میرے شاہ جی
سمیع اﷲ ملک
ان دنوں قصرسفیدکے فرعون کے دہمکی آمیزبیانات اوردیگرحرکات کی وجہ سے اقوام عالم کے تمام امن پسند قوتوں میں عجیب ہلچل پیداکررکھی ہے اوریوں محسوس ہورہاہے کہ کسی بھی وقت ایک ایسی عالمی جنگ کاطبل بجنے والاہے جو دنیا کو خاکستر کر دے گا۔ بالکل اسی طرح ۱۹۴۷ء تک دنیابھر میں برطانیہ کے جبروت کاطوطی بولتاتھا۔برطانوی سلطنت کی وسعت کے پیش نظریہ مثل مشہورتھی کہ اس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتایعنی اگراس کی نوآبادیات کے ایک حصے میں سورج غروب ہوتا تھا تو دوسرے علاقے میں دن نکل رہاہوتا تھا۔برطانیہ نے بھی آزادی پسندوں کو جبرو استبداد، درندگی اور سفاکی کے ہتھکنڈوں سے بالکل اسی طرح صفحہ ہستی سے مٹادیناچاہاجیساکہ آج کل امریکی استعماردہشتگردی کا لیبل لگا کر مسلمانوں کی جان وایمان اور ان کی املاک کے درپے ہے لیکن چشمِ افلاک نے یہ انوکھا نظارہ حیرت واستعجاب کی نظروں سے دیکھا کہ حریت مآب دیوانوں کی قربانیوں کی بدولت فرنگی استعمارکوکہ جس کی زمین پرسورج غروب نہیں ہوتا تھا، ہندوستان کونہ صرف آزاد بلکہ پاکستان جیسی معجزہ نماریاست کاوجودبھی دنیاکے نقشے پرنمودارہوگیااورپسپائی کے اس سفر کے بعد دنیا بھر میں تمام نوآبادیات سے سفرآخرت ایساشروع ہواکہ آج خودبرطانیہ اپنے ہی ملک میں سورج کی کرنوں کا محتاج رہتا ہے۔
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کو کچلنے کے بعدبرطانوی استعمارمسلم ہندوستان کے تخت وتاج پربلاشرکت غیرے براجمان ہوا اور اس نے تحریک آزادی میں شریک علماء مجاہدین طلباء اور عام شہریوں کولاکھوں کی تعدادمیں موت کے گھاٹ اتارا۔ قید، نظر بندی، ظلم اور درندگی کے شرمناک مظاہروں کے ذریعے انگریز نے ہندوستانی عوام پراپنی دہشت وفرعونیت کی دھاک بٹھا دی لیکن ان عذاب لمحوں میں بھی کچھ ایسے بچے کھچے غیرت مند ہندوستانی مسلمان مجاہدباقی تھے کہ جنہوں نے برطانوی استعمارکے آگے سرنگوں ہونے سے انکارکیااور اپنے خون سے آزادی کے گل ہوتے چراغ کوروشن رکھا۔ ’’میرے شاہ جی‘‘ حضرت امیرشریعت سیدعطااﷲ شاہ بخاری اُن ہی عزم وہمت کے پالے مجاہدین ِ آزادی کے باغیرت جانشین تھے جنہوں نے ہندوستان کی دھرتی پرانگریزکے تسلط کومستردکرتے ہوئے ’’ان الحکم الا ﷲ‘‘ کا نعرۂ رستا خیز بلند کیا اور اس پر عزیمت راہ میں ہر صعوبت وآزمائش کوجھیلنے کا عزم نوکیا۔
حیرت ہوتی ہے کہ سید عطاء اﷲ شاہ بخاری جیسے نہتے اور بے وسیلہ مجاہدین آخر کس مٹی سے بنے تھے کہ وہ انگریزی استبداد کے مصائب وآلام، دارو رسن اورظلم وسفاکی کامردانہ وار مقابلہ کرتے اوراس کے نتیجے میں اپنی ناتواں جانوں پر ہر ظلم کا وار سہتے مگر آزادیٔ وطن کی خاطرکسی بھی کڑی آزمائش کو لبیک کہنے سے بازنہ آتے تھے جبکہ آج تمام تر وسائل اور ایٹمی قوت رکھنے کے باوجود ہمارے قومی رہنماء اور اقتدار کے رسیا امریکا کے سامنے تھرتھر کانپتے دکھائی دیتے ہیں۔ ڈرون حملے نہتے شہریوں کو خاک وخون میں نہلاتے ہیں مگر صاحبِ اقتدار آنکھیں رکھنے کے باوجود نابینا ہیں، کان ہیں مگر بہرے ہیں۔ دراصل قومی غیرت اوردینی حمیت ہی قوموں کوسراٹھاکرجینے کا شعور دیاکرتی ہے جس کے آگے بڑی سی بڑی طاقتیں خاکِ راہ ہوجاتی ہیں۔ دراصل یہی وہ جوہرایمانی تھاجس نے سیدعطااﷲ شاہ بخاری جیسے غیورمجاہدِ آزادی میں بے خوفی، دلیری، جرأت و بہادری جیسی انمول صفات پیدا کیں اوروہ سلطنتِ برطانیہ کے خلاف سینہ تان کر کھڑے ہوگئے۔ اپنی جوانی، سکون وراحت۔ آسائش وآرام کو آزادیٔ وطن کیلئے تج دیا، صعوبتوں کومجاہدانہ وار برداشت کیا مگر کبھی انگریز کی رعونت کوخاطرمیں نہ لائے۔
واقعہ جلیانوالہ باغ (۹۱۹۱ء) سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کی سیاسی زندگی کانقطہ آغاز ثابت ہوا۔ سفاک جنرل ڈائر نے جب سینکڑوں بے گناہ ہندوستانیوں کے سینے چھلنی کردیئے توسید عطاء اﷲ شاہ بخاری کے دل میں حکومت برطانیہ کے متعلق نفرت کے شدید جذبات پیدا ہوگئے، رہی سہی ترکی کے مسلمانوں پرانگریزکی وحشت وبہیمت نے نکال دی اور سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ہندوستان کے صفِ اوّل کے رہنماؤں کے ہمراہ تحریک خلافت کے برگ وباراٹھانے میں مصروف ہوگئے۔ برطانوی استعمار کی اس مخالفت میں سید عطاء اﷲ شاہ بخاری نے دینی اصولوں کو بنیاد بنایا۔ وہ انگریز کو اسلام اور مسلمانوں کا دشمن سمجھتے تھے کیونکہ وہ انگریزوں کی اسلام کے خلاف سازشوں کا ادراک اور مسلمانوں پرپے درپے ان کی خنجر آزمائی کا بچشم خود مشاہدہ کر چکے تھے۔ تحریک خلافت کے دوران سید عطا اﷲ شاہ بخاری نے اپنی بے مثال ساحرانہ خطابت کے ذریعے ہندوستان بھر میں برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت کی آگ بھڑکا دی تھی مثلاً صرف ضلع گجرات میں ہی انہوں نے تن تنہا پانچ سو خلافت کمیٹیاں قائم کر کے پورے ضلع کوآتش جوالہ بنا کر رکھ دیا تھا۔ ۱۸۵۷ء کے معرکے کے بعد تحریک خلافت ہی وہ ملک گیر احتجاجی سلسلہ تھا جس نے تمام ہندوستانیوں کو بلاتفریق مذہب ایک لڑی میں پرو دیا اور ان کے رگ وپے سے غیر ملکی حکمرانوں کا رعب ودبدبہ نکال کر رکھ دیا تھا جس کے لیے دیگر رہنماؤں کے شانہ بشانہ بنیادی کردار سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کا تھا جو ہماری ملی تاریخ کاایک ایساروشن باب ہے کہ جس پرہم بجاطورپرفخرکرسکتے ہیں۔
۳؍ ستمبر ۱۹۳۹ء کو جنگ عظیم دوم کا آغاز ہوا تو ہندوستان کی تمام سیاسی جماعتیں انگریز سے تعاون یا اس کی مخالفت کرنے کے بارے میں اس وقت تک کسی فیصلہ پرپہنچ نہ پائی تھیں لیکن سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کی جماعت مجلس احرار ہندوستان میں واحد سیاسی جماعت تھی جس نے معروف انگریز مصنف ڈبلیو سے اسمتھ کے الفاظ میں ’’اس جنگ کو سامراجی جنگ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف پہلی آواز بلند کی‘‘ اور سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کی قیادت میں تحریک فوجی بھرتی بائیکاٹ کے اجراء کا اعلان کیااوراحرارکے کوہِ ہمت رہنماء وکارکن ڈیفنس آف انڈیاایکٹ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے جیلوں کو آباد کرنے لگے۔ مجلس احرار نے فوجی بھرتی کی مخالفت میں ملک کے دیگر علاقوں کے ساتھ ساتھ پنجاب کوبالخصوص اپنی جنگ مخالف سرگرمیوں کا مرکز بنا لیا تھا۔
