منصور اصغر راجہ
ابن امیر شریعت حضرت سید عطاء المؤمن شاہ بخاریؒ کا نام تو ہم بچپن سے ہی سن رکھا تھا کہ گھر میں اس خانوادے کے سربراہ حضرت امیر شریعتؒ کا تذکرہ ہوتا رہتا تھا۔ چونکہ امیر شریعتؒ کا ضلع گجرات میں واقع آبائی گاؤں ’’ناگڑیاں‘‘ ہمارے گاؤں سے چند ہی میل کی دوری پر ہے، اس لیے بھی بڑے بوڑھے فخریہ طور پر امیر شریعتؒ کا ذکر کیا کرتے تھے۔ لیکن ہمیں سید عطاء المؤمن شاہ بخاری کی پہلی بار زیارت کا موقع غالباً ۲۰۰۲ء میں ملا۔ جون جولائی کے دن تھے۔ شاہ صاحبؒ نے رسول پارک اچھرہ کی ایک مسجد میں جمعہ پڑھانا تھا۔ ایک روز پہلے اُن کے خطبہ جمعہ کے بارے میں اخبار میں اشتہار دیکھا تو اگلے روز ہم بھی وقت مقررہ پر وہاں پہنچ گئے کہ سید عطاء المؤمن شاہ بخاریؒ کو دیکھنے اور سننے کی خواہش خاصی پرانی تھی۔ ہمارے دوست سلیم اختر لنگاہ ایڈووکیٹ آف بہاولپور بھی ہمارے ہمراہ تھے۔ شاہ صاحب نے اپنے بیان میں جہاں معاشرے میں فروغ پانے والی نت نئی خرابیوں پر نشتر زنی کی، وہیں امریکہ کے ساتھ پرویز مشرف کو بھی آرے ہاتھوں لیا کہ سقوطِ کابل کا زخم بھی تازہ تھا۔ دورانِ گفتگو انھوں نے سرائیکی کی ایک کہاوت سنائی تو سلیم اختر لنگاہ پھڑک اٹھے اور بڑی دیر تک داد دیتے رہے۔ واپسی پر ہمیں کہنے لگے کہ میں نے امیر شریعتؒ کی تصویر دیکھ رکھی ہے۔ عطاء المؤمن شاہ صاحب تو ہو بہو ان کی تصویر نظر آتے ہیں۔ چہرے مہرے سے بھی اور گفتگو سے بھی۔ کئی سال پہلے ہم نے ایک معروف جہادی رہنما سے سنا کہ قریباً ۲۵ برس پہلے عطاء المؤمن شاہ بخاریؒ آزاد کشمیر کے ضلع باغ میں تقریر کر رہے تھے۔ وہ چار گھنٹے تک گفتگو کرتے رہے اور سامعین جم کر بیٹھے انھیں سنتے رہے اور یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے۔ کسی بھی موضوع پر گھنٹوں بولنا زندگی بھر اُن کا معمول رہا کہ آخر امیر شریعتؒ کے لخت جگر تھے۔ ایک روایت کے مطابق امیر شریعت سید عطا ء اﷲ شاہ بخاریؒ ایک بار جامع مسجد الصادق بہاولپور میں تقریر کر رہے تھے۔ وہ ساری رات علم و حکمت کے موٹی لٹاتے رہے اور سامعین جھولیا بھرتے رہے۔ تقریر ابھی جاری تھی کہ مسجد کے مؤذن نے فجر کی اذان دینی شروع کر دی۔ امیر شریعتؒ نے ایک نظر مؤذن کی طرف دیکھا، مسکرائے، ذرا سا سر کو جھٹکا اور یہ کہہ کر منبر سے اتر گئے کہ
دی شبِ مؤذن نے اذاں پچھلی رات
ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا
سید عطاء المؤمن شاہ بخاریؒ نے ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفی میں بھرپور حصہ لیا۔ ملتان کا کوئی جلسہ ان کے بغیر سجتا نہیں تھا۔ مجلس احرار کے مرکزی سیکرٹری جنرل حاجی عبداللطیف خالد چیمہ نے ہمیں بتایا کہ کئی جلسوں میں شاہ صاحب نے حضرت مفتی محمودؒ اور نوابزادہ نصر اﷲ خانؒ کی موجودگی میں تقریر کی تو دونوں بزرگ فرمایا کرتے کہ شاہ صاحب کے بعد ہماری تقریر کی ضرورت نہیں رہی کہ انھوں نے وہ سب کچھ کہہ دیا ہے، جو ہم کہنا چاہتے تھے۔ یہ سن کر ہمیں پھر امیر شریعتؒ یاد آ گئے۔ مرحوم مختار مسعود نے ’’آوازِ دوست‘‘ میں امیر شریعت کے علاوہ ان کے پائے کے تین اور خطیبوں کا بھی ذکر کیا ہے، جن میں مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہرؒ اور نواب بہادر یار جنگؒ شامل تھے۔ امیر شریعت ان تینوں بزرگوں سے ’’جونئیر‘‘ تھے، لیکن ایک بار کسی جلسے میں مولانا محمد علی جوہرؒ اور امیر شریعت اکٹھے ہو گئے۔ انھوں نے مولانا جوہرؒ سے پہلے تقریر کی تو مولانا نے اپنی پر امیر شریعتؒ کی خطابت کو ان الفاظ میں داد دی کہ شاہ جی کی تقریر کے بعد اب ہم کیا کہیں ان کے قورمے، زردے کے بعد ہمارے ساگ ستو کو کون پوچھے گا۔
یوں تو امیر شریعتؒ کے چاروں صاحبزادے ہی اپنے عظیم المرتبت والد کی وراثت کے سچے امین ثابت ہوئے کہ ’’صاحبزادگی‘‘ کا خمار بھی ان کا کچھ نہ بگاڑ پایا۔ چاروں بھائی قلندرانہ مزاج کے مالک، دینی حمیت و غیرت کے پیکر، تحفظ ختمِ نبوؒ کے لیے ہر قربانی دینے کو ہمہ وقت تیار، کسی بھی طاقت سے مرعوب نہ ہونے والے، بکنے والے نہ جھکنے والے، بڑے باپ کے بیٹے تھے، اگر اپنی قیمت لگواتے تو آج کروڑوں روپے کی جائیدادوں کے مالک ہوتے، لیکن انھوں نے فقر اور درویشی کو حرز جاں بنائے رکھا کہ مولانا غلام رسول مہرؒ کے بقول یہی ان کے عظیم المرتبت والد کی بھی قیمتی ترین متاع تھی۔ لیکن سید عطاء المؤمن بخاریؒ تو تقریر و تصویر میں اپنے والد کا پرتَو تھے۔ ابتدائی تعلیم جامعہ خیرالمدارس اور جامعہ قاسم العلوم ملتان سے حاصل کی۔ بعد ازاں کندیاں شریف اور جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں بھی زیر تعلیم رہے۔ حضرت قاری رحیم بخش پانی پتی، حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ اور حضرت خواجہ خان محمدؒ جیسے بزرگوں کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا۔ وہ حضرت خواجہ خان محمدؒ کے شاگرد بھی تھے اور معتمد خاص بھی۔ ۱۹۸۰ء سے ۱۹۹۷ء تک کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت قائم رہی۔ اس دوران میں جب کبھی مذاکرات کا موقع آتا تو حضرت خواجہ صاحبؒ اپنے نمائندے کے طور پر سید عطاء المؤمن بخاریؒ کا ہی انتخاب کرتے۔ شاہ صاحب کا مطالعہ، مشاہدہ اور ظرف بے حد وسیع تھے۔ نہایت اعلیٰ تفسیری ذوق پایا تھا۔ قرآن مجید کی جو بھی تفسیر شائع ہوتی، وہ اسے فوراً خرید لیتے۔ مطالعے کے بغیر تقریر کو گناہ سمجھتے تھے۔ ایسے بیدار مغز مقرر تھے کہ دورانِ تقریر بھی ہر طرف نگاہ ہوتی۔ ۲۷؍ اپریل کو لاہور میں اُن کی یاد میں ہونے والے تعزیتی ریفرنس میں لاہور ہی کے ایک معروف عالم دین نے یہ قصہ سنایا کہ ’’ایک بار میں نے سید عطاء المؤمن بخاریؒ کو اپنی مسجد میں خطاب کی دعوت دی۔ وقت مقررہ پر شاہ صاحب کا بیان شروع ہو گیا۔ کچھ دیر کی گفتگو کے بعد اچانک شاہ صاحب نے دریافت فرمایا کہ اس مسجد کا امام کون ہے۔ میں منبر کے قریب ہی بیٹھا تھا۔ عرض کیا کہ بندہ حاضر ہے۔ غصے سے میری طرف دیکھتے ہوئے فرمایا کہ تم کیسے امام و خطیب ہو۔ تم نے اپنے مقتدیوں کو یہ تک نہیں بتایا کہ سبحان اﷲ اور ما شاء اﷲ کن موقعوں پر کہا جاتا ہے۔ میں عذابِ قبر اور روزِ قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر کر رہا ہوں اور یہ لوگ لہک لہک کر سبحان اﷲ اور ما شاء اﷲ کہہ رہے ہیں‘‘۔ شاہ صاحب مولانا ابوالکلام آزادؒ کے تو عاشقِ صادق تھے، اسی لیے چائے اور ’’غبارِ خاطر‘‘ سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا۔ حکیم مؤمن خان مؤمن ان کے پسندیدہ ترین شاعر تھے۔ علامہ اقبالؒ سے بے حد عقیدت تھی۔ چودھری افضل حق کی تحریر پر فدا تھے۔ فیض، احسان دانش اور شورش کاشمیری کو شوق سے پڑھتے۔ فرمایا کرتے کہ مجھ پر ایک دور ایسا بھی آیا کہ اگر میں نے مولانا آزادؒ اور چودھری افضل حق کو نہ پڑھا ہوتا اور اپنے والد کو دیکھا اور سنا نہ ہوتا تو میں دہریہ ہو جاتا۔ سید عطاء المؤمن بخاریؒ کی اعلیٰ ظرفی کا تو یہ عالم تھا کہ بھٹو دور کے اواخر میں آپ کو گولی مارنے کا حکم جاری ہوا۔ دو بار جیالوں نے آپ پر فائرنگ کی، لیکن خدا تعالیٰ نے شاہ صاحب کو محفوظ رکھا۔ جنرل الیکشن ۱۹۷۷ء کے روز پولنگ والے دن پرانی کوتوالی پولیس اسٹیشن کے قریب کچھ لوگوں نے آپ پر فائرنگ کی، لیکن آپ محفوظ رہے۔ الیکشن مہم کے دوران ایک روز اسپورٹس گراؤنڈ ملتان میں پاکستان قومی اتحاد کے جلسے سے خطاب کر رہے تھے کہ پی پی کا ایک مقامی جیالا دونوں ہاتھوں ریوالور کھڑا ہو گیا اور آپ پر فائرنگ شروع کر دی۔ اسی اثنا میں بیچھے بیٹھے چند احرار کارکنوں نے اس حملہ آور کو دبوچ لیا اور اس سے ریوالور چھیننے کے بعد اسے زد و کوب کرنا شروع کر دیا۔ یہ منظر دیکھ کر شاہ صاحب نے تقریر چھوڑ دی، بھاگ کر مجمع میں گھس گئے اور بڑی مشکل سے اس حملہ آور کی جان بچائی۔ نواسہ امیر شریعت برادرم سید کفیل شاہ بخاری نے ہمیں بتایا کہ وہ شخص ابھی بھی حیات ہے۔ وہ اکثر شاہ صاحب سے ملنے آیا کرتا اور اپنی اُس حرکت پہ شرمندگی کا اظہار کرتا تھا۔
پاکستان کے ممتاز خطیب علامہ سید عبدالمجید ندیم راوی ہیں کہ امیر شریعت فرمایا کرتے تھے کہ سیدآلِ رسول پانچ صفات کا مالک ہوتا ہے۔ اوّلاً وہ خوبصورت ہو گا۔ ثانیاً وہ غاصب نہیں ہو گا، کسی کے مال پر قبضہ کرے گا نہ کسی کی آبرو کو میلی نظر سے دیکھے گا۔ ثالثاً وہ بخیل نہیں ہوگا۔ رابعاً وہ بزدل نہیں ہو گا۔ خامساً وہ تارکِ قرآن نہیں ہو گا۔ امیر شریعتؒ اور ان کے دیگر صاحبزادوں کی طرح سید عطاء المؤمن بخاریؒ بھی ان پانچوں صفات سے مالا مال تھے۔ پرویز مشرف دور میں جب پورا ملک امریکہ و پرویز مشرف کے خوف کی لپیٹ میں تھا، ایسے میں سید عطاء المؤمن بخاریؒ نے ملک بھر میں امریکہ مردہ باد کانفرنسوں کا انعقاد کر کے آمر اور اس کے آقائے ولی نعمت کو للکارا، جس کی پاداش میں آپ کو ملتان جیل میں قید کر دیا گیا۔ کئی مہینے اسیری کاٹی۔ پیرانہ سالی اور بیماری کے باوجود انتظامیہ نے آپ کو ادویات تک مہیا نہ کیں، لیکن اس کے باوجود شاہ صاحب حکومت کے ساتھ کسی سمجھوتے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ آپ اتحاد اُمت کے بہت بڑے داعی تھے۔ کئی بار اس سلسلے میں عملی کوششیں بھی کیں۔ فرمایا کرتے تھے کہ علماء و مشائخ اپنی خانقاہیں، اپنی جماعتیں اور اپنے مدارس اپنی جگہ پر رکھیں، لیکن خدارا کچھ مشترکہ نکات پر متفق ہو جائیں۔ جب تمام مکاتب فکر مل بیٹھیں گے تو غلط فہمیاں اور بدگمانیاں دور ہوں گی۔ باہمی قربت اور محبت بڑھے گی۔ دشمن نفسیاتی طور پر کمزور ہو گا۔ ہمیں کام کرنے میں آسانی میسر آئے گی اور اس طرح نفاذ اسلام کی منزل قریب ہو گی۔ شعر و سخن سے دلچسپی ان کی طبیعت کا خاص وصف تھا۔ کسی جلسے میں تقریر ہو یا نجی مجلس میں بے تکلفانہ گفتگو، شاہ صاحب برموقع اشعار پڑھ کر احباب کو محفوظ کرتے۔ ان کی مجلس میں غلط شعر پڑھنا انھیں سخت گراں گزرتا۔ اگر ان کی موجودگی میں خطیب صاحب غلط شعر پڑھ جاتے تو شاہ صاحب اپنی تقریر میں اس پر گرفت ضرور کرتے۔ ملتان میں ان کے دولت کدے پر نماز عشاء کے بعد شعر و سخن کی محفل روز کا معمول تھا۔ وصال کی ب بھی پونے بارہ بجے تک مجلس جمی رہی۔ وصال سے ایک ہفتہ قبل اسی مجلس میں احسان دانش کا یہ شعر شاہ صاحب نے سنایا کہ
مقصدِ زیست غم عشق ہے صحرا ہو یا شہر
بیٹھ جائیں گے جہاں چاہو بٹھا دو ہم کو
ہم نے دوسری اور آخری بار سید عطاء المؤمن بخاریؒ کو ۲۳؍ اگست ۲۰۰۳ء کی شب ہمدرد سینٹر لاہور کے کانفرنس ہال میں سنا، جہاں انھوں نے اپنے والد کے یومِ وفات کے موقع پر ’’امیر شریعت سیمینار‘‘ کے عنوان سے مجلس سجا رکھی تھی، جس کے صدر قطب الاقطاب حضرت سید نفیس الحسینی تھے اور مجلس احرار اسلام ہند کے آخری سیکرٹری جنرل نوابزادہ نصر اﷲ خان مہمان خصوصی۔ مجاہد ختمِ نبوّت مولانا منظور احمد چنیوٹی اور شاعر ختمِ نبوت سید امین گیلانیؒ مہمانان اعزاز اور خود شاہ صاحب میزبان تھے۔ ہم نے اوّل الذکر چاروں بزرگوں کو پہلی بار دیکھا اور سنا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اگلے چند برسوں میں یہ چاروں بزرگ جہانِ فانی سے رخصت ہو گئے۔ سید عطاء المؤمن شاہ بخاریؒ اس کہکشاں کے آخری ستارے تھے، جو چند روز پہلے ملتان کے جلال باقری قبرستان میں خاک کی چادر اوڑھ کر ابدی نیند سو گئے۔ رہے نام اﷲ کا۔