افضل حق قرشی
چودھری افضل حق (1891-1942) ایک جامع الحیثیات انسان تھے۔ آپ ایک ادیب، مفکر اور سیاستدان تھے۔ اسلامیہ ہائی سکول امرتسر سے میٹرک کا امتحان پاس کر کے 1910ء میں اسلامیہ کالج لاہور میں داخل ہوئے۔ 1912ء میں ایف ۔ اے کا امتحان دیا پر کامیاب نہ ہو سکے۔ 1913ء میں دیال سنگھ کالج لاہور میں داخلہ لیا لیکن خرابیٔ صحت اور بھائی کی وفات کے باعث تعلیم ترک کرنا پڑی۔ 1917ء میں بطور انسپکٹر پولیس میں بھرتی ہوئے۔
1921ء میں تحریکِ خلافت کے ایک جلسے میں امیرِ شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کی تقریر سن کر مستعفی ہو کر کارکنانِ قومی کی صف میں شامل ہو گئے۔ پہلی بار تحریکِ ترکِ موالات کے سلسلے میں 14؍ فروری 1922ء کو گرفتار ہوئے اور چھے ماہ کی سزا پائی۔ آپ نے جیل میں جن روح فرسا مظالم کا مشاہدہ کیا تھا ان سے متاثر ہو کر ’’دنیا میں دوزخ‘‘ کے عنوان سے کتاب تصنیف کی۔ اسی دوران ’’معشوقۂ پنجاب‘‘ کے نام سے وارث شاہ اور ہیر رانجھا کے حالات تحریر کیے۔ 1922ء میں جب شدھی تحریک عالم شباب پر تھی تو آپ نے اس کے خلاف بڑی سرگرمی کا اظہار کیا اور اس موضوع پر ’’فتنۂ ارتداد اور پولیٹکل قلابازیاں‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی۔ 1924ء میں پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے رکن منتخب ہوئے اور بارہ برس تک ملکی، ملّی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ آپ نے کونسل کے رکن کی حیثیت سے بے حد مفید کام کیا۔ اس کے اجلاسوں میں جتنے سوالات آپ نے کیے وہ سب ارکان کی طرف سے کیے گئے سوالات سے زیادہ تھے۔ مقدار ہی کا معاملہ نہیں بلکہ خاصیت کے نقطہ نظر سے بھی یہ سوالات بہت اہم تھے۔ آج جیل خانوں میں جو اصلاحات نظر آتی ہیں وہ آپ ہی کی کوششوں کی رہینِ منت ہے۔ 29؍ دسمبر 1929ء کو مجلسِ احرار کی بنیاد رکھی۔ کانگرس کی تحریکِ سول نافرمانی کے سلسلے میں 1930ء میں دوسری بار گرفتار ہوئے اور تقریباً نو ماہ سزا یاب ہوئے۔ آپ کو گورکھپور جیل میں رکھا گیا۔ اسی جیل میں آپ نے ’’زندگی‘‘ تصنیف کی۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر آل احمد سرور نے تحریر کیا:
’’زندگی کو محض ناول یا افسانہ کہنا صاحب زندگی کے ساتھ ظلم ہو گا۔ یہ ایک نگار خانہ ہے۔ جس میں دنیا کی مختلف تصویریں اور ان تصویروں کے مختلف نقوش بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کتاب کا ڈھانچہ علامتی ہے اور ازمنۂ وسطیٰ کی ان کتابوں کی یاد دلاتا ہے جن کی بنیاد ایک خواب، عالم بالا کی سیر اور اس خواب کی تعبیر پر رکھی جاتی تھی۔ دوسرے الفاظ میں یہ بھی توبۃ النصوح قسم کی کتاب ہے۔
زندگی کے سٹیج پر جو افراد چلتے پھرتے نظر آتے ہیں ان کی سیرت کی نقل اتارنے میں اور اس نقل کو بمنزل اصل کے بنانے میں چودھری افضل حق اچھی طرح کامیاب ہوئے ہیں۔ انھوں نے خدمتِ خلق کا نصب العین بھی اچھی طرح واضح کیا ہے‘‘۔
پروفیسر حمیداحمد خان نے اس خواہش کا اظہار کیا:
’’اس کتاب کی متعدد خوبیوں اور اچھوتے پن پر نظر جاتی ہے تو یہ آروز کرنے کو جی چاہتا ہے کہ کاش چودھری افضل حق صاحب ایک بار پھر اپنے آپ کو اسیری کے لیے پیش کریں تاکہ اس قسم کی کم از کم ایک اور تصنیف اہلِ ملک کے ہاتھوں میں ہو‘‘۔
گاندھی ارون معاہدے کے نتیجے میں آپ 15جنوری 1931ء کو دوسرے سیاسی قیدیوں کے ساتھ رہا ہوئے۔ 1931ء کے موسم گرما تک کشمیر میں ڈوگرہ راج کے مظالم انتہائی عروج پر پہنچ گئے۔ چنانچہ آپ نے کشمیری مسلمانوں کے حقوق کے لیے تحریکِ کشمیر کا آغاز کیا۔ مسلمان کی ایک کثیر تعداد نے اس تحریک میں حصہ لیا۔ اسی تحریک کے سلسلہ میں آپ کو لاہور سے نکال کر آپ کے قصبہ گڑھ شنکر (ضلع ہوشیار پور) میں نظر بند کر دیا گیا۔ لیکن آپ نے تحریک کا کام وہاں بھی جاری رکھا۔ چنانچہ آپ کو تیسری بار گرفتار کر کے ایک برس کے لیے ملتان نیو سنٹرل جیل میں قید کر دیا گیا۔ اسی زمانے میں آپ نے شاعری شروع کی۔
