تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

میدانِ اُحد

شاہ بلیغ الدین رحمۃ اﷲ علیہ
ہجرت کا تیسرا سال ہے۔ ۷؍ شوّال کی صبح کو سورج طلوع ہوا تو ایک طرف سے اﷲ اکبر کا نعرہ بلند ہوا اور دوسری طرف سے اُعْلُ الْہُبَلْ( ۱)کی صدائیں اٹھیں اور دیوی دیوتاؤں کے جے کارے بھرے گئے۔
مدینہ منوّرہ کے شمال میں کوئی تین میل ادھر پہاڑی کے دامن میں مسلمان اور قریش پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں۔(۲) یہی میدانِ اُحد ہے۔
ابو سفیان اور عکرمہ تُلے بیٹھے ہیں کہ آج مسلمانوں سے جنگِ بدر کا بدلہ لیں گے۔ کوئی انہیں دیکھے تو سمجھے کہ خون کے پیاسے کسے کہتے ہیں۔ زندگی کے ہر اثاثے پھونک کر وہ میدانِ جنگ میں آئے ہیں۔ اور تو اور اُن کی عورتیں تک گھروں سے نکل آئی ہیں۔ ابو سفیان کی بیوی، خالد بن ولید کی بہن، عَمرو بن عاص کی شریکِ حیات اور مصعب بن عمیر کی ماں! قریش کے بڑے گھرانوں کی کون بہو بیٹی ہے جو آج یہاں نہیں! پندرہ عماریوں میں بھر کر ان کا قافلہ آیا ہے۔ (۳)ان کے سامنے بھلا اُن کے مردوں کے قدم پلٹ سکیں گے؟
یہ رجز پڑھتی ہوئی اپنے مردوں کو دیکھ رہی ہیں( ۴) اِن کی غیرتوں کو للکار رہی ہیں۔ ایک سے ایک آتشیں بول ہے……
ہم ہیں ستارہ زادیاں
افلاک کی شہزادیاں
دکھلاؤ گے جرأت اگر

-لاؤ گے انسانوں کے سر
%دیں گی مبارکبادیاں
افلاک کی شہزادیاں(۵)
میدانِ جنگ میں کون ہو گا جس کی غیرت ان اشعار کو سن کر جاگ نہ پڑے! قریش تو ویسے ہی جوشِ انتقام میں اندھے ہو رہے ہیں۔
اِدھر مسلمان ہیں عجب بے سرو سامانی کا عالم ہے۔ منافق عبداﷲ ساتھ چھوڑ کر جا چکا ہے اس کے تین سو ساتھی بھی اسلامی لشکر سے ٹوٹ چکے ہیں۔ مشکل سے سات سو جانباز اپنے آقائے نامدار صلی اﷲ علیہ وسلم کے جلو میں ہیں۔ کوئی ان خدا کے نام لیواؤں پر نظر ڈالے! صرف دو گھوڑے ان کے پاس ہیں اُدھر سات سو گھوڑے اور تین ہزار اُونٹ! اِدھر صرف سو زِرہ پوش، اُدھر سات سو آہن پیکر، فولاد شکن! اِدھر سَمُرہ(۶) اور رافع (۷) جیسے لڑکے اُدھر قریش کے تین ہزار سورما!
(۸) دن چڑھا، نائے کرّائے اور دف برّائے۔ دونوں فوجیں ڈٹ کر کھڑی ہو گئیں، قریش کا کیا انتظام و انصرام ہے! سیدھے بازو خالد بن ولید کمان کر رہے ہیں اور الٹے ہاتھ عِکرمہ! درمیان میں سردارِ لشکر ابو سفیان ہے، سوار صفوان کے تحت ہیں، تیر انداز ابنِ ربیعہ کے! طلحہ کے ہاتھ میں لات و ہُبُل کا پھریرا ہے۔
حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُحد کی پہاڑی کے بالکل آگے اپنے جاں نثاروں کو صف بستہ کیا۔ (۹)حضرت مصعب بن عمیر کے ہاتھوں میں مسلمانوں کا جنگی پرچم لہرا رہا ہے۔ حضرت زبیر فوج کے سالار ہیں۔(۱۰)بے زرہ سپاہیوں کا دستہ حضرت امیر حمزہ کے پاس ہے اور تیر اندازوں کی ایک ٹکڑی جناب عبداﷲ بن جُبیر کی نگرانی میں ہے۔ عَیْنَیْنْ پر مامور یہ دلاور یہودیوں کے ناگہانی حملے سے بھی مسلمانوں کی حفاظت کریں گے۔ یہودی میدانِ جنگ میں تو نہیں آس پاس کی بستیوں میں رہتے ہیں لیکن میدانِ جنگ میں کب کیا ہو جائے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ انہوں نے پہلے ہی مدینے میں خوف ناک خبریں پھیلا رکھی ہیں۔ اس لیے مجاہدِ اعظم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہر بات کا خیال رکھا ہے۔ یہی تیر انداز اسلامی فوج کے پچھلے راستے کی حفاظت بھی کریں گے۔
طبلِ جنگ پر چوٹ پڑی، لڑائی شروع ہوئی۔ دونوں طرف سے جیالے دشمنوں کو للکارتے نکلے۔ اُدھر سے ابو عامر، طلحہ، عثمان اور ابو سعید آئے۔ اِدھر سے حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ آگے بڑھے۔ وہ نعرے لگے کہ آسمان تھرّا اُٹھا۔ سب کو داؤ رواں تھے۔ ہر ایک گھات میں طاق تھا۔ یوں تلواریں چمکیں جیسے کوندے لپکے!
