ضبطِ تحریر: سید عطاء المکرم بخاری
(منعقدہ ایوان اقبال، لاہور۔۹؍مارچ۲۰۱۸ء)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
بزرگانِ ملّت،
برادرانِ عزیز!
امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کی یاد میں یہ آج کی تقریب منعقد کی گئی ہے۔ جانے والے چلے ہی جایا کرتے ہیں ، لَوٹ کر نہیں آیا کرتے۔ اور پھر زندہ قومیں اپنے اسلاف کی یاد منایا کرتی ہیں۔ وہ صرف اُن کی یاد یا دن منا کر خاموش نہیں جایا کرتیں۔ بلکہ اپنے حال کے آئینہ میں ماضی کو دیکھ کر مستقبل کو سنوارا کرتی ہیں۔ اُس موقع پر، اُس گھڑی، اُس لمحے وہ یہ عہد کیا کرتی ہیں کہ ہمارے اکابر نے ہمارے اسلاف نے ہمارے بڑوں نے جو کام کیا ہے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔ ابھی پروفیسر صاحب (خالد شبیر احمد) کچھ دیر پہلے فرما رہے تھے، جو ہمارے بزرگوں میں شامل ہیں، ہمارے اساتذہ میں شامل ہیں، وہ فرما رہے تھے کہ شاہ جی گھر سے تین مقصد لے کر نکلے تھے۔ اُن کا پہلا مقصد انگریز کا ہندوستان سے انخلا تھا۔
امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری یا مجلس احرار اسلام کے قافلے کے ساتھ جتنے قائدین بھی تھے اُن میں شاید ایک آدھ کی میں نے زیارت کی۔ میں شاہ جی کو نہیں دیکھ سکا، میں صرف اُن کی زندگی کا قاری ہوں۔ ہاں البتہ میں اُن لوگوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے جن کی پوری زندگی احرار کے پرچم تلے بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کے ساتھ گزری ہے۔ میں نے اپنے انھی بزرگوں سے اُن کے واقعات، اُس دور کی تحریکیں، ۱۹۳۱ء سے لے کر ۱۹۵۳ء تک کے مجاہدین کی داستانیں سنتا رہا ہوں۔ میں نے ابھی شعور کی آنکھ نہیں کھولی تھی جب ۵۳ء کی تحریک کے حوالے سے میرے والد صاحب اور دوسرے بزرگوں نے مجھے بتانا شروع کیا۔ میری خواہش تھی کہ میں اُن نوجوانوں کو، اُن باپوں کو، اُن بیٹیوں کو، اُن بھائیوں کو، اُن ماؤں کو سلام پیش کروں جن کے بچے سن ۵۳ کی تحریک میں شہید ہو گئے۔ میں نے اپنے بزرگوں سے اُن کی قبروں کی نشاندہی کے لیے پوچھا کہ میں اُن کی قبروں پہ جاؤں، میں وہاں پہ فاتحہ پڑھوں، اُن کو ایصالِ ثواب کروں اور اُن کی وجہ سے اپنی بخشش کا ذریعہ بناؤں، اپنی نجات کا ذریعہ بناؤں اُسے۔ میں نے گلی گلی، کوچے کوچے، بازاروں میں جا کر لاہور کے در و دیواروں سے جا کر اُن شہیدوں کی قبروں کے بارے میں پوچھا، مجھے کوئی جواب نہ ملا۔ میں نے مال روڈ سے لے کر لاہور کوتوالی تک جہاں جنرل اعظم خان نے لاشوں کا فرش بچھایا تھا اور شیطانوں نے جس پر جشنِ مسرت منایا تھا۔ میں نے اُن کے درختوں سے پوچھا، پتوں سے پوچھا، پتھروں سے پوچھا، بتاؤ اُن شہیدوں کی لاشیں کہاں ہیں؟ وہ کہنے لگے: جاؤ شاہد ہم سے کیا پوچھتے ہو، اُس بیاس سے جا کے پوچھو کہ تیرے کنارے پر کتنی لاشوں کو جلانے کے بعد اس کی راکھ کو تیرے اندر بہایا گیا۔ پوچھنا چاہتے تو راوی کے اُس کنارے سے جا کے پوچھو جہاں اُن کی لاشوں کی جلا کر اُن دس ہزار مجاہدین کی لاشوں کو جلا کر اُن کی راکھ کو تیرے اندر بہایا گیا۔ نہیں! پوچھنا چاہتے ہو تو چھانگے مانگے کے جنگلات سے جا کر پوچھو کہ کتنی لاشوں کو جلانے کے بعد اس کی راکھ کو تیرے اندر پھینکا گیا۔ پوچھنا چاہتے ہو تو چھانگے مانگے کی جھیل کے اُس ساکن پانی سے جا کے پوچھو کہ کتنی لاشوں کو جلانے کے بعد اس کی راکھ کو تیرے اندر بہایا گیا اور اس راکھ سے اس طرح آواز آ رہی تھی کہ:
دن بھر کی مشقت سے بدن ٹوٹ رہا ہے
اے جھیل مجھے ماں کی طرح آغوش میں لے لے
کتنی ماؤں کے بچوں کو وہ جھیل اپنے ساکن پانی میں لے کر بیٹھی ہوئی ہے، اس چلتے ہوئے بپھرے ہوئے دریاؤں سے جا کے پوچھو کسی شہید کی لاش محفوظ نہیں ہو سکی۔ وہ تیرہ ہزار فدایانِ رسول عربی جنھوں نے محمد کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختمِ نبوّت کے تحفظ کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ میرے نوجوان، میرے دوست، میرے کالجز کے بچے، میرے بیٹے وہ چھانگا مانگا میں جاتے ہیں قلوپطراؤں کے جمگھٹ میں بیٹھنے کے لیے۔ خدا کی قسم! میں جب بھی جاتا ہوں چھانگا مانگا کی اس جھیل کے ساکن پانی میں رقصِ خونِ شہید دیکھتا ہوں۔ میرے بھائی ہم وہ سب تماشا بھولے نہیں ہیں۔ ہم احرار ہیں اور احرار فطرۃً احرار ہیں۔ مجلس احرارِ اسلام حکومتِ الٰہیہ کا ایک بدیہی استعارہ ہے اور مجلس احرار اسلام، ختمِ نبوّت کا سِمبل بن چکی ہے اور یہ یقین رکھو کہ ہم کبھی بھی ان لوگوں کو فراموش نہیں کر سکتے جنھوں نے محمد کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ختمِ نبوّت پہ اپنی جانوں کو قربان کیا تھا۔
جو آئے تھے ختمِ نبوّت پہ کام کہو اُن شہیدوں پہ لاکھوں سلام
بھلایا نہیں وہ فسانہ ابھی ہمیں یاد ہے وہ زمانہ ابھی
مؤذن کو مجرم بنایا گیا نمازی کٹہرے میں لایا گیا
نبوّت کے اقرار پر گولیاں مساجد کی دیوار پر گولیاں
رسالت کے پیغام پر گولیاں محمد تیرے نام پر گولیاں
صداقت کے پرچم جلائے گئے شہیدوں کے لاشے چُرائے گئے
جوانوں کے حلقوم تلوار پر کئی لوگ کھینچے گئے دار پر
جنھیں پیار ختمِ رسالت سے تھا جنھیں اک تعلق بطالت سے تھا
ظالم وہ صیاد پھر آ گئے قاتل وہ جلاد پھر آ گئے
وما علینا الا البلاغ