زاد المعاد کے اردو ترجمہ از رئیس احمد کا سرسری جائزہ (قسط:۸)
علامہ محمد عبداﷲ رحمۃ اﷲ علیہ
میثاقِ مدینہ اور دیت:
قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جب ہجرت فرما کر مدینہ منوّرہ تشریف لائے تو حالات غیر یقینی تھے۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہودیوں کی ریشہ دوانیوں کا پہلے سے علم تھا۔ یہاں آنے کے بعد ان سے پالا پڑنا ناگزیر تھا، دوسرا اوس اور خزرج میں ایک خاصا بڑا گروہ منافقین کا پیدا ہو گیا۔ ادھر قریش مکہ کی سازشیں تیز تر ہو گئیں۔ ان حالات میں یثرب (جس کا نام اب مدینہ طیبہ ہو گیا تھا) میں قائم ہونے والے عملداری کو اندرونی خطرات سے حتی الامکان محفوظ کرنا ضروری تھا۔ چنانچہ ایک تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مواخات کا سلسلہ قائم فرمایا تاکہ اندورنی حالات پُرسکون ہوں۔ دوسرا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ایک معاہدہ کرایا، جو باقاعدہ لکھا گیا اور فریقین کو اس کا پابند کیا گیا۔ اس معاہدہ کی تفصیل سیرت ابن ہشام، جلداوّل میں موجود ہے، اسی سے چند اقتباسات علامہ شبلیؒ نے اپنی کتاب سیرت النبی ﷺ میں لیے ہیں۔ اس کی جو بات یہاں نقل کرنا مقصود ہے، وہ یہ ہے کہ اس میں انصار کی ایک ایک شاخ کا نام لے کر یہ لکھا گیا: ’’ علی رِبْعَتِہِم یَتعاقلون مَعاقلہم ‘‘ کہ حسب سابق یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کا دیت کا بوجھ اٹھاتے رہیں گے اور ضرورت پڑنے پر اپنے قیدی کو بھی چھڑواتے رہیں گے۔ پھر یہودیوں کی ایک ایک شاخ کا نام لے کر ان کو شریک معاہدہ قرار دیا گیا۔
قدیم نظام دیت کی بنیاد سو فیصد تعاون علی البرّ والتقویٰپر تھی۔ یہ امداد باہمی کی ایک نہایت عمدہ شکل تھی، جو آج بھی اسلامی شریعت کی رُو سے باقی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اسی کو دیکھ کر یورپ میں ’’ التأمین التجاری ‘‘ کا سلسلہ شروع کیا گیا ہو۔ ایک روایت تو یہ ہے کہ جب اندلس میں مسلمانوں کی حکومت کا آفتاب نصف النہار پر تھا، انھوں نے امدادِ باہمی کے اصول اور جذبہ کے تحت بحری تاجروں کو نقصان سے بچانے کے لیے اس کی بنیاد ڈالی۔ دوسری روایت کے مطابق اٹلی کے تاجروں نے اس کا آغاز کیا۔ بہرحال کم و بیش چھے سو سال پہلے یہ بیمہ (INSURANCE) کا سلسلہ جاری ہوا اور یہ بات یقینی ہے کہ اس کی بنیاد نیک جذبات پر تھی……مگر خانہ خراب ہواس یہودی تمدن کا کہ وہ لوگ ہر بات کو Commercial Point Of Viewیعنی کاروباری نقطۂ نظر سے دیکھتے اور سوچتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے اس مفید اور جائز پروگرام میں ترمیم کر ڈالی اور جس چیز کا مقصد، مخلوقِ خدا کو نفع پہنچانا تھا، اسے آمدنی کا ذریعہ بنا ڈالا۔ موجودہ انشورنس (بیمہ) انھی کے ناپاک ذہن کی پیداوار ہے۔استاذ ابو زہرہ فرماتے ہیں:
’’ ان التأمین کان تعاونیا و لکن الیہود الذین استووا علی الاقتصاد بعد عصر ……قد حوَّلوہ من التعاون إلی الاستغلال الواضح ‘‘ (عقود التأمین)