تھوڑی دیر میں ابو عامر پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑا ہوا اور طلحہ، عثمان اور ابو سعید کی لاشیں زمین پر پڑی تڑپنے لگیں۔ قریشی جرّاروں کا خون کھول گیا! پلک جھپکتے مسلمانوں کے قلبِ لشکر میں جا کر دُھواں دھار ہو گئے۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک تلوار تھی۔ آپ کبھی اسے دیکھتے کبھی اپنے فدائیوں کو دیکھتے۔ جس جاں نثار نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ عالم دیکھا شوق اور اضطراب کا ایک طوفان اسے لے ڈوبا۔ اتنے میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا:(۱۱)
’’کوئی ہے جو اسے مجھ سے لے اور اس کا حق ادا کرے‘‘
اﷲ اﷲ یہ سعادت!
سبھی آگے بڑھنے کو تھے کہ حضرت زبیر رضی اﷲ عنہ نے پہل کی۔ اسلامی فوج کا سالار آگے بڑھا تو دوسرے رک گئے لیکن حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے توجہ نہ فرمائی، پھر ارشاد ہوا:
’’کون اس تلوار کو اس کے حق کے لیے لیتا ہے؟‘‘
حضرت زبیر رضی اﷲ عنہ پھر آگے بڑھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پھر دستِ مبارک روک لیا۔ جب تیسری مرتبہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان سے یہی الفاظ نکلے تو جاں نثاروں کے دل مچل گئے۔ بنی ساعدہ کے دلاور ابو دُجانہ رضی اﷲ عنہ سے رہا نہ گیا۔ تڑپ کر آگے بڑھے۔ عرض کیا:
’’یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم، میں اس کا حق ادا کروں گا۔ آپ حکم فرمائیں کہ اس کا حق کیا ہے؟(۱۲)
ارشاد ہوا:
’’کوئی مسلمان اس سے مارا نہ جائے اور کوئی کافر اس سے پچنے نہ پائے۔ ‘‘
ابو دُجانہ رضی اﷲ عنہ نے سرِ تسلیم خم کیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے تلوار عنایت فرمائی تو دلاور نہال ہو گیا۔ بے اختیار رجز کے بول زبان پر آ گئے: (۱۳)
’’یہ اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی تلوار ہے۔ یہ رک نہیں سکتی۔ میں تھم نہیں سکتا۔ دشمن کی آخری صف تک میں ایک ایک کا سینہ چیر کر رکھ دوں گا۔‘‘
عرب میں ابو دُجانہ کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ بڑے بڑے سُورما ان کا نام سن کر پیٹھ پھیر دیتے تھے۔(۱۴) آج تو کچھ پوچھنا ہی نہ تھا، وہ اپنے مقدر پر نازاں تھے۔ لڑائی کو نکلے تو اس شان سے کہ ایک سُرخ رومال سر پر باندھ لیا۔ سینہ تانے گردن اکڑائے بڑی آن بان سے قدم آگے بڑھانے لگے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے تلوار عنایت فرمائی تھی تو پاؤں ہی زمین پر نہ ٹکتے تھے۔ ابو دُجانہ رضی اﷲ عنہ کا یہ حال دیکھا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’خدا کو یہ چال پسند نہیں، لیکن اس وقت یہ بہت خوب ہے۔‘‘ (۱۵)
ابو دُجانہ رضی اﷲ عنہ کو آج کون روک سکتا تھا۔ دشمنوں کی صفوں میں کہرام مچ گیا۔ جس پر ان کی تلوار اٹھی وہ زمین کا ہو رہا۔ ایک سرے سے نکلے تو دوسرے سرے تک درّاتے چلے گئے۔ صفیں الٹتے دشمن کے عقب میں پہنچے تو دیکھا کوئی بڑے جوش اور جذبے سے اپنے ساتھیوں کو للکار رہا ہے۔ ابو دُجانہ رضی اﷲ عنہ اس پر جھپٹے۔ تلوار ہوا میں لہرائی تو بَرق سی چمک گئی۔ دشمن پلٹا، دیکھا موت سر پر کھیل رہی ہے تو آنکھوں میں آنسو بھر لائے۔ ہاتھ جوڑ کر کہا:
’’میں ہوں ہند! مجھ پر رحم کرو۔‘‘
ہند کا نام سن کر ابو دُجانہ رضی اﷲ عنہ کا خون جوش کھا گیا لیکن وہ اُلٹے پاؤں پھر گئے۔ بہادر نے کہا:
’’رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دی ہوئی تلوار عورت پر نہیں اٹھے گی!
