ڈاکٹر محمدنذیر رانجھا کی ’’متاعِ قلیل‘ : محمداَحمدحافظ
جناب ڈاکٹر محمد نذیر رانجھا صاحب اگرچہ ایک خلوت گزیں اورگوشہ نشین آدمی ہیں مگران کا نام علمی حلقوں میں محتاجِ تعارف نہیں، وہ صاحب علم ودانش اور کتابی دنیا کے آدمی ہیں ۔اب تک ان کی درجنوں علمی ،تحقیقی اوراَدبی کتب منظرعام پر آچکی ہیں ۔
آپ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ’’مرکز تحقیقات فارسی ایران وپاکستان ‘‘اسلام آباد سے ۱۹۷۳ء میں کیاتھا۔وہاں سے ’’نیشنل ہجرہ کونسل اسلام آباد‘‘پھر’’اسلامی نظریاتی کونسل اسلام آباد‘‘میں آپ کی ملازمت رہی ۔ آج کل ریٹائرمنٹ کی زندگی گذاررہے ہیں،لیکن یہ زندگی بے مقصدو بے مصرف نہیں ہے،کتاب وقلم سے رشتہ اب بھی برقرار ہے۔کوئی دن نہیں جاتا کہ آپ کی نئی تصنیف قاری کو دعوت ِ مطالعہ دے رہی ہوتی ہے۔اب تک تو جناب رانجھاصاحب نے دوسروں کے حوالے سے لکھا یا دوسروں کی لکھی کتابوں کو ایڈٹ کرکے نئے گیٹ اپ کے ساتھ شائع کرایاہے ،مگران کی اپنی شخصیت پردہ اخفاء میں تھی ۔حال ہی میں ان کی خودنوشت ’’متاع قلیل ‘‘ کے نام سے سامنے آئی ہے،جومصنف کی حیات مستعار کے بیتے دنوں کی تہ در تہ پرتوں کوکھولتی ہے۔قاری جب کتاب کے مطالعے سے حظ اندوز ہوچکتاہے تو اس کے نہاں خانہ دل سے ایک سرگوشی ابھرتی ہے کہ……یہ ’’متاع قلیل‘‘ نہیں ’’متاع کثیر‘‘بلکہ ’’خیرکثیر‘‘ ہے۔
اس کتاب میں ڈاکٹررانجھاصاحب کے دیرینہ رفیق جناب ڈاکٹر سیدعارف نوشاہی صاحب نے آپ کاشوخ تعارف کچھ یوں کرایاہے:
’’ رانجھا صاحب کی ایک غزل کے شعر:
دل کی دولت بھلا لٹنے کا کیوں ہو کچھ غم
ہم تو مشہور ہیں گھر بار لٹانے والے
سے ان کا رانجھاہوناصاٖف جھلک رہاہے،مگر یہ اس وقت کی باتیں ہیں جب آتش جواں تھا،مرادوں کے دن تھے،جوانی کی راتیں تھیں اور رانجھا صاحب پر سلسلہ نوشاہیہ کا بھی جمالی اَثر تھا۔شباب کے انہی ایام میں جب یہ سلسلہ نقشبندیہ سے وابستہ ہوئے تومعلوم ہوا کہ یہاں تو ’’ہوش دَر دَم‘‘اور ’’نظر بَرقدَم ‘‘کی قید ہے۔نوشاہیوں کے ہاں تو ’’بے ہوشی دَم بہ دَم اور نگاہ برقدم ‘‘ کی قید ہے۔طریقہ نقشبندیہ کی جلالت نے اثردکھایااور رانجھا صاحب جواپنے نام کے ساتھ ایک مناسبت سے ڈاکٹر لکھاکرتے تھے،اب ’’مولانا‘‘ ہوگئے۔وہ شعروغزل کو تج کرصوفیانہ ادب کی طرف راغب ہوئے اور سرِ سلسلہ نقشبندیہ خواجہ بہاء الدین نقش بند کے مرید یعقوب چرخی کے تمام غیرمطبوعہ رسائل چھاپ دیے اور نقشبندیات پرایک مفید اضافہ کیا۔نقشبندیات سے ہٹ کر انہوں نے تصوف کی کچھ اور کتابوں ،تذکروں،اور مخطوطات پر بھی کام کیا جو سب کی سب فارسی زبان میں ہیں۔‘‘