ترجمہ: بیمہ شروع میں امداد باہمی کی ایک شکل میں نمودار ہوا۔ لیکن جب ایک زمانہ کے بعد یہودیوں کا اقتصادیات پر تسلط ہو گیا تو انھوں نے اسے امداد باہمی سے نکال کر واضح کمائی کے ذریعے میں بدل دیا۔
اب آیے، ایک نظر اس پر ڈال لیجیے کہ نظام دیت اور لائف انشورنس (بیمہ زندگی) میں کیا فرق ہے؟
لائف انشورنس (بیمہ زندگی)
#اسلامی نظامِ دیت
۱۔ جو شخص اپنی زندگی کا بیمہ کرانا چاہے، پہلے وہ بیمہ کمپنی کے مقررہ ڈاکٹر سے اپنا میڈیکل چیک اپ (طبی معائنہ) کرائے تاکہ اندازہ ہو سکے کہ اگرکوئی حادثہ پیش نہ آئے تو کتنا عرصہ مزید زندہ رہ سکتا ہے۔
3اس طرح کا کوئی سوال نہیں
“۲۔ کمپنی اور بیمہ کرانے والے کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا ہے جس میں طے پاتا ہے کہ اتنے سالوں میں وہ شخص کمپنی کو اتنی رقم ادا کرے گا۔ اس رقم کو پالیسی اور بیمہ کرانے والے کو ’’پالیسی ہولڈر‘‘ کہا جاتا ہے۔
3اس طرح کا کوئی سوال نہیں
˜۳۔ پالیسی کی رقم کی اقساط بن جاتی ہیں، ہر قسط کو پریمیم (Premium) کہا جاتا ہے۔
3اس طرح کا کوئی سوال نہیں
Ö۴۔ اگر پالیسی ہولڈر، چند اقساط کے بعد رقم جمع کرانا بند کر دے، تو سابقہ جمع شدہ رقم سوخت (Lapse) ہو جاتی ہے۔
3اس طرح کا کوئی سوال نہیں
÷۵۔ اگر مقررہ مدت کے اندر پالیسی ہولڈر مر جائے تو طے شدہ رقم اس کے وارثوں کو ملے گی، خواہ اس نے چند ہی قسطیں جمع کرائی ہوں۔
3اس طرح کا کوئی سوال نہیں
é۶۔ اگر مقرر مدت کے ختم ہو جانے کے بعد بھی پالیسی ہولڈر زندہ رہ جائے تو پالیسی کی جمع شدہ رقم مع سود اسے مل جائے گی۔
3اس طرح کا کوئی سوال نہیں
‚(الف) اب آپ غور فرمایے، نظامِ دیت میں سوسائٹی کے ہر فرد کو فائدہ پہنچ سکتا ہے، خواہ وہ کتنا غریب کیوں نہ ہو۔ اس کے برخلاف بیمہ زندگی وہی شخص کرا سکتا ہے جو باقاعدگی سے پریمیم ادا کر سکتا ہو۔
(ب) شق نمبر ۴ کو دیکھیے، اگر ایک شخص نے پالیسی لے لی، مگر بعد میں وہ اس کاروبار کو ناجائز سمجھ کر یا اپنے مالی حالات کے مدنظر اس کو بند کرنا چاہتا ہے، تو کمپنی جمع شدہ رقم ضبط کر لیتی ہے۔ یہ صریح اکل اموال الناس بالباطل( یعنی ناحق کسی کا مال کھا جانا) ہے۔
(ج) شق نمبر ۵ کو دیکھیے، آدمی یہ معاملہ اسی توقع پر کرتا ہے کہ تھوڑی سے رقم لگا کر زر خطیر حاصل کی جا سکتی ہے۔ اسے قمار اور عرف میں (LOTTERY) کہا جاتا ہے۔
(د) شق نمبر ۶ کو دیکھیے، ظاہر ہے کہ اس میں تو سود کی لعنت موجود ہے۔
ایک سوال اور اس کا جواب:
ہو سکتا ہے کہ، جیسا کہ علماء پر عموماً تنگ نظر اور حالات زمانہ سے بے خبر ہونے کی پھبتی کسی جاتی ہے، بلکہ اعتراض کرنے والے کا بلڈ پریشر ہائی ہو رہا ہو تو ’’دقیانوسی مُلّا‘‘ کی گالی بھی دی جاتی ہے، اس وقت کوئی قاری، راقم السطور کو بھی اس سلوک کا مستحق قرار دے تو ہم پیشگی عرض کیے دیتے ہیں کہ موجودہ دور کی انشورنس جس میں سود کا پہلو نمایاں ہے، کیا اﷲ کے رسول ﷺ اور خلفاءِ راشدین کی جلیل القدر ہستیوں سے اس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ایک ایسے معاملہ کو جائز قرار دیں، جس کے بارے میں اﷲ رب العزت کی طرف سے یہ وعیدہ آ چکی ہو؟
