سید محمد کفیل بخاری
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات ۲۰۱۸ء کا مجوزہ شیڈول جاری کر دیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار رضا خان کی زیرِ صدارت اجلاس میں انتخابات کی تیاریوں کا جائزہ لیا گیا اور انتظامات کو حتمی شکل دے دی گئی۔ یکم جو کو پبلک نوٹس جاری کیا جائے گا، ۲؍ جون تا ۶ ؍ جون امیدواروں سے کاغذاتِ نامزدگی وصول کیے جائیں گے، ۱۴؍ جون تک کاغذات کی جانچ پڑتال اور ۱۹؍ جون اپیلیں دائر کرنے کی آخری تاریخ ہو گی، کاغذات واپس لینے کی آخری تاریخ ۲۸؍ جون اور اسی روز امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کی جائے گی۔ ۲۹؍ جون کو انتخابی نشانات الاٹ ہوں گے جبکہ ۲۵؍ جولائی کو عام انتخابات منعقد ہوں گے۔
عبوری وزیر اعظم کے لیے جسٹس (ر) ناصر الملک کے نام پر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں نے اتفاق کر لیا ہے۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا وقت موعود آ پہنچا ہے اور صوبائی نگران وزراءِ اعلیٰ کے تقرر پر بحث و تمحیص جاری ہے، آئندہ چند وز میں یہ مرحلہ بھی مکمل ہو جائے گا۔
یہ ایک آئینی کارروائی ہے جو ہر الیکشن کے موقع پر معمول کے مطابق ہوتی ہے۔انتخابات منعقد ہوتے ہیں اور اکثریتی پارٹی کی نئی حکومت معرض وجود میں آ جاتی ہے۔ ہارنے والے جیتنے والوں پر دھاندلی کے الزامات لگاتے ہیں اور حزبِ اختلاف کے فورم سے جب تک حکومت قائم رہتی ہے اس کے خلاف سرگرم عمل رہتے ہیں۔ جیتنے والوں پر سب سے بڑا الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ اُن کے حق میں ’’فرشتوں‘‘ نے ووٹ ڈالے اور انھیں کامیاب کرایا ہے۔ حکمران کچھ اچھے تعمیری کاموں کے ساتھ ساتھ ملکی دولت لوٹنے میں مشغول ہو جاتے ہیں اور حزبِ اختلاف دھرنوں اور احتجاجی مظاہروں میں مصروف ہو جاتی ہے۔ کبھی حکومت مدت پوری کیے بغیر برخاست ہو جاتی ہے اور کبھی وزیر اعظم نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ اسے جمہوریت کا حسن قرار دیا جاتا ہے اور اس ’’حسن‘‘ کی جلوہ نمائیاں ستر برس سے جاری ہیں۔ عوام کالانعام ہی رہتے ہیں اور ملک کے مسائل جوں کے توں، آزادانہ و منصفانہ انتخابات کی بات تو مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ جہاں انتخابات سے قبل ہی نتائج طے ہو جائیں وہاں انتخابات کے ذریعے نظام درست کرنے کے دعووں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔
۱۹۷۰ء کے انتخابات کو آزادانہ، منصفانہ اور عادلانہ قرار دیا جاتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں ملک دو لخت ہو گیا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ قرائن و شواہد اور نتائج سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں جو کچھ ہو رہا ہے عالمی استعمار کو یہی منظور ہے۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کے الفاظ ہیں ’’ اَ عْمَالُکْمْ عُمَّالُکُمْ ‘‘ جیسے تمھارے اعمال، ویسے ہی تمھارے حاکم۔ اﷲ و رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم سے لا تعلقی، قرآن سے بغاوت، نماز روزہ، حج اور زکوٰۃ کا عملی انکار، حدود اﷲ اور پورے دین کا استہزاء کرنے والوں کی قیادت نواز شریف، زرداری اور عمران خان ہی کریں گے۔ یہی جاگیردار، سرمایہ دار اور فساق و وفُجارعذاب کی صورت میں ان پر مسلط ہوں گے۔ قوم پھر انھیں منتخب کرے گی
بتوں سے تجھ کو امیدیں ، خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
جنھوں نے اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک کو ’’سایۂ خدائے ذوالجلال‘‘ سے محروم کر کے ’’لوٹ مار چھین شاد باد‘‘ کا بازار گرم کیا، اس کا حساب بھی وہی دیں گے۔
اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
نواز شریف کا بیانیہ بہرحال دینی طبقہ کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس شدت کے ساتھ وہ ملک کی اندرونی قوتوں کے خلاف سینہ سپر ہوئے ہیں کہیں اس کے پیچھے بیرونی قوتوں کا ہاتھ تو نہیں؟ حلف ختم نبوت کا معاملہ، قادیانیوں کی مسلسل عملی حمایت اور لبرل پاکستان کا نعرہ عالمی استعماری قوتوں کے ایجنڈے کی تکمیل کی چغلی کھا رہا ہے۔ معاملہ صرف نواز شریف ہی کا نہیں زرداری اور عمران خان بھی اسی دوڑ میں شریک ہیں۔ ان میں جو بھی عالمی استعمار کے مقاصد پورے کرنے کی صلاحیت کا حامل ہو گا ’’ہما‘‘ اس کے سر پر بٹھا دیا جائے گا۔ پھر ’’فرشتے‘‘ اور ’’خلائی مخلوق‘‘ سب اس کے ساتھ ہو جائیں گے۔
آئندہ عام انتخابات میں محب وطن اور دین دار طبقہ کو ایک مضبوط مؤقف اختیار کرنا ہو گا، ایک مستحکم رائے قائم کرنی ہو گی اور بالکل سیدھا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔ نتائج خواہ کچھ بھی ہوں ہمیں اپنے عقیدے، شناخت اور تہذیب کی حفاظت کرنا ہو گی۔
اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم فقیروں کو تاجدارِ ختمِ نبوّت رحمۃً للعٰلمین صلی اﷲ علیہ وسلم کی غلامی میں قبول فرمائے۔ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور ہمیں قیامِ پاکستان کے مقاصد کی تکمیل کی توفیق عطاء فرمائے۔