مجید لاہوری
مجید لاہوری، شعر و ادب، صحافت اور کالم نگاری کی تاریخ میں ایک معروف نام ہے۔ مرحوم نے کراچی سے اپنا ہفتہ وار پرچہ ’’نمکدان‘‘ بھی نکالا۔ مزاحیہ ادب، مثبت اور تعمیری تنقید میں وہ اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ ان کا اپنا اسلوب ہے جو عوامی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عوام میں بے پناہ مقبول ہوئے۔ ذیل میں اکسٹھ برس قبل ان کا لکھا ہوا ایک کالم قارئین کی نذر ہے جو ۱۹؍ اپریل ۱۹۵۷ء کو شائع ہوا مگر آج بھی اسی طرح تر و تازہ ہے۔ (ادارہ)
﴿ ٭……٭……٭……٭ ﴾
یہ تجویز رمضانی کی ہے۔ مجھے صرف اس کی پیش کش کا شرف حاصل ہے ۔ تجویز یہ ہے کہ ایک بہت بڑا ’’سیاسی یتیم خانہ‘‘ بنایا جائے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ…… ’’سیاسی یتیم خانہ‘‘ کیوں بنایا جائے تو جواباً گزارش یہ ہے کہ نو دس برس کی مدت میں ہمارے ہاں کتنے جوڑ توڑ، کتنی اکھاڑ پچھاڑ اور کتنی کرسیاں ٹوٹی ہیں، کتنی کرسیوں کی لڑائیاں ہوئی ہیں اور کتنی نئی مظبوط کرسیاں تیار ہوئی ہیں۔ ان تمام سرگرمیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج ملک میں ایک سرے سے دوسرے سرے سینکڑوں ’’سیاسی یتیم‘‘ در بدر ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ ان میں ایسے یتیم بھی ہیں جو مرکزی وزیر رہے۔ ایسے یتیم بھی ہیں جو وزیرِ اعظم رہے۔ ایسے یتیم بھی ہیں جو گورنر رہے۔ ایسے بھی ہیں جو صوبوں کے وزیرِ اعلیٰ رہے۔ ایسے بھی ہیں جو صوبوں کے وزیر رہے۔ نائب وزیر رہے۔ مشیر رہے۔ اسمبلیوں کے ممبر رہے۔ میونسپل کمیٹیوں اور ڈسٹرکٹ بورڈوں کے صدر رہے۔ ممبر رہے۔ ایسے بھی ہیں جو سفیر رہے۔ غرضیکہ اگر ’’سیاسی یتیم شُماری‘‘ ملک میں ہو تو ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچ سکتی ہے۔ ہر قدم پر ایک سابق وزیر ملتا ہے، سابق سفیر ملتا ہے، سابق گورنر ملتا ہے۔ اگر دس لونڈوں کو جمع کر کے لوگ یتیم خانہ بناتے ہیں تو پھر اتنی بڑی کھیپ سیاسی یتیموں کی جہاں موجود ہو وہاں ’’سیاسی یتیم خانہ‘‘ بنایا جائے۔
سچ پوچھیے تو یہ سارے جھگڑے انھی سیاسی یتیموں کے کھڑے کیے ہوئے ہیں۔ یہ ساری خر ابی ان سیاسی یتیموں کے ’’فری اسٹائل دنگل‘‘ کی لائی ہوئی ہے۔ اگر ’’سیاسی یتیم خانہ‘‘ بن جائے تو یہ لوگ ایک جگہ جمع ہو جائیں اور ملک میں انتشار نہ پھیلائیں۔ یہ ایک عظیم الشان کارنامہ ہو گا۔ حکومت کو خود ایسا یتیم خانہ بنانا چاہیے۔ کیونکہ ہم نے یہی دیکھا ہے کہ جو کرسیوں پر بیٹھتے ہیں وہ کرسیاں چھن جانے کے بعد ’’سیاسی یتیم‘‘ ہو جاتے ہیں اور ان کی جگہ بے کرسی والے یعنی سیاسی یتیم پھر کرسی پر آ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے یتیم خانے کا فائدہ آج نہیں تو کل اہلِ حکومت کو پہنچے گا۔ کیونکہ ہمیشہ ایک سا وقت تو نہیں رہتا۔ کرسی نے کب کسی سے وفا کی ہے اور ہمارے ملک میں تو اس کا مزاج معشوق کے مزاج سے بھی نازک ہے۔ گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ۔
یہ سوال تو حل ہو گیا کہ ’’سیاسی یتیم خانہ‘‘ کیوں بنایا جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ سیاسی یتیم خانے میں کیا ہو؟ پہلے تو سیاسی یتیموں کو ایک جیسی وردیاں، ایک جیسے بوٹ اور ایک جیسی ٹوپیاں دی جائیں تاکہ دیکھنے والے پہچان لیں کہ یہ ’’سیاسی یتیم‘‘ ہیں۔ صبح یہ لوگ ایک گھنٹہ سر نیچے اور ٹانگیں اوپر کر کے دیوار کے سہار کھڑے رہیں۔ ان سے ان کا دماغ سیاست میں خوب چلے گا۔ پھر نہا دھو کر یہ ناشتہ کریں اور اخبار پڑھیں۔ اخبار پڑھنے کے بعد یہ خوب بحث کریں۔ بحث کرنے کے بعد بیان دیں۔ پھر ان کو یہ بھی سکھایا جائے کہ ایک بات کہہ کر اس کی کس طرح تردید کرنی چاہیے۔ پھر ان کو یہ بھی سکھایا جائے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ کس طرح لڑھک کر جانا چاہیے۔ ’’یہ عملی سبق‘‘ ہو گا جس میں ’’بے پیندے کے لوٹے‘‘ اور ’’بے تھالی کے بینگن‘‘ استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ بینگن اس لیے زیادہ مفید ہیں کہ بعد میں ان کی ترکاری بھی بن سکتی ہے۔ سب سے بڑا درس ان کو اس کا دینا چاہیے کہ ’’اعتراض برائے اعتراض‘‘ اور ’’اختلاف برائے اختلاف‘‘ کس طرح کیا جاتا ہے، اس کے لیے تو بعض ’’سیاسی یتیموں‘‘ کو ٹریننگ کے لیے لندن بھیجا جائے۔ اس سے پہلے کرسی چھیننے کے بعد ایسے ’’سیاسی یتیم‘‘ لندن جاتے رہے مگر ذاتی طور پر، کسی ادارے کے نظام کے تحت نہیں۔ جس رفتار سے ہمارے ہاں ’’سیاسی یتیموں‘‘ کی تعداد بڑھ رہی ہے اس کے پیشِ نظر یہ یتیم خانہ بہت ترقی کرے گا۔ یہاں سے ’’سیاسی یتیم‘‘ بھی حکومت بنائیں گے۔ پھر کرسیاں چھن جائیں گی تو وہ ’’سیاسی یتیم‘‘ کی حیثیت سے یتیم خانے میں آ جائیں گے اور ان کی جگہ دوسرے ’’سیاسی یتیم‘‘ لیں گے۔ اب تک رمضانی نے لیڈروں کے بیان پڑھے ہیں۔ اُمید ہے کہ اب رمضانی کا یہ بیان لیڈر اور خصوصاً ’’سیاسی یتیم‘‘ ضرور پڑھیں گے اور ’’دنیا کے سیاسی یتیمو متحد ہو جاؤ‘‘ کا نعرہ لگا کر میدانِ عمل میں کود پڑیں گے۔