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہِ ( سورت بقرہ: ۲۷۹)
ترجمہ: اگر تم باز نہ آئے تو اﷲ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ سن لو۔
ایک اور تقاضائے احتیاط:
اﷲ نے اور اﷲ کے رسول (ﷺ) نے تو منہ سے ایسی بات نکالنے کی رکاوٹ کر دی ہے جس سے باطل کو حق میں شامل ہو جانے کی راہ ملتی ہو۔ چند مثالیں دیکھیے:
۱۔ قرآن پاک، سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۱۰۴ میں فرمایا گیا:
’’ یَا اَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوْا انْظُرْنَا ‘‘
ترجمہ: اے ایمان والو! تم ’’ رَاعِنَا ‘‘ نہ کہا کرو اور ’’ انْظُرْنَا ‘‘ کہا کرو۔
قصہ یوں ہے کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم، صحابۂ کرام سے کچھ ارشاد فرماتے تو بعض صحابہ عرض کرتے ’’ رَاعِنَا ‘‘ یعنی حضور ! ہماری بھی رعایت فرمائیے۔ بدبخت یہودی اس لفظ کو بگاڑ کر اپنے دل میں اور معنیٰ مراد لیتے یا تو وہ اس کو ’’ راعینا‘‘ پڑھتے (یعنی او ہمارے چرواہے) یا پھر ’’راعن‘‘ کے لفظ کو ’’رعونہ‘‘ سے مشتق تصور کر کے بولتے۔ ہر صورت میں شان اقدس میں گستاخی کا پہلو نکلتا۔
نعوذ باﷲ، صحابہؓ کے دل میں تو ایسی کوئی بات قطعاً نہ ہوتی، لیکن اﷲ کی ذات علیم بذات الصدور تھی۔ اسے معلوم تھا کہ اس لفظ کے استعمال سے یہودیوں کی بدباطنی کیا رنگ دکھاتی ہے۔ اس لیے اس لفظ کی رکاوٹ فرما دی گئی اور حکم دیا گیا کہ مسلمانو! تم آئندہ’ ’انْظُرْنَا ‘‘ (ہماری طرف نگاہِ التفات فرمائیے) کہا کرو۔
۲۔ عربوں میں رواج تھا کہ وہ انگور کو الکرم کہا کرتے تھے، کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ انگوروں سے شراب تیار ہوتی ہے اور شراب نوش آدمی طبعاً فیاض اور سخی ہوتا ہے اور کرم کے معنیٰ سخاوت، فیاضی۔ تو جب شراب حرام ہو گئی تو انگور کو الکرم کہنے کی ممانعت فرما دی گئی تاکہ انگور کا نام لیتے ہوئے شراب کی تعریف کا پہلو سامنے نہ آئے۔ (صحیح مسلم)
۳۔ اگر کسی آدمی کی طبیعت بدمزہ ہو رہی ہو تو عربی زبان میں اس کے لیے ایک تو لفظ آتا ہے ’’لقست نفسی‘‘ دوسرا لفظ ہے ’’خبثت نفسی‘‘۔ حدیث شریف میں دوسرے لفظ کے استعمال کی رکاوٹ فرمائی گئی کیونکہ ’’خبثت‘‘ سے ایک اور معنیٰ بھی نکل سکتے ہیں کہ خباثت، جو ایک نہایت بری صفت ہے، اس کا اپنی طرف نسبت کرنا، آدابِ گفتگو کے خلاف ہے۔ (بخاری و مسلم)
۴۔ اس سلسلہ میں اور بھی کئی مثالیں کتب حدیث سے پیش کی جا سکتی ہیں، لیکن ہم انھی پر اکتفا کرتے ہوئے عرض گزار ہیں کہ ایک طرف شریعت مطہرہ کا یہ درس احتیاط، دوسری طرف جناب ڈاکٹر حمید اﷲ صاحب کی یہ فراخ دلی کہ وہ آنحضرت ﷺ کے ایک عمل کو ایسے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں، جو غلیظ اور ناپاک معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور جس سے ایک غلیظ کاروبار کو مفاد پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ راقم السطور اور کسی کی بات نہیں کرتا، خود میرے ساتھ ہی یہ واقعہ گزرا کہ میرا ایک پڑھا لکھا عزیز جو لائف انشورنس کے کام سے وابستہ ہے، انشورنس کے جواز کا ثبوت مہیا کرنے کے لیے ڈاکٹر صاحب کے خطبات سے دو صفحے فوٹو اسٹیٹ کرا لایا۔
