علامہ محمد عبداﷲ رحمۃ اﷲ علیہ
دوسری حدیث:
صحاح ستہ اور دیگر تمام معتبر کتب حدیث میں حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’لعن اللّٰہ الواصلۃ والمستوصلۃ‘‘ترجمہ: اﷲ نے بال جوڑنے والی اور جڑوانے والی عورت پر لعنت کی ہے۔
اس سلسلہ میں ایک واقعہ بھی کتابوں میں درج ہے کہ ایک انصاری عورت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور عرض گزار ہوئی کہ حضور! میری ایک بیٹی کی تھوڑا عرصہ پہلے شادی ہوئی ہے اور وہ خسرہ کی بیمار ہو گئی جس سے اس کے سر کے بال اُڑ گئے ہیں، تو کیا میں اس کے بالوں کے ساتھ اور بال جوڑ لوں؟ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بال جوڑنے اور جڑوانے والی دونوں لعنتی ہیں۔
کچھ غور فرمایا آپ نے؟ یہاں تو ایذا رسانی کا کوئی سوال نہیں، بلکہ بعض اوقات ایک آدمی بالوں کو بوجھ سمجھ کر اپنے سر کو ان سے آزاد کرانا چاہتا ہے، وہ تو اُلٹابالوں کے اتروا دینے سے راحت محسوس کرتا ہے، پھر بھی اس کے بال دوسرا آدمی حتیٰ کہ کوئی عورت بطور علاج بھی کام میں نہیں لا سکتی۔
تیسری حدیث:
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جب کسی کو سپہ سالار بنا کر روانہ فرماتے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اسے چند ہدایات دیتے تھے، جن میں سے ایک یہ ہوتی تھی لا تمثلوا یعنی فتح یابی کے بعد دشمن کے ناک، کان، ہونٹ وغیرہ نہ کاٹے۔ (مسلم شریف)
جنگ احد میں کفارِ مکہ نے سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ کا مثلہ کیا تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو انتہائی قلق پہنچا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے آئندہ دشمن سے اس کا بدلہ لینے کا ارادہ ظاہر فرمایا مگر قرآن پاک میں سختی سے اس کی روکاوٹ کر دی گئی۔ تو جو شریعت دشمن کو بدزیب بنانا گوارا نہیں کرتی، جب کہ کافر کسی تعظیم و تکریم کا مستحق نہیں ہے تو کیا وہ کلمہ گو مسلمان کے بارے اس کی اجازت دے گی؟
کتب فقہ اور اعضاء کی پیوندکاری:
ہم اعتراف کرتے ہیں کہ ہم فقہی لحاظ سے حنفی مسلک کے پیروکار ہیں اور ہمارے پاس فقہ حنفی کے علاوہ کسی اور فقہ کی (چند مختصرات کے علاوہ) کتب نہیں ہیں، اس لیے ہم یہاں فقہ حنفی کی معتبر کتب کے چند حوالہ جات پر اکتفا کریں گے۔ یہ حوالہ جات ان فقہی عبارتوں کے علاوہ ہیں، جو پہلے نقل ہو چکی ہیں۔
حالت اضطرار میں انسانی گوشت کھانا:
’’مضطر لم یجد میتۃ و خاف الہلاک فقال لہ رجل اقطع یدی و کلہا او قال اقطع منی قطعۃ و کلہا لا یسعہ ان یفعل ذلک ولا یصح امرہ بہ کما لا یسع للمضطر ان یقطع قطعۃ من نفسہ فیأکل‘‘
(فتاویٰ قاضی خاں مطبوعہ نو لکوشور، ص: ۷۸۰۔ فتاویٰ عالمگیر مطبوعہ کوئٹہ، ج: ۵، ص: ۳۳۸۔ فتاویٰ بزازیہ علی ہامش الہندیہ، ج: ۶، ص: ۳۶۶۔ خلاصۃ الفتاویٰ، ج: ۴، ص: ۳۶۶)
