تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

عید الفطر ……صدقۃ الفطر(فضائل ،احکام ،مسائل)

جانشین امیر شریعت حضرت مولانا سیدابو معاویہ ابوذر بخاری رحمتہ اﷲ علیہ

تمہید:
عید الفطر بھی دیگر امتیازات دینیہ کی طرح ایک عظیم اسلامی شعار ،ایک دوررس اخلاقی نصاب ،ایک مسنون تفریح اور قومی مسرت اور خوشی کامبارک دن ہے، جسے دنیاوالوں کے معمولات کے بالعکس اﷲ نے بجائے ایک تہوار کے عبادت کی اہمیت برقراررکھتے ہوئے اس میں بہ قدر ضر ورت تفریح کی آمیزش کرکے اسلام کی قوت وعظمت کو دوام بخش دیا ہے۔
ہر مرغوب و محبوب شے کے حصول اور عزیز مقصد کے انجام پانے پر جب فطرتاً خوشی نصیب ہوتو دستور ہے کہ اس کے اظہار کی کوئی نہ کوئی صورت اور تدبیر ضرور اختیار کی جاتی ہے ۔ اسلام نے بھی دین فطرت ہونے کی وجہ سے اس معصوم انسانی جذبہ کی پوری قدر کی اور دین فطرت کی قائل امت مرحومہ کی دلداری و عزت افزائی فرمائی ۔ چنانچہ رمضان المبارک کے پاکیزہ مہینے میں مختلف قسم کی شبانہ روز عبادت و ریاضت خوش اسلوبی سے مکمل کرنے پر یکم شوال کے دن چند خاص اعمال پر مشتمل ایک مظاہرہ مسرت و تفریح قانوناً مقرر کردیا ہے ۔
تحفہ عبودیت:
اپنی عزت و وجاہت کے لیے نہیں بلکہ حصو ل اجر و ثواب کی نیت کے ساتھ سچے دل سے دیئے ہوئے عطیہ کو صدقہ کہتے ہیں ۔ اور ’’فطر‘‘ کا معنی ہے ٹوٹنا ، کھلنا ، جدا ہونا ، تو صدقۃ الفطر کا مطلب ہوا۔ ماہ صیام کے جدا ہونے ، روزہ کا عمل ٹوٹنے نیز کھانے پینے اور میاں بیوی کے میل جول کی بندش کھلنے پراﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں خلوص قلب سے پیش کیا ہوا ’’ہدیہ تشکر ‘‘
ہر چھوٹا بڑے کے لیے اور ہر ممنون اپنے محسن و مربیّ اور مرکز عقیدت تک کوئی تحفہ اور عطیہ کسی ذریعہ اور واسطہ کے ساتھ ہی پہنچانے جاتا ہے اور اس عمل کو اپنا فطری اور اخلاقی فرض ، موجب سعادت اور باعثِ خیر و برکت عمل یقین کرتا ہے ۔ بعینہٖ اسی طرح فرماں بردار مخلوق جب خالق مطلق اور رب رحیم و کریم کے حضور اپنی بندگی اور توفیق عبادت و ریاضت کی نعمت نصیب ہونے پر اظہار سرور و فرحت کے لیے جبہہ سائی کا ارادہ کرے تو فقراء و مساکین کا معروف طبقہ کہ جن لوگوں کی حالتِ عجز و احتیاج ، پر وردگار کو بڑی محبوب ہے، ان کو اپنا وکیل اور نمائندہ بنا کر بارگاہ صمدیہ کے مناسب ہدیہ نیاز پیش کرنے پر فطرتاً اور قانوناً مامورو مجبور ہوجاتی ہے ، یہ حاصل ہے ، صدقۃ الفطر کی قانونی رسم اور شرعی ضابطہ کے ادا ء و تکمیل کا ۔
خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنھیں تازندگی اس روحانی فصل بہارسے دل و دماغ اور جسم و جان کے لیے کسب فیض و نور کا موقع ملتا ہے ۔ ورزقنا اﷲ ابداً ……آمین ! ہم سب کو اس نعمت عظمیٰ کی قدر کرنی چاہیے ۔