زاد المعاد کے اردو ترجمہ از رئیس احمد کا سرسری جائزہ:
الحاج حبیب الرحمن خاں (خان بہادر) مرحوم، راقم السطور کے ایک کرم فرما تھے۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے پرانے گریجویٹ تھے۔ دینی اقدار سے محبت انھیں ورثے میں ملی تھی، اسی چیز نے اخیر عمر میں انھیں شیخ العصر حضرت مولانا خان محمد صاحب کی بارگاہ رشد و ہدایت تک پہنچایا تھا۔ مذہبی کتب کے مطالعہ سے ان کی زندگی کا شاید ہی کوئی دن خالی رہا ہو گا۔ ایک مرتبہ انھوں نے مجھ سے سیرت طیبہ کی ایسی کتاب کے بارے میں دریافت کیا جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے تمام پہلوؤں پر مشتمل ہو، علامہ شبلی نعمانیؒ اور مولانا سید سلیمان ندویؒ کی سیرت النبیﷺ وہ بارہا دیکھ چکے تھے۔ میں نے انھیں علامہ ابن قیمؒ کی زاد المعاد کا پتہ دیا۔ رئیس احمد جعفری کا کیاہوا ترجمہ، نفیس اکیڈمی کراچی کی طرف سے تازہ بازار میں آیا ہوا تھا۔ مرحوم نے فوراً یہ ترجمہ خرید کر اسے دیکھنا شروع کر دیا۔ اپنی پسند یا ناپسند کے بارے میں تو انھوں نے کبھی میرے سامنے کوئی اظہارِ رائے نہ کیا لیکن تھوڑے ہی عرصہ بعد ترجمہ کے پہلے دو حصے مجھے دے دیے۔ یہ دونوں حصے ایک عرصہ تک یوں ہی میرے پاس رکھے رہے۔ کبھی ان کو اٹھا کر دیکھنے کی نوبت نہ آئی۔ ایک دن فرصت کے چند لمحات گزارنے کے لیے جلد اوّل میں نے ہاتھ میں لی، بعض بعض جگہ محسوس ہوا کہ ترجمہ صحیح نہیں کیا گیا، اس کے بعد میں نے عربی نسخہ نکلا، اب جو اردو ترجمہ کا اس سے موازنہ کیا تو میری حیرت کی کوئی حد نہ رہی۔ راقم جعفری صاحب کے بارے میں حسنِ ظن تھا کہ ایک تو وہ علمِ حدیث میں حضرت مولانا حیدر حسن خاںؒ جیسے جلیل القدر عالم کے شاگرد ہیں، ثانیاً وہ ندوی ہی، اس لیے ان کا علم بھی قابلِ اعتماد ہو گا اور قلم بھی ، مگر اب پتہ چلا کہ: خود غلط بود آنچہ ما پنداشتیم۔
جعفری صاحب اپنی تصنیفی کاوشوں کو ناول نویسی اور زیادہ سے زیادہ سوانح نگاری تک محدود رکھتے تو بہتر ہوتا۔ حدیث یا سیرت طیبہ کی کسی کتاب کو ہاتھ نہ لگاتے: تم یہ احساں جو نہ کرتے، تو احساں ہوتا۔
حدیث کے ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے ان کا کیا مقام تھا؟ خدا گواہ ہے کہ محض جذبۂ : ’’الدین النصیحۃ‘‘ کے تحت، راقم ان کے بارے میں یہ ریمارکس دینے پر مجبور ہے:
(الف) جعفری صاحب علم حدیث میں اتنی بھی قابلیت نہیں رکھتے، جتنی کہ مشکوٰۃ پڑھنے والے ایک ذی استعداد طالب علم سے توقع کی جا سکتی ہے۔
(ب) وہ علمی اصطلاحات سے نا آشنا ہیں، اس لیے ترجمہ میں مضحکہ خیز غلطیاں کر گزرتے ہیں۔
(ج) وہ عربی زبان بھی پوری طرح نہیں جانتے، صرف و نحو کے بارے میں ان کی استعداد بالکل سطحی سی ہے۔