ترجمہ: ایک شخص حالت اضطرار میں ہے اور اسے کوئی مردار (یا سور کا گوشت) نہیں مل رہا۔ اور اسے مر جانے کا اندیشہ ہے، ایک شخص نے اس سے کہا کہ تو میرا ہاتھ کاٹ کر اسے کھا لے، یا یوں کہا کہ میرے بدن کا کوئی ٹکڑا کاٹ کر اسے کھا لے تو اس کے لیے ایسا کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس بات کی اجازت دینا بھی صحیح نہیں ہے، جس طرح کہ مجبور آدمی کے لیے یہ ٹھیک نہیں ہے کہ وہ اپنے جسم کا کوئی ٹکڑا کاٹ کر کھا لے۔
انسانی اعضاء سے فائدہ اٹھانا:
’’الانتفاع باجزاء الآدمی لم یجز‘‘(فتاویٰ عالمگیریہ، ج: ۵، ص: ۳۵۴)
ترجمہ: انسانی اعضاء سے کسی طرح نفع اٹھانا جائز نہیں ہے۔
’’رجل برجلہ جراحۃ قالوا یکرہ لہ ان یعالجہ بعظم الانسان…… لانہ محرم الانتفاع‘‘(خلاصۃ الفتاویٰ، ج: ۴، ص: ۳۶۱۔ فتاویٰ عالمگیریہ، ج: ۵، ۳۵۴)
ترجمہ: ایک شخص کی ٹانگ میں زخم ہو تو اس کے لیے یہ ٹھیک نہیں ہے کہ وہ انسان کی ہڈی سے اس کا علاج کرے کیونکہ اس سے نفع اٹھانا حرام ہے۔
’’ولو سقط سنہ یکرہ ان یأخذ من میّت سنہ فیشدھا مکان الاوّل بالاجماع‘‘
(بدائع، ج: ۵، ص: ۱۳۳)
ترجمہ: اگر آدمی کا دانت گر جائے تو یہ ٹھیک نہیں ہے کہ وہ کسی مردہ کا دانت لے کر اسے پہلے کی جگہ لگا دے۔ اس پر فقہاء متفق ہیں۔
اس مسئلہ میں تو فقہاء اسلام یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے کسی اور آدمی کا دانت لگوایا تو اس دانت کے ہوتے ہوئے نماز تک صحیح نہیں ہوتی۔ دیکھیے خلاصۃ الفتاویٰ، البحر الرائق وغیرہ۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب یا اور کوئی صاحب جو اعضاء کی زیر بحث پیوندکاری کو درست قرار دیتے ہیں، انھیں مغالطہ یہ ہے کہ انھوں نے انسان کو اپنے بدن کا یا بدن کے اعضاء کا مالک تصور کر لیا ہے، اس لیے ان کا خیال ہے کہ ہر شخص کو اپنے بدن میں ہر قسم کے تصرف کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ حالانکہ شرعی مسئلہ یوں نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ایک آدمی کے لیے اجازت ہوتی کہ وہ پریشان کن حالات میں تنگ آ کر اپنے آپ کو قید حیات سے آزاد کر ا لیتا، جب کہ اس کے بر خلاف قتل کرنا، شرک کے بعد دوسرے نمبر پر گناہ کبیرہ ہے اور پھر دوسرے کو قتل کرنے سے، خودکشی اور زیادہ بڑا گناہ…… یوں کہیے کہ عملی گناہوں میں سب سے بڑا اور بدترین گناہ ہے۔ اعظم وزرا من قتل غیرہ۔(در مختار)
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے ایک ایسے آدمی کا جنازہ لایا گیا جس نے تیر کے پھل سے اپنے آپ کو مار دیا تھا، تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اما انا فلا أصلِّی علیہ‘‘۔ میں تو اس کی نماز جنازہ ادا نہیں کرتا۔ (مسلم شریف و نسائی وغیرہ) اس حدیث کی بناء پر بعض ائمۂ دین نے خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ کی رکاوٹ فرما دی ہے، جب کہ دوسرے حضرات یہ فرماتے ہیں کہ خواص ایسے آدمی کا جنازہ نہ پڑھیں، عوام ادا کر لیں۔