ڈاکٹررانجھا صاحبِ نسبت بزرگ اور نقش بندی سلسلے کی عظیم’’ خانقاہ سراجیہ مجددیہ کندیاں شریف‘‘ سے منسلک ہیں۔ آپ نقش بندی امہات کتب کے مترجم، مسود ،مصحح ،محشّی، مؤلف اور مصنف ہیں،آپ کو نقشبندیات کا انسائیکلوپیڈیا کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا۔ شیخ المشایخ حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کی توجہات اور اﷲ پاک کی عطافرمودہ توفیق عالی نے آپ سے بڑا کام لیا ہے۔آپ کی ’’متاع قلیل ‘‘ میں مطبوعہ تصنیفات وتالیفات کی تعداد پچپن ہے،ان میں سے آٹھ کتابوں کی تصحیح وتحقیق آپ کے قلم سے ہے ۔اٹھائیس تصنیفات اوراٹھارہ تراجم ہیں۔ایک سو سترعلمی تحقیقی اردومضامین،اڑتیس فارسی مضامین،بارہ فارسی مضامین کے اردوترجمے شامل ہیں ۔
ڈاکٹررانجھا صاحب کا اولین کام سلسلہ نقش بندیہ کے امام سلوک حضرت مولانامحمد یعقوب چرخی رحمۃ اﷲ علیہ کے رسائل پر کام ہے ۔آپ نے حضرت یعقوب چرخی رحمہ اﷲ کے ’’رسالہ ابدالیہ‘‘ ،’’رسالہ انسیہ‘‘ ،’’سہ رسائل‘‘ (شرح اسماء الحسنیٰ ،حورائیہ ،طریقہ ختم احزاب )کی تصحیح ،تعلیق اور ترجمے کا کام کیا ہے۔علاوہ ازیں آپ کی تصنیفات وتالیفات میں ’’تاریخ و تذکرہ خانقاہ سراجیہ نقشبندیہ مجددیہ‘‘……’’ تاریخ و تذکرہ خانقاہ احمدیہ سعیدیہ موسیٰ زئی شریف‘‘……’’ تاریخ و تذکرہ خانقاہ مظہریہ دہلی‘‘……’’ تاریخ وتذکرہ خانقاہ سرہند شریف‘‘……’’ تاریخ و تذکرہ خواجگانِ نقشبند ‘‘جیسی اہم کتب شامل ہیں۔ تراجم میں حضرت ضیاء الدین ابونجیب سہروردی ؒ کی کتاب ’’آداب المریدین‘‘،،مولانا یعقوب چرخی ؒ کی’’ تفسیرچرخی‘‘، حضرت شاہ کلیم اﷲ جہان آبادی کے’’کشکول کلیمی ‘‘، حضرت مولانافخرالدین علی ؒ کی ’’رشحات عین الحیات‘‘، حضرت شاہ غلام علی دہلویؒ کی ’’دُرّالمعارف‘‘ ،’’ مکاتیب شریفہ حضرت شاہ غلام علی ؒ‘‘، حضرت شاہ سعید ؒ کے ’’مکتوبات سعیدیہ‘‘،’’مکتوبات خواجہ سیف الدین نقشبندی سرہندی‘‘،حضرت خواجہ محمدعثمان دامانی ؒ کے ’’مجموعہ فوائدؑعثمانی‘‘ شامل ہیں ۔ان تمام میں خصوصیت کے ساتھ حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اﷲ علیہ کے ’’مکتوبات ِامام ربانی‘‘ کا کامل ترجمہ بھی آپ کے توشہ حسنات میں سے ہے۔ آخر الذکر مکتوبات شریف کا ترجمہ نہایت شستہ و رَفتہ، سلیس و دل نشین ہے،جو تصوف کا خزینہ تو ہے ہی اردو و ادب کا بھی عطر ہے۔
تھوڑا عرصہ قبل آپ سے فون پر رابطہ ہوا تو فرمایا کہ ’’مکتوبات معصومیہ ‘‘کا اسی طریق پرترجمہ کرکے اپنے مرشدگرامی حضرت مولاناخواجہ خلیل احمدمدظلہم زیب سجادہ خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف کے سپرد کرچکے ہیں۔مکتوبات معصومیہ حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے فرزندگرامی حضرت خواجہ محمدمعصوم رحمۃ اﷲ علیہ کے تقریبا چھ سوباون مکاتیب کا مجموعہ ہے۔مکتوبات امام ربانی کی طرح یہ مجموعہ بھی اَسراروحِکم،پندوموعظت،دقائقِ سلوک وتصوف کا بے بہاخزینہ ہے۔ ان مکتوبات کاازسرنوترجمہ وتدوین اورترتیب ِ جدیدمعمولی بات نہیں ۔