(د) ایک علمی کتاب کے ترجمہ میں مترجم کی جو ذمہ داریاں ہوتی ہیں، جعفری صاحب قطعاً ان کو ملحوظ نہیں رکھتے، اس لیے ترجمہ میں غلطیاں آ جانے سے کتاب کے بیش بہا علمی افادات، پہیلیاں بن کر رہ جاتے ہیں۔
(ہ) وہ صرف ترجمہ نہیں کرتے، بلکہ جگہ جگہ تلخیص بھی کر دیتے ہیں، پھر نہ تو اس کے لیے کوئی معیار قائم کرتے ہیں اور نہ قارئین کو اس سے آگاہ کرتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جہاں انھیں ترجمہ میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے، وہاں وہ چند سطریں یا کہیں کہیں صفحے کے صفحے حذف کر دیتے ہیں۔
(و) زاد المعاد کے ترجمہ کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جعفری صاحب کا ’’دین داری‘‘ کا پہلو خاصا کمزور ہے، اس لیے وہ بعض اوقات فقہی مسائل کو نظر انداز کر دیتے ہیں یا پھر متجددین زمانہ کی عام روش کے مطابق بڑے ہی وثوق کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار شروع کر دیتے ہیں، جس کا ’’ایاز! قدر خود بشناس‘‘ کے تحت انھیں کوئی حق نہیں پہنچتا۔
اگر جعفری صاحب آج بقیدِ حیات ہوتے تو راقم السطور ان سے معذرت کرتا کہ ان کے بارے میں اوپر جوکچھ لکھا گیا ہے، خالصاً اسی جذبہ کے تحت لکھا گیا ہے، جس کے تحت اسماء الرجال کی کتب رواۃ حدیث کے بارے میں رد و قدح سے بھری ہوئی ہیں۔ واللّٰہ علیم بذات الصدور۔
یہاں پر یہ واضح کر دینا بھی ضروری ہے کہ جعفری صاحب کے ترجمہ کو بالاستیعاب دیکھنے کی نہ تو فرصت ہے، نہ ضرورت، جستہ جستہ دیکھنے سے جو غلطیاں سامنے آئیں، ان کی نشان دہی کر دی گئی ہے، ورنہ تو کتاب کا کوئی سا صفحہ کھول کر دیکھ لیا جائے دو چار غلطیاں ضرور ہی نکل آئیں گی۔
کچھ اور بھی ہیں کام ہمیں اے غمِ جاناں
کب تک کوئی الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارے
ذیل میں جعفری صاحب کے ترجمہ کی غلطیوں کی چند مثالیں درج ہیں:
۱۔ علامہ ابن قیمؒ، بلد الحرام (مکۃ المکرمہ) کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ قضاءِ حاجت کے وقت اس کی طرف رخ یا پیٹھ کرنا حرام ہے اور زیادہ صحیح مذہب یہ ہے کہ ’’لا فرق فی ذلک بین الفضاء والبنیان‘‘ یعنی اس بارے میں کھلے میدان اور عمارت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ مگر جعفری صاحب ’’البنیان‘‘ کا ترجمہ ’’بیابان‘‘ سے کرتے ہیں، لکھتے ہیں کہ ’’یہ پابندی ہر جگہ ہے خواہ وہ میدان ہو یا بیابان‘‘۔ (ترجمہ اردو، ص: ۴۲)
۲۔ مصنف زاد المعاد، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا نسب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ و لا خلاف بینہم ان عدنان من ولد اسمٰعیل علیہ السلام ، وان اسمٰعیل ہو الذبیح علی القول الصواب عند علماء الصحابۃ والتابعین و من بعدھم۔ و اما القول بانہ اسحٰق، فباطلٌ ‘‘
ترجمہ: علماءِ انساب میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عدنان، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور حضرت اسماعیل ہی ذبیح ہیں۔ صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم، تابعین رحمہم اﷲ اور بعد کے علماء کے نزدیک یہی قول صحیح ہے اور یہ کہنا کہ حضرت اسحاق ذبیح ہیں، غلط ہے‘‘۔
