صحیفۂ ہُمام بن مُنَبِّہ…… مختصر تعارف اور اس کے ترجمہ پر ناقدانہ نظر (آخری قسط)
علامہ محمد عبد اﷲ رحمۃ اﷲ علیہ
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دو بھوکے سیر ہونے میں نہیں آتے، ایک علم کا بھوکا، دوسرا مال کا۔ رجال کی کتابیں دیکھیں جائیں تو علمی بھوک کے سلسلہ میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں حیرت انگیز واقعات سامنے آتے ہیں۔ اسلاف کے برابر نہ سہی، ہر دور میں اخلاف کو بھی علم کی بھوک پیاس سے کچھ حصہ ملا ضرور ہے۔
علامہ شبلی نعمانیؒ نے سیرت طیبہ اور تاریخ کے موضوع پر محققانہ کتابیں لکھیں تو اس وقت تک ابن کثیر کی نامور کتاب’’ البدایہ والنہایہ‘‘چھپ کر نہیں آئی تھی۔ علامہ، اس کو دیکھنے کی حسرت ہی دل میں لے کر گئے۔
راقم السطور ایک ادنیٰ سا طالب علم ہے، بزرگوں کی شفقتوں کے نتیجے میں علم کی جو شدبد آئی اس کے ساتھ علمی تشنگی بھی میراث میں ملی۔ ایک عرصہ تک مصنَّف عبدالرزاق، مصنَّف ابن ابی شیبہ، صحیح ابن خزیمہ وغیرہ کا شوق دل و دماغ میں جاگزیں رہا، اﷲ کا شکر ہے کہ یہ شوق پورا ہو گیا۔ کم و بیش پچاس سال پیشتر، حضرت علاّمہ سید مناظر احس گیلانیؒ کا مقالہ ’’تدوین حدیث‘‘ دیکھنا نصیب ہوا۔ اس میں صحیفۂ صادقہ اور صحیفۂ ھمام بن مُنَبّہ کا ذکر دیکھا تو دل میں اُمنگ پیدا ہوئی کہ کبھی ان کو دیکھ کر آنکھوں کی ٹھنڈک پہنچا سکوں۔ نصف صدی بعد یہ موقع ملا کہ مؤخر الذکر صحیفہ کی زیارت سے آنکھوں کو نور اور دل کو سرور میسر آیا۔ یہ صحیفہ کیا ہے؟ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے ۱۳۸ ؍ ارشاداتِ عالیہ کا مجموعہ۔ اور جمع کس نے فرمائے؟ مشکوٰۃ نبوت سے براہِ راست فیض پانے والے جلیل القدر صحابی حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ نے، جو صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم کی پوری جماعت میں سب سے زیادہ احادیث نقل کرنے والے ہیں۔ انھوں نے یہ صحیفہ اپنے یمنی شاگرد حضرت ھُمام بن مُنَبّہؒ (تابعی) کے لیے مرتب فرمایا تھا۔ بہرحال ہم گنہگاروں کے لیے انتہائی خوشی کا باعث ہے کہ ایک صحابی(رضی اﷲ عنہ) کا ترتیب دیا ہوا مجموعۂ احادیث دیکھ اور پڑھ لیا۔ فللّٰہ الحمد حمدا کثیرا۔
خیر پور ٹامے والی ضلع بہاول پور کے قریب، چیلا واہن شریف ایک مردم خیز قریہ ہے، یہاں سے بڑے بڑے جید علماء اور مشائخ اٹھے، ان کے مورث اعلیٰ حضرت حافظ غلام حسین رحمۃ اﷲ علیہ، قطب عالم حضرت خواجہ نور محمد قدس سرہٗ کے خلیفۂ مجاز تھے، ان سے آگے ظاہری و باطنی فیض کا سلسلہ جاری ہوا، حفظ قرآن مجید اس قریہ کے باشندوں کی خاص منقبت ہے، چھوٹے بڑے، مرد، عورتیں سب حافظ۔ تیس سال پہلے تک تو یہی حال تھا، اب خدا جانے کیا صورت ہے۔
حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے ملفوظات میں کہیں دیکھا تھا کہ قطب عالم مہارویؒ کے خلفاء میں سے جس میں جس صحابی کا رنگ ڈھنگ نظر آتا تھا، انھیں اس صحابیؓ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ حضرت خواجہ غلام حسنؒ اپنے شیخ کی روایات بہت زیادہ بیان کرتے تھے، حالانکہ ان کا عرصۂ صحبت نسبتاً کم تھا، اس لیے وہ مہاروی دربار کے ابوہریرہ کہلاتے تھے۔
حضرت حافظ غلام حسنؒ کے احفاد میں ایک نوجوان جن کا نام غالباً حافظ عبداللطیف تھا، جامعہ بہاول پور میں تعلیم حاصل کر رہے تھے کہ وہ بیمار رہنے لگے، سر میں درد کی شدید تکلیف رہتی تھی، بیماری جان لیوا ثابت ہوئی، وفات سے پہلے حافظ صاحب مرحوم کہتے تھے: ’’مجھے حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ بلاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ آؤ میں تمھیں حدیث پڑھاؤں، حافظ صاحب جلالین اور مشکوٰۃ تک پہنچ چکے تھے۔ فﷲ درہ!