یہ ڈاکٹر محمد نذیر رانجھا صاحب زید مجدہم کی ’’متاع قلیل ‘‘ کی معمولی جھلک ہے۔ہمارے خیال میں نقشبندیات پر آپ نے تن تنہا اتنا کام کیا ہے جو بڑے بڑے اداروں اور اکیڈمیوں کے بس کی بات نہیں ،ہاں ’’ارادہ‘‘ اگر ہو تو رانجھا صاحب جیسے لوگ یہ کوہ ِگراں سر کر سکتے ہیں،مگراس کے لیے بھی’ رانجھا‘ہوناضروری ہے۔
’’متاع قلیل‘‘میں جناب رانجھاصاحب نے اپنے نجی حالات بلاکم و کاست پیش کیے ہیں۔ یہ خود نوشت بھی اَحوال و کیفیات اور وارداتِ حیات کا دل چسپ مجموعہ ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے کسی’’ کوہ کن‘‘ کا تصور ابھرتا ہے۔ مسلسل محنت، کدو کاوش، زندگی کی کٹھنائیوں سے نبرد آزمائیاں، رزق حلال کی طلب اور خاندان کی پرورش میں زمانے کے سرد و گرم تھپیڑوں کی برداشت، جستجو، لگن اورمحنت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ،تنکاتنکاجوڑکر بچوں کے لیے آشیانہ فراہم کرنے کی فکر، افرادِ خاندان، اعزہ و اقارب خصوصاً والدین کی خدمت کے حیرت انگیز واقعات و مشاہدات کا مجموعہ ’’متاع قلیل‘‘ ہے۔وفاء وخلوص میں گندھے رشتے کیسے ہوتے ہیں،خاندان کس طرح بڑھتے ،پھلتے پھولتے یا سمٹتے ہیں ؟ان میں محبت ونفرت کی لہریں کب کب اور کس طرح جنم لیتی ہیں؟……اس کااندازہ کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہوتاہے ۔
ڈاکٹررانجھاصاحب نے عمر بھر ملازمت کی ،دوران ملازمت بھلے اور برے ،دونوں طرح کے ساتھیوں سے واسطہ پڑتا ہے ۔بعض لوگوں کو دوسروں کی ٹانگ کھینچنے کا دائمی عارضہ ہوتا ہے ،اس سے وہ اپنی قساوت ودنائت کا مظاہرہ کرتے ہیں ،جو ان کی فطرت ہوتا ہے۔رانجھا صاحب کو بھی دونوں طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑا ،انہوں نے کمال توازن کے ساتھ دونوں طبقوں کا ذکر کیا ہے۔جن ساتھیوں نے مشکل وقت میں حق دوستی نبھایا ،ان کا نام لے کردل کھول کر تعریف کی ہے،البتہ نامہربانوں کا نام لے کر انہیں رسوا نہیں کیا۔رانجھا صاحب نے اہل محلہ کا بھی تذکرہ کیا ہے ،یہاں بھی انہوں نے بے کم وکاست محلے داروں کے دونوں رخ دکھائے ہیں،جس سے’’ محلہ داری‘‘ کے تہ درتہ معاملات پرروشنی پڑتی ہے۔
ڈاکٹررانجھاصاحب نے ڈاکٹریٹ کا ہمالہ کیسے سرکیا؟ ،محکمہ جاتی الجھنیں اور رکاوٹیں کیا ہوتی ہیں؟ ،کس طرح کسی کے حق کودبایا جاتا اورناحق کونوازاجاتاہے؟ ……یہ بھی ایک داستان ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ،اس باب میں خصوصاً ان احباب کے لیے جو ڈاکٹریٹ کے مرحلے سے گذر رہے ہیں، کی دلچسپی کاکافی سامان ہے۔
