داعشی جرائم کی تحقیقات اورمرزاطاہرکے دامادکاتقرر
علی ہلال
مغربی قوتوں نے عالم اسلام کے اہم ممالک میں دہشت گرد تنظیموں کی آڑ میں اپنے قادیانی ایجنٹوں کو پھیلانا شروع کردیاہے ۔ اہم اسلامی ممالک میں دہشت گردتنظیموں کے جرائم کی تحقیقات کرنے کے بہانے سے مغربی ممالک میں رہنے والے قادیانی پروفیشلز کو کئی اہم اورحساس ذمہ داریاں سونپے جانے کاانکشاف ہواہے ۔اس سلسلے میں نمایاں واقعہ قادیانی گروہ کے چوتھے’’ خلیفہ‘‘ مرزاطاہر احمد کے داما د کو اَقوام متحدہ کی جانب سے عراق میں دہشت گردتنظیم داعش کے جرائم کی تحقیقاتی کمیشن کا سربراہ بنانے کا فیصلہ ہے ۔عالمی ادارے کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرش نے رواں سال عراق میں داعش کی بربادی سے متعلق معلومات وشواہد جمع کرنے کے لئے تشکیل دیے جانے والے کمیشن پرکریم احمد خان نامی قادیانی ماہر قانون کو مقررکردیا ہے ۔31مئی کو تعینات ہونے والے کریم احمد خان شمالی آئرلینڈ میں سرکاری وکیل کی حیثیت سے کام کررہے ہیں ۔ گزشتہ پچیس برس سے برطانیہ میں ماہر قانون کی حیثیت سے کام کرنے والے کریم احمد خان کے بارے میں مغربی میڈیا نے بلند وبانگ دعوے کئے ہیں ۔ مغربی میڈیا کے مطابق کریم احمد خان ایک ماہر قانون اور جرائم کی تحقیقات کے میدان میں عالمی شہرت کے حامل ہیں ۔ وہ عالمی سطح پر مشہور فوجداری عدالتوں کے لئے کام کرتے رہے ہیں ۔وہ عالمی فوجداری عدالت میں پراسیکیوٹر کے طورپر بھی کام کرچکے ہیں ۔
تاہم دوسری جانب کریم احمد خان سے اختلاف رکھنے والے ذرائع کا کہناہے کہ احمدکریم خان کی قابلیت کوئی غیرمعمولی نہیں ہے ۔وہ لندن یونیورسٹی سے منسلک کنگ کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کئے ہوئے ہیں ۔ ان کے مقابلے میں برطانیہ میں دیگر مسلمان ماہرین قانون موجودہیں۔جن کے پاس ان سے بڑی جامعات کی ڈگریوں کے ساتھ اچھا تجربہ بھی ہے ۔ تاہم انہیں بوجوہ نظراندازکرکے ہردفعہ کریم احمد خان کو ایسے ممالک میں تحقیقاتی کمیشن کی سربراہی دی جاتی ہے جہاں مسلمانوں کے خلاف منظم انداز سے نسل کشی ہوئی ہو ۔ اب تک متعددممالک میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعدتحقیقات کے لئے بنائے جانے والے کمیشن کی سربراہی عالمی ادارے کی جانب سے کریم احمدخان کو دینا ایک پراسرار معاملہ ہے ،کیونکہ جس طرح کریم احمد خان کی قانونی مہارت کی شہرت ہے، اس کے برعکس وہ قتل عام کانشانہ بننے والے مسلمانوں کوانصاف دلانے میں ناکام رہے ہیں ۔اسی ناکامی نے ان کی شخصیت کو خاصا متنازع بنادیا ہے اوران پر شکوک وشبہات کااظہارکیا جارہاہے۔
خیال ظاہر کیا جارہاہے کہ کریم احمدخان کو عراق میں داعش کے جرائم سے متعلق تحقیقات کرنے والے کمیشن کاسربراہ بنانے میں سازش کے ساتھ ساتھ قادیانی گروپ کی سفارش بھی شامل ہے۔مرزاطاہر کے داماد ہونے کے ناطے کریم احمد خان کو برطانیہ اوریورپ کی قادیانی کمیونٹی کی غیرمعمولی حمایت حاصل ہے ۔ وہ برطانیہ میں قادیانی گروپ کو تعاون فراہم کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔جس کے باعث وہ قادیانی جماعت میں غیرمعمولی اثرورسوخ کے حامل ہیں۔ قادیانی گروپ اوربرطانیہ دونوں کے ایک دوسرے سے وابستہ مفادات کے پیش نظر ایک دوسرے کے کام آتے ہیں ۔
کریم احمدخان پر اعتراض کرنے والے ذرائع سے جب یہ سوال کیاگیا کہ وہ کیسے ایک قابل ماہر قانون پرشک وشبہ کااظہارکررہے ہیں تواس کے جواب میں ان ذرائع کا کہناتھا کہ کریم احمدخان کا ماضی اس حوالے سے انتہائی متنازع ہے ۔انہیں داعش کے جرائم کی تحقیقات کے لئے بنائے جانے والے کمیشن کا سربراہ بنانے سے قبل متعدددیگر ممالک میں بھی اس نوعیت کی مہمات پر بھیجا گیا ہے ، میانمار ، بوسنیا ، مشرقی تیمور ،یوگوسلاویہ ،دارفور،کوسوو، سیرالیون اورکانگومیں نسلی بنیادوں پرہونے والے قتل عام کی تحقیقات میں کریم احمد خان کو ذمہ داریاں دی جاتی رہی ہیں، لیکن وہ تقریباً اس حوالے سے ناکام رہے ہیں اورمظلوموں کو کوئی خاص انصاف دلانے میں ان کا کوئی کردار سامنے نہیں آیا ۔ان کے اس مبہم کردار کے باعث ان پر مخصوص اداروں کیلئے کام کرنے کا شک ظاہر کیا جارہاہے ۔
کریم احمدخان کو دوسال قبل اُس وقت بھی تنقید کاسامنا کرنا پڑا تھا، جب وہ عالمی فوجداری عدالت میں وسطی جمہوری افریقہ میں 2002ء تا2003ء کے درمیان ہونے والے قتل عام اورعورتوں کے جنسی استحصال میں ملوث جان بیرا بیمبا کونگولی کے وکیل بن گئے ۔نومبر 2010ء میں شروع ہونے والے اس مقدمے میں احمدکریم خان اس سفاک شخص کے مسیحابن گئے اوراسے بالآخربری کرادیا، جسے وسطی جمہوری افریقہ میں مسلمانوں کے قتل عام کے سبب قصائی کہاجاتاتھا ۔2015ء میں کریم احمد خان نے لبنان میں ایک متنازع ٹی وی چینل کا دفاع کرکے اسے عالمی عدالت سے اجازت دلوائی تھی،حالانکہ یہی چینل ختم نبوت سے متعلق انتہائی متنازع پروگرام چلاتارہا اور شانِ رسالت میں گستاخی کا مرتکب قرارپایا تھا۔کریم احمدخان کے اس متنازع کردار کو سامنے رکھتے ہوئے یہ حقیقت کھل کرسامنے آتی ہے کہ وہ صرف عالمی قوتوں کے آلہ کارہیں اور ظلم کا نشانہ بننے والوں کوانصاف دلانے میں ان کا کوئی کردارنہیں ہے۔ (روزنامہ’’اوصاف‘‘،اسلام آباد۔6؍جولائی2018ء)