زکوٰۃ اور صدقات واجبہ کا نصاب:
ہر آزاد ، عاقل ،بالغ مسلم جوگھر یلو ضروریات کے علاوہ ساڑھے باون تولے چاندی یا اس کی قیمت کے نقد روپیہ یا سونے یا اتنے وزن کے چاندی کے زیور یا اتنی قیمت کے سامان یا جائیداد یا تجارتی مال کا مالک ہو یا اس کے پاس موجود تمام اشیاء میں سے بعض یا سب کا مجموعہ مل کر ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر ہوجائے یا پھر وہ بجائے چاندی کے ساڑھے سات تولے سونے یا اتنے وزن کے سونے کے زیورات کا مالک ہوتو اس پر زکوٰۃ کی طرح عید الفطر کے دن نماز کا وقت آتے ہی صدقۃ الفطر واجب ہوجاتا ہے ۔ مگر اتنی مالیت پر زکوٰۃ کی طرح سال کاگزرنا ضروری نہیں۔
صدقۂ فطر:
ہر میاں بیوی پر صرف اپنی ذات کی طرف سے اوراپنے بے مال غیر بالغ یا بالغ مگر مجنون اولاد نیزاپنے نوکر اور خادمہ کی طرف سے صدقہ دینا واجب ہے ۔ مال دار بالغ اولاد اور باقی گھر والے اپنا صدقہ خود ادا کریں ۔ البتہ ان کا وکیل بن کر صدقہ و زکوٰۃ وغیرہ ادا کرنا درست ہے اور اگر کسی شخص نے بغیر ایک دوسرے کی اجازت کے ازخود ہی اس کی طرف سے دے دیاتو وہ ’’صدقہ نفلیہ ‘‘ بن جائے گا اور اصل آدمی پر صدقۃ الفطر بدستور واجب رہے گا ۔ اس کو مستقلاً ادا کرنا ضروری ہے۔
عورت شریعت کے مطابق چونکہ اکثر احکام میں مرد کی طرح مستقل شخصیت و حیثیت کی مالک ہے ۔ چنانچہ نقد اور غیر نقدی مال وغیرہ کے جمع اور خرچ میں اس کی ملکیت و حیثیت بھی مستقل ہے ۔ لہٰذا س پر صرف اپنی ذات کی طرف سے صدقہ دینا واجب ہے ، اپنے شوہر اور اولاد کی طرف سے نہیں ! اور اگر گھر میں صرف اس کے خاوند نے صدقہ ادا کیا تو اس سے عورت پر واجب شدہ صدقہ ادا نہیں ہوگا بلکہ اسے بہر حال اپنی زکوٰۃ ،عشراور قربانی کی طرح اپنا یہ صدقۃ الفطر بھی خود ہی براہ راست لازماً ادا کرنا پڑے گا ورنہ وہ گناہ گا ر ہوگی ۔
صدقہ فطر میں پونے دو کلو گندم (احتیاطاًدوکلو )یا گندم کاآٹا یا ساڑھے تین کلو جَو (احتیاطاً چارکلو)یا جَو کا آٹا اور ستو یاچار کلو کھجور یا کشمش یا ان کی قیمت حاضر نرخ کے مطابق دینا واجب ہے ۔فقراء کی ضرورت کے لحاظ سے نقد پیسے دینا اولیٰ اور بہترہے تاکہ وہ غریب خود بھی کچھ خرید کر عید کی خوشی میں براہ راست حصہ دار بن سکے۔
نمازِ عید سے قبل صدقہ فطر اداکرنا افضل اور مستحب ہے اور عید سے ایک دوروز قبل بھی اداکرنا جائز ہے ۔
صدقہ فطر کے مستحق، غیر مستحق :