خانقاہ سراجیہ کندیاں کے تذکرے کے بغیر آپ کی خودنوشت کیونکرمکمل ہوسکتی تھی……جناب رانجھاصاحب وفاکیش ومحسن شناس ہیں،خانقاہ شریف سے وابستگی ،حضرات خواجگان سے عقیدت ومحبت ان کے دل میں رچی بسی ہے،چناں چہ کتاب کا ایک معتد بہ حصہ خانقاہ سراجیہ کے والہانہ ذکرِخیر پرمشتمل ہے۔یہ اسی خانقاہ کا فیض ہے کہ نقشبندیات پر اتنے وقیع اور وسیع کام کو’’متاعِ قلیل ‘‘قرار دیتے ہیں۔
قاری کتاب اٹھاتا ہے تو ممکن نہیں سرسری انداز میں پڑھ کر ایک طرف رکھ دے، بلکہ رانجھا صاحب کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا خوداپنے بچپن، لڑکپن، جوانی اور اَدھیڑ عمری کو تلاش کررہا ہوتا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے صرف اپنی نہیں ہماری کہانی بھی لکھ دی ہے۔
نامورمحقق اورصاحب قلم جناب ڈاکٹر سفیراختر صاحب اپنے تاثرات میں لکھتے ہیں:
’’وطن عزیزکے معروف تذکرہ نگاراور مصنف ڈاکٹر نذیررانجھا نے پچاس سے زائد کتابوں اور چھوٹے بڑے رسائل کی تصنیف وتالیف اورترجمے کے بعدآخرالامرباربار ابھرنے والی اپنی اس خواہش کوعملی جامہ پہنا ہی دیا ہے کہ وہ اپنے آباء واجداداوراعزہ واقارب کاتذکرہ مرتب کریں،نیزاپنی ۶۵سالہ زندگی کے نشیب وفرازکی داستان رقم کردیں۔ڈاکٹررانجھا ان شاذفراد میں سے ہیں جونسبی تعلقات کی اہمیت کوجانتے ہیں،انہیں نبھاتے ہیں اور اب انہوں نے ان نسبتوں کوآنے والی نسلوں کے لیے حوالہ قرطاس بھی کردیاہے۔ ‘‘
خانقاہ سراجیہ کے سجادہ نشین حضرت مولاناخوجہ خلیل احمدصاحب زیدمجدہم اپنے کلمات ِتقریظ میں ارقام فرماتے ہیں:
’’اﷲ تعالیٰ نے حضرت رانجھاصاحب کو بے پناہ کمالات سے نوازا ہے۔تاریخ،تحقیق،ادب،تصوف ،اور اہل تصوف کی خدمات عالیہ کے امین ہونے کے ساتھ ساتھ سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ اورخانقاہ سراجیہ نقشبندیہ مجددیہ کندیاں کے خوشہ چین بھی ہیں۔آج تک حضرت موصوف کوعلمی،ادبی اور تاریخی تناظر میں دیکھاجاتارہا ہے،لیکن موصوف کی خودنوشت کتاب بعنوان ’’متاع قلیل‘‘نے بہت سے گم گوشوں سے پردہ اٹھادیاہے۔محترم المقام رانجھاصاحب نے زندگی کے مشکل اور دشوار مرحلے جس جفاکشی اور اولوالعزمی سے عبور کیے ہیں ،یہ یقیناً قابل صدتحسین اور قابل تقلید ہونے کے ساتھ ساتھ وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَھَدیٰ کی عملی تفسیر بھی ہے۔محترم رانجھاصاحب نے ’’متاع قلیل ‘‘لکھ کر جہاں اپنے لیے متاع کثیرسمیٹ لیاہے وہاں خانقاہ سراجیہ کے متوسلین کے لیے بھی زادِآخرت جمع کردیاہے……فجزاہ اللّٰہ جزاءً وافیاً۔‘‘
بلاشبہ چارسوسولہ صفحات پر مشتمل’’متاعِ قلیل‘‘ ایک ایسے انسان کی کہانی ہے جو مسائل حیات سے الجھتا نہیں بلکہ پیہم انہیں سلجھاتا اور صبر و ثبات سے گزرتا چلا جاتا ہے،اسے پڑھتے ہوئے یہی احساس رہتا ہے کہ:
زندگانی کی حقیقت کوہ کن کے دل سے پوچھ
جوئے شِیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگانی
نام کتاب: ’’ہمارے دور کے چند علماءِ حق‘‘ مؤلف: سید امین گیلانی رحمہ اﷲ ضخامت: ۳۵۱صفحات
ناشر:ادارہ تالیفات اشرفیہ، چوک فوّارہ ملتان۔ مبصر: ڈاکٹر عمر فاروق احرار
یہ کتاب اپنے عہد کے چار نامور مشائخ و صلحاءِ اُمّت کے یادگار تذکرے کا حسین گلدستہ ہے۔ جن میں شیخ طریقت حضرت مولانا حماد اﷲ ہالیجوی، شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری، قطب الارشاد حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری اور حضرت امیر شریعت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمہم اﷲ تعالیٰ جیسے مبارک نفوس شامل ہیں۔ مؤلف کتاب سید امین گیلانی رحمہ اﷲ اردو کے ممتاز شاعر اور ادیب تھے۔ انھیں اپنی دینی و قومی زندگی میں ان بزرگوں کو قریب سے دیکھنے و سننے کے مواقع نصیب ہوئے۔ انھوں نے ان اکابر کے واقعات و مشاہدات کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا۔ سید امین گیلانیؒ کے بقول: ’’اس کتاب میں، مَیں نے بزرگوں کے کچھ خاص واقعات، کچھ ایسے فرمودات کہ جن میں کوئی اہم پہلو، نیز کچھ علمی نکات، کچھ عملی کمالات، بعض کشف اور کرامتیں درج کی ہیں۔ کچھ باتیں میرے ذاتی علم و مشاہدہ کی۔ باقی واقعات دوسرے ثقہ بزرگوں اور دوستوں سے حاصل کیے ہیں۔ (ص: ۳۷)
اکابرِ اُمّت کی زندگیاں نہ صرف اپنے دور بلکہ آنے والے زمانوں کے لیے بھی مشعلِ راہ ہوتی ہیں، جن کی روشنی میں اصلاح، تربیت اور تزکیہ کے مراحل بہ آسانی طے کیے جاسکتے ہیں، کیونکہ باعمل شخصیات کی حیاتِ مبارکہ اور اُن کے فرمودات دل و دماغ پر گہرے نقوش مرتسم کرتے اور عبادت و معاملات کو اُسوۂ نبوی کے مطابق ڈھالنے کی فکر و ترغیب پیدا کرتے ہیں۔ جن سے معاشروں میں صالح تَدیُّن کی فضا جنم لیتی ہے۔ زبوں حالی اور فکری گمراہیوں کے اس نازک دور میں بزرگانِ دین کے روشن تذکروں اور قابلِ تقلید واقعات کی تابندگی سے قلوب و اذہان اور فکر و نظر کے تاریک دریچوں کو اُجالا جا سکتا ہے۔ امت کی علمی و عملی تاریخ میں اکابرِ اسلاف کے تذکروں اور ملفوظات کی جمع آوری اور نشر و اشاعت کی ایک مسلسل و مستقل روایت ہمیشہ رہی ہے۔ ہر زمانے میں اہلِ علم و عمل نے اکابر اولین کے سوانح حیات اور افکار کے مجموعوں کو اپنی زندگیوں کو روشن و بابرکت کرنے کا اہم ذریعہ سمجھا ہے، اور اپنے زمانوں کے اعاظم اہلِ علم و عمل کے احوال و افکار کو جمع کرنے کی سعی کی ہے۔
’’ہمارے عہد کے چند علماءِ حق‘‘ وقت کی ضرورت ہے۔ ایسی کتابوں کی مسلسل اشاعت سے اپنے اکابر کی یادوں کو زندہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے احوال وحیات کو تعمیری و اصلاحی رُخ پر قائم رکھا جا سکتا ہے۔ یہی مؤلف و ناشر کا حقیقی مقصود ہے۔