مختصر یہ کہ اس مسئلہ سے یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ انسان اپنے جسم کا مالک نہیں ہے، اسی لیے فقہاء نے یہ فرمایا ہے کہ اتنا کھانا کھانا جس سے آدمی کی زندگی بحال رہے، فرض ہے۔ اگر نہیں کھاتا اور مرجاتا ہے، تو وہ بھی خودکشی کا مرتکب شمار ہو گا۔ اس کے باوجود جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کھانے کے لیے جب آدمی کو کچھ میسر نہ آئے اور حالتِ اضطرار میں اسے کہیں سے مردار یا خنزیر کا گوشت بھی نہ ملے، پھر بھی وہ اپنا یا کسی اور آدمی کا بدن کا کوئی ٹکڑا کاٹ کر جان بچانے کے لیے اسے نہیں کھا سکتا، (جیسا کہ ابھی البدائع کا حوالہ گزرا ہے) تو پھر علاج کے لیے ایک آدمی کا کوئی عضو لے کر کسی دوسرے میں فٹ کرنے کی کیا گنجائش ہو سکتی ہے؟
اور معاف کیجیے، اگر سہولتیں پیدا کرنے والے حضرات یوں Undueاجازتیں دیتے چلے گئے تو نہیں کہا جا سکتا، بات کہاں تک جا پہنچے گی؟ وہ وقت دور نہیں، جب کہ اچھے سے اچھا انسانی تخم، مشینی آلات کے ذریعے رحموں میں پہنچایا جائے گا اور اس وقت کے فضلاء کہیں گے:
’’ہمارے نزدیک ایسی صورت میں جب کہ ایک مال دار جوڑا اولاد سے محروم ہے اور وہ اپنے دھن دولت کے بارے میں فکر مند ہے کہ اس کا کیا ہو گا یا اولاد کی فطری خواہش ہو اور اس مصنوعی طریقہ سے اولاد حاصل کی جا سکتی ہو، تو ایسا کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے‘‘۔
ہماری غیر مسلم ہمسایہ قوم (ہندو) نیوگ جیسے قبیح اور حیا باختہ فعل کی روادار ہے، تو کیا بعید ہے کہ ہمارے سہولت پسند اور تقاضائے وقت کا بہانہ ڈھونڈنے والے ’’مجتہدین‘‘ بھی کئی ناجائز کاموں کو جواز کا درجہ دے دیں۔
سیرت طیبہ اور انشورنس:
جناب ڈاکٹر صاحب کا دوسرا خطبہ ’’تاریخ حدیث شریف‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں موصوف نے میثاق مدینہ کا ذکر کرتے ہوئے انشورنس (یعنی بیمۂ زندگی) کے بارے میں فرمایا:
’’مدینہ منورہ میں دو مسئلے بہت اہم تھے۔ ایک یہ کہ اگر کوئی شخص غلطی سے کسی شخص کے قتل کا مرتکب ہوتا تو اسے خون بہا دینا پڑتا تھا۔ خون بہا کی رقم رواج و قانون کے مطابق اتنی زیادہ تھی کہ عملاً ساری آبادی میں سے ایک آدھ شخص ہی ادا کر سکتا تھا۔ دوسرے لوگوں کے لیے وہ ناممکن سی بات تھی، یعنی ایک سو اونٹ۔…… اس کے لیے اجتماعی انشورنس کا انتظام کیا گیا یعنی ایک قاتل ہی اس کا ذمہ دار نہ ہو گا بلکہ پوری انشورنس کمپنی اس کی ذمہ داری قبول کرے گی اور اس کی طرف سے خون بہا ادا کرے گی…… رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ انتظام کیا کہ مدینہ منورہ میں ہر ہر قبیلے میں ایک انشورنس یونٹ قائم فرمایا اور یہ کہا کہ تمھارے قبیلے کے کسی آدمی کو قتل یا گرفتاری کے سلسلے میں رقم ادا کرنی ہو اور وہ شخص ادا نہ کر سکے تو یہ انشورنس یونٹ ادا کرے گی اور اگر کسی یونٹ کے پاس اتنی گنجائش نہ ہو تو حکم تھا، اس کے قریبی محلے کی جو انشورنس یونٹ ہے، وہ اس کے ساتھ تعاون کر کے رقم ادا کرے گی۔ اگر اس کے پاس بھی نہ ہو تو دوسری یونٹ سے انتظام کیا جائے۔ جب ساری آبادی کی یونٹیں بھی بار نہ اٹھا سکیں تو ایسی صورت میں حکومت بھی مدد کرے گی‘‘۔