پنجاب انگریزوں کے لیے ’’بازوئے شمشیر زن‘‘ کا درجہ رکھتا تھا اور سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کے بقول: ’’پنجاب کے بعض اضلاع کی مائیں فرنگیوں کے لیے ہی بچے جنا کرتی تھیں۔‘‘ یہی صورتحال دیگر صوبوں میں بھی کم وبیش موجود تھی۔ بہر حال غلامی کے خمیر میں گندھے ہوئے اس خطے میں انگریزکی مخالفت کرنا موت کو دعوت دینے کے مترداف تھا لیکن سید عطاء اﷲ شاہ بخاری اور ان کے بہادر رفقاء نے آزادیٔ ہند کے لیے جان کی بازی لگادی کیونکہ ان کے نزدیک ہندوستان کی آزادی سے برطانیہ کے لیے اپنی نوآبادیات پر زیادہ دیر تک قبضہ برقرار رکھنا ممکن نہ رہ سکتا تھا اور جس کی بدولت جزیرۃ العرب کا آزاد ہونا یقینی تھا لہذا انہوں نے اپنی تمام تر قوت ہندوستان کی آزادی کے لیے جھونک ڈالی۔ اپریل ۱۹۳۹ء کو پشاور میں آل انڈیا پولیٹیکل احرار کانفرنس منعقد کی گئی جس میں مجلس احرار کے بانی رہنماء اور مفکر چوہدری افضل حق مرحوم نے جنگ عظیم دوم کے چھڑنے کی پیشگوئی کی تھی اور انگریز پر کاری ضرب لگانے کے لیے اپنی مستقبل کی پالیسی کا اعلان کیا تھا۔
اسی کانفرنس میں طے شدہ لائحہ عمل کے مطابق ہی جنگ شروع ہونے کے صرف ایک ہفتہ بعدمجلس احرار اسلام کی مجلس عاملہ نے برطانوی استعمار کو فوجی بھرتی نہ دینے کی تاریخی قرارداد منظور کی تھی۔ اس قرارداد کی روشنی میں سید عطاء اﷲ شاہ بخاری اور ان کے عظیم رفقائے کار نے ہندوستان کے ہر مقام کے دورے کرنے کے علاوہ پنجاب کے فوجی بھرتی کے حامل اہم اضلاع سرگودھا، میانوالی، گجرات، اٹک، جہلم، راولپنڈی وغیرہ میں اپنی تقاریر میں فوجی بھرتی نہ دینے کا درس دیا جس کے نتیجے میں دورہ کے اختتام پر انگریز اور اس کے کاسہ لیس سرسکندر حیات کی یونینسٹ حکومت نے بوکھلا کر سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کو گرفتار کر کے ان پر رعایا کو حکومت کے خلاف بغاوت پر اکسانے کا مقدمہ دائر کیا جس کی سزا پھانسی سے کم نہ تھی اور یہی انگریز اور اس کے ایجنٹوں کا مقصود تھا لیکن حکومتی مشینری کی تمام ترپشت پناہی کے باوجود عدالت میں سی آئی ڈی کے سرکاری رپورٹر لدھا رام کی صاف گوئی نے سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کے حق میں پانسہ پلٹ دیا اور وہ ۷جون ۱۹۴۷ء کو باعزت بری ہوگئے۔ اس موقع پر جرمنی کے مختلف شہروں میں ہوائی جہازکے ذریعے سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کی تصاویر گرائی گئیں جس پر تحریر تھا کہ ہندوستان کا سب سے بڑا باغی جسے برطانوی حکومت ہر حالت میں پھانسی پر لٹکانا چاہتی تھی، وہ باعزت بری ہوگیا۔
