مولانا زاہد الراشدی
سینٹ آف پاکستان نے ناموس رسالت کے حوالہ سے ہالینڈ میں دس نومبر کو منعقد کی جانے والی گستاخانہ خاکوں کی مجوزہ نمائش کی مذمت کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی ہے اور وزیر اعظم عمران خان نے اس موقع پر ایوانِ بالا میں خطاب کرتے ہوئے گستاخانہ خاکوں کے مقابلوں کو ناقابل برداشت قرار دیا ہے اور معاملہ کو اقوام متحدہ میں اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں مغربی ذہنیت کو جانتا ہوں، وہاں کے عوام کو اس بات کی سمجھ نہیں آتی، عوام کی بڑی تعداد کو اندازہ ہی نہیں کہ ہمارے دلوں میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے کتنا پیار ہے، انہیں نہیں پتا کہ وہ ہمیں کس قدر تکلیف دیتے ہیں، اور وہ آزادیٔ اظہار کے نام پر اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ دنیا کو بتانا چاہیے کہ جیسے ہولوکاسٹ سے ان کو تکلیف ہوتی ہے، گستاخانہ خاکوں سے وہ ہمیں اس سے کہیں زیادہ تکلیف دیتے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ اس معاشرے میں فتنہ اور جذبات بھڑکانا بہت آسان ہے، مغرب میں وہ لوگ جو مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں ان کے لیے یہ بہت آسان بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی حکومت میں یہ کوشش کریں گے کہ او آئی سی کو اس پر متفق کریں، اس چیز کا بار بار ہونا مجموعی طور پر مسلمانوں کی ناکامی ہے، گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر او آئی سی کو متحرک ہونا ہوگا اور اور اسے اس معاملے میں کوئی پالیسی بنانی چاہیے۔ یہ دنیا کی ناکامی ہے، مغرب میں لوگوں کو اس معاملہ کی حساسیت کا اندازہ نہیں، لہٰذا مسلم دنیا ایک چیز پر اکٹھی ہو اور پھر مغرب کو بتائیں کہ ایسی حرکتوں سے ہمیں کتنی تکلیف ہوتی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کا یہ خطاب ہمارے خیال میں پوری قوم کے دلوں کی آواز ہے اور اسے سیاسی و گروہی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر سب کو سپورٹ کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں اس سلسلہ میں احتجاجی مہم کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے ۹ ستمبر کو لاہور میں ایک بڑے عوامی مظاہرے کا اعلان کیا ہے جس کی قیادت متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کریں گے۔ گزشتہ روز اس مظاہرہ میں منظم طور پر شرکت کی تیاری کے لیے گوجرانوالہ میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام مختلف دینی جماعتوں کے نمائندوں کا اجلاس ہوا جس میں لاہور کے ۹ ستمبر کے مظاہرہ میں بھرپور شرکت کے لیے پروگرام وضع کیا گیا اور طے پایا کہ اسی سلسلہ میں ۴ ستمبر کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں ایک کنونشن منعقد کیا جائے گا جس میں دینی جماعتوں اور تاجر تنظیموں کے راہنما خطاب کریں گے اور مختلف مکاتب فکر کے زعماء شریک ہوں گے۔ مجلس تحفظ ختم نبوت کی سرگرمیاں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بادشاہی مسجد کی ختم نبوت کانفرنس کی طرز پر عوامی قوت کا ایک بڑا مظاہرہ ہوگا جس کی کامیابی کے لیے سب کو تعاون کرنا چاہیے۔اس سے قبل ۲ ستمبر کو لاہور میں محترم صاحبزادہ پیر شفاعت رسول قادری کی دعوت پر بھی مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام کا ایک مشترکہ اجلاس ہو رہا ہے اور اس کی تیاریاں جاری ہیں۔ پشاور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے ایک احتجاجی ریلی منعقد کرنے کا اعلان سامنے آیا ہے اور دیگر متعدد تنظیموں اور اداروں کی طرف سے بھی احتجاج و اضطراب کے اظہار کا سلسلہ روز افزوں ہے۔