خطبہ کے اختتام پر جب سوالات کا سلسلہ شروع ہوا تو سوال نمبر ۱۱ کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے جو کچھ ارشاد فرمایا تھا، اس کے چند جملے درج ذیل ہیں:
’’عہد نبوی میں جو انشورنس کا نظام تھا وہ MUTUALIST INSURANCE سے کچھ قریبی مشابہت رکھتا ہے۔ وہ حقیقت میں ایک دوسرے کے تعاون اور امداد باہمی کے اصول پر مبنی تھا۔ یعنی ایک قبیلے کے جملہ افراد اپنے قبیلہ کی انجمن کے خزانے کو سالانہ تھوڑی تھوڑی رقم دیتے ہیں اور جب کبھی کوئی حادثہ پیش آتا ہے، تو کمپنی کا یہ سرمایہ جو سارے افرادِ قبیلہ کی طرف سے آیا تھا، اس ایک شخص کی ضرورت کے کام آتا ہے جسے ہرجانہ ادا کرنا ہے‘‘۔ (خطبات، ص: ۷۹۔ ۸۰)
ڈاکٹر صاحب کے ارشادات کا جائزہ لینے سے پہلے ہم قارئین کو ’’انشورنس‘‘ کے پس منظر کی طرف توجہ دلائیں گے اور سلسلہ میں ہم قوم بنی اسرائیل (یہود) کے بارے میں بھی کچھ عرض کرنا چاہیں گے۔
بنی اسرائیل کا تعارف:
قارئین کی اکثریت جانتی ہے کہ ’’اسرائیل‘‘ سیدنا یعقوب علیہ السلام کا دوسرا نام ہے۔ آپ علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے اور حضرت اسحٰق علیہ السلام کے صاحبزادے تھے۔ آپ علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے، جن میں سے ایک سیدنا یوسف علیہ السلام تھے۔ جب حضرت یوسف علیہ السلام کو مصرمیں اقتدار حاصل ہوا تو آپ علیہ السلام نے اپنے والدین اور گیارہ بھائیوں کووہیں بلوا لیا۔ آپ علیہ السلام کی حیات میں ان لوگوں کی خاصی آؤ بھگت رہی مگر حضرت یوسف علیہ السلام کے انتقال کے بعد آہستہ آہستہ ان کا کوئی وقار نہ رہا۔ ان کے بارہ قبیلے ہو چکے تھے، انھی کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی بعثت ہوئی اور آپ علیہ السلام اپنی قوم کے لیے نجات دہندہ ثابت ہوئے۔ بحیرۂ قلزم کو عبور کر کے یہ واپس اپنے وطن آ گئے۔
بنی اسرائیل کی اخلاقی حالت بہت بگڑ گئی تھی۔ بد عہدی، کینہ پروری اور لالچ جیسی بڑی صفات ان کی انفرادی اور قومی زندگی میں رج بس گئی تھیں۔ خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں وہ رہ رہ کے ذلت آمیز کردار کے نمونے پیش کرتے رہتے تھے۔ دو شخص انتہائی بدبخت شمار ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو کسی نبی کا قاتل ہوا اور دوسرا وہ جو کسی نبی کے ہاتھ سے قتل ہو۔ بنی اسرائیل ایسے بدبخت تھے کہ حضرات انبیاء علیہم السلام کو شہید کرنے سے نہیں چوکتے تھے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیِّیْنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ‘‘۔ (البقرہ: آیت: ۶۱)