رشتہ داروں میں حقیقی دادا،دادی،ماں ، باپ،نانا،نانی،بیٹا،بیٹی ،پوتا،پوتی ،نواسہ ،نواسی میں سے کسی کو بھی صدقہ فطر اور زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔ایسے ہی شوہر ،بیوی ایک دوسرے کو صدقہ فطر نہیں دے سکتے ۔اس کے علاوہ دیگر محتاج ومسکین عزیز واقارب میں سے سوتیلے دادا، دادی ،سوتیلے ماں، باپ ،حقیقی چچا ،چچی ،پھوپھا،پھوپھی ،ماموں ،ممانی،خالو،خالہ ،حقیقی بھائی ، بہن ،بھتیجا ،بھتیجی ،بھانجا ،بھانجی ،اپنے سسر ،ساس،سالہ،سالی اور بہنوئی سب کو زکوٰۃو عشر کی طرح صدقۃ الفطر دینا جائز ہے ۔
سادات قریش کی پانچ شاخوں کو صدقہ فطر سمیت تمام صدقات واجبہ ، زکوٰۃ و عشر دینا جائز نہیں ۔
حضور اکے ارشاد کے مطابق ’’تمام صدقات ،محمد اور آل محمد اکے لیے حلال نہیں ۔ سادات بنو ہاشم کی پانچ شاخیں یہ ہیں (۱)آل علی (۲)آل عباس (۳) آ ل جعفر (۴) آل عقیل (۵)آل حارث (حضور اکے سب سے بڑے سوتیلے چچا حارث بن عبدالمطلب کی اولاد)
عید کے دن مسنون اعمال :
(۱)شرع کے موافق اپنی آرائش کرنا (۲)غسل کرنا(۳) مسواک کرنا(۴) حسب استطاعت کپڑے پہننا (۵) خوشبو لگانا (۶)صبح کو جلدی اٹھنا (۷) عیدگاہ میں جلدی جانا(۸) عید گاہ جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز کھانا کھجوریا چھوارے کے طاق دانے کھانا مستحب ہے(۹)نماز عید سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا (۱۰)عید کی نماز عید گاہ میں پڑھنا (بہ عذر شرعی شہر کی مسجد میں پڑھنا ) (۱۱)ایک راستہ سے عید گاہ جانا اور دوسرے راستہ سے واپس آنا(۱۲)عید گاہ جاتے ہوئے راستہ میں اللّٰہ اکبر ، لاالہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر ، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد آہستہ آہستہ کہتے ہوئے جانا ۔( سواری کے بغیر پیدل عیدگاہ جانا)
نمازِ عید کے احکام:
نماز عید کا وقت طلوع آفتاب یعنی اشراق کی نماز کے وقت کے ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے ۔ اور زوال سے پہلے تک رہتا ہے ۔ نماز عید سے قبل کوئی بھی نفل نماز گھر یا مسجد میں پڑھنا مکروہ ہے ۔ یہ حکم عورتوں اور ان لوگوں کے لیے بھی ہے جو کسی وجہ سے نماز عید نہ پڑھ سکیں ۔ نماز عید سے پہلے نہ اذان کہی جاتی ہے ، نہ اقامت ۔ یہ خلاف سنت اور بدعت ہے ۔
طریقہ نماز :
دورکعت نمازعید واجب مع چھے تکبیرات زائد ہ کی نیت کرکے امام کے ساتھ پہلی تکبیر پر ہاتھ باندھ کر سبحانک اللّٰھم آخر تک پڑھ لیں ۔ پھر دوسری اور تیسری تکبیر پر ہاتھ اٹھا کر چھوڑدیں اور چوتھی تکبیر پر ہاتھ باندھ لیں ، اب امام سورۃ فاتحہ اور کوئی دوسری سورۃ پڑھ کر پہلی رکعت مکمل کرے گا ۔ دوسری رکعت میں امام جب فاتحہ اور کوئی سورۃ پڑھ لے تو اس کے ساتھ تینوں تکبیرات میں ہاتھ اٹھا کر چھوڑ دیں اورچوتھی تکبیر پر بغیر ہاتھ اٹھائے رکوع کرلیں ۔ پھر باقی ارکان سمیت نماز پوری کرلیں ۔ بعد از نماز حسبِ دستور دعا بھی مانگ لیں ۔
