عرفان احمد عمرانی
موت العالِم ، موت العالَم، حضرت امیر شریعت مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کے فرزند مجلس احرار اسلام کے قائد و امیر مرکزیہ حضرت مولانا سید عطاء المومن شاہ حسنی بخاری اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ مولانا سید عطاء المومن بخاری5اپریل1941ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے ان کی عمر 77برس تھی اور وہ گزشتہ کئی سال سے علیل چلے آ رہے تھے۔ وہ بلند پایہ عالم دین‘ محقق اور تمام مکاتب فکر کے اتحاد کے عمر بھر داعی رہے، انہوں نے ابتدائی تعلیم و حفظ القرآن حضرت قاری رحیم بخش پانی پتی رحمہ اﷲ کے پاس جامعہ خیر المدارس ملتان میں مکمل کیا اور ابتدائی کتب بھی وہیں پڑھیں۔ کچھ عرصہ مفتی محمود رحمہ اﷲ تعالیٰ کے پاس قاسم العلوم ملتان میں بھی پڑھا۔ بعد ازاں خانقاہ سراجیہ کندیاں میں تشریف لے گئے جہاں حضرت مولانا خان محمد رحمہ اﷲ تعالیٰ سے درس نظامی کی کتب پڑھیں۔ ان کی پہلی بیعت حضرت مولانا محمد عبداﷲ لدھیانوی خانقاہ سراجیہ سے تھی۔ بعد ازاں حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمۃ اﷲ علیہ سے بیعت کا تعلق قائم کیا۔ انہوں نے تحریک ختم نبوت1974ء‘ تحریک ختم نبوت1984ء‘1977ء کی تحریک نظام مصطفی سمیت بہت سی دینی و سیاسی تحریکات میں بھرپور کردار ادا کیا۔آپ صرف ایک خطیب ہی نہیں مجاہد ختم نبوت، مفکر اسلام اور داعی اتحاد تھے۔ حضرت شاہ جی سے جب بھی ملاقات ہوتی تو وہ پاکستان میں حکومت الہیہ کے قیام کیلئے دینی جماعتوں میں اتحاد کیلئے فکر مند رہتے اور یہی فرماتے کہ دینی جماعتیں متحد ہو جائیں اگر دینی قوتیں متحد نہ ہوئیں تو پھر انہیں متحد ہونے کا موقع بھی نہیں ملے گا، حضرت سید عطاء المومن شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ نے دینی جماعتوں میں اتحاد کیلئے بارہا کوششیں بھی کیں اور مولانا فضل الرحمن ، مولانا سمیع الحق، مولانا محمد احمد لدھیانوی و دیگر رہنماؤں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر یکجا کر دیا اور 2014ء میں باہمی مشاورت سے ’’مجلس علماء اسلام‘‘ بھی قائم کی اور کئی اجلاس بھی منعقد کیے، شاہ جی کی آواز پر ملک بھر کے تمام دینی رہنما لبیک کہتے ہوئے مجلس علماء اسلام کے پلیٹ فارم پر جمع بھی ہوتے رہے۔ ملتان میں منعقدہ اجلاسوں میں بندہ بھی شریک ہوتا رہا، اجلاسوں میں شرکاء کا بھرپور جوش و خروش نظر آتا تھا اور سب کا مل جل کر چلنے کا جذبہ قابل تحسین ہوتا۔ حضرت شاہ جی کے دینی اتحاد کے حوالے سے کوئی مفادات ہرگز نہیں تھے، آپ نے کوئی الیکشن بھی نہیں لڑنا تھا صرف اور صرف عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ اور ناموس رسالت قانون کا دفاع، قادیانیت کی سرکوبی آپ ؒ کا مشن تھا۔ قادیانیوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر پریشان رہتے اسی لیے مسلک دیوبند کی جماعتوں کو مجلس علماء اسلام کے نام سے متحد کیامگر یہ اہم ترین اتحاد قائم نہ رہ سکا۔ حالانکہ حضرت شاہ جی نے مجلس علماء اسلام کا دائرہ کار مسلک بریلوی، مسلک اہلحدیث، جماعت اسلامی، تنظیم اسلامی تک پھیلانا تھا مگر دشمن کہاں چاہتا ہے کہ دینی جماعتیں متحد ہوں، بس یہی سازش تھی کہ حضرت مولانا عطاء المومن شاہ بخاری کے مشن میں روڑے اٹکائے گئے۔ حضرت ابن امیر شریعت ؒ کی دینی جماعتوں میں اتحاد کی صرف ایک ہی کوشش نہیں تھی 1988ء اور 1992ء میں بھی دینی جماعتوں کو متحد کیا تھا مگردینی رہنماؤں نے حضرت شاہ جی کے اتحاد کا راستہ نہ اپنایا جس کے باعث آج قادیانی لابی حکومتی اداروں میں براہ راست مداخلت کرنے تک پہنچ گئی اور سیکولر عناصر بھی سیاست اور ثقافت میں چھا گئے جبکہ دینی جماعتوں کو مختلف قوانین کی زد میں لا کر پابند کر دیا گیا اور ہر دینی جماعت کے مشن کے آگے رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں یہاں تک کہ مدارس جو خالصتاً دینی تعلیم کے مراکز ہیں ان پر بھی مختلف پابندیاں لگا دی گئیں رجسٹریشن تک نہیں کی جارہی ہے، حضرت عطاء المومن شاہ جی پوری زندگی پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے جدوجہد میں مصروف رہے۔ فتنہ قادیانیت کے خلاف ہر سطح اور ہر محاذ پر دلائل کے ساتھ سب سے زیادہ سر گرم تھے جب کسی بھی سٹیج پر ہوتے اپنے نانا ﷺ کی ختم نبوت کیلئے دیوانہ وار گھنٹوں گفتگو فرماتے، مرکز احرار جامع مسجد سیدنا امیر معاویہ عثمان آباد ملتان میں لوگ جوق در جوق ہر جمعہ میں حضرت شاہ جی کا بیان سننے آتے، یہی مسجد حضرت شاہ جی کی سرگرمیوں کا مرکز تھی۔ حضرت شاہ جی نے صرف ختم نبوت کے تحفظ کے لیے ہی کام نہیں کیا بلکہ حضرات صحابہ کرام اور حضرات اہل بیت عظام رضی اﷲ عنہم کی شان و عظمت پر بھی جامع تقریر فرماتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت شاہ جی سچے عاشق رسول اور عاشق صحابہ و اہل بیت تھے۔ حضرت شاہ جی نے تحاریک ختم نبوت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، اپنے والد حضرت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کے مشن پر اپنے والد گرامی کی طرح ہی متحرک رہے، اﷲ رب العزت نے چاروں بھائیوں مولانا سید ابو معاویہ ابو ذر بخاری ؒ ، حضرت سید عطاء المحسن بخاری ؒ، حضرت سید عطاء المومن بخاری ؒ اور حضرت سید عطاء المہیمن بخاری کو ان کے والد ولی کامل حضرت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کی وارثت میں خطابت، جوش اور جذبۂ ایمانی عطاء فرمایا۔ چاروں بھائیوں نے فتنۂ قادیانیت کیخلاف اپنے والد ماجد کے مشن کوزندہ رکھا اور یہ مشن آج بھی جاری و ساری ہے۔
مجلس تحفظ ختم نبوت کے رہنماؤں نے شاہ جی کی وفات کو قومی سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پوری عمر جہد مسلسل میں گزاری، خاص طورپر اہلسنت علماء دیوبند کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھاکرنے لیے بھرپور کردار ادا کیا۔علما ء کرام نے انکی دینی و ملی خدمات پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ شاہ جی مرحوم ایک بلندپایہ خطیب اوردرددل سے بہرہ مند دینی رہنما تھے۔ شاہ جی نے پوری زندگی اسلام کی ترویج و اشاعت اور اسلامی روایات واقدار کے تحفظ کے جذبے کے ساتھ علماء حق کے اتحاد کے لیے پرخلوص کوششیں کرتے ہوئے گزاری ۔علماء نے کہا کہ سیدعطاء المومن شاہ بخاری ؒاپنے عظیم والد گرامی امیر شریعت ؒ کی روایات کے امین اور وارث تھے اورانہیں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عمر گزاردی۔شاہ جی ؒ نے تحفظ عقیدہ ختم نبوت اسلامی تہذیب و تمدن کی سربلندی اور باطل افکار و نظریات کے تعاقب کے لیے سرگرم محنت کی اور اپنے عظیم خاندان کی جدوجہد وتگ و دو کو زندہ رکھا ۔حضرت ابن امیر شریعت سید عطاء المومن حسنی بخاری کا انتقال بہت بڑا سانحہ ہے، انھوں نے ساری زندگی اﷲ کے دین کی سر بلندی کیلئے جہد مسلسل میں گزاری۔ عالی شان نسبتوں کے حامل ہونے کے باوجود فقیرانہ زندگی بسر کی، وہ اپنے والد ماجد حضرت امیر شریعت کے لب و لہجے کے امین تھے۔ انہوں نے کم و بیش۵۰ سال تک خطابت کا گلستان سجائے رکھا اور عقیدہ ختم نبوت اور دیگر اسلامی اقدار کی پاسبانی کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔حضرت شاہ جی کی اب باتیں یاد رہ جائیں گی، انہیں شاید اب اپنے جانے کا یقین ہو گیا تھا۔ انہوں نے وفات سے کچھ عرصہ قبل مرکز احرار جامع مسجد سیدنا امیر معاویہ عثمان آباد ملتان میں احرار کارکنوں سے اپنے آخری خطاب میں کہا کہ عقیدہ ختم نبوت اور ناموس رسالت قوانین کے تحفظ کیلئے کردار ادا کریں۔ زندگی بھر امیر شریعت کے مشن پر کار بند رہیں۔ مزید کہا کہ قادیانیوں کے فتنے سے سادہ لوح مسلمانوں کو بچانے کیلئے کارکن متحرک اور فعال رہیں اور جدوجہد جاری رکھیں۔شاہ جی کی وفات پر صرف مجلس احرار نہیں ۔ جمعیت علماء اسلام (ف، س) ٗ مجلس تحفظ ختم نبوت ٗ وفاق المدارس العربیہ ٗ پاکستان علماء کونسل کے تمام رہنماؤں مولانا فضل الرحمن ٗ مولانا سمیع الحق ٗ مولانا حنیف جالندھری ٗ ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر ٗ مولانا عزیز الرحمن جالندھری ٗ سیدحافظ حسین احمد اور دیگر رہنماؤں نے تعزیت کا اظہار کیا اور شاہ جی کی دینی خدمات کو سراہا۔ آہ! آج شاہ جی بھی ہم سے رخصت ہو کر اپنے عظیم والد حضرت امیر شریعت کے قدموں میں ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سو گئے۔