جعفری صاحب کا ترجمہ:
’’اور یہ (عدنان) حضرت اسماعیل الذبیح علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے، صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم، تابعین رحمہم اﷲ اور جمہور علماءِ کرام کی یہی تحقیق ہے اور بعض کہتے ہیں کہ اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے اور یہ غلط ہے‘‘۔ (ترجمہ اردو، ج:۱، ص: ۶۲)
ملاحظہ کیجیے! بات کچھ سے کچھ بنا دی گئی ہے، مصنف جس اختلاف کا ذکر کر رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ ذبیح اﷲ کون ہیں؟ حضرت اسماعیل علیہ السلام یا حضرت اسحاق علیہ السلام؟ مگر جعفری صاحب اصل مسئلہ کو چھوڑ کر اسے لے بیٹھے کہ عدنان کس کی اولاد میں سے ہیں۔ حالانکہ کسی اپنے یا پرائے نے یہ نہیں لکھا کہ عدنان حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے نہیں ہیں، حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔
۳۔ آگے حضرت علامہ ابن قیمؒ مزید اس مسئلہ پر گفتگو کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کون سے صاحبزادے ’’ذبیح‘‘ ہیں، اس سلسلہ میں اہلِ کتاب یہود و نصاریٰ کے قول (وہ حضرت اسحاق علیہ السلام کو ذبیح مانتے ہیں) کی تردید کرتے ہوئے اپنے استاد شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کا ایک استدلال نقل کرتے ہیں:
’’ان کا قول خود ان کی کتاب کی رو سے باطل ہے کیونکہ اس میں لکھا ہے: ان اللّٰہ امر ابراہیم ان یذبح ابنہ بکرہ و فی لفظ وحیدہ و لا یشک اہل الکتاب مع المسلمین ان اسمٰعیل ہو بکر اولادہ‘‘
اس عبارت کا صحیح ترجمہ یہ ہے: اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اپنے پہلوٹے بیٹے کو ذبح کریں اور ایک روایت میں اکلوتے کا لفظ آیا ہے۔ اب مسلمانوں کے ساتھ اہل کتاب کو بھی کوئی شک نہیں کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام ہی آپ کے پہلوٹے بیٹے ہیں۔ (لہٰذا وہی ذبیح ہوئے)
جعفری صاحب نے خط کشیدہ لفظ بکر کا ترجمہ غلط کر کے کیا گل کھلائے ہیں؟
قارئین ملاحظہ فرمائیں، وہ لکھتے ہیں:
’’اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ باوجود نہ چاہنے کے اپنے بیٹے کو اور ایک روایت کے مطابق اپنے اکلوتے بیٹے کو ذبح کر دیں، اب اہل کتاب اور مسلمان دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام ان کی نرینہ اولاد ہیں‘‘۔ (زاد المعاد اردو، ج: ۱، ص: ۶۲)
جعفری صاحب نے پہلی جگہ بکرہکو بِکُرْہٍ پڑھا اور معنیٰ غلط کر دیا، دوسری جگہ بکر کا ترجمہ نرینہ سے کیا۔ تعجب ہے کہ نہ تو حضرت کے سامنے کوئی لغت تھی کہ اسے اٹھا کر بکر کا ترجمہ دیکھ لیتے، نہ پھر آگے کتاب میں انھیں یہ جملہ نظر آیا کہ ’’بکر الاولاد احب الی الوالدین عمن بعدہ‘‘ (یعنی پہلوٹی اولاد والدین کے نزدیک بعد والی سے زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ بندۂ خدا نے یہ نہ سوچا کہ بکر کا ترجمہ نرینہ ہو تو پھر من بعدہ کا کیا مطلب ہو گا)۔ پھر یہ بھی نہ سوچا کہ حضرت اسحاق علیہ السلام بھی تو بیٹے اور نرینہ اولاد تھے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بکر کہنے کی تخصیص کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