نام کتاب: مولانا نذیر احمد تونسویؒ (حیات و خدمات) مرتب: قاری فاروق احمد تونسوی ضخامت:۴۰۴ صفحات
قیمت: درج نہیں ناشر: عالمی مجلس تحفظ ختمِ نبوّت، حضوری باغ روڈ ملتان مبصر: صبیح ہمدانی
مولانا نذیر احمد تونسویؒ ایک بہترین مناظر، متبحر عالمِ دین اور مجلس تحفظ ختمِ نبوّت کراچی کے متحرک رہنما تھے۔ کراچی جیسے عروس البلاد شہر میں ان کا زہد و تقوی اور ختمِ نبوّت کی مقدّس محنت کے ساتھ ان کی دلی وابستگی کے خوب صورت مظاہر ان کی داستانِ حیات کے سر عنوان تھے۔ ان کے اسی تحرّک اور محنت کوشی نے دشمنانِ دین کی نظر میں ان کے وجود کو کھٹکتا ہوا کانٹا بنا دیا تھا۔ چنانچہ اعدائے اسلام کے بزدل گروہوں کو اپنی عافیت اسی میں نظر آئی کہ وہ مولانا نذیر احمد تونسوی مرحوم و مغفور کا استدلال ومکالمہ کے میدان میں مقابلہ کرنے سے بھاگ جائیں اور مولانا کوشہادت کی مقدس وادی کا رہرو بنا دیں۔ شہادت تو اﷲ تعالیٰ کی نعمت ہے، جو صرف اس اعزاز کے لائق رجالِ کار کے لیے مخصوص ہے۔ مگر قاتلوں کے ٹولے نے کیا حاصل کیا؟ مولانا نذیر احمد تونسوی کی شہادت نے ختم نبوت کے مقدّس کام کو ختم تو نہیں کیا بلکہ آگے ہی بڑھایا۔ اسی سے اعدائے دین کو اندازہ لگا لینا چاہیے کہ ان کے اختیار کردہ راستے انھیں کامیابی سے سرفراز نہیں کر سکتے بلکہ ان کا لشکر ہی خائب و خاسر ہے، جبکہ کامیابی صرف خاتم النبیین سیدنا و مولانا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی جماعت کے لیے مقدر ہے۔
تین ابوب پر مشتمل اس کتاب کی ابتداء میں مختلف حضرات کی تاثراتی تحریریں ہیں۔ مقالات و نگارشات، دیارِ حبیب سے دیارِ غیر تک اور تردیدِ مرزائیت و عقیدۂ ختمِ نبوّت کے اسفار و سرگرمیوں کے عنوانات سے موسوم ابواب دراصل مولانا نذیر احمد تونسوی کے مطبوعہ مضامین ہیں،جن میں مولانا کی علمیت اور تفہیمی صلاحیتوں کو بخوبی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
کتاب حضرت مولانا نذیر احمد تونسوی کی یادگاری کے ساتھ ساتھ ان عالمانہ مباحث پر مشتمل ہونے کی وجہ سے تحفظ ختمِ نبوّت کے مشن سے وابستہ حضرات کے لیے ایک قابلِ قدر تحفہ ہے۔البتہ حسنِ ترتیب کے حوالے سے ایک بات کہی جا سکتی ہے کہ فہرست میں کتاب کے ابواب کے ذیلی عنوانات کے آگے صفحات کے نمبر درج نہ ہونے سے مطلوبہ عنوان تلاش کرنے میں دقت ہوتی ہے۔ امید ہے کہ آئندہ اشاعت میں یہ کمی دور کر لی جائے گی۔
نام کتاب:دفاع سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ تحریر: حضرت مولانا ابو ریحان عبد الغفور سیالکوٹی