صحیفۂ ھمّام بن منبہ کے علمی جواہر کو معادن سے نکال کر اہلِ علم کے ہاتھوں تک پہنچانے کا سہرا، جناب ڈاکٹر حمید اﷲ صاحب (از حیدر آباد دکن) کے سر ہے۔ پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ انھوں نے اس کو ایڈٹ کرتے ہوئے، شروع میں تدوین حدیث پر ایک نہایت گراں قدر تحقیقی مقالہ کا اضافہ کیا۔ فجزاہ اﷲ احسن الجزاء۔
اس وقت صحیفہ ھمّام بن منَبّہ کا جو نسخہ ہمارے ہاتھوں میں ہے، یہ رشید اﷲ یعقوب صاحب (از کراچی) کا بلاقیمت تقسیم کردہ ہے۔ یہ ایک اہلِ علم دوست سے عاریتاً ہمیں ملا، موصوف کو اﷲ تعالیٰ جزائے خیر دے کہ انھوں نے علمِ حدیث کی ایک بیش بہا خدمت انجام دی۔ اس کے ساتھ ہی ایک طالب علم کی حیثیت سے ہمیں اس شکایت کا بھی حق ہے کہ طباعت کے سلسلہ میں تصحیح کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی، بیشتر روایات میں اعرابی غلطیاں پائی جاتی ہیں اور کہیں کہیں تحریف و تصحیف بھی پائی جاتی ہے۔ کراچی میں علماء و فضلاء کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اگر پروف ریڈنگ کا پورا اہتمام کیا جاتا تو شاید کسی کو شکایت کا موقع نہ ملتا۔ اس سے بڑھ کر جو افسوس ناک امر ہمارے سامنے آیا ہے، وہ یہ ہے کہ صحیفہ کے عربی مُتونِ احادیث کے ساتھ اردو ترجمہ بھی دیا گیا ہے۔ یہ ترجمہ جناب ڈاکٹر حمید اﷲ صاحب کے برادرِ بزرگ جناب محمد حبیب اﷲ صاحب نے فرمایا ہے۔ موصوف کے بارے میں حرفِ آغاز میں بتایا گیا ہے کہ وہ حیدر آباد دکن میں لینڈ ریکارڈ کے نائب ناظم تھے اور خود ڈاکٹر صاحب نے اُن کے نام کے ساتھ ’’مولانا‘‘ کا سابقہ بھی بڑھایا ہے۔ جناب محمد حبیب اﷲ صاحب کے علمی حدود اربعہ سے ہم بالکل ناواقف ہیں، کچھ بھی ہو، احادیث کے ترجمہ میں کہیں کہیں فاحش غلطیاں پائی جاتی ہیں۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ انھوں نے یہ ترجمہ، شدید مصروفیات و علالت کے دوران فرمایا تھا تو کم از کم ڈاکٹر صاحب اس طرف توجہ فرماتے، خصوصاً جب کہ ترجمہ نظرِ ثانی کے لیے ان کے پاس بھجوا دیا گیا تھا تو اُن کی ذمہ داری میں اضافہ ہو گیا، وہ حسبِ ضرورت ترجمہ کی اصلاح فرما دیتے تو جگہ جگہ اس طرح کی غلطیاں نہ ہوتیں، جن کا نمونہ قارئین آئندہ صفحات میں ملاحظہ فرمائیں گے۔ برادرِ بزرگ کے احترام سے، دین کا علم زیادہ خیر خواہی کا مستحق تھا، اس لیے قارئین…… یا طلبۂ علم جناب ڈاکٹر صاحب کی بے اعتنائی کا شکوہ کریں تو وہ حق بجانب ہوں گے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق ان سطور کے لکھے جانے تک ڈاکٹر صاحب بقید حیات ہیں اور بسلسلۂ علاج امریکہ میں رہائش پذیر ہیں۔ وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَکْسِبُ غَداً…… راقم دست بدعاء ہے کہ اﷲ تعالیٰ اُنھیں شفاءِ کاملہ نصیب فرمائیں اور دینی خدمات کے لیے انھیں بیش از بیش توفیق عطا فرمائیں۔ (ڈاکٹر حمید اﷲ مرحوم کا انتقال سنہ ۲۰۰۲ ء میں ہوا-ادارہ)