غرض یہ کہ سید عطاء اﷲ شاہ بخاری نے انگریز استبداد کے تناور شجر کی جڑوں کو کاٹنے والی تحریک میں ہراول دستہ کا کردار ادا کیا اور انہوں نے خود دسیوں تحریکیں چلائیں۔ اﷲ نے انہیں خطابت کا بے تاج بادشاہ بنایا تھا اور انہوں نے اپنی اس بے نظیر صلاحیت کے ذریعے ہندوستان کے لاکھوں افراد کے قلوب واذہان سے انگریزی حاکمیت کا خوف کھرچ ڈالا اور انہیں آزادی کے مفہوم ومعنی سے آشنا کر کے انہیں تحریک آزادی میں شمولیت پر آمادہ کیا۔ سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کی انگریزی استعمار سے نفرت کا یہ عالم تھا کہ نجی محفل ہو یا اجتماع عام، ان کے ’’لعنت بر پدر فرنگ‘‘ کے نعرۂ رستا خیز سے در ودیوار کانپ اٹھتے تھے۔ وہ فرمایا کرتے تھے:
’’میں ان سؤروں کا ریوڑ چرانے کو بھی تیار ہوں جو برٹش امپیریلزم کی کھیتی ویران کرنا چاہیں۔ میں کچھ نہیں چاہتا، میں ایک فقیر ہوں، اپنے نانا صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت پر کٹ مرنا چاہتا ہوں اور اگر کچھ کرنا چاہتا ہوں تو اس ملک سے انگریز کا مکمل انخلاء میری دوہی خواہشیں ہیں۔ میری زندگی میں یہ ملک آزاد ہو جائے یاپھرمیں تختۂ دار پر لٹکا دیا جاؤں۔ میں ان علمائے حق کا پرچم لیے پھرتا ہوں جو ۱۹۵۷ء میں فرنگیوں کی تیغ بے نیام کا شکار ہوئے تھے۔ ربّ ذوالجلال کی قسم: مجھے اس کی کچھ پرواہ نہیں کہ لوگ میرے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ لوگوں نے پہلے ہی کب سرفروشوں کے بارے میں راست بازی سے سوچا ہے؟ وہ شروع سے تماشائی ہیں اور تماشہ دیکھنے کے عادی ہیں۔ میں اس سرزمین پر مجدّد الف ثانی کا ادنیٰ سپاہی ہوں، شاہ ولی اﷲ اور خاندان ولی اﷲ کا مبلغ ہوں،سیداحمدشہیدکانام لیوا اورشاہ اسماعیل شہید کی جرأت کا پانی دیوا ہوں۔ اُن پانچ مقدمہ ہائے سازش کے پابہ زنجیر علمائے امت کے لشکر کا ایک خدمت گزار ہوں جنہیں حق کی پاداش میں عمر قید اور موت کی سزائیں دی گئیں۔ ہاں! ہاں، میں انہیں کی نشانی ہوں، انہی کی بازگشت ہوں۔ میری رگوں میں خون نہیں، آگ دوڑتی ہے۔ میں علی الاعلان کہتا ہوں کہ قاسم نانوتوی کا علم لیکر نکلا ہوں۔ میں نے شیخ الہند کے نقش قدم پر چلنے کی قسم کھائی ہے۔ میں زندگی بھر اس پر چلتا رہا ہوں اور اسی راہ پر چلتا رہوں گا، میرا اس کے سوا کوئی مؤقف نہیں، میرا ایک ہی نصب العین ہے، برطانوی سامراج کی لاش کو کفنانا اور دفنانا۔‘‘
خطابت کے میدان میں سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کا ایسا تہلکہ تھا کہ کئی غیر مسلم ان کی تقریر سن کر مسلمان ہوگئے اور حاضر جواب ایسے کہ ایک مرتبہ ایک مخالف نے الزام لگاتے ہوئے سوال کیا کہ حضرت آپ انگریز کو ’’شو‘‘ تماشہ دکھاتے ہیں، آپ نے فی البدیہ جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں انگریز کو ’’شو‘‘ نہیں بلکہ اپنا ٹوٹا ہوا ’’شو‘‘ (جوتا) دکھاتا ہوں۔ ایک مخالف نے پوچھا کہ ’’زندگی کیسی گزری؟‘‘ آپ نے جواب دیاکہ آدھی جیل میں اور آدھی ریل میں! ایک شخص کہنے لگا کہ شاہ جی! کیا مردے سنتے ہیں؟ تو فوری مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ بھائی میری بات تو زندہ نہیں سنتے مردہ کی کیا بات کریں۔ ایک دفعہ علی گڑھ پہنچے، بعض طلباء نے شاہ صاحب کوتقریر نہ کرنے کاپہلے سے پروگرام بنا رکھا تھا۔ شاہ صاحب جونہی اسٹیج پر پہنچے تو طلباء نے شور مچانا شروع کر دیا۔ شاہ صاحب نے بڑی نرمی اور عاجزی سے طلباء سے کہاکہ میری ایک بات سنو۔ میں بہت لمبا سفر کر کے آپ سے ملنے کے لیے آیا ہوں چلو قرآن کا ایک رکوع ہی سن لو تو طلباء کی اکثریت نے رضا مندی کا اظہار کر دیا۔ شاہ صاحب نے انتہائی دلسوزی سے جب قرآن پڑھنا شروع کیا تو گویا مجمع دم بخود ہوگیا۔ جب تلاوت ختم کی تو فرمایا کہ اس رکوع کا ترجمہ بھی سن لو۔ طلباء قرآن سن کر اس قدر مسحور ومبہوت تھے کہ شاہ صاحب نے دوگھنٹے تک خطاب فرمایا اور وہی طلباء شاہ صاحب سے اپنے ناروا سلوک پر اپنی ندامت کا اظہار کر رہے تھے۔
ربّ ذوالجلال نے سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کی قربانیوں کا صلہ ان کو دنیا میں بھی دیا کہ انہوں نے انگریز کو ملک چھوڑتے دیکھا اور ہندوستان ۱۹۴۷ء کو فرنگی کے پنجہ استبداد سے آزاد ہو گیا۔ ہندوستانی عوام نے غلامی کے منحوس سائے چھٹ جانے کے بعد آزاد فضاؤں میں سانس لیا۔ احرار رہنماؤں کی نگاہِ بصیرت کے عین مطابق ہندوستان کی آزادی کے بعد برطانیہ کی اپنی نوآبادیوں پر گرفت ڈھیلی پڑنی شروع ہوگئی اور ایک ایک کر کے اسلامی ممالک آزاد ہوتے چلے گئے۔ اگر ہندوستان آزادنہ ہوتا تو عالم ِاسلام کی غلامی کا دور جانے کتنا طویل ہوجاتا! بلاشبہ یہ کارنامہ ہندوستان کی حریت پسند جماعتوں اور بالخصوص احرار کے قائد امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری جیسے زعماء کے سر ہے جنہوں نے غلامی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں حریت فکروعمل کے چراغ روشن کیے اور ملت اسلامیہ کو آزادی کی بہاروں سے سرفراز کرنے میں مجاہدانہ کردار ادا کیا۔
سید عطاء اﷲ شاہ بخاری جن کٹھن حالات میں ناگریز استعمار سے نبرد آزما ہوئے، ان جانگسل حالات کے تصور سے ہی دل بیٹھ جاتا ہے۔ عہدِ حاضر میں دنیا بھر کے مسلمان جن پرآشوب حالات میں مبتلا ہیں اور جس طرح امریکی استعمار کی چیرہ دستیوں کے نرغے میں آئے ہوئے ہیں، اِس صورتحال میں عالم اسلام کے رہنماء اور حکمران اپنے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے امریکا کی دہشتگردی کے خلاف ڈٹ جانے کی بجائے جس کوتاہ ہمتی اور بزدلی کے ساتھ امریکا پر ہی تکیہ کرتے ہوئے اس کی فرعونیت کے آگے جھکتے چلے جا رہے ہیں اور اپنے ساتھ ملت اسلامیہ کو اندھیروں کی منزل کا راہی بنا رہے ہیں، اسے دیکھتے ہوئے امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری جیسے مردِ مجاہد کی یاد تڑپا کر رکھ دیتی ہے کہ جنہوں نے موجودہ حالات سے کئی گنا بدتر حالات میں بھی برطانوی امپریلزم کا جی داروں کی طرح مقابلہ کرکے انہیں ہندوستان سے چلتا کیا تھا۔ آج سے ۶۶برس قبل امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری نے اپنے فرزند حضرت مولانا سید ابوذر بخاری کو جو نصیحت فرمائی تھی اسے آج بھی پیش نظررکھتے ہوئے پاکستان اور عالم اسلام کے استحکام، تعمیر وترقی اور اپنی قوم کی تربیت کی بنیادیں استوار کی جاسکتی ہیں۔ امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری نے فرمایا:
’’میں نے پوری دنیاکی تاریخ اور حالات پر غور کیا تو مجھے تاریخ انسانیت میں خدا، رسول، امت رسول اور پوری دنیا کے سچے مسلمانوں کا فرنگی سے بڑھ کر اور اس سے بدتر کوئی دشمن نظر نہیں آیا۔ فرنگی یا اس کا کوئی دوست غلافِ کعبہ کا لباس پہن کر اور چوبیس گھنٹے زم زم سے غسل کر کے باوضو اور مطہر رہنے والا بھی اس شکل میں تمہارے پاس آئے، اگر میرے تخم میں سے ہو اور حلالی ہو تو اس پر کبھی اعتماد نہ کرنا۔ تم نہیں جانتے: عدو اﷲ، عدو رسول اﷲ، عدو القرآن، عدو المسلمین، عدو الاسلام والدین فرنگی سے بڑھ کرنہ کائنات میں ہوا، نہ اب ہے، نہ آئندہ کبھی ہوگا۔‘‘
قیام پاکستان کے بعدشاہ جی حکمرانوں کی وعدہ خلافی اور دین مخالف روّیوں سے بہت آزردہ دل تھے۔ کسی نے سوال کردیا: شاہ جی! کیا آپ اب ان حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کریں گے؟ فرمایا ’’بھائی سب کچھ قصہ ماضی بن چکا،ہم تو عمر کے عہدِ آخرمیں ہیں، بڑھاپا شروع ہو کر جوان ہوچکا ہے، بالوں میں سپیدی آگئی ہے، سفر ایک تھا، منزلیں کئی، بعض منزلوں پر رکنا پڑا، بعض جگہ ٹھہرنا پڑا، کچھ دیر سستائے، تلووں کو سہلایا۔ آہوں اور کانٹوں میں معانقہ ہوچکا تو چلنے لگے، پھر چلتے ہی رہے، حتیٰ کہ ایک رات بیت گئی، دن چڑھا سورج نے شعاعوں کا چمن آراستہ کیا، غنچوں کا چہرہ مسکرا اٹھا، آنکھ اٹھا کر دیکھا تو گرد وپیش وہی رات کا سناٹا تھا۔
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
امیرشریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری نے ۱۹۴۴ء میں مجلس احرار کے جلسے میں اپنے خطاب میں اپنے ساتھیوں کی ہمت بندھاتے ہوئے فرمایا: ’’حضرت آدم علیہ السلام سے پیغمبرآخرالزمان حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم تک کوئی ایسا نبی نہیں آیا ہے جس نے اپنی تعلیمات میں جلا پیدا کرنے کے لیے اپنے دور کے کسی انسان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ہو کیونکہ نبی اور رسول براہِ راست اﷲ تعالیٰ سے علم حاصل کرتے ہیں۔ نبی کی اﷲ تعالیٰ خود رہنمائی فرماتے ہیں۔ انبیاء کرام بہت بہادر بھی ہوتے ہیں اور معصوم بھی۔ آپ انبیاء علیہم السلام کے احوال پرنگاہ ڈالیے، جو نبی دنیا میں تشریف لاتا ہے، اس کے ایک ہاتھ میں الہام الٰہی کی کڑکتی بجلیاں ہوتی ہیں اور دوسرے ہاتھ میں تلوار جو کاشانۂ باطل پر برق بن کر گرتا ہے۔ اس کے جلو میں سمندروں کا شور اور طوفانوں کا زور ہوتا ہے۔ اس کی رفتار فرمانرواؤں کا دل دھڑکا دیتی ہے اور اس کی ایک للکار سے کائنات کا دل دہل جاتا ہے۔‘‘
جو چٹانوں میں راہ کرتے ہیں، منزلیں ان کو راہ دیتی ہیں
اہل ہمت کے آشیانوں کو، بجلیاں بھی پناہ دیتی ہیں