آپ 1937ء کے انتخاب میں صرف 98ووٹوں سے ہار گئے۔ اس زمانے میں ’’جواہرات‘‘، ’’شعور‘‘ اور ’’آزادیٔ ہند‘‘ تصنیف کیں۔ 1939ء میں دوسری جنگِ عظیم کے سلسلے میں فوجی بھرتی کے خلاف تحریک میں چوتھی بار گرفتار ہوئے اور ڈیڑھ برس کے لیے راولپنڈی جیل پہنچا دیے گئے۔ اسی جیل میں آپ نے ’’محبوبِ خدا‘‘ کی تکمیل کی اور اپنے بچوں کے نام لکھے ہوئے خطوط کا مجموعہ مرتب کیا جو آپ کی وفات کے بعد ’’خطوطِ افضل حق‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ یہیں ’’پاکستان اور اچھوت‘‘ کے عنوان سے ہندو مسلم مسئلہ پر انگریزی میں کتاب تحریر کی۔
نومبر 1940ء میں رہائی کے بعد مولانا بہاء الحق قاسمی کے ساتھ ایک تحریری مناظرہ ہوا۔ یہ تحریر ’’اسلام میں امراء کا وجود نہیں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ مجلس احرارِ اسلام کی تاریخ ’’تاریخِ احرار‘‘ کے عنوان سے لکھی۔ اسلامی عقائد و احکام کی حکمت پر ’’دینِ اسلام‘‘ لکھنا شروع کی اور زندگی کے آخری لمحات تک اس کی تحریر میں مشغول رہے۔ حتیٰ کہ وفات کے بعد آپ کے سرہانے سے اسی کا مکمل شدہ مسودہ اٹھایا گیا۔ یہ کتاب آپ کی وفات کے بعد شائع ہوئی۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے نعیم صدیقی نے تحریر کیا:
’’اس کتاب کو خدا کے مقدس دین کا ’’سراپا‘‘ کہنا چاہیے۔ اس میں اسلام کے ایک ایک عضو پر نظر ڈالی گئی ہے اور بنیادی عبادات کے آئینے میں قرآن کی پوری تعلیمات کا خلاصہ پیش کر دیا گیا ہے۔ خصوصاً نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کو ہماری حیات اجتماعیہ سے جو تعلق ہے، اسے جابجا واضح کیا گیا ہے‘‘۔
’’میرا افسانہ‘‘ کے عنوان سے خود نوشت تحریر کی۔ یہ جہاں مصنف کے ذاتی احوال، طبعی رجحانات اور فکری میلانات کا حسین مرقع ہے وہیں یہ اپنے عہد کے سیاسی اور سماجی رویوں کی عکاس بھی ہے۔ آغا شورش کے بقول:
’’میرا افسانہ‘‘ میں چودھری صاحب نے نہ تو مولانا ابوالکلام کی طرح اپنی زندگی کو خرمن و برق کا معاملہ اور آتش و خس کا کہہ کر انشا پردازی کا معبد بنایا ہے اور نہ خواجہ حسن نظامی کی طرح ’’آپ بیتی‘‘ میں زبان کے چٹخاروں کی نمائش کی ہے۔ اپنی زندگی کے ابتدائی ایام کا ذکر کر کے ’’مدرسہ و ملازمت‘‘ کی کہانی چند صفحوں میں ختم کر دی ہے اور پھر اپنے ذہنی میلان کی ابتدا کا افسانہ دہرا کر ملکی حالات کی کشاکش، قومی معاملات کی لہروں، جماعتِ احرار کی جدوجہد اور اپنے فکر و عمل کی تصریح کی ہے۔ جس سے ہمیں ہندوستانی سیاسیات کی تاریخ کے لیے بہتر مواد ملتا ہے۔ ’’میرا افسانہ‘‘ کے مطالعہ سے تحریکِ احرار کا دماغ سمجھ میں آ جاتا ہے‘‘۔
20دسمبر 1941ء کو مجلس احرار کی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں آپ پر دمہ کا دورہ پڑا۔ اس کے بعد یرقان اور نمونیہ نے حملہ کیا۔ چنانچہ 8جنوری 1942ء بروز جمعرات رات 9بجکر 20منٹ پر دفتر مجلسِ احرار بیرون دہلی دروازہ میں آپ کا انتقال ہو گیا۔ اگلے روز قبرستان میانی صاحب لٹن روڈ میں مدفون ہوئے۔ نماز جنازہ شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ نے پڑھائی۔ مولانا ظفر علی خان نے مندرجہ ذیل نظم میں آپ کو خراجِ تحسین پیش کیا:
رونق کا شانۂ ابرار افضل حق سے تھی
مستیٔ خمخانۂ احرار افضل حق سے تھی
اک کرشمہ تھا یہ اس کی ہمتِ مردانہ کا
لرزہ براندام اگر سرکار افضل حق سے تھی
ذرہ ذرہ کہہ رہا ہے وادیٔ کشمیر کا
کامیاب احرار کی یلغار افضل حق سے تھی
ہے گواہ اس پر کتاب زندگی کی سطر سطر
شوخیٔ و رنگینیٔ افکار افضل حق سے تھی
اس کی مرگِ ناگہاں گھر کو نہ لے بیٹھے کہیں
کیونکہ پشتیبانیٔ دیوار افضل حق سے تھی