۴۔ ازواجِ مطہرات کے ذکر میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے حالات میں حافظ ابن قیم تحریر فرماتے ہیں:
و قیل: انہا اسقطت من النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم سقطاً و لم یثبت۔
اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے: بعض لوگ کہتے ہیں کہ بی بی صاحبہ کا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے ایک حمل ساقط ہوا تھا، مگر یہ بات پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔
جعفری صاحب اس کا ترجمہ کرتے ہیں اور عربی زبان کے ساتھ تاریخ نبوت کا بھی خون کرتے ہیں، ملاحظہ ہو:
’’ایک روایت کے مطابق نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے کچھ دیر کے لیے مقاطعہ کیا تھا، لیکن یہ روایت پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی‘‘۔ (ص: ۹۰)
۵۔ اُمّ المؤمنین حضرت اُمِّ حبیبہ رضی اﷲ عنہا کا حال لکھتے ہوئے حافظ ابن قیمؒ نے ایک روایت نقل کی ہے کہ یہ عقد حضرت ابو سفیان رضی اﷲ عنہ کی درخواست پر ہوا تھا۔ پھر اس روایت پر علمی بحث کی ہے، ترجمہ میں غلطیاں آ جانے سے پوری بحث، چیستاں بن کررہ گئی ہے۔ کتاب میں ایک جملہ ہے: ’’و قد اکثر الناس الکلام فی ہذا الحدیث ، و تعددت طرقہم فی وجہہ ‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ لوگوں نے اس حدیث میں بڑی لے دے کی ہے اور اس کی توجیہ بیان کرنے میں مختلف صورتیں اختیار کی ہیں۔ چنانچہ بعد میں مصنف نے چھے توجیہیں نقل کی ہیں۔ مگر جعفری صاحب علمی اصطلاحات سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ترجمہ یوں کرتے ہیں:
’’اس روایت پر کافی جرح بھی کی گئی ہے اور اسناد میں بھی اختلاف ہے‘‘۔ (ترجمہ اردو: ص:۹۴)
۶۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مکتوبات کا ذکر کرتے ہوئے علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں: ’’فاتخذ خاتماً من فضۃ‘‘یعنی خطوط پر مہر لگانے کے لیے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوا لی، مگر جعفری صاحب لکھتے ہیں: ’’سونے کی انگوٹھی‘‘۔ (ترجمہ ج:۱، ص: ۱۰۰)
معلوم ہوتا ہے کہ جعفری صاحب کو ’’فضۃ‘‘ کا صحیح معنیٰ معلوم ہی نہیں تھا، وہ اور بھی کئی جگہ اس کا ترجمہ ’’سونا‘‘ سے کرتے ہیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک پیالے کے بارے میں لکھا ہوا ہے: ’’مضبب بسلسلۃ من فضۃ‘‘ یہاں بھی وہ ’’سونے کی زنجیر‘‘ لکھتے ہیں۔ (ج: ۱، ص: ۱۰۹)
۷۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لباس کا ذکر کرتے ہوئے مصنف علّام، صحیح بخاری سے ایک روایت نقل کرتے ہیں:
’’ ان النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلم نہٰی عن المیاثر الحمر ‘‘۔ میاثیر ، ’’میثرۃ‘‘ کی جمع ہے، جس کے معنیٰ ہیں بچھونا یا وہ کپڑا جو خوشنمائی کے لیے گھوڑے وغیرہ کی زین پر ڈال دیا جائے، اور ’’حمر‘‘ ، حمراء کی جمع ہے بمعنیٰ ’’سرخ‘‘۔ صحیح ترجمہ یوں ہے کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے سرخ بچھونوں سے رکاوٹ فرمائی ہے۔
مگر جعفری صاحب ’’حمر‘‘ (بسکون المیم) کو ’’حمر‘‘ (بضم المیم) پڑھتے ہیں، جو ’’حمار‘‘ کی جمع ہے اور آپ اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:
’’نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے گدھوں کی سرخ کاٹھیوں سے منع فرمایا‘‘۔ (ج:۱، ص: ۱۱۳)
کرشمہ دیکھیے کہ بیک وقت حمر کا ترجمہ ’’گدھوں‘‘ سے بھی کر رہے ہیں اور ’’سرخ‘‘ سے بھی۔ لفظ ایک ہے، معنی دو۔ پھر یہ بھی نہیں دیکھتے کہ عربی عبارت کا خط کشیدہ لفظ مرکب توصیفی ہے نہ کہ مرکب اضافی۔
۸۔ کھانے پینے کے بیان میں مصنف تحریر فرماتے ہیں:
’’ و کان لا یأکل متکئاً ، والاتکاء علی ثلاثۃ انواع ، احدھا: الاتکاء علی الجنب ، والثانی: التربع ، والثالث: الاتکاء علی احدی یدیہ واکلہ بالاخری ، و الثلاث مذمومۃ ‘‘
اس کا صحیح ترجمہ: آپ سہارا لگا کر نہیں کھاتے تھے، سہارا لگانے کی تین صورتیں ہیں، ایک یہ کہ پہلو پر سہارا لے لے، دوسری: آلتی پالتی مار کر بیٹھنا ،اور تیسری: ایک ہاتھ پر سہارا لے کر دوسرے سے کھانا، اور یہ تینوں صورتیں بری ہیں۔
مگر جعفری صاحب اس عبارت کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:
’’آپ سہارا لگا کر نہیں کھاتے تھے، آپ تین طرح سے تکیہ لگاتے تھے، کبھی ایک طرف سہارا لگا کر بیٹھتے، کبھی پلتھی مار کر اور کبھی ایک ہاتھ سے سہارا لگاتے اور دوسرے سے کھاتے‘‘۔ (ج:۱، ص: ۱۱۹)
جعفری صاحب کو نہ تو پیچھے اپنا لکھا ہوا ’’نہیں‘‘ کا لفظ یاد رہا، نہ آگے کتاب میں ’’والثلاث مذمومۃ‘‘ لکھا نظر آیا اور یوں ایک غلط بات حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دی۔
۹۔ رات کو آرام فرمانے، بالخصوص دورانِ سفر پڑاؤ ڈالنے کے بارے میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت کے ضمن میں ابو حاتم کی ایک روایت نقل کی گئی ہے:
’’کان اذا عرس باللیل توسد یمینہ‘‘ ۔ ترجمہ یہ ہے کہ جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم رات کو نزول فرماتے تو دائیں بازو کو تکیہ بنا لیتے، مگر جعفری صاحب اس جملہ کا ترجمہ یوں کرتے ہیں: ’’آپ ﷺ رات کو کسی منزل پر اترتے تو دائیں پہلو پر آرام فرماتے‘‘۔ (ص: ۱۲۷)
پھر دو تین جملے کے بعد کتاب میں یہ لکھا ہے کہ: ’’والتعریس انما یکون قبیل الصبح‘‘۔ یعنی تعریس رات میں اترنے کو نہیں کہتے، صبح سے تھوڑی دیر پہلے اترنے کو کہتے ہیں، مگر جعفری تعریس کا معنی لکھتے ہیں ’’اکڑوں بیٹھنا‘‘۔ کاش ان سے دریافت کیا جا سکتا کہ حضرت! جو مسافر رات کو کسی جگہ اترتا ہے، کیا وہ اتر کر اکڑوں بیٹھ جاتا ہے؟ آخر کیا تک بنتی ہے؟ (جاری ہے)