مرتب:ابو سعد رضوان اﷲ سیالکوٹی ضخامت:۷۰۴ صفحات قیمت: ۷۰۰ روپے
ناشر: ابو ریحان اکیڈمی، اسلام آباد، 03335272422 مبصر: صبیح ہمدانی
خال المسلمین امیر المؤمنین سیدنا معاویہ بن ابو سفیان رضی اﷲ عنہما کا شمار جماعت صحابہ کہ ان چند نمایاں ترین افراد میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی راشدانہ و عادلانہ انتظامی صلاحیتوں کے ذریعے سے اسلام کے نظامِ حکومت کے خدّ و خال مجسّم کر کے دکھائے۔ حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ نے ایک طویل عرصہ تک اعلائے کلمۃ اﷲ ، احقاقِ حق اور دمغِ باطل کا جو مقدّس فریضہ سر انجام دیا اس کی وجہ سے دشمنانِ دینِ پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کو اپنا ہدفِ خصوصی بنا لیا۔ یہی وجہ ہے کہ جماعتِ صحابہ سے بغض رکھنے والے بالخصوص سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کے اسمِ گرامی سے سب سے زیادہ تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ اور بعینہٖ یہی وجہ ہے کہ دفاعِ صحابہ کا فریضہ ادا کرنے والے مدافعینِ اہلِ سنّت کی زبانوں پر بھی اسی عظیم المرتبت شخصیت کا ذکرِ مبارک نسبتاً زیادہ جاری رہتا ہے۔
سیّدنا معاویہ بن ابو سفیان رضی اﷲ عنہ کی ذاتِ گرامی صفات کے حوالے سے اپنوں پرایوں نے کچھ ایسی دھول اڑائی ہے جس کے نتیجے میں راہِ اعتدال پر گامزن رہنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ بعض لوگ خود کو اہلِ سنّت کہتے ہیں مگر سیّدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ اور ان کی جماعت کی خطا شماری اور تنقیص کو اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں، بعض دوسرے ہیں کہ سیّدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ سے محبت کے دعوے دار ہیں مگر اس محبت کو اسی صورت میں ظاہر کرتے ہیں کہ امیر المؤمنین سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ اور آپ کے گرامی قدر فرزندان سیّدنا حسن و سیّدنا حسین رضی اﷲ عنہما کی عظمت وتقدّس کو معاذ اﷲ کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غرض یا رفض و سبائیت سے تأثر ہے یا پھر خارجیت و ناصبیت کا دور دورہ ہے۔ وہ راہِ اعتدال جو سلف صالحین اور اہل سنّت والجماعت کا مجموعی شیوہ رہا ہے وہ نظروں سے اوجھل ہوتی جا رہی ہے۔ یہ کتاب اسی راہِ اعتدال کی باز یافت اور اسی کی طرف مراجعت کی دعوت پر مشتمل ایک قابل قدر کتاب ہے۔