جہاں تک ایمانی جذبات کے اظہار کا تعلق ہے وہ تو بحمد اﷲ تعالیٰ مسلسل بڑھ رہا ہے بلکہ دنیا بھر میں ہالینڈ کے بعض ناعاقبت اندیشوں کی اس مذموم حرکت پر ناراضگی اور شدید غصے کی لہر ابھرتی دکھائی دے رہی ہے۔ مگر ہمارے خیال میں محض جذبات اور غم و غصہ کا اظہار کافی نہیں ہے بلکہ اصل فورم پر یہ جنگ لڑنے کی ضرورت ہے جس کا وزیر اعظم عمران خان نے تذکرہ کیا ہے، جبکہ ہم ایک عرصہ سے ان کالموں میں مسلسل گزارش کر رہے ہیں کہ (۱) ناموس رسالت (۲) تحفظ ختم نبوت (۳) اور پاکستان کی اسلامی شناخت کے معاملات پر حقیقی معرکہ آرائی بین الاقوامی اداروں اور لابیوں میں ہو رہی ہے مگر وہاں ہمارا یعنی دینی حلقوں کا کوئی مورچہ موجود نہیں ہے۔ سیکولر حلقے اور منکرین ختم نبوت بین الاقوامی معاہدات کے ہتھیاروں کے ساتھ عالمی اداروں اور حلقوں میں دین، اہل دین اور پاکستان کے خلاف محاذ گرم کیے ہوئے ہیں مگر ہم سوشل میڈیا، مساجد اور سڑکوں پر اپنے جذبات کا اظہار کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ فرض ادا ہوگیا ہے۔ مجھے سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں اس مہم کی ضرورت و اہمیت سے انکار نہیں ہے بلکہ میں خود اپنی استطاعت کے مطابق اس میں شریک رہتا ہوں لیکن بین الاقوامی اداروں اور لابیوں کا وسیع تر اور مؤثر محاذ ہماری نمائندگی سے خالی ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہے۔ ہمارے ہاں کی عمومی صورتحال یہ ہے کہ سیکولر حلقوں نے ابھی تک پاکستان کے دستور کو سنجیدگی سے نہیں لیا جبکہ دینی حلقوں کی بین الاقوامی معاہدات کے بارے میں یہی صورتحال ہے۔ حالانکہ بین الاقوامی معاہدات اور دستور پاکستان دونوں زندہ حقیقتیں ہیں جن سے صرفِ نظر کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ سیکولر حلقوں کا خیال ہے کہ دستور پاکستان محض ایک نمائشی اور کاغذی دستاویز ہے جسے پس پشت ڈال کر پاکستان میں وہ اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھا سکتے ہیں جبکہ دینی حلقوں کے نزدیک بین الاقوامی معاہدات کی کم و بیش یہی حیثیت ہے۔ دونوں کو اپنے اپنے طرز عمل پر نظرثانی کرنا ہوگی اور زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا ورنہ قوم اسی طرح ذہنی اور فکری خلفشار کا شکار رہے گی اور دونوں طرف کے مہم جو گروہ اس سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔
ہمارے نزدیک اس کا حل وہی ہے جو وزیراعظم عمران خان نے بتایا ہے بلکہ اس سے قبل ملائیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد اقوام متحدہ کی پچاس سالہ تقریبات کے موقع پر، جبکہ وہ خود او آئی سی کے صدر تھے، یہ تجویز دے چکے ہیں کہ مسلم امہ کو متحد ہو کر اقوام متحدہ سے دو مسئلوں پر بات کرنا ہوگی۔ ایک یہ کہ بین الاقوامی معاہدات پر مسلم امہ کے دینی و تہذیبی تحفظات کے حوالہ سے نظرثانی کی ضرورت ہے اور دوسرا یہ کہ اقوام متحدہ کے پالیسی ساز ادارہ سلامتی کونسل میں مسلم امہ کی نمائندگی متوازن نہیں ہے اور وہ ویٹو پاور کی فیصلہ کن اتھارٹی کے دائرہ سے باہر ہے۔ مغربی دنیا اور عالم اسلام کے درمیان موجودہ بے اعتمادی بلکہ کشمکش کی بڑی وجہ یہی ہے اس لیے اقوام متحدہ کے ساتھ اجتماعی طور پر دوٹوک بات کرنا ان کے نزدیک ضروری ہے۔ ہمارے خیال میں حکومت پاکستان کو اس سلسلہ میں ڈاکٹر مہاتیر محمد اور ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے ساتھ بھی مشاورت کا اہتمام کرنا چاہیے، بلکہ مسلم دنیا کے ان مشترکہ مسائل کے حل کے لیے اگر سعودی عرب کے شاہ سلیمان، ترکی کے رجب اردگان، ملائیشیا کے ڈاکٹر مہاتیر محمد، پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اور ایران کے صدر حسن روحانی باہمی مشاورت کے ساتھ پیشرفت کریں تو وہ یقیناً بے نتیجہ نہیں ہوگی۔ خدا کرے کہ ایسا ہو جائے، آمین یا رب العالمین۔