خطبات ِ عید:
نمازکے بعد دو خطبات سنت ہیں ، انہیں خاموشی اور توجہ سے سننا چاہیے ۔
جبری معانقہ و مصافحہ :
خطبہ کے بعد امام کو مصلّیٰ سے ہٹ کر ایک طرف ہوجانا چاہیے تاکہ لوگ آسانی سے منتشر ہوجائیں ، اسی طرح نمازیوں کا ایک دوسرے کو یا امام کو سلام اور مصافحہ و معانقہ کرنا اور عید کی مبارک باد دینا بھی ثابت نہیں ۔ گردنیں پھلانگنا ، جلدی اور تیزی سے لپکنا اور جبری معانقہ و مصافحہ ، سلام اور مبارک باد دینے کی کوشش کرنا قطعاً غلط اور خلافِ سنت اور بدعت ہے ۔ اس غیر مسنون عمل سے بچنے کی سعی کرتے رہنا چاہیے ۔

رمضان کا آخری عشرہ

حدیث: ’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں ایسی عبادت ومحنت کرتے تھے جو دوسرے اوقات میں نہیں ہوتی تھی۔‘‘ (صحیح مسلم، مشکوٰۃ)
حدیث: ’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم لنگی مضبوط باندھ لیتے (یعنی کمرِ ہمت چست باندھ لیتے) خود بھی شب بیدار رہتے اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی بیدار رکھتے۔‘‘ (بخاری ومسلم، مشکوٰۃ)
احمد خلیل جازم ( تیسری قسط)
مسجد یمامہ پر 50سالہ قادیانی قبضے اورآزادی کی سرگزشت
مسجد یمامہ پر قادیانیوں کے قبضے کے ساتھ ساتھ خوشاب کی ڈسٹرکٹ انتظامیہ میں قادیانیوں کے ہمدردوں اور قادیانی افسران کی وجہ سے خوشاب میں روز بروز قادیانیت کا عفریت پھیلتا چلا جارہا تھا، اس حوالے سے تنویر الحسن کا کہنا تھا کہ ’’ خوشاب میں پہلے ضلعی پولیس آفیسر (ڈی پی او) ابوبکر خدا بخش نتھوکہ کو تعینات کیا گیا جوکہ قادیانی تھا۔اصل میں وہ قادیانیوں کے مفادات کی تحفظ کی غرض سے تعینات ہوا۔ اس دوران وزیر اعلیٰ پنجاب کے پاس ضلع کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کا وفد گیا کہ اس قادیانی کو یہاں سے تبدیل کیا جائے۔ وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ کیا تم نے اس کے پیچھے نمازیں پڑھنی ہیں؟ اس پر ممبران نے کہا کہ ایک ضلع قادیانی افسر کے رحم و کرم پر چھوڑنا بھی قرین انصاف نہیں۔وزیر اعلیٰ اس وقت تو چپ ہوگئے، لیکن تبادلے کے مطالبے کو تسلیم نہ کیا۔ابوبکر خدا بخش نتھوکہ قادیانی کی فرعونیت کا اندازہ لگائیں کہ محکمہ انہار کے ایکسین تک کی پٹائی کر ڈالی ۔ صوبہ بھر میں محکمہ انہار کے ملازمین نے احتجاج کیا،ابوبکر خدا بخش نتھوکہ معطل ہوا،وزیر اعلیٰ نے اسے بحال کیا، ترقی دی اور ڈی آئی جی بنادیا اور پھرابوبکر خدا بخش نتھوکہ کی جگہ وقاص نتھوکہ قادیانی کو خوشاب کا ڈی پی او لگادیا گیا، جو قادیانی ہونے کے ساتھ ساتھ ابوبکر خدا بخش نتھوکہ کا بھتیجا اور داماد بھی تھا۔ سالہاسال سے خوشاب ضلع کا ضلعی پولیس آفیسر یکے بعد دیگرے قادیانی چلا آرہا ہے۔ ان تمام تر باتوں کے باوجود وزیر اعلیٰ پنجاب کاابوبکر خدا بخش نتھوکہ کی ناز برداری کرنا، محض اس لیے تھا کہ ابوبکر خدا بخش نتھوکہ ان کا کلاس فیلو ہے۔جب ابوبکرخدابخش نتھوکہ کو ڈی پی او خوشاب تعینات کیا گیا تو قادیانی بہت خوش ہوئے کیونکہ خوشاب میں قادیانی کافی تعداد میں موجود ہیں۔اُس نے خوشاب کے اندر قادیانیت کو بڑی تقویت دی اور سب سے بڑی کرپشن یہ کی کہ خوشاب کے ساتھ ایٹمی پلانٹ کی زمین جو کروڑوں روپے مالیت کی تھی، اس کواَونے پونے داموں خریدواکر قادیانیوں کے حوالے کیا۔‘‘
اس موقع پر مفتی زاہد محمودنے بتایا کہ’’ابوبکر خدا بخش نتھوکہ نے قادیانیت کی اس قدر سپورٹ کی کہ مسجد یمامہ کو ہمیشہ کے لیے قادیانیت کے درس وتدریس اور ترویج کی خاطر اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے محکمہ مال میں پٹواریوں سے اسے مسجد کے بجائے ’ بیت الحمد‘ لکھوا دیا۔ وہ اصل ریکارڈ میں تو ٹمپرنگ نہیں کراسکتا تھا لیکن اراضی کی اصطلاح اب مجھے یاد نہیں ہے، شاید اسے ضمنی فرد وغیرہ کہتے ہیں، اس میں بیت الحمد لکھوایا، جب کہ ساٹھ کی حد بندیوں میں یہ مقبوضہ اسلام سے منسوب ہے ، اس وقت قادیانی خود کو مسلمان کہتے تھے، اس لیے انہوں نے اس جگہ کو اپنا مستقل ڈیرہ بنا لیا، کیوں کہ یہاں انہیں کوئی خوف نہ تھا، عام مسلمان اس قدر گہرائی میں نہیں جاتے تھے اور وہ ان کے ساتھ مل جل کر رہتے، خود کو مسلمان ظاہر کرتے تھے،لیکن اندرون خانہ انہوں نے اپنے مفادات کو پورا کرنا شروع کردیا تھا۔ یہ تو خدا جزائے خیر دے سید اطہر شاہ کو جنہوں نے اصل فرد نکلوایا اور پھر ہائی کورٹ میں جاکر اپیل کردی ، یہاں کے علماء کو اس بارے میں کچھ علم نہ تھا، جب شاہ صاحب کی وجہ سے صورت حال واضح ہوئی تو پھر علماء کرام بھی سید اطہر شاہ کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوگئے ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیت الحمد سے مسجد یمامہ تک تمام تر کاوش سید اطہر شاہ کی ہے ۔انہوں نے ہائی کورٹ میں چودھری غلام مصطفی ایڈووکیٹ کے توسط سے مقدمہ درج کیا اور اس کے حق میں آرڈرلیے۔‘‘
مسجد یمامہ سے متصل اس حجرے میں جہاں قادیانیوں کی بیٹھک ہوتی تھی وہاں اب سید اطہر شاہ بیٹھے ہوئے تھے اور بتارہے تھے کہ ’’ اس علاقے میں باقاعدہ قادیانی مبلغ آتے اور تبلیغی کام کرتے تھے، وہ ہر ہفتے آتے ،یہاں قادیانی مسجد میں سکرین پر عام مسلمانوں کوفلمیں دکھاتے، جس میں قادیانیت کی تبلیغ ہوتی تھی ، یہاں مرد اور عورتیں مل کر عبادت کرتے ، یہ کمرے جو آپ دیکھ رہے ہیں یہاں عورتیں موجود ہوتی تھی،اور پھر یہاں سے نکل کر مسجد کے اندر آکر مردوں کے ساتھ عبادت کرتیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ مسجدیمامہ کے سامنے ایک اور چھوٹی سے مسجد بھی بنی ہوئی ہے ، اس سے پہلے کہ مسجد یمامہ کی واگزاری کی مزید تفصیل بیان کی جائے، آپ کے اس سوال کا جواب دے دوں کہ اس مسجد کا یہاں کیا کام ہے ، دراصل قادیانیوں نے مسجد یمامہ کے عین سامنے جو گھر ہے ، انہیں پیسے دئیے اور کہا کہ تم لوگ اطہر شاہ کا ساتھ دے کر ہمارے لیے مسائل پیدا نہ کرو اور سامنے الگ مسجد بنا لو، چنانچہ قادیانیوں کے پیسے سے وہ مسجد بنائی گئی، تاکہ اطہر شاہ کی وجہ سے لوگ مسجد یمامہ کی طرف متوجہ نہ ہوں ، اس کے ساتھ انہیں یہ لالچ بھی دیا کہ مسجد یمامہ کی پانچ ایکٹر زمین بھی تمہیں دے دیں گے، چنانچہ انہوں نے لالچ میں آکر قادیانیوں کی بات مان لی ، قادیانی مسلمانوں کی کمزوریاں جانتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ مسلمان کو پیسہ اور مسلکی تفریق کے ذریعے ہی کمزور کیا جاسکتا ہے ، چنانچہ وہاں مسجد بنا دی گئی۔وہ لوگ اپنے اصل ٹارگٹ سے ہٹ گئے اور ان لوگوں نے میری مخالفت شروع کردی۔وہ مسجددرحقیقت مسجد ضرار ہے ، جب کہ یہ مسجد یمامہ ہے یہ نام میں نے خود رکھا اور عدالت نے اسے تسلیم کیا ہے ۔اب دونوں مساجد مسلمانوں کے قبضے میں ہیں،اُس مسجدکی یہ صورت حال ہے کہ وہاں کبھی کبھار کوئی بچہ آکر اذان دے جاتا ہے ،البتہ وہاں نماز ادا نہیں ہوتی ، لیکن جوسب سے خطرناک بات ہے ،وہ یہ کہ ایک تو وہ اُنہی لالچی لوگوں کے قبضے میں ہے ، دوسرے آمنے سامنے ہونے کی وجہ سے مسلکی اختلاف کو بڑی آسانی سے ہوا دی جاسکتی ہے ، جس کے لیے قادیانی سردھڑ کی بازی لگا رہے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح مسجد یمامہ پر بھی مسلمانوں کا مسلکی جھگڑا شروع ہوجائے ، لیکن میری زندگی میں یہ ممکن نہیں ہے ، میں اسی لیے ہفتے کے چار دن یہاں رہتا ہوں کہ یہاں کوئی مسلک کا جھگڑا کھڑا نہ ہو، دوسرے میں اس مسجد کے تمام اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتا ہوں ،مسجد کے لیے چندہ کیا جاتا ہے نہ چندہ مانگا جاتاہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ایسا کام شروع ہوگیا تو قادیانیوں کو موقع مل جائیگا اور وہ پھر اس بات کو پکڑلیں گے کہ مسلمانوں نے مسجد پر قبضہ اسی لیے کیا ہے کہ وہ یہاں مسجد کے نام پرچندہ کھائیں۔میں نے سختی سے مسجد کے لیے چندہ لینا منع کیا ہواہے ۔‘‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُس مسجدکی تعمیر پرپیسہ قادیانیوں کا لگاہواہے ، اور جن لوگوں کے زیر تسلط ہے ،وہ ہیں تو مسلمان لیکن قادیانیوں کی مانتے ہیں۔ اگر انہوں نے اس مسجد کوبیت الذکر بنا لیا تو آپ کیا کریں گے، وہ تو بالکل مسجد یمامہ کے داخلی دروازے کے سامنے ہے؟ تواِس پر اطہرشاہ کا کہنا تھا کہ ’’ نہیں وہ چونکہ مسجد ہی ہے اور اس پر وہ قبضہ نہیں کرسکتے ، کیوں کہ ڈسٹرکٹ انتظامیہ بھی انہیں اسکی اجازت نہیں دے گی ،البتہ اسی سمت تھوڑا آگے جائیں توسکول کے سامنے انہوں نے اپنا بیت الذکر بنا لیا ہے اور وہ اپنی عبادت وہاں کرتے ہیں۔‘‘
ڈی سی اوضیاء الرحمن نے مسجدکس طرح وا گزار کرائی؟ اس سے قبل یہ بتانا ضروری ہے کہ مسجد یمامہ میں قادیانی نیٹ ورک جو پاکستان میں موجود ہے، اسے کس نگاہ سے دیکھتا تھا، اس حوالے سے عبداللطیف خالدچیمہ(سیکرٹری جنرل مجلس احراراسلام پاکستان) جنہوں نے سید اطہر شاہ کی ہرطرح سے معاونت کی،اُن کا کہنا تھا کہ ’’قادیانیوں کاپاکستان میں ترجمان اور ناظم امورعامہ ربوہ سلیم الدین ہر ہفتے مسجد یمامہ آتا جاتا اور یہاں تمام تر معاملات اُسی کی زیر نگرانی ہوتے تھے،اس کے علاوہ قادیانی اس علاقے کو اَپرلیول پر دیکھ رہے تھے، چونکہ حساس علاقہ ہے اور عام لوگوں سے چھپا ہوا ہے ، اس لیے ان کی خاصی توجہ اس علاقے پر مرکوز تھی، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مسجد یمامہ کے ایشو پر پیسہ پانی کی طرح بہایا، اس کے علاوہ بیورکریسی میں موجوداپنے ہم مذہب افسران کو خاص طورپر اس علاقے میں تعینات کرایا،قادیانی نواز افسران پر بھی خاصے اثر اندازہ ہوئے۔موجودہ حالات میں قادیانی بیورکریٹ ابوبکر خدابخش جو کہ اب ایڈیشنل ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لگایا گیا ہے، وہ اپنے ملنے جلنے والوں سے مل کراب بھی مسجد یمامہ کے معاملے پر اثر انداز ہورہا ہے ، قادیانی لابی نے اس علاقے کو اَب بھی پوری طرح فوکس کیا ہوا ہے ،یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایک بار پھر اس مسجد کے لیے سٹے آرڈرکی درخواست دی ہوئی ہے۔اس حوالے سے خوشاب کے مسلمان ضیاء الرحمن ڈی پی او کو دُعائیں دیتے ہیں جنہوں نے مسجد یمامہ کے معاملے کو میرٹ پر نپٹایا ، بصورت دیگر قادیانی کسی صورت یہاں سے نکلنے کو تیار نہ تھے، کیوں کہ مقامی آبادی میں ان کی جڑیں بہت مضبوط ہیں، آپ دیکھیں کہ اب بھی اس چک کا نمبر دار مخالفت میں پیش پیش ہے ۔‘‘ مسجد یمامہ کے ہائی کورٹ سے آرڈر ملنے کے بعد کس طرح ڈی پی او نے فیصلہ لیا اور اس کا قبضہ سید اطہر شاہ کے حوالے کیا، یہ ان کے تدبر اور زیرکی کی نادر مثال ہے ۔اس حوالے سے مفتی زاہد محمود سمیت سید اطہر شاہ نے بہت تاریخی باتیں بتائیں۔(جاری ہے)
(روزنامہ’’امت‘‘،راولپنڈی)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.