اب ہم آئندہ صفحات میں چند احادیث کے ترجمہ کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کراتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا جا چکا ہے، مطبوعہ نسخہ میں جو ترجمہ دیا گیا ہے، وہ جناب ڈاکٹر صاحب کے برادرِ بزرگ کی طرف سے ہے، البتہ ڈاکٹر صاحب کا نظر فرمودہ ہے۔ آئندہ سطور میں اسے نقل کرتے ہوئے صرف ’’ترجمہ‘‘ کا لفظ لکھ دیں گے، قارئین خود سمجھ لیں گے۔
حدیث نمبر ۵۴:
(۱) واللّٰہ لقید سوط احدکم من الجنۃ خیر لہ مما بین السماء والارض۔
ترجمہ: ’’تم میں سے ایک شخص ہے جس کے کوڑے کی ڈوری (جو جنت میں ملے گی) آسمان اور زمین کے درمیان جو کچھ ہے اس سے بہتر ہے‘‘۔
قابلِ توجہ:
ایک تو واﷲ کا ترجمہ نہیں دیا گیا۔ دوسرا، مترجم بزرگ نے لفظ ’’قید‘‘ کو بفتح القاف (قَید) پڑھا۔ قید کے معنی ہتھکڑی کے ہوتے ہیں۔ یہاں ہتھکڑی کا لفظ انھیں بے معنیٰ نظر آیا تو اس کے بجائے ’’ڈوری‘‘ لکھ کر کام چلانے کی کوشش کی گئی، ان کا خیال یہ ہے کہ اہل جنت کو اس قسم کے چابک دیے جائیں گے جس طرح ٹریفک کے سپاہی یا پولیس کے ملازم ہاتھ میں لیے پھرتے ہیں۔ وہ ہاتھوں میں جو کوڑا لیے پھرتے ہیں، ایک طرف سے ان کی کالی ڈوری لگی ہوتی ہے۔ یہ تمام تر خیال غلط ہے۔ در اصل یہ لفظ ’’قِید‘‘ بکسر القاف ہے جس کے معنیٰ ہیں مقدار۔ خود متعدد احادیث میں ’’قید‘‘ کی بجائے ’’موضع‘‘ اور کہیں ’’قاب قوس‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ایک اور حدیث میں ’’قید‘‘ کا لفظ بمعنیٰ مقدار آیا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: ’’من ظلم قید شبر من الارض طوقہ من سبع ارضین‘‘۔یعنی جس شخص نے بمقدار ایک بالشت، کسی کی زمین ناحق لے لی، اسے سات زمینوں سے اس کا طوق پہنایا جائے گا۔
مترجم بزرگ سے تیسری غلطی یہ ہوئی کہ انھوں نے ایک نمبر کا نشان دے کر نیچے حاشیہ میں لکھا: ’’ایک غریب مگر نیکوکار صحابی کی تعریف ہے‘‘۔ یہ حاشیہ آرائی غلط ہے۔ وہ یہ سمجھے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ ارشاد کسی ایک فرد کے حق میں منقبت کے طور پر فرمایا۔ حالانکہ بات یوں نہیں ہے۔ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا مقصد، سرزمین جنت کی تعریف کرنا ہے۔ حافظ منذریؒ کتاب ’’الترغیب والترہیب‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’ومعنی الحدیث: وقدر قوس احدکم او قدر الموضع الذی یوضع فیہ سوطہ خیر من الدنیا و ما فیہا ‘‘
اب حدیث بالا کا صحیح ترجمہ یوں ہو گا: ’’اﷲ کی قسم! تم میں سے کسی کو جنت میں ایک چابک کے برابر جو جگہ ملے گی، وہ اس سے بہتر ہے جو کچھ آسمان اور زمین کے درمیان ہے۔‘‘
حدیث نمبر ۶۲:
’’ان من الظلم مطل الغنی و ان اتبع احدکم علی ملیء فلیتبع‘‘۔
ترجمہ: ’’مالدار کا وعدے کوٹالتے رہنا بھی ایک ظلم ہے۔ تم میں سے کسی کا پیٹ بھرے سے پالا پڑے تو اس کا پیچھا کرے‘‘۔
قابلِ توجہ:
خط کشیدہ جملۂ حدیث کا ترجمہ غلط ہے، اب کوئی بتائے کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ لگتا ہے کہ مترجم بزرگ خود ہی اس کا مطلب نہیں سمجھے، دراصل وہ مشہور فقہی اصطلاح ’’الحوالہ‘‘ سے ناواقف ہیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان گرامی کا حاصل یہ ہے:
۱۔ ایک شخص، کسی کا مقروض اور وہ فراخ دست ہونے کے باوجود قرض ادا نہیں کرتا، تو یہ اس کی طرف سے زیادتی اور ظلم شمار ہو گا۔
۲۔ اگر کوئی شخص مقروض ہے اور وہ قرض ادانہیں کر سکتا، دوسری طرف قرض خواہ کا مطالبہ سخت ہوجاتا ہے،اب اگر وہ مدیون اپنے قرض خواہ کو کسی دوسرے صاحبِ حیثیت کی طرف پھیر دیتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اس پر راضی ہو جائے۔
’’اتبع‘‘ باب افعال سے واحد مذکر غائب فعل ماضی مجہول کا صیغہ ہے، جس کا لفظی معنیٰ ہے ’’پیچھے لگا دیا جائے‘‘۔ شروح حدیث میں اس کا ترجمہ ’’احیل‘‘ سے کیا گیا ہے اور حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ فرماتے ہیں: ’’درپے فرستادہ شود یعنی حوالہ کردہ شود‘‘۔
حدیث نمبر ۷۰:
’’ کل سلامیٰ من الناس علیہ صدقۃ کل یوم تطلع علیہ الشمس ‘‘
ترجمہ: ’’لوگوں کا چھوٹی سی ہڈی (کسی کو) دینا بھی اس وقت تک کے لیے نیکی ہے جب تک کہ آفتاب طلوع ہوتا رہے گا‘‘۔
قابلِ توجہ:
’’سُلامیٰ‘‘ کے لفظی معنیٰ ہیں انگلیوں کے جوڑ۔ شارحین حدیث لکھتے ہیں: ’’المفصل‘‘ دیکھیے ریاض الصالحین ، شرح مسلم از نوویؒ وغیرہ۔ جناب مترجمہ سے اس ترجمہ میں کئی غلطیاں ہوئی ہیں۔ ’’سُلامیٰ‘‘ کا ترجمہ ہڈی سے کر کے ارشاد گرامی کو بے جان سا کر دیا ہے اور اس ایک لفظ کا ترجمہ غلط ہو جانے سے آگے بھی ترجمہ غلط ہوتا چلا گیا ہے۔ ہم اس فرمان کو سمجھنے کے لیے صحیح مسلم شریف کی دو اور حدیثیں نقل کرتے ہیں:
اوّل: ’’یصبح علی کل سلامی من احدکم صدقۃ فکل تسبیحۃ صدقۃ وکل تحمیدۃ صدقۃ و کل تہلیلۃ صدقۃ و کل تکبیرۃ صدقۃ و امر بالمعروف صدقۃ و نہی عن المنکر صدقۃ و تجزیء من ذلک رکعتان من الضحیٰ‘‘
ترجمہ: ’’تم میں سے ایک آدمی کے ہر ہر جوڑ پر صبح کو صدقہ لازم ہوتا ہے، تو اس کا ہر سبحان اﷲ کہنا بھی صدقہ اور خیرات ہے، ہر الحمد ﷲ کہنا بھی خیرات ہے، ہر لا الٰہ الا اﷲ کہنا خیرات ہے، ہر اﷲ اکبر کہنا خیرات ہے، نیکی کے لیے کہنا خیرات ہے، برائی سے روکنا خیرات ہے اور چاشت کے وقت دو رکعت پڑھ لے تو ان تمام کاموں سے کافی ہو جائے گا‘‘
دوم: ’’خلق کل انسان من بنی آدم علی ستین و ثلاثمائۃ مفصل فمن کبر اللّٰہ و حمد اللّٰہ و ہل اللّٰہ و سبح اللّٰہ و استغفر اللّٰہ و عزل حجرا من طریق الناس او شوکۃ او عظما عن طریق الناس أو أمر بمعروف أو نہی عن منکر عدد الستین والثلاثمائۃ فإنَّہ یمسی یومئذ وقد زحزح نفسہ عن النار‘‘