زیرِ نظر کتاب محقّق اہلِ سنّت حضرت مولانا ابو ریحان عبد الغفور سیالکوٹی مرحوم و مغفور کے رشحات قلم کا مجموعہ ہے جسے ان کے فرزند ابو سعد رضوان اﷲ سیالکوٹی نے ترتیب دیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مولانا ابو ریحان رحمہ اﷲ تعالی نے دفاعِ صحابہ کے موضوع پر ایک قابلِ قدر کتاب’’ سبائی فتنہ‘‘ سپردِ قلم کی۔ جو بنیادی طور پر مشاجراتِ صحابہ کے موضوع پر کفِّ لسان اور احتیاطِ مقال کے تقاضوں کے حوالے سے ایک شان دار کتاب ہے، اس کے ساتھ ساتھ بہت سے مروّجہ اسالیبِ بیان کی بے احتیاطیوں کی طرف بھی نشاندہی کرتی ہے۔ مگر مروّجات و شائعات سے دلبستگی رکھنے والے کچھ بزرگوں کو شاید یہ کتاب ان کی ذاتی توہین پر مبنی نظر آئی، چنانچہ غیروں کے ساتھ ساتھ بعض اپنوں نے بھی اس کتاب کو موضوعِ بحث بنایا اور اس پر تنقیدیں تحریر کیں۔
ان تنقیدی تحریرات کی اساسی غلط فہمیوں اور الزام ما لا یلزم قسم کے دعووں اور مغالَطوں کی تحقیق و تردید اور تصحیح و توضیح کے لیے مولانا ابو ریحان عبد الغفور سیالکوٹی مرحوم نے مختلف اوقات میں متعدد مضامین و مقالات شائع کیے، جنھیں اس کتاب میں جناب ابو سعد رضوان اﷲ سیالکوٹی نے مرتّب و مدوّن حالت میں یکجا کر دیا ہے۔ اس میں مزید اضافہ حضرت مولانا مرحوم کی وہ تحریرات ہیں جو ’’سبائی فتنہ‘‘ (حصہ دوم) کے عنوان سے وہ تبییض کر کے مرتَّب کر چکے تھے کہ داعیٔ اجل کا بلاوا آ گیا اور یہ تحریرات کتاب کی صورت میں شائع نہ ہو سکیں۔
پس اس وقت یہ کتاب بنیادی طور پر دو حصوں پر مشتمل ہے۔ (ذیلی حصص سے صرفِ نظر کرتے ہوئے) ایک حصہ سبائی فتنہ حصہ اول پر کیے جانے والے اغلوطہ زا اعتراضات و تنقیدات کے محکم علمی جواب پر مشتمل ہے تو دوسرا حصہ سبائی فتنہ حصہ دوم کے عنوان سے بہت سے اصیل اور تحقیقی علمی و تاریخی افادات کا مجموعہ ہے۔ ان افادات میں ’’حدیث عمار‘‘ ، حدیث: ’’أولی الطائفتین بالحق‘‘ اور اس طرح کی دیگر محتمل المعانی احادیث کی تحقیق و توجیہ کرتے ہوئے اس علمی تعبیر کو اختیار کیا گیا ہے جس سے حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی جماعت کے تمام افراد سے محبت و عقیدت میں اضافہ ہوتا ہے اور رفض و سبائیت یا خروج و ناصبیت جیسی فکری بیماریوں کا علاج بھی نصیب ہوتا ہے۔
کتاب کے شروع میں ایک مفصل مقدمہ بھی شامل کیا گیا ہے جس سے کتاب کی اشاعت کا تاریخی و واقعاتی پس منظر بھی قاری کے سامنے آتا ہے اور کتاب میں بعض مقامات پر مجمل اشاروں کی صورت میں آنے والے ان واقعات کا سراغ بھی ملتا ہے جو اس کتاب میں شامل مضامین کی تالیف کا سبب بنے۔
۷۰۰ صفحات پر مشتمل یہ کتاب اور اس کے مباحث مومنینِ اہل سنت و محبان اہلِ بیت و اصحاب رسول سلام اﷲ ورضوانہ علیہم کے لیے توشۂ خاص ہیں اور ایمان و اعتقاد میں اعتدال کی نعمت سے بہرہ یاب ہونے کا نسخۂ کیمیا۔ اﷲ تعالی مصنّف مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور فاضل مرتّب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