اس مقدّس تلوار کو پاک رکھنا ہی بہتر ہے۔‘‘ (۱۶)
ابو دُجانہ رضی اﷲ عنہ صفوں کو چیرتے آگے بڑھ رہے تھے کہ دیکھا دُور دشمن سرورِ کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ دوڑ کر پہنچے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر تیروں کی بارش ہو رہی تھی۔ ابنِ قمیّہ آگے بڑھا چلا آ رہا تھا۔ خود ڈھال بن کر کھڑے ہو گئے۔ تیر آ آ کر پیٹھ لہولہان کر رہے تھے، مگر یہاں تو جان و تن وار دینے کی دُھن سوار تھی۔ (۱۷)
جنگ ختم ہوئی۔ حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم گھر تشریف لے گئے۔ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا حاضر تھیں۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے اپنی تلوار اُنہیں دی، فرمایا:
’’اس کا خون دھو ڈالو! آج اس نے اپنا حق ادا کر دیا‘‘
حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے سُنا تو ارشاد فرمایا:
’’صرف تمہاری تلوار ہی نے نہیں ابو دُجانہ کی تلوار نے بھی آج اپنا حق ادا کر دیا‘‘ (۱۸)
اِدھر ابو دُجانہ رضی اﷲ عنہ جنہیں شہادت کی تمنا رہ گئی تھی، زخموں سے تڑپ تڑپ کر کہہ رہے تھے۔
ع…… حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
٭٭٭

حواشی
(۱) ہُبل اونچار ہے (۲) مکّہ معظمہ اور مدینہ منوّرہ کا فاصلہ ۲۱۲ میل یا ۲۵۰ میل بتایا جاتا ہے۔ راستے مختلف تھے۔ فاصلہ اس سے کم اور اس سے زیادہ بھی ممکن ہے۔ ہجرت کے وقت جناب رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم نے سب سے کم فاصلے کا راستہ اختیار فرمایا تھا لیکن یہ کٹھن راستہ تھا۔ اس زمانے میں معروف راستے چار تھے جن میں سے تین رابغ سے ہو کر نکلتے تھے۔ (۳) واقد ی۔ ابنِ سعد (احد) اور مسعودی تنبیہ و اشراف (۴) طبری (۵) شاہنامۂ اسلام (حفیظ جالندھری) (۶) سَمُرہ بن جُندب ۱۵ برس کی عمر تھی (۷) رافع بن خُدَیْج۔ یہ بھی ۱۵ برس کے تھے (۸)ہفتہ ۷؍ شوّال ۳ھ مطابق ۲۳؍ مارچ ۶۲۵ء۔ ابن اسحٰق نے ۱۵؍ شوّال تاریخِ جنگ لکھی ہے (۹) احد کے جنوبی رُخ ایک قوس کی سی صورت بن گئی ہے یہیں شمالی سرے پر ایک پتلا سا راستہ ہے۔ اس کے بعد کھلا میدان آتا ہے۔ یہ بڑی محفوظ جگہ تھی۔ یہاں ہادی برحق صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی فوج کو صف آرا کیا۔ قریش واقدی کے بیان کے بموجب زغانتہ میں اُترے۔ ابن اسحٰق کا بیان ہے کہ وادی قناۃ کے کنارے انہوں نے اپنی فوج کو ترتیب دیا۔ بعض روایتوں کی رو سے ان کی فوج پانچ ہزار پر مشتمل تھی عام طور پر تین ہزار تعداد بتائی جاتی ہے (۱۰) زرہ پوشوں کے سالار۔ زرہ پوش عموماً سوار ہوتے لیکن احد میں جس دستے کی حضرت زبیر نے قیادت کی وہ پیدل تھا۔ زرہ اور خَود لوہے کے ہوتے تھے۔ اس دور میں چمڑے کی زرہوں اور چمڑے کی ڈھالوں کا بھی رواج تھا۔ خَود میں گِدھ یا شتر مرغ کے پَر لگائے جاتے تھے۔ پیدل فوج بھی زرہ پہنتی۔ اس کا عام لباس گھٹنوں تک کرتا یا عبا، پاجامے اور جوتے ہوتے۔ دشمن کے سواردستے کو نیزہ باز روکتے۔ فتح کا دارو مدار تیر اندازں پر ہوتا (۱۱)اصابہ جلد ہفتم، ص: ۵۷، طبری، ابوبکر بن ابی شیبہ (مسلم باب فضائل صحابہ) (۱۲) ابنِ اثیر لکھتے ہیں، حضرت ابو دُجانہ کا شمار صاحبِ فضل صحابہ میں تھا۔ بڑے نڈر اور بلا کے دلیر تھے۔ عہدِ نبوی کے تمام غزوات میں شریک رہے اور احد میں ان کی فدائیت اور جان نثاری یادگار رہ گئی، جنگِ یمامہ میں بھی انہوں نے بے نظیر شجاعت کا ثبوت دیا۔ مسیلمہ ایک باغ میں قلعہ بند ہو کر اپنی فوجوں کو لڑا رہا تھا، جب دشمن پر دَر ہونے کی کوئی صورت نہ رہی تو حضرت ابو دُجانہ رضی اﷲ عنہ نے کہا کہ مجھے اٹھا کر باغ کی دیوار کے اندر پھینک دو۔ اس طرح ان کا پیر ٹوٹ گیا مگر برابر لڑتے رہے حتیٰ کہ شہید ہو گئے۔ اﷲ نے اس لڑائی میں مسلمانوں کو فتح دی، ابودُجانہ کنیت تھی، نام سَمَّاک۔ حضورِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عُتبہ بن غزوان سے ان کا بھائی چارہ کرا دیا تھا، حضرت سعد بن عبادہ ان کے چچا زاد بھائی تھے۔ ابو دُجانہ ہجرت سے پہلے مسلمان ہوئے (۱۳) طبری (عہدِ رسالت۔ تذکرۂ احد) رجز کے جو شعر اس موقع پر ابو دُجانہ رضی اﷲ عنہ کی زبان سے نکلے ان کا مفہوم کچھ یوں تھا۔ ارشاد ہوا: تلوار کا حق کون ادا کرے گا؟ میں نے کہا: میں جو ہوں حق کا بندہ‘‘ ارشادہوا: ’’یہ سیف اﷲ ہے‘‘ عرض کیا: ’’حقّا عطیۂ رسول اﷲ ہے! یہ رب العزت کی دین ہے مالک الملک کا تحفہ ہے‘‘ ماوردی (احکام السلطانیہ۔ باب چہارم) گلِ یوم (مغازی ابنِ اسحٰق۔ مطبع جامعہ آکسفرڈ کراچی، ۱۹۶۷ء صفحہ: ۳۷۳) (۱۴) ابنِ سعد (غزوۂ اُحد) (۱۵) عیون الاثر (۱۶) ابنِ اسحٰق، طبری (۱۷) عیون الاثر۔ سیرتِ ابنِ ہشام (۱۸) طبری

دنیا فانی ہے اور آخرت غیر فانی، اس لیے آخرت کے طالب بنو
حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص دنیا کو اپنا محبوب ومطلوب بنائے گا وہ اپنی آخرت کا ضرور نقصان کرے گا، اور جو کوئی آخرت کو محبوب بنائے گا وہ اپنی دنیا کا ضرور نقصان کرے گا، پس (جب دنیا وآخرت میں سے ایک کومحبوب بنانے سے دوسرے کا نقصان برداشت کرنا لازم اور ناگزیر ہے تو عقل و دانش کا تقاضہ یہی ہے کہ) فنا ہوجانے والی دنیا کے مقابلہ میں باقی رہنے والی آخرت اختیار کرو۔ (مسند احمد، شعب الایمان بیہقی)
تشریح: ظاہر ہے کہ جو شخص دنیا کو اپنا محبوب ومطلوب بنائے گا تو اس کی اصل فکر وسعی دنیا ہی کے واسطے ہوگی اور آخرت کو یا تو وہ بالکل ہی پس پشت ڈال دے گا یا اسکے لیے بہت کم جدوجہد کرے گا، جس کا نتیجہ بہر حال آخرت کا خسارہ ہوگا۔
اسی طرح جو شخص آخرت کو محبوب ومطلوب بنائے گا اس کی اصلی سعی وکوشش آخرت کے لیے ہوگی اور وہ ایک دنیا پرست کی طرح دنیا کے لیے جدوجہد نہیں کر سکے گا جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ و ہ دنیا زیادہ نہ سمیٹ سکے گا پس صاحب ایمان کو چاہیے کہ وہ اپنی محبت اور چاہت کے لیے آخرت کو منتخب کرے جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہے اور دنیا تو بس چند روز میں فنا ہوجانے والی ہے۔ (معارف الحدیث، ج ۲، ص ۵۱)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.