مولانا زاہد الراشدی
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ خاندان بنو امیہ کے نامور چشم و چراغ اور خلفاء اسلام میں مثالی کردار کے حامل حکمران شمار ہوتے ہیں، ان کا تعلق تابعین کے طبقہ سے ہے جو صحابہ کرامؓ کے بعد امت کا سب سے بہترین طبقہ ہے اور وہ اپنے دور کے ممتاز عالم دین، محدث اور صالح بزرگ تھے۔ ان کے والد عبد العزیزؒ کئی سال تک مصر کے گورنر رہے اور وہ خود خلیفہ بننے سے پہلے حجاز کے والی رہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کا پایۂ تخت دمشق تھا اور وہ اپنے دور میں پوری دنیائے اسلام کے واحد حکمران تھے۔ ان کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ جب شاہی خاندان نے خلیفہ سلیمان بن عبد الملکؒ کی وفات کے بعد حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کی تو انہوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ دمشق کی جامع مسجد میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خلیفہ کا انتخاب عوام کا حق ہے اور وہ خود کو اس منصب کا اہل نہیں سمجھتے، اس لیے عوام کو ان کا حقِ اختیار و انتخاب واپس کرتے ہیں کہ وہ ان کی بجائے جس شخص کو چاہیں اپنا حکمران منتخب کر لیں۔ مگر عوام نے بیک آواز انہی کے حق میں فیصلہ دیا اور کہا کہ ان کے بغیر اور کوئی خلیفہ انہیں قبول نہیں ہوگا۔
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کو خلافت سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے جس مسئلہ کا سامنا کرنا پڑا وہ یہی تھا کہ بیت المال (قومی خزانہ) کا کم و بیش اسی فیصد حصہ شاہی خاندان اور اس کے منظور نظر افراد کی تحویل میں تھا اور قومی معیشت بدحالی کا شکار تھی۔ اس لیے انہیں بیت المال کی دولت اور اثاثے ناجائز طور پر قابض افراد سے واپس لینا تھے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی ترجیحات میں سب سے پہلا نمبر اسی کو دیا اور خلافت سنبھالتے ہی اس مشن کا آغاز کر دیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے جو عملی طریق کار اختیار کیا اسے تین حصوں یا نکات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اور ان تینوں پر انہوں نے بیک وقت عملدرآمد کا آغاز کیا۔
(۱) سب سے پہلے انہوں نے ذاتی زندگی کو یکسر تبدیل کیا اور شہزادگی کے دور میں وہ سہولت اور تعیش کے جن معاملات کے عادی ہوگئے تھے انہیں ترک کر دیا۔ ان کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ وہ اپنے دور کے انتہائی خوش پوش افراد میں سے تھے، عمدہ ترین لباس پہنتے اور کوئی لباس ایک بار سے زائد ان کے جسم سے نہ لگ پاتا۔ حتیٰ کہ ایک دور میں جب وہ مدینہ منورہ کے گورنر تھے، ان کا ذاتی سامان تیس اونٹوں پر لاد کر دمشق سے مدینہ منورہ جایا کرتا تھا اور ان کے علم اور تقویٰ کے باوجود ان کے معاصرین ان کی نفاست پسندی اور خوش پوشی پر تنقید کیا کرتے تھے۔ مگر خلافت سنبھالتے ہی ان کا مزاج بالکل تبدیل ہوگیا۔ خلافت کی عوامی بیعت کے بعد جامع مسجد سے نکلتے ہوئے انہیں شاہی گھوڑوں کا دستہ سواری کے لیے پیش کیا گیا تو انہوں نے واپس کر دیا اور کہا کہ میرے سواری کے لیے خچر کافی ہے۔ انہوں نے اس معاملہ میں اپنی ذات اور اہل خاندان پر اتنی سختی کی کہ ان کے نانا محترم حضرت عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنہ کی یاد ایک بار پھر تازہ ہوئی اور اسی لیے انہیں ’’عمر ثانی‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
(۲) دوسری بات انہوں نے یہ کی کہ وصولیوں کا سارا وزن انہوں نے بڑے لوگوں پر ڈالا اور اس کا آغاز خود اپنی ذات سے کیا۔ ان کے پاس فدک کا باغ چلا آتا تھا جو بیت المال کی ملکیت تھا، سب سے پہلے انہوں نے وہ باغ بیت المال کو واپس کیا۔ ان کی بیوی فاطمہ بنت عبد الملکؒ کے پاس ایک قیمتی ہار تھا جو انہیں ان کے والد محترم خلیفہ عبد الملک بن مروانؒ نے شادی کے موقع پر دیا تھا، حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے اسے بیت المال کی ملکیت قرار دے کر واپس کر دیا۔ اس کے بعد خاندانِ خلافت کا اجلاس طلب کیا اور ان سے کہا کہ انہیں بعض سابق خلفاء کی طرف سے جو جاگیریں اور عطیات دیے گئے تھے وہ بیت المال کی ملکیت تھے اور ان پر ان کا کوئی حق نہیں ہے اس لیے وہ انہیں واپس کر دیں۔ خاندان کے سرکردہ حضرات نے اس پر احتجاج کیا اور سب سے زیادہ ہشام بن عبد الملکؒ نے اس پر زور دیا کہ انہیں ماضی کے معاملات میں دخل نہیں دینا چاہیے، وہ اپنے دورِ خلافت کے مسائل نمٹائیں اور سابقہ خلفاء کے فیصلوں کو نہ چھیڑیں۔ اس کے جواب میں حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے دو باتیں فرمائیں۔ ایک یہ کہ ہشام بن عبد الملکؒ سے پوچھا کہ اگر ان کے پاس دو دستاویزات ہوں، ایک ان کے والد محترم عبد الملک بن مروانؒ کی طرف سے ہو اور دوسری خلافت بنو امیہ کے بانی حضرت معاویہؒ کی طرف سے ہو تو وہ کس دستاویز کو ترجیح دیں گے؟ ہشامؒ نے جواب دیا کہ وہ حضرت معاویہؒ کی دستاویز کو ترجیح دیں گے اس لیے کہ وہ پہلے کی ہے۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے کہا کہ ان کے پاس اس سے بھی پہلے کی دستاویز موجود ہے جو اﷲ کی کتاب ہے اس لیے وہ اس پر عمل کو ترجیح دیتے ہیں۔ دوسری بات انہوں نے یہ دریافت فرمائی کہ اگر کوئی شخص فوت ہو جائے اور اس کی اولاد میں سے ایک یا دو طاقتور افراد ساری جائیداد پر قبضہ کر کے باقی ورثاء کو محروم کر دیں اور کسی وقت آپ کو یہ اختیار حاصل ہو جائے کہ آپ ان کے درمیان انصاف کر سکتے ہوں تو آپ کیا کریں گے؟ ہشامؒ نے جواب دیا کہ میں قبضہ کرنے والوں سے جائیداد واپس لے کر سب ورثاء میں اصول کے مطابق تقسیم کر دوں گا۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے فرمایا کہ میں بھی یہی کچھ کرنے لگا ہوں۔ چنانچہ خلافت کے خاندان کو ان کے بے لچک رویہ کے آگے سپر انداز ہونا پڑا اور بیت المال کی ساری دولت اور اثاثے دو ہفتے کے اندر قومی خزانے میں واپس آگئے۔
(۳) تیسرا معاملہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے یہ کیا کہ عام لوگوں کے ساتھ نرمی کا سلوک اختیار کیا اور سابقہ حکمرانوں کی طرف سے کیے جانے والے بہت سے سخت اقدامات انہوں نے واپس لے لیے۔ متعدد ٹیکس منسوخ کر دیے، عوام سے ٹیکسوں کی وصولی کا طریق کار آسان کر دیا، بالخصوص غیر مسلموں پر کی جانے والی زیادتیوں کا نوٹس لیا اور انہیں بہت سی سہولتیں فراہم کیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ اپنے حصہ کے واجبات خوشی سے ادا کرنے لگے اور بیت المال کی معاشی حالت مستحکم سے مستحکم تر ہوتی چلی گئی۔ اس سلسلہ میں حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے خود ایک بار فرمایا کہ عراق کے صوبہ میں لوگوں سے ٹیکسوں کی وصولی میں حجاج بن یوسفؒ کے دور میں بہت سختی ہوتی تھی اور متعدد ناجائز ٹیکس بھی لگائے گئے تھے اس کے باوجود عراق سے مرکز کو وصول ہونے والی رقم کبھی دو کروڑ اسی لاکھ درہم سے نہیں بڑھی مگر میں نے وصولی کا نظام آسان کر دیا ہے اور بہت سے ٹیکس ختم کر دیے ہیں جس کی برکت سے میرے دور میں عراق سے مرکز کو وصول ہونے والی رقم سالانہ بارہ کروڑ درہم تک پہنچ گئی ہے۔
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے صرف اڑھائی سال حکومت کی مگر ان کے اقدامات اور طریق کار کی برکت سے اتنے مختصر عرصہ میں نہ صرف بیت المال مستحکم ہوا اور اس کے اثاثے واپس ملنے کے ساتھ ساتھ اس کی آمدنی میں بے تحاشا اضافہ ہوا بلکہ عام لوگوں تک خوشحالی کے اثرات پہنچے۔ تاریخ کی روایات بتاتی ہیں کہ اس دور میں زکوٰۃ ادا کرنے والے اپنی زکوٰۃ کی رقم لے کر بازاروں میں گھومتے اور آوازیں دیتے تھے کہ کوئی مستحق ہو تو ان سے زکوٰۃ وصول کرے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوں مگر معاشرے میں کوئی زکوٰۃ کا مستحق نہیں ملتا تھا۔
(روزنامہ انصاف، لاہور۔ ۱۵؍ اپریل۲۰۱۸ء)