صابر علی
’’پیٹرک جے ڈینن (Patrick J. Deneen) کی کتاب’’لبرل ازم کیوں ناکام ہوا؟‘‘ 2018ء میں Yale یونیورسٹی پریس سے شائع ہوئی۔ یہ کتاب 248 صفحات پر مشتمل ہے۔ مصنف نے امریکی معاشرت اور سیاست کا مذہبی تناظر سے جائزہ لیتے ہوئے علمائے عیسائیت کی خدمت میں کچھ گزارشات پیش کی ہیں۔ امید ہے ہمارے سیاسی علماء کرام اور جمہوری مذہبی جماعتوں کے کارکنان بھی ان پر غور فرمائیں گے۔‘‘
ڈینن بتاتے ہیں کہ لبرل ازم کا سیاسی فلسفہ وسیع سمندر ہے جس میں ہم اس کی موجودگی سے بے خبر رہتے ہوئے تیرتے آئے اور ہمیں اس کا ادراک نہ ہو سکا۔ لبرل ازم کی علامتیں یا اقدار اظہارِ رائے اور مذہب کی آزادی، انفرادی آزادی، قانون کی مساویت؛ زندگی، آزادی اور خوش حالی کا حق ہیں۔ لبرل ازم روشن خیالی کا ترکہ ہے۔ اس کی وفاداری عقل، سائنسی ترقی، ٹالرینس سے ہے اور یہ ہر مذہب اور روایت کا دشمن ہے۔ فرانسس فوکویاما جب کہتا ہے کہ تاریخ کا اختتام ہوا تو اس کا مطلب یہی ہے کے لبرل ڈیموکریسی جیت گئی اور اب ہم سب لبرل ہیں۔ تاہم مصنف بتاتا ہے کی لبرل ڈیموکریسی نے ہمیں ناکام بنایا ہے۔ اس کی کامیابی ہی اس کی ناکامی ہے۔ اس نے جو مقصد حاصل کرنا تھا وہ کر لیا۔ یہ لبرل ڈیموکریسی کی کامیابی ہی ہے کہ ہم ان حالات کو پہنچ گئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مقصد ہماری (یعنی عیسائیت کی) کی تباہی تھا۔ مثلاً لبرل ازم حکومت کی جواب دہی کا دعویٰ کرتا ہے لیکن ریاست ہماری زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی ہو گئی ہے، اس کا محاسبہ کوئی نہیں کر سکتا۔ یہ سب کے لیے مساوات کا دعویٰ کرتا ہے لیکن اصل میں عدم مساوات کو فروغ دیتا ہے۔ یہ تنوع کی بات کرتا ہے لیکن تنوع کے لبادے میں سب کو ایک جیسا بنا دیا ہے۔ یہ سائنس و ٹیکنالوجی کے ذریعے ہمیں نیچر کی تحدیدات سے آزاد کرانے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن کنزیومر بنا کر جکڑ لیتا ہے۔ لبرل ازم ہمیں بحیثیت فرد تمام اتھارٹیوں سے آزاد کرانے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن اس طرح ہمیں تنہا، خالی اور غیر آزاد کرتا ہے۔ 2016ء کے انتخابات میں ہم نے اس کا مزہ چکھ لیا ہے۔ مستقبل میں اس سے بھی برا ہوگا۔
بشریاتی مسئلہ:
لبرل ازم کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہ انسان کو بنیادی طور پر خودمختار کہتا ہے۔ مجھے اپنے باپ کا مذہب چھوڑنے کا حق ہے۔ ماں کی مرضی کے بغیر شادی کرنے کا اختیار ہے۔ کوئی فرض، ڈیوٹی، ذمہ داری یا تعلق میری تعریف نہیں کر سکتا۔ میں اپنا خیر خود متعین کرنے میں آزاد ہوں۔ مزید یہ کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ میری آزادی کی راہ میں آنے والی رکاوٹیں دور کرے۔ تاہم انفرادی آزادی کا فروغ اصل میں ریاست کا فروغ ہے۔ ریاست لوگوں کی زیادہ سے زیادہ آزادی کے لیے زندگی کے ہر لمحے پر حاوی ہوجاتی ہے۔ ریاست انفرادیت پسندی سے آتی ہے اور انفرادیت پسندی ریاست کی متقاضی ہے۔ کمیونٹی، کلچر، چرچ، خاندان وغیرہ کوئی بھی فرد اور ریاست کے درمیان میں نہیں رہتے۔ ہم آزادی میں اضافے کے لیے مجرد اور غیر شخصی ریاست پر منحصر ہو جاتے ہیں۔ جب کوئی معاشی پریشانی آتی ہے یا ثقافتی جنگ ہوتی ہے تو ہم کسی دوسرے امیدوار کو ووٹ دینے لگتے ہیں۔ تاہم اصل مسئلہ نظام ہے۔ یہ نظام جن بنیادوں پر کھڑا ہے وہ مکیاولی، تھامس ہابس اور جان لاک نے دی ہیں۔ کنزرویٹو اور پروگریسو دونوں غلط فہمی میں ہیں۔ کنزرویٹو فری مارکیٹ کے ذریعے انفرادی آزادی اور مواقع کی مساویت چاہتے ہیں۔ پروگریسو حکومت کے ذریعے معاشی مساوات اور روایتی اقدار سے آزادی چاہتے ہیں۔ لیفٹ اور رائٹ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ کیا تمہیں حیرت ہوتی ہے کہ ریپبلکن پارٹی اقدار سے انحراف کرتی ہے؟ تمہیں حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ پارٹیاں ایک ہی اصول پر چلتی ہیں اور وہ یہ ہے کہ مقتدر فرد کی برتری ہو، فرد خواہ کچھ بھی تقاضا کرے۔ بظاہر لگتا ہے کہ لبرل ازم نیوٹرل ہے۔ اصل میں یہ ہمارے ارادوں پر چھا جاتا ہے۔ یہ ہماری سوچ بدل دیتا ہے۔ یہ غیر فرقہ ورانہ بھیڑ کے روپ میں فرقہ پرست بھیڑیا ہے۔ تو لبرل ازم کا متبادل کیا ہو؟ متبادل ہی تو مسئلہ ہے۔ لبرل ازم، فاشزم اور کمیونزم وغیرہ متبادل کی تلاش ہی کے نتائج ہیں۔ ہمیں کسی تھیوری کی ضرورت نہیں، عمل کی ضرورت ہے تھیوری خودبخود بن جائے گی۔ عملی طور پر کرنے کا کام یہ ہے کہ ہمیں کنزیومر بننے سے انکار کر دینا چاہیے۔ مادیت پرستی اور سیکولرازم سے نکل آنا چاہیے۔ اپنے گھروں، چرچ اور گردو نواح میں نیا کلچر پیدا کرنا چاہیے تاکہ لوگ ایک دوسرے سے جڑ جائیں۔
مذہبی مسئلہ:
چوں کہ مصنف ایک کٹر رومن کیتھولک ہے اور وہ سیکولر قارئین سے مخاطب ہے اس لیے وہ جانتا ہے کہ اخلاقیات، خدا اور کائنات کے الفاظ سن کر سیکولر اپنے کان بند کرلیں گے اور بات سننا گوارا نہ کریں گے۔ اس لیے وہ کوئی تھیوری نہیں دیتا وہ جانتا ہے کہ انسان نیوٹرل نہیں ہو سکتا۔ اخلاقی یا مذہبی طور پرتو نیوٹرل ہونا ممکن نہیں۔ ہمارا ہر موقف اسی عقیدے پر استوار ہوتا ہے۔ مذہبی، سیکولر، ہندو، مسلمان سب کسی بنیادی موقف پر کھڑے ہوتے ہیں۔ عوامی دائرہ اصل میں نجی دائرے کی لڑائی ہے۔ یوں مصنف لبر ل ازم کی سرزمین پر عرف کو ملحوظ رکھنے والا مشنری بن جاتا ہے۔ وہ براہ راست اپنی اخلاقیات اور تصورِ حیات سے بھی بات شروع کر سکتا تھا لیکن اس حکمت عملی کو بہتر سمجھتا ہے کہ موجودہ نظام اور ان کے خداؤں کا اصل چہرہ دکھایا جائے۔ لہٰذا وہ ترپ کا پتا چھپا کر رکھتا ہے۔ لبرل ازم کا سب سے بڑا دھوکا یہی ہے کہ یہ عدل اور اخلاقیات کا حامل ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ یوں اس کا مسئلہ بشریاتی نہیں بلکہ مذہبی ہے۔ ہر وہ حکومت جو کسی اتھارٹی کے ماتحت نہ ہو وہ مطلق العنان ہوتی ہے۔ اور لبرل ازم نے یہی کیا۔ ابتدائی لبرل مفکرین نے خدا کے قوانین سے بہتر قوانین دینے کا جھانسہ دیا مثلاً ہیومن رائٹس کے بارے میں کہا گیا کہ فطرت کی طرف سے دیے گئے ہیں اور ناقابل ردّ ہیں کیوں کہ یہ خالق نے دیے ہیں۔ ان لوگوں نے خدا کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ ان کا فلسفہ دین دار اور بے دین سب کے لیے ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی اطاعت کا حکم خدا نے دیا ہے کیوں کہ ملحد سے یہ مطالبہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی اطاعت اپنی رضا سے کریں۔ جب لوگوں نے اپنے آپ کو بالاتر اتھارٹی مان لیا تو پھر وہ جس کو ویلیو کریں وہی ان کا خدا ہے اور یہی خدا قوم پر حاکم ہوگا۔ یہ قوم خدا کی نعمتوں کو بتوں میں بدل دیتی ہے۔ کمیونزم نے مساوات کا اور لبرل ازم نے اختیار کی آزادی کا یہی حشر کیا۔ مذہبی لوگ اپنی مرضی سے کچھ آزادیاں لے کر باقی آزادیوں سے انکار نہیں کر سکتے۔ لبرل ازم اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ عیسائیوں کے نزدیک بائبل کے مطابق حکومت کا کام عدل کی فراہمی ہے آزادی کی نہیں۔ آزادی ایک ضمنی چیز ہے جو ہمیشہ عدل کے دائرے میں رہے گی۔ جب ہم آزادی کو برتر قدر مانتے ہیں تو اصل میں ہم اسے خدا بنا لیتے ہیں۔ آزادی تو بس ایک ذریعہ ہے کسی منزل تک جانے کا، بذات خود منزل نہیں۔ اصل مجرم آزادی ہے۔ جب ہر وقت آزادی کی حمد و ثنا پڑھی جائے گی تو ہماری زندگی کا ہر لمحہ اس کی قید میں آ جائے گا۔ ہم عادلانہ اور غیر عادلانہ آزادی میں فرق کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ ہم اسقاط حمل کروانے والی عورت کو روک نہیں سکتے۔ اخلاقی زبان ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ بطور عیسائی جب ہم یہ کہتے ہیں کے ظالم شوہر کے ہاتھ روکنے کے لیے ریاست مداخلت کرے تو ہم اس لیے نہیں کہتے کہ یہ فرد کا حق ہے بلکہ اس لیے کہ خدا نے ہمیں ظلم کرنے سے منع کیا ہے۔ لبرل ازم فرد کے وقار کا پھول کھلتا دیکھنا چاہتا ہے لیکن اس کی جڑیں کاٹ دیتا ہے(یعنی فرد کو خدا کی مخلوق نہیں مانتا)۔ یہ سماج میں سے مذہب کو نکال دیتا ہے۔ یوں سب پھول مرجھا جاتے ہیں۔ مصنف کہتا ہے کہ عیسائیت کا سماجی تنزل دو چار عشروں کی کہانی نہیں، اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ یہ کام صدیوں پہلے شروع کیا گیا تھا۔