بنی اسرائیل کی شقاوت اور بدبختی کو طویل تاریخ میں دو اہم واقعات، تورات کی پیش گوئی کے مطابق پیش آئے۔ پہلا یہ کہ عراق کے بادشاہ بخت نصر نے فلسطین پر حملہ کیا اور ہزاروں کو قتل کرنے کے بعد ہزاروں کو جنگی قیدی بنا کر عراق لے آیا۔ بعد ازاں ایران کے بادشاہ نے عراق پر چڑھائی کی اور فتح یاب ہونے کے بعد اس نے بنی اسرائیل کو وطن واپس جانے کی اجازت دی۔ دوسری مرتبہ رومی فلسطین پر حملہ آور ہوئے اور اسے تاخت و تاراج کیا۔ اب ان میں سے ایک بڑی آبادی نے عرب کا رخ کیا اور تورات ہی کی پیشینگوئی کے مطابق کھجوروں والے علاقے میں (یثرب اور خیبر) میں آباد ہو کر نبی آخر الزمان صلی اﷲ علیہ وسلم کے ظہور کا انتظار کرنے لگے۔
یہودیوں کی ایک بری عادت:
یہودی جن بری عادات میں مبتلا تھے، ان میں سے ایک حرام خوری کی صفت ہے ۔قرآن پاک میں متعدد جگہ ان کی اس وصفِ شنیع کا ذکر آیا ہے: اَکَّالُوْنَ لِلسُّحْت‘‘۔ (سورۂ مائدہ: ۴۲) یعنی یہ لوگ بڑھ چڑھ کر حرام کھانے والے ہیں۔
’’ یُسَارِعُوْنَ فِی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَ اَکْلِہِمُ الْسُّحْتَ ‘‘
ترجمہ: یعنی یہ لوگ گناہ کرنے، زیادتی کرنے اور حرام کھانے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہودی عالموں اور درویشوں کی اپنے فرض سے غفلت:
قومی بگاڑ اس وقت تک قابلِ اصلاح ہوتا ہے، جب تک کہ مذہبی پیشوا اپنا فرض ادا کرتے ہیں اور اگر یہ طبقہ اپنے فرض سے غافل ہو جائے تو ظاہر ہے کہ مرض بڑھتا چلا جائے گا۔ بدقسمتی سے بنی اسرائیل کا معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ نہ ان کے مولویوں کو اصلاح کی کوئی فکر، نہ پیروں فقیروں کو۔ چنانچہ قرآن پاک میں ان کی فرض ناشناسی کی تصویر ان الفاظ میں کھینچی گئی ہے:
’’ لَوْ لَا یَنْہٰہُمُ الْرَّبَّانِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ عَنْ قُوْلِہِمُ الْاِثْمَ وَ اَکْلِہِمُ السُّحْت لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ ‘‘۔ (مائدہ: ۶۳)
ترجمہ: ان کو درویش لوگ اور عالم کیوں نہیں روکتے بری بات کہنے اور حرام کھانے سے۔ وہ لوگ بہت ہی برا کرتے ہیں۔
اورو ں کو روکنا تو کجا؟ الٹا یہی مولوی اور درویش دولت کے پجاری بن گئے۔ عوام کی مرضی کے مطابق فتوے دے کر اور شرعی احکام میں ہیرا پھیری کر کے روپیہ کمانا ان کا شیوہ بن گیا۔ چنانچہ قرآن پاک میں فرمایا گیا:
’’ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَ الرُّہْبَانِ لَیَأْکَلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطلِ ‘‘(توبہ: ۳۴)
ترجمہ: یقینا بہت سے عالم اور پیر لوگ ناحق لوگوں کے مال بٹورتے ہیں۔
چلو تم ادھر ہوا ہو جدھر کی:
قومی بدبختی اس وقت نقطۂ عروج تک پہنچ جاتی ہے، جب کہ قوم کا مذہبی طبقہ بدکاری میں قوم کا ہمنوا ہو جائے۔ ایک انگریز عیسائی نے ایک مسلمان سے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ خنزیر مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں کے نزدیک حرام ہے۔ مگر عیسائی بے تکلف اس کو کھاتے ہیں جبکہ مسلمان بالعموم اس سے اجتناب کرتے ہیں۔ مسلمان نے اس کا یہ جواب دیا: ’’اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا مذہبی طبقہ اس کے قریب نہیں گیا، اس لیے ان کے عوام میں اس کی حرمت کا احساس باقی ہے جب کہ پادری لوگ بے تکلف اس کو کھاتے ہیں، اس لیے ان کے عوام میں حرمت کا احساس نہیں رہا‘‘۔
حدیث شریف میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہوئے تو ان کے علماء نے انھیں روکا، وہ باز نہ آئے تو وہ عالم بھی ان لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے لگ گئے۔ (مشکوٰۃ شریف، ص: ۴۳۸)
مکافات عمل قدرت کا قانون ہے، نیکی کا انجام نیک اور برائی کا انجام برا ہوتا ہے۔ جب بنی اسرائیل قوم من حیث القوم، عصیاں کاری میں مبتلا ہو گئی تو قہرِ الٰہی جوش میں آیا۔ یہ قوم لعنت کی مستحق ٹھہری۔ رحمت الٰہی سے محروم ہو کر بربادی کا شکار ہوئی، جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے:
’’ لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْم بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوُدَ وَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ ‘‘۔ (مائدہ: ۷۸)
ترجمہ: بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی روش اختیار کی، ان پر (حضرت داؤد اور (حضرت) عیسیٰ کی زبانی پھٹکار پڑی۔ یہ اس وجہ سے کہ وہ نافرمان ہو گئے اور زیادتی پر زیادتی کرتے چلے گئے۔
زبور اور انجیل میں صدہا تحریفات کے باوجود، ان لعنتوں کا ذکر اب بھی موجود ہے۔
اُمّت مسلمہ کے لیے تنبیہ:
آنحضرت صلی اﷲ علیہ ولسم نے اپنی اُمت کو تنبیہ فرما دی تھی کہ آگے چل کر یہ نہ بنی اسرائیل کی راہ پر چل نکلے تا کہ کہیں اس کا انجام بنی اسرائیل کا سا نہ ہو۔ اس کے لیے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بلیغ انداز اختیار فرمایا۔ ارشاد ہوا:
’’ لتتبعن سنن من کان قبلکم شبرا بشبر ذراعا بذراع حتی لو دخل احدھم حجر ضب لدخلتموہ ‘‘
ترجمہ: (اندیشہ ہے) کہ تم ضرور پہلے لوگوں کے طریقوں پر چل نکلو گے۔ بالشت کے برابر بالشت، ہاتھ کے برابر ہاتھ۔ یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی آدمی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوا تھا تو تم بھی داخل ہو کر رہو گے۔
اس تنبیہ اور تحذیر کے باوجود، آنخضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو جس بات کا اندیشہ وہ پوری ہو کر رہی۔ بود و باش سے لے کر نظریات و افکار تک تمام امور میں مسلمان، یہود و نصاریٰ کے پیروکار اور نقال بن گئے۔
أَئِمَّۃً یَّدْعُوْنَ اِلَیْ النَّارِ:
بنی اسرائیل کی بداعتقادی، بدعملی اور بداخلاقی کی تاریخ دیکھنا ہو تو قرآن پاک کی ابتدائی سورتوں کو پڑھ کر دیکھیے۔ سورۃ النساء کی آیات نمبر ۱۵۳ تا ۱۶۱ میں اس بدقماش قوم کی کم بیش ایک درجن برائیاں گنوائی گئی ہیں اور ایک سے ایک بڑھ کر۔ حتیٰ کہ یہ فرما دیا گیا کہ مسلمانوں کے سب سے بڑی دشمن نمبر ایک پر یہودی اور نمبر دو پر مشرکین ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے: ’’ لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا الْیَہُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا ‘‘۔ (مائدہ: ۸۲)
گزشتہ چودہ سو سال میں پھیلی ہوئی یہودیوں اور ہندؤں کی تاریخ اس قرآنی دعویٰ کا بین ثبوت ہے اور یہودی خبیث آج ہی نہیں عہدِ نبوّت میں بھی کہتے تھے: ’’ لَیْسَ عَلَیْنَا فِیْ الْاُمِّیِّیْنَ سَبِیْلٌ ‘‘۔ (آل عمران: ۷۵) یعنی ہم مسلمانوں کے ساتھ کچھ بھی کر گزریں، ہم کوئی قصور وار نہ ہوں گے۔
یہی وجہ ہے کہ عالمِ اسلام کے خلاف جب کبھی کوئی سازش ہوئی اس کے پس پردہ یہودی دماغ اور یہودی ہاتھ کام کر رہا تھا۔ یہودی دماغ شیطان کا کارخانہ ہے جو مسلمانوں کے خلاف نت نئی سازشیں سوچتا اور انھیں عمل میں لاتا رہتا ہے۔
یہودی اور سود خوری:
یہودیوں کو تورات میں سود کھانے سے رکاوٹ کر دی گئی تھی۔ چنانچہ سینکڑوں تحریفات کے باوجود آج بھی تورات میں امتناعی احکامات موجود ہیں۔ یہودی بنیا ہر دور میں سود خوری پر کمر بستہ رہا اور زیادہ سے زیادہ Interest کمانے کے لیے وہ نئی سے نئی اسکیمیں نکالتا رہا۔ اس کے باوجود اس کا تنور شکم بھرنے کا نام نہیں لتا اور وہ مسلسل ہَلْ مِن مزید کی صدا لگا رہا ہے۔ پھر اسی پر بس نہیں، وہ ہر ممکن طریق سے لوگوں کا مال بٹورنے کی فکر میں رہا۔ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے:
’’ وَ اَخْذِہِمُ الرِّبٰو وَ قَدْ نُہُوْا عَنْہُ وَ اَکْلِہِمْ اَمْوَالَ الْنَّاسِ بِالْبَاطِلِ ‘‘۔ (سورۂ نساء: ۱۶۱)
ان لوگوں کی خباثتوں کا کہاں تک ذکر کیا جائے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے پیسے کمانے کے لیے قحبہ خانوں کا آغاز کیا تھا حتیٰ کہ خود یثرب (مدینہ شریف) میں یہ کاروبار شروع کر رکھا تھا۔
اسلام میں دیت کا حکم:
شرک کے بعد اسلام میں دوسرے نمبر کا گناہ کسی کو ناحق قتل کرنا ہے مگر وہ جو قصداً اور عمداً ہو۔ قرآن پاک میں اس پر سخت وعید آئی ہے۔ جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے:
’’ فَجَزَاؤُہُ جَہَنَّمَ خَالِدًا فِیْہَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ لَعَنَہُ وَ اَعَدَّ لَہُ عَذَابًا عَظِیْمًا ‘‘ (نساء :۹۳)
اور خدانخواستہ جو قتل خطأً ہو جائے تو اس صورت میں وقوعہ کے دو پہلو سامنے آتے ہیں، ایک قاتل کے لحاظ سے، دوسرا مقتول کے لحاظ سے۔ قاتل کے بارے میں یہ حقیقت غور طلب ہے کہ اس کا قصد اور ارادہ اس آدمی کو مارنے کا ہرگز نہیں تھا۔ مقتول کے بارے میں یہ بات نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ بلا وجہ ایک بے قصور آدمی کی جان لے لی گئی اور ہو سکتا ہے کہ وہ حال یا مستقبل میں ایک گھرانے کا سربراہ ہو، اس کی وفات سے ایک کنبہ بے سہارا ہو گیا۔ ایک قریبی عزیز کی جدائی کا صدمہ الگ اور یہ دکھ اور پریشانی الگ۔ تو شریعت مقدسہ نے دونوں پہلوؤں کومدنظر رکھا۔ قاتل پر قصاص تو نہیں ہے اور وہ گناہ گار بھی نہیں ہے، یوں وہ آخرت کے وبال سے بچ گیا۔ مگر مقتول کے گھر والوں کی اشک شوئی اور ان کے نقصان کی تلافی ضروری تھی، اس لیے شریعت نے قاتل پر ایک تو کفارہ لازم کیا کہ اگر اس کے ملک میں مسلمان غلام موجود ہو تو اسے آزاد کرے، ورنہ دو مہینے لگاتار روزے رکھے۔ دوسری اس پر دیت لازم کر دی کہ مقتول کے وارثوں کو خون بہا دینا پڑے گا۔
دیت کی مقدار خواہ کچھ بھی ہو، حقیقت تو یہ ہے کہ وہ ایک انسان کی جان کا بدل نہیں ہو سکتی، مگر کوئی حد تو آخر مقرر کرنی تھی، چنانچہ وہ مقدار سو اونٹ ہے۔ اب یہ مقدار بظاہر اتنی زیادہ ہے کہ غریب یا متوسط طبقے کے لیے اس کی ادائیگی تقریباً ناممکن ہے تو اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ایک مجرم کی بجائے اس کی خویش قبیلہ اجتماعی شکل میں اس بوجھ کو برداشت کرے اور وہ بھی یکمشت ادائیگی کی صورت میں نہیں بلکہ تین سال تک بالاقساط واجب الاداء قرار دی گئی۔ دیت کا یہ رواج جاہلیت سے چلا آ رہا تھا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی اسے جاری رکھا، اب اس لحاظ سے نہیں کہ یہ خطۂ عرب کا قدیم رواج ہے بلکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا حکم ہونے کی حیثیت سے یہ شریعت کا قانون ہے۔ کتب حدیث میں متعدد روایات موجود ہیں۔
قرابت داری کے لحاظ سے انسانوں کی تقسیم:
عرب میں برادری کی تقسیم کچھ اس طرح سے چلتی تھی:
۱۔ شَعْب۔ یعنی وہ لمبی چوڑی برادری جو آگے شاخ در شاخ تقسیم ہوتی چلی جائے۔
۲۔ قبیلہ۔ یہ شعب (قوم) کی شاخ ہوتی ہے جو آگے کئی حصوں میں بٹ جاتی ہے۔
۳۔ عمارہ۔ قبیلہ کی ہر شاخ کو کہا جاتا ہے۔
۴۔ بَطن۔ عمارہ کی ہر شاخ کو بطن کہتے ہیں۔
۵۔ فَخذ۔ بطن کی ہر شاخ کو کہتے ہیں۔
۶۔ فَصِیلہ۔ ایک خاندان کو کہتے ہیں۔
مثال کے طور پر مُضر ایک شَعْب ہے۔ کِنانہ قبیلہ ہے، قریش عمارہ ہے، قُصیب ایک بطن ہے۔ ہاشم فخد ہے اور بنو عبدالمطلب فصیلہ ہے۔ قرآن پاک میں شعب، قبیلہ اور فصیلہ کے الفاظ آئے ہیں۔
اب دیت کے بارے میں حکم یہ ہے کہ پہلے تو خاندان پر تقسیم کی جائے، اگر پوری نہ ہو تو پھر آگے الاقرب فالاقرب کے اصول کے تحت بڑھتے چلے جائیں۔ تفصیل کتب فقہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔
(جاری ہے)