ترجمہ: ’’اولادِ آدم میں سے ہر شخص کی پیدائش، تین سو ساٹھ جوڑوں پر ہوئی ہے، تو جو شخص اﷲ اکبر کہے گا، الحمد ﷲ کہے گا، لا الٰہ الا اﷲ کہے گا، سبحان اﷲ کہے گا، استغفر اﷲ کہے گا، لوگوں کے راستے سے پتھر ہٹا دے گا، یا کوئی کانٹا یا ہڈی ہٹا دے گا، نیکی کی دعوت دے گا، برائی سے روکے گا، تین سو ساٹھ جوڑوں کی تعداد کے برابر، تو اس کا وہ دن یوں بسر ہو گا کہ وہ اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچا چکا ہو گا‘‘۔
ان دونوں حدیثوں سے زیر نظر حدیث کا مطلب واضح ہو جاتا ہے کہ شخص پر اس کے اعضاء کے جوڑوں کے برابر ہر روز، جب تک کہ اس پر سورج طلوع ہوتا رہے گا، صدقہ لازم ہے۔
حدیث نمبر ۷۲:
یہ ایک طویل حدیث ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ جو مالدار شخص اپنے مال میں سے زکوٰۃ نہیں ادا کرتا، قیامت کے روز وہ مال ایک گنجے سانپ کی شکل اختیار کر لے گا، مالک اس سے بھاگنا چاہے گا، مگر وہ اسے پکڑ لے گا اور اس سے کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں۔ (آگے حدیث میں ہے) کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: واللّٰہ لن یزال یطلبہ حتی یبسط یدہ فیلقمھا فاہ۔
ترجمہ: اﷲ کی قسم! وہ اس کا پیچھا کرتی ہی رہے گا یہاں تک کہ (اس زکوٰۃ نہ دینے والے) شخص کو اپنے قبضے میں لا کر اپنا نوالہ بنا لے گا۔
قابلِ توجہ:
مترجم بزرگوار کو خط کشیدہ قطعۂ حدیث کا معنیٰ، مطلب سمجھنے میں بڑا مغالطہ لگا، انھوں نے ’’ یبسط یدہ‘‘ کا ترجمہ کیا ہے وہ اسے اپنے قبضے میں لے لے گا، حالانکہ نہ تو منقولہ الفاظ اس ترجمہ کو درست قرار دیتے ہیں، نہ دوسری احادیث اس کی تائید کرتی ہیں۔ صحیح ترجمہ اس طرح ہے:
’’یہاں تک کہ وہ شخص اپنا ہاتھ پھیلا دے گا اور اسے (یعنی ہاتھ کو) اس کے (یعنی سانپ کے) منہ میں دے دے گا‘‘
یہی مضمون دوسری احادیث میں بھی آیا ہے، چنانچہ مسلم شریف میں ہے:
’’فاذا رأی ان لا بد منہ سلک یدہ فی فیہ فیقضمھا‘‘ یعنی جب زکوٰۃ نہ دینے والا آدمی دیکھے گا کہ اب اس کے لیے کوئی چارہ نہیں رہا تو وہ اپنا ہاتھ سانپ کے منہ میں دے دے گا اور وہ اسے چبا ڈالے گا۔
مسند احمد کی ایک روایت میں ہے: ’’حتی یلقمہ اصابعہ‘‘یہاں تک وہ اپنی انگلیوں کو اس کے منہ میں دے دے گا۔
حدیث نمبر ۸۲:
’’والذی نفس محمد بیدہ لو ان عندی احدا ذہبا لأحببتُ ان لا یأتیَ علیَّ ثلاث لیال و عندی منہ دینار اجد من یتقبلہ منی لیس شیء ارصدہ فی دین علیَّ‘‘
ترجمہ: ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد(ﷺ) کی جان ہے، اگر میرے پاس احد کے برابر سونا ہوتا تو میں اس بات کو پسند کرتا کہ تین رات گزرنے سے پہلے اگر کوئی اس کو لینے والا ہو تو ایک دینار بھی باقی نہ رکھوں، میں کوئی چیز باقی رکھ کر اپنے کو (اﷲ کے سامنے) مقروض نہیں بنانا چاہتا‘‘۔
قابلِ توجہ:
حدیث شریف اور ترجمہ کے خط کشیدہ جملوں کو ملاحظہ فرمایے۔ فرمان پاک کو بالکل بے معنی اور مہمل بنا دیا گیا ہے۔ مترجم بزرگ، عربی گرامر کے اس قانون سے ناواقف ہیں کہ ’’لَیسَ‘‘ فعل ناقص ہونے کے علاوہ ’’اِلَّا‘‘ کی طرح کلمۂ استثناء بھی ہے اور یہاں یہ اسی معنیٰ میں استعمال ہو رہا ہے۔ خط کشیدہ عربی جمہ کا صحیح ترجمہ یوں ہے: ’’سوائے اس چیز کے، جو میں اپنے ذمہ قرض کے سلسلہ میں رکھ لوں‘‘
یہ بھی معلوم رہے کہ جب ’’لَیسَ‘ ‘ بطور کلمۂ استثناء استعمال ہو، اس کے بعد مستثنیٰ منصوب پڑھا جاتا ہے۔ لہٰذا حدیث کے الفاظ میں ’’لَیسَ شیئاً‘‘ پڑھا جائے گا۔
حدیث نمبر ۸۶:
’’اللّٰہم انِّی أتَّخذُ عنک عہداً لن تخلفہ انما انا بشر فأیّ المؤمنین أذیتُہ أو شتمتہ أو جلدتہ أو لعنتہ فاجعلہا لہ صلوٰۃً و زکوٰۃً و قربۃً تقربہ بہا یوم القیامۃ‘‘۔
ترجمہ: یا اﷲ! میں تجھ سے ایک عہد لیتا ہوں، تو اس کے خلاف نہ ہونے دے، میں تو ایک انسان ہوں، وہ یہ کہ نہ میں نے کسی مؤمن کو ایذا دی ہے یا اس کو گالی دی ہے، یا اس کو مارا ہے، یا اس پر لعنت بھیجی ہے تو اس کو رحمت اور پاکیزگی اور قربت بنا دے جس کے ذریعہ وہ قیامت کے دن (اﷲ سے) تقرب حاصل کرے‘‘۔
قابلِ توجہ:
۱۔ ’’لن تخلف‘‘ فعل مضارح منفی مؤکد ہے۔ اس کا ترجمہ فعل نہی کے طور پر کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
۲۔ ترجمہ میں ’’نہ‘‘ کا لفظ بلاوجہ بڑھایا گیا ہے، الٹا بات بے تکی اور مہمل سی بن گئی ہے، جب ایذا دینے، گالی دینے، مارنے یا لعنت بھیجنے کی نفی کر دی گئی تو پھر کس چیز کو رحمت اور قربت بنا دینے کی دعا کی جا رہی ہے؟
۳۔ ’’ وہ تقرب حاصل کرے‘‘ ، ترجمہ صحیح نہیں ہے۔ ’’تقرب‘‘ باب تفعیل سے واحد مذکر مخاطب، باب تفعیل کا صیغہ ہے اور آگے ’’ہ‘‘ ضمیر مفعول کی ہے، پوری حدیث کا صحیح ترجمہ یوں ہو گا:
’’اے اﷲ! میں تجھ سے ایک عہد لیتا ہوں (حدیث کی دوسری کتابوں میں ’’اتخدت‘‘ بصیغۂ ماضی آیا ہے، پھر ترجمہ ہو گا، میں تجھ سے عہد لے چکا ہوں) جس کی تو ہرگز خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ میں ایک انسان ہوں (اس لیے اگر) کسی مسلمان کو مجھ سے کوئی تکلیف پہنچے، یا میں اسے گالی دوں یا مار لوں یا لعنت بھیجوں، تو تُو اسے اس کے حق میں نماز، زکوٰۃ اور کسی کارِ ثواب میں تبدیل کر دے جس کے باعث تو قیامت کے دن اسے اپنا قرب نصیب فرمائے‘‘۔
حدیث نمبر ۸۹:
یہ ایک طویل حدیث ہے جس کا ایک حصہ یہاں نقل کیا جاتا ہے:
’’والذی نفس محمد بیدہ لا ینتہب احدکم نہبۃ ذات شرف یرفع الیہ المؤمنون اعینہم فیہا وہو حین ینتہبہا مؤمن‘‘۔
ترجمہ: ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے کہ کوئی شخص عزت دار ہو کر (نکاح میں کھجور مصری) اس طرح لوٹے گا کہ لوگوں کی نظروں میں نکو ہو جائے تو اس حال میں وہ مؤمن نہیں ہوتا‘‘۔
قابلِ توجہ:
مترجمہ بزرگ کو پہلا مغالطہ یہ ہوا کہ وہ ’’ذات شرف‘‘ کو ’’احدکم‘‘ کی صفت سمجھے، انھوں نے یہ بھی خیال نہ فرمایا کہ ’’احدکم‘‘ مذکر کا صیغہ ہے۔ اس کی صفت بھی مذکر ’’ذو‘‘ کا لفظ آنی چاہیے اور پھر موصوف صفت کو اکٹھے آنا چاہیے تھا، ’’ نہبۃ‘‘ کا لفظ جو مفعول واقع ہو رہا ہے، بعد میں آتا۔ درحقیقت ’’ذات شرف‘‘ ،’’ نہبۃ‘‘ کی صفت ہے۔
