ڈاکٹر آصف
مکرمی و محترمی پیارے احمدی دوست……
پیغمبرانِ خدا کے ساتھ معجزات منسوب ہیں اور اﷲ تعالیٰ جب چاہتا ان سے معجزات ظاہر بھی ہو جاتے تھے۔ لیکن کسی پیغمبر نے اپنا مقصد ظہور معجزات دکھانا نہ بتایا اور نہ ہی ان پر اپنی صداقت کی عمارت کھڑی کی۔ کوئی آدمی یہ بتا دے کہ دو دن کے بعد بارش ہو گی اور بارش ہو جائے تو اسے موسمی پیشگوئی کرنے والا تو مانا جا سکتا ہے، لیکن ڈاکٹر تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ نبوت کا مقصد معجزے یا نام نہاد آسمانی نشانات نہیں ہوتے بلکہ انسانوں کو ہدایت اور اصلاح کے لیے اﷲ تعالیٰ کا دیا ہوا پیغام ہوتا ہے۔
مرزا صاحب کے مباہلے، مناظرے اور آسمانی نشانات جتنے بھی کامیاب رہے ہوں ان سے مرزا صاحب کی دعاوی کی صداقت ثابت نہیں ہو جاتی۔ کیونکہ یہ باتیں دین کا اصل اور بنیادی مقصد نہیں ہوتیں اصل مقصد تو تعلیمات ہوتی ہیں مرزا صاحب نے کوئی نئی تعلیمات پیش نہیں کیں۔ دین اسلام کو ہی تختہ مشق بنایا، جو کچھ وہ وحی و الہام کے نام سے پیش کرتے رہے وہ یا تو قرآن مجید کی آیات کے ٹکڑے ہیں یا اردو پنجابی، انگریزی، فارسی یا عربی زبانوں کے ٹوٹے ہیں، آپ ’’تذکرہ‘‘(وحی مقدس جو مرزا صاحب پر نازل ہوتی رہی) نامی کتاب میں تمام وحی و الہام والے ٹوٹے بغور ملاحظہ فرمائیں اور پھر خود فیصلہ فرمائیں کہ اس ’’وحی ‘‘نے انسانیت کو کیا پیغام دیا ہے۔ اور اس میں انسانیت کے لیے کیا رہنمائی ہے۔
کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے یا کسی خالی ذہن مسلمان کو ہی تذکرہ (وحی مقدس) کتاب پڑھنے کے لیے دی جائے تو جب وہ اسے پڑھے گا تو یہ ٹکڑے اس کی کیا رہنمائی کریں گے؟ جب کہ صورت حال یہ ہے کہ بعض الہامات کے بارے میں خود مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ مجھے سمجھ نہیں آئی۔
میرے محترم! وحی الہام کے متعلق مرزا صاحب کے اپنے اقوال جو انھوں نے اپنی مختلف کتابوں میں لکھ دیے ہیں، انھی اقوال کو معیار بنا لیں اور پھر مرزا صاحب کے الہامات اسی پیمانے پر جانچ لیں مرزا صاحب جس بات کا دوسروں کو پابند کر رہے ہیں کیا خود بھی اس بات کی پابندی فرماتے ہیں ، مرزا صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’اور یہ بالکل غیر معقول اور بے ہودہ امر ہے کہ انسان کی اصل زبان تو کوئی ہو اور الہام اس کو کسی اور زبان میں ہو جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا کیونکہ اس میں تکلیف ما لایُطاق ہے‘‘۔ (روحانی خزائن، ج: ۲۳، ص: ۲۱۸)
