کو یہ فریب دیتے ہیں کہ ان کی جماعت لوگوں کو مباہلے کی دعوت دیتی ہے مگر لوگ راہِ فرار اختیار کرتے ہیں، چنانچہ اس جھوٹ کو ان پر پلٹنا بہت ضروری ہے۔
۱۰: میں احمدیہ ٹی وی کے پروگراموں کو بھی فالو کرتا ہوں اور ساتھ کے ساتھ ان کے جھوٹوں پر اپنے تبصرے لکھتا جاتا ہوں، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس وقت قادیانی ٹی وی اینکرز خاصی پریشانی اور ضرورت سے زیادہ احتیاط کے ساتھ ٹی وی پر گفتگو کرنے لگے ہیں۔ میں نے فیس بک پر ایک پیج بنا رکھا ہے جس پر بلا توقف میرے مقالات اور تبصرے ہمہ وقت شائع ہوتے رہتے ہیں، تقریباً ہر گھنٹے کے وقفے سے اس پر کوئی نہ کوئی تحریر لکھتا رہتا ہوں۔ اس صفحے پر احمدیوں اور غیر احمدیوں سب کو خوش آمدید کہا جاتا ہے کہ وہ جس وقت بھی چاہیں شرکت کر سکتے ہیں۔
میری اب تک جدّ و جہد کے نتائج:
دو سال سے کم عرصہ ہوا جب سے میں نے یہ محنت شروع کی ہے، اس دورانیے میں ۳ ہزار مقالات، اور دو سو ویڈیوز اب تک منظر عام پر آ چکے ہیں۔ ان مقالات اور ویڈیوز میں احمدیوں کی سب ڈینگوں کی قلعی کھولی گئی ہے ، جو وہ اپنی تاویلات باطلہ، اپنے اعداد و شمار، اپنی دعاؤں کی خرقِ عادت قبولیت کے واقعات، اپنی پیشین گوئیوں اور اپنی علمی عظمتوں کے حوالے سے فخر کیاکرتے تھے اس سب میں اب ایک واضح ٹھہراؤ آ گیا ہے۔ اب ان کی گفتگو زیادہ تر خوابوں اور خیالی باتوں پر منحصر ہو کر رہ گئی ہے۔
قادیانیوں کے مکالمہ اور مباہلے سے فرار اور پریشانی کو پوری دنیا نے دیکھ لیا ہے۔ کہ نہ تو وہ مجھ سے بحث کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں نہ مباہلہ ہی کرتے ہیں۔
اس سارے عرصے میں سب سے خوبصورت لمحہ وہ ہوتا ہے جب کوئی احمدی کچھ عرصہ تک میری باتوں کو بڑی شدت سے رد کرتا ہے اور ہر بات پر مجھے غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر کچھ دنوں بعد وہی احمدی مجھ سے رابطہ کرتا ہے اور مجھے یہ بتاتا ہے کہ مرزا صاحب کے جھوٹے ہونے کا معاملہ کھل کر اس کے سامنے آ گیا ہے۔ اور یہ خوبصورت لمحات بلا تعطل آتے رہتے ہیں۔ہانی طاہر: ۲؍اگست ۲۰۱۸ء۔
پس نوشت: یہاں تک مضمون مجلہ ’’التقوی‘‘ میں شائع ہوا۔ میں اوپر مندرج نکات میں کچھ مزید اضافہ کرنا چاہوں گا:
۱۱: انفرادی ذمہ داری کو مدارِ گفتگو بنانا۔ چنانچہ ہر احمدی سے اس کے احوال اور اس کے علم کی بنیاد پر ہی بات کی جانی چاہیے۔ اور اس کو یہ تلقین کرنی چاہیے کہ وہ اپنے علم کی بات کرے احمدیت کے بارے میں بغیر علم کوئی بھی جھوٹی گواہی دینے سے بچے، اسی طرح اس کو ترغیب دینی چاہیے کہ وہ اپنے آپ کا ذمہ دار ہے اور اس سے اسی کی ذات کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ قادیانیت پر عمومی تردیدی گفتگو کافی نہیں۔
۱۲: کسی ذاتی فتح، کسی احمدی کی شخصی شکست، کسی انانیت اور ذاتی عنوان کی طرف کبھی متوجہ نہیں ہونا چاہیے نہ اس کا تذکرہ کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ مسئلہ ذاتیات کا نہیں اعتقاد و نظریات کا ہے جو عمومی ہیں۔
۱۳: احمدیت اور اس کے جھوٹے گواہوں کو دنیا کے سامنے عبرت کا سامان بنانے کی کوشش کرنا۔ تا کہ ہر دین دشمن چالباز اور شریر شخص کو کان ہو سکیں کہ اگر وہ مرزا صاحب کے رستے پر چلے گا تو اﷲ تعالیٰ ایسے لوگوں کو پیدا فرماتے رہیں گے جو اس کے حیلوں اور مکروں کو پارہ پارہ کر کے اس کے جھوٹ کھول کھول کر بیان کردیں۔