’’ نہبۃ‘‘ کا لفظ اگر بضم النون پڑھا جائے تو مفعول بہ بنے گا، اگر بفتح النون پڑھا جائے تو مفعول مطلق ہو گا۔ دونوں صورتوں میں مطلب ایک ہی رہتا ہے۔
مترجم بزرگ کی تشریح بھی مضحکہ خیز ہے کہ اس فرمان رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا تعلق نکاح میں چھوارے یا شکر لوٹنے سے ہے۔ یہ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ والی بات ہوئی، بھلا لینڈ آفیسری اور حدیث فہمی کا کیا جوڑ؟ در اصل اس عبارت کے سیاق و سباق کو دیکھا جائے تو بات کچھ اور نکلتی ہے، اس حدیث شریف میں زنا کاری، چوری، شراب نوشی، غارت گری اور خیانت جیسے قبیح جرائم کے بارے فرمایا گیا ہے کہ جب کوئی مسلمان ان میں سے کوئی گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو ایمان اس کے دل سے نکل جاتا ہے۔ چنانچہ آج سڑکوں پر، بازاروں میں، بسوں اور ریل گاڑیوں میں ان جرائم کی جو بھرمار ہے، کیا یہ اُمّت مسلمہ کے کرتوت نہیں؟ یہ جرائم خود اس بات کا منہ بولتا ثبوت نہیں کہ جو لوگ ان کے مرتکب ہوتے ہیں، وہ دولتِ ایمان سے محروم ہو کر ایسا کر گزرتے ہیں۔
اب حدیث شریف کے منقولہ بالا ٹکڑے کا صحیح ترجمہ سن لیجیے:
’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے، جب کوئی آدمی بڑے پیمانہ پر کسی کا مال لوٹ لیتا ہے کہ مسلمان آنکھیں اٹھا اٹھا کر اسے دیکھتے رہ جاتے ہیں، تو وہ ایمان کی حالت میں نہیں لوٹتا‘‘۔
حدیث نمبر ۹۵:
لأن یلج أحدکم بیمینہ فی أہلہ اثم لہ عند اللّٰہ من أن یعطی کفارتہ الَّتی فرض اللّٰہ علی
ترجمہ: تم میں سے کسی کا قسم کھانے کی وجہ سے اپنے اہل و عیال کے پاس نہ جانا، اﷲ کے نزدیک زیادہ بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ کفارہ ادا کر دے جس کو (قسم کے توڑنے پر) اﷲ نے فرض کیا ہے‘‘۔
ًقابلِ توجہ:
ترجمہ اس حد تک غلط کیا گیا ہے کہ شریعت کا حکم بالکل الٹا ہو گیا ہے، اس کا موجب دو مغالطے ہیں:
ایک تو یہ کہ حدیث شریف کے پہلے لفظ ’’لان‘‘ میں لام تاکید کو ’’لا‘‘ نافیہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مترجم بزرگ کو عربی گرامر سے واجبی حد تک بھی واقفیت نہیں ہے۔
دوسرا یہ کہ ’’اثم‘‘ کے لفظ کو ’’بالتاء المثناۃ‘‘ پڑھا گیا ہے، حالانکہ یہ حرف ’’ثاء مثلثلہ‘‘ہے۔
یہ حدیث صحاح ستہ کی متعدد کتابوں میں موجود ہے اور سب میں ’’اـثم‘‘ کا لفظ ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مترجم کو علم حدیث سے چنداں مناسبت نہیں ہے۔
بہرحال صحیح ترجمہ یوں ہے:
’’تم میں سے ایک شخص اپنے گھر والوں کے بارے میں اپنی قسم کی پابندی کرے، یہ اس سے زیادہ گناہ کا کام ہے کہ وہ قسم کو توڑ کر اﷲ تعالیٰ کا مقرر فرمودہ کفارہ ادا کرے‘‘۔
شارح مشکوٰۃ، حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے اس حدیث کی شرح میں جو کچھ فرمایا ہے اس کا ترجمہ یہاں دیا جاتا ہے:
’’اس حدیث کا مضمون وہی ہے جو دوسری ان احادیث کا ہے جن میں یہ فرمایا گیا ہے کہ کوئی شخص ایک بات کی قسم کھا لے اور پھر دوسرا پہلو اسے بہتر نظر آئے (مثلاً کوئی آدمی ایسی کوئی قسم کھا لے جس سے گھر والوں کا نقصان ہوتا ہو، ان کی حق تلفی ہوتی ہو) تو وہ دوسرے پہلو پر عمل کر لے اور قسم کا کفارہ دے دے‘‘۔ (اشعۃ اللمعات، ج: ۳، ص: ۲۱۳)
ایک علمی افادہ:
صحیفۂ شریفہ میں حدیث نمبر ۹۶ اور اس کا ترجمہ ان الفاظ سے درج ہے:
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا کرہ الاثنان علی الیمین فاستحیاہما فاسہم بینہما‘‘۔
ترجمہ: ’’رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جب دو لوگ قسم کھانے کے لیے مجبور کیے جائیں اور دونوں حیا کریں تو ان کے درمیان قرعہ ڈالو‘‘۔
راقم لحروف کو حدیث کے ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے ان الفاظ اور ترجمہ کی صحت میں شک گزرا، اب تلاش شروع کی کہ صحاح ستہ یا دیگر مشہور کتب میں یہ روایت کہیں مل جائے، چنانچہ سعی کے بعد یہ روایت مسند احمد میں مل گئی، راقم کے پاس مسند کا وہ نسخہ ہے جو تبویب شدہ اور ’’الفتح الربانی‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔
اس پر شیخ احمد عبدالرحمن البناء کی تعلیقات ’’بلوغ الامانی‘‘ کے نام سے موجود ہیں۔
زیر نظر روایت مسند احمد میں ان الفاظ سے درج ہے:
اذا اکرہ الاثنان علی الیمین فاستحیاہا ، فلیستھما علیہ۔
(باب القضاء بالقرعۃ، ج: ۱۵، ص: ۲۱۷)
ترجمہ: ’’جب دو آدمیوں کو قسم دینی پڑے اور دونوں اس سے شرمائیں، تو وہ اس پر قرعہ اندازی کر لیں‘‘۔
صاحب تعلیقات، شیخ بنّاء اس پر تحریر فرماتے ہیں:
’’اگر دو آدمیوں کا مقدمہ، حاکم کے پیش ہو اور دونوں کے پاس گواہ نہ ہوں یا دونوں کے پاس گواہ موجود ہوں، تو انھیں قسم کے لیے کہا جائے گا۔ اب اگر دونوں قسم کے لیے آمادہ ہو جائیں یا دونوں پس و پیش کریں تو حاکم ان میں قرعہ اندازی کرائے گا، جس کے نام قرعہ نکل آئے، وہ حلف اٹھائے گا اور متنازعہ چیز کو لے جائے گا۔ ’’ایہما خرجت لہ القرعۃ حلف و اخذ ما ادعاہ‘‘۔ (حوالہ مذکور)
تو صحیفہ کے موجودہ نسخہمیں غلطی یہ آ گئی ہے کہ ’’ استحییاہا‘‘ کے بعد ’’ھما‘‘ ضمیر تثنیہ درج ہے، حالانکہ ’’ھا‘‘ ضمیر واحد مؤنث ہونی چاہیے جس کا مرجع ’’یمین‘‘ ہے، جیسا کہ مسند احمد میں ہے۔
ثانیاً یہ بھی معلوم رہے کہ مسند میں روایت کے آخری الفاظ مطبوعہ صحیفہ سے مختلف ہیں، حالانکہ مسند میں یہ روایت اسی سند ’’معمر عن ہمّام بن منبّہ عن ابی ہریرۃ ‘‘ سے منقول ہے۔
قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہی روایت ، اسی سند سے، تھوڑے سے لفظی تغیر کے ساتھ سنن ابی داؤد، کتاب القضاء کے باب ’’الرجلین یدعیان و لیس بینہما بینۃ ‘‘ میں بھی موجود ہے۔ زیادہ تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