اور ایسے الہام سے فائدہ کیا ہوا جو انسانی سمجھ سے بالا تر ہے۔
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں بھی ہوتے ہیں جن سے مجھے کچھ بھی واقفیت نہیں جیسے انگریزی یا سنسکرت یا عربی وغیرہ‘‘۔ (روحانی خزائن، ج: ۱۸، ص: ۴۳۵)
ایک جگہ مرزا صاحب لکھتے ہیں:
’’یہ بھی تو ذہن میں رہے کہ شیطان گونگا ہے اور اپنی زبان میں فصاحت اور روانگی نہیں رکھتا اور گونگے کی طرح وہ فصیح اور کثیر المقدار باتوں پر قادر نہیں ہو سکتا صرف ایک بدبودار پیرایہ میں فقرہ دو فقرہ دل میں ڈال دیتا ہے اس کو ازل سے یہ توفیق ہی نہیں دی گئی کہ لذیذ اور باشوکت کلام کر سکے…… اور نہ بہت دیر تک چل سکتا ہے گویا جلدی تھک جاتا ہے‘‘۔
(روحانی خزائن، ج: ۲۲، ص: ۱۴۲ تا ۱۴۳)
میرے عزیز! آپ سے عاجزانہ درخواست ہے کہ حق تو یہ بنتا ہے کہ آپ ’’تذکرہ‘‘ کو مکمل پڑھیں اور دیکھیں کہ کیا مرزا صاحب کی وحی فصاحت و روانگی رکھتی ہے یا ٹکڑیوں میں ہے، فقرہ دو فقرہ ہے، کیا فصیح اور کثیر المقدار ہے؟ یہ چند الہامات اور کشف ملاحظہ فرمائیں اور انھیں اصل کتاب سے چیک کریں۔
۱۸۸۱ء ایک دن صبح کے وقت تھوڑی غنودگی میں ایک دفعہ زبان پر جاری ہوا:
’’عبداﷲ خان ڈیرہ اسماعیل خان‘‘ (تذکرہ ایڈیشن، چہارم، ص: ۳۳)
۱۸۸۱ء تقریباً ایک مرتبہ مسجد میں بوقت عصر یہ الہام ہوا کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ تمھاری ایک اور شادی کروں۔ یہ سب سامان میں خود ہی کروں گا اور تمھیں کسی بات کی تکلیف نہیں ہو گی۔ (تذکرہ ، ایڈیشن چہارم، ص: ۳۰)
۱۸۸۱ء (تخمیناً) تخمیناً اٹھارہ برس کے قریب عرصہ گزرا ہے کہ مجھے کسی تقریب سے مولوی محمد حسین بٹالوی کے مکان پر جانے کا اتفاق ہوا اس نے مجھے سے دریافت کیا کہ آج کل کوئی الہام ہوا ہے؟ میں نے اس کو یہ الہام سنایا جس کو میں کئی دفعہ اپنے مخلصوں کو سنا چکا ہوں اور وہ یہ ہے کہ بکرو ثیب جس کے یہ معنی ان کے آگے اور نیز ہر ایک کے آگے میں نے ظاہر کیے کہ خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے کہ وہ دو عورتیں میرے نکاح میں لائے گا ایک بِکر (کنواری) ہو گی اور دوسری بیوہ۔ چنانچہ یہ الہام جو بکر کے متعلق تھا پورا ہو گیا چار بیٹے اس بیوی سے موجود ہیں اور بیوہ کے الہام کی انتظار ہے۔
(تذکرہ، ایڈیشن چہارم، ص: ۳۱)
میرے محترم مرزا صاحب کی وفات تک یہ الہام پورا نہیں ہوا۔ اور تذکرہ کے اسی صفحہ نمبر ۳۱ پر نیچے حاشیہ میں مرزا صاحب کی وفات کے بعد جماعت کی طرف سے اس الہام کے پورا نہ ہونے پر جو تاویل کی گئی ہے وہ بھی پڑھنے کے لائق ہے۔
یہاں غور کریں تیسری شادی کے الہامات ہو رہے ہیں جبکہ سیرت مہدی کے مطابق ’’پہلی خاندانی بیوی کو ایک لمبے عرصے سے معلق کیا ہوا تھا، ان سے مباشرت ترک کر دی تھی اور آخری عمر میں پھر طلاق بھی دے دی۔ وجہ اس کی یہ تھی کی تیسری شادی محمدی بیگم سے کرنا چاہتے تھے اس نے تعاون نہیں کیا تھا‘‘۔
(سیرت مہدی پرانا ایڈیشن، حصہ اوّل، ص: ۳۳ تا ۳۴)
اور دوسری شادی کرنے پر حالت یہ تھی مرزا صاحب لکھتے ہیں: ’’جب میں نے نئی شادی کی تھی تو مدت تک مجھے یہی یقین رہا کہ میں نامرد ہوں‘‘۔ (مکتوب نمبر ۱۵، مکتوبات احمد، جلد: د وم، ص: ۲۷)
۱۸۸۲ء ایک دفعہ فجر کے وقت الہام ہوا کہ آج حاجی ارباب محمد لشکر خان کے قرابتی کا روپیہ آتا ہے اس کا مطلب مردان سے دس روپے آئے۔ (تذکرہ، ایڈیشن چہارم، ص: ۴۴)
۷ ستمبر ۱۸۸۳ء الہام ہوا : ’’پریشن، عمر، براطوس یا پلاطوس یعنی پڑطوس لفظ ہے یا پلاطوس لفظ ہے، بباعث سرعت الہام دریافت نہیں ہوا‘‘ اور پھر ہو شعنا نعسا معلوم نہیں کس زبان کے ہیں‘‘۔ (تذکرہ، ایڈیشن چہارم، ص: ۹۱)
پھر ایک فقرہ ہے جس کے معنی معلوم نہیں اور وہ یہ ہے: ہی ہا لٹس ان ضلع پشاور
He Halts In the Zilla Peshawar(تذکرہ، ایڈیشن چہارم، ص: ۹۲)
۳۰ جون ۱۸۹۹ء میں مجھے الہام ہوا ’’پہلے بے ہوشی، پھر غشی، پھر موت‘‘ (تذکرہ، ایڈیشن چہارم، ص: ۲۸۰)
۷ ستمبر ۱۹۰۰ء درد سر کے وقت بار بار یہ الہام ہوا ’’ترجمہ یعنی میں امیروں کے ساتھ تیری طرف اچانک آؤں گا‘‘۔
۱۹۰۲ء الہام ہوا کہ خدا قادیان میں نازل ہو گا اپنے وعدہ کے موافق (تذکرہ، ایڈیشن چہارم، ص: ۳۵۸)
۱۳ دسمبر ۱۹۰۰ء پھر وحی ہوئی: ’’لاہور میں ہمارے پاک ممبر موجود ہیں ان کو اطلاع دی جاوے، نظیف مٹی کے ہیں وسوسہ نہیں رہے گا مگر مٹی رہے گا۔ سلسلہ قبول الہامات میں سب سے کچا مولوی تھا۔ سب مولوی ننگے ہو جائیں گے۔
(تذکرہ، ایڈیشن چہارم، ص: ۳۲۸)
۲۷ دسمبر ۱۸۹۱ء الہام:
’’۲۸۔۲۷۔۱۴۔ ۲۔ ۲۷۔ ۲۔ ۲۶۔ ۶۔ ۲۸۔ ۱۔ ۲۳۔ ۱۵۔ ۱۱۔ ۱۔ ۲۔ ۲۷۔ ۱۴۔ ۱۰۔ ۱۔ ۲۸۔ ۲۷۔ ۴۷۔ ۱۶۔ ۱۱۔ ۳۴۔ ۱۴۔ ۱۱۔ ۷۔ ۱۔ ۵۔ ۳۴۔ ۲۳۔ ۳۴۔ ۱۱۔ ۱۴۔ ۷۔ ۲۳۔ ۱۴۔ ۱۰۔ ۱۔ ۱۴۔ ۵۔ ۲۸۔ ۷۔ ۳۴۔ ۱۔ ۷۔ ۳۴۔ ۱۱۔ ۱۶۔ ۱۔ ۱۴۔ ۷۔ ۵۔ ۱۔ ۱۴۔ ۱۔ ۱۴۔ ۲۔ ۲۸۔ ۱۔ ۷۔ (الہامی چابی)
یہ اعداد اور ان کے اندر کی چابی سب الہام کا حصہ ہیں۔ (تذکرہ، ایڈیشن چہارم، ص: ۱۵۷)
۸ ستمبر ۱۹۰۶ء (۲) ’’امین الملک جے سنگھ بہادر‘‘ (۳) پیٹ پھٹ گیا (معلوم نہیں یہ کس کے متعلق الہام ہے)‘‘۔ (تذکرہ، ایڈیشن چہارم، ص: ۵۶۸)
۱۷ ستمبر ۱۹۰۶ء ’’خدا اس کو پنج بار ہلاکت سے بچائے گا۔ (نامعلوم کس کے متعلق الہام ہے)‘‘
۲۴ ستمبر ۱۹۰۶ء ’’موت تیراں ماہ حال کو …… غالباً تیراں ماہ حال سے مراد تیراں ماہ شعبان ہے واﷲ اعلم اور میں نہیں جانتا کہ تیراں ماہ حال سے یہی شعبان ہے اور میں قطعی طور پر نہیں جانتا کہ کس کے حق میں‘‘۔
(تذکرہ، ایڈیشن چہارم، ص: ۵۷۰)
۶ اکتوبر ۱۹۰۶ء ’’ لنبلونکم‘‘ (تذکرہ، ایڈیشن چہارم، ص: ۵۷۱)
یکم فروری ۱۹۰۷ء (۱) ’’روشن نشان‘‘ (۲) ’’ہماری فتح ہوئی‘‘
(نوٹ از تذکرہ مرتب) ۴ اپریل ۱۹۰۷ء بدر صفحہ ۳ پر جب یہ الہام چھپا ہے تو وہاں یہ الفاظ ہیں ’’روشن نشان اور ہماری فتح‘‘ ، ممکن ہے کہ یہ دوسری قرأت ہو۔ (تذکرہ، ایڈیشن چہارم، ص: ۵۸۴۔ ۵۸۵)
۲۰ فروری ۱۹۰۷ء (۴) ’’بہتر ہو گا کہ اور شادی کر لیں۔ معلوم نہیں کہ کس کی نسبت یہ الہام ہے‘‘۔
(تذکرہ، ایڈیشن چہارم، ص: ۵۸۹)
۲۶ فروری ۱۹۰۷ء ’’تحفۃ الملوک اس کے معنی ابھی نہیں کھلے برحال ملوک سے اس کو کچھ نسبت ہے‘‘۔
(تذکرہ، ایڈیشن چہارم، ص: ۵۹۰)
۷ مارچ ۱۹۰۷ء ’’ان کی لاش کفن میں لپیٹ کر لائے ہیں‘‘ معلوم نہیں کہ یہ کن لوگوں کی طرف یا کس کی طرف اشارہ ہے‘‘۔ (تذکرہ، ایڈیشن چہارم، ص: ۵۹۲)
۱۳ مارچ ۱۹۰۷ء الہام ہوا ’’لاہور میں ایک بے شرم ہے‘‘۔ (تذکرہ، ایڈیشن چہارم، ص: ۵۹۴)
۱۴ ، اپریل ۱۹۰۷ء الہام ہوا ’’لائف آف پین‘‘۔ Life of Pain
(تذکرہ، ایڈیشن چہارم، ص: ۶۰۱)
۱۹۰۷ء چند دن ہوئے مجھ کو الہام ہوا تھا کہ ’’لاہور سے ایک افسوس ناک خبر آئی‘‘۔
(تذکرہ، ایڈیشن چہارم، ص: ۶۱۱)
۲۶ اگست ۱۸۹۲ء ، آج رات خواب دیکھا کہ کوئی شخص کہتا ہے کہ لڑکے کہتے ہیں کہ عید کل تو نہیں پر پرسوں ہو گی معلوم نہیں کل اور پرسوں کی کیا تعبیر ہے‘‘۔ (تذکرہ، ایڈیشن چہارم، ص: ۱۶۱)
۱۸۷۶ء : ’’نہایت خوبصورت عورت میرے خواب میں آئی جس کا حلیہ ابھی تک میری آنکھوں کے سامنے ہے‘‘۔ (تذکرہ ایڈیشن، چہارم، ص: ۲۰)
۱۸۷۶ء : ’’انھی دنوں ایک خوبصورت مرد دیکھا، میرے پوچھنے پہ اس نے بتایا کہ ہاں میں درشنی آدمی ہوں‘‘۔
(تذکرہ، ایڈیشن چہارم، ص: ۲۰)
۲۵ جولائی ۱۸۹۲ء: ’’آج میں نے صبح صادق ساڑھے چار بجے دن کے خواب دیکھا کہ ایک عورت سرخ اور خوش رنگ لباس پہنے ہوئے میرے پاس آ گئی، ایک جوان عورت ہے سرخ لباس شاید جالی کا کپڑا پہنا ہوا ہے ، میں نے کہا یا اﷲ آ جاؤ۔ اور پھر وہ عورت مجھ سے بغلگیر ہو گئی‘‘۔ (تذکرہ، ایڈیشن چہارم، ص: ۱۵۹)
یہ مختصر لکھا ہے مزید تفصیل اسی صفحہ پر دیکھ لیں۔
آپ کا خیر خواہ
محمد آصف