سید محمد کفیل بخاری
ابنِ امیر شریعت، قائد احرار، حضرت مولانا سید عطاء المؤمن بخاری رحمۃ اﷲ علیہ ۶؍ شعبان ۱۴۳۹ھ /۲۳؍ اپریل ۲۰۱۸ء بروز پیر ایک بجے شب ۷۷ برس کی عمر میں انتقال فرما گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن، اِنَّ لِلّٰہِ مَا اَخَذَ وَلَہٗ مَا اَعْطیٰ وَ کلّ شَیءٍ عِنْدَہٗ بِأَجَلٍ مُسمّی۔
حضرت سید عطاء المؤمن بخاری ۷؍ ربیع الاوّل ۱۳۶۰ھ/۱۵؍ اپریل ۱۹۴۱ء بروز ہفتہ امرتسر (انڈیا)میں پیدا ہوئے۔ قرآن کریم ناظرہ و حفظ کی تعلیم والدہ ماجدہ رحمھا اﷲ سے شروع کی۔ قیامِ پاکستان کے وقت حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری امرتسر سے لاہور آ گئے اور چند ماہ دفتر مجلس احرارِ اسلام میں قیام کے بعد نواب زادہ نصر اﷲ خان مرحوم کے ہاں خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ میں تشریف لے گئے۔ وہاں سیلاب آ گیا اور ۱۹۴۸ء میں ملتان منتقل ہو گئے۔ حضرت سید عطاء المؤمن بخاری نے اپنے برادرِ بزرگ حضرت مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری رحمۃ اﷲ علیہ سے چند پارے حفظ کیے۔ جامعہ قاسم العلوم گھر کے قریب تھا اور حضرت قاری محمد اجمل رحمہ اﷲ یہاں استاد تھے۔ تقریباً پندرہ پارے اُن سے حفظ کیے، قاری صاحب مدرسہ چھوڑ کر اپنے علاقہ دائرہ دین پناہ مظفر گڑھ چلے گئے تو حضرت امیر شریعت نے انھیں جامعہ خیر المدارس ملتان میں حضرت مولانا قاری رحیم بخش پانی پتی رحمۃ اﷲ علیہ کے پاس داخل کرا دیااور یہیں ۱۹۵۳ء میں آپ نے حفظ قرآن کریم مکمل کیا۔ عربی فارسی کی ابتدائی کتب حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اﷲ سے جامعہ قاسم العلوم ملتان میں پڑھیں۔ اس دوران حضرت امیر شریعت انھیں لے کر خانقاہ سراجیہ کندیاں پہنچے اور حضرت مولانا محمد عبداﷲ لدھیانوی رحمۃ اﷲ علیہ کے سپرد کیا۔ حضرت سید عطاء المؤمن بخاری رحمہ اﷲ اپنی کہانی خود سنایا کرتے کہ:
’’میں حضرت ثانی، مولانا محمد عبداﷲ رحمہ اﷲ سے بیعت ہوا، اُن کی خدمت میں مسلسل رہا، انھوں نے شفقت و محبت سے میری تربیت کی، سفر و حضر میں مجھے ساتھ رکھتے، کئی اسفار اُن کے ساتھ کیے۔ ایک دن ابا جی کو میرے متعلق فرمایا کہ بہت نازک طبیعت اور نفیس مزاج ہے۔ ابا جی یہ سن کر مسکرائے اور فرمایا جو کچھ بھی ہے آپ کی خدمت میں پیش کر دیا ہے، اسے آپ سنبھالیں۔ حضرت مولانا عبداﷲ رحمہ اﷲ کے انتقال کے بعد میرے مربی و محسن حضرت مولانا خان محمد رحمہ اﷲ اُن کے جانشین ہوئے اور کچھ عرصہ کے لیے اپنے گاؤں ’’ڈِنگ‘‘ ضلع میانوالی منتقل ہو گئے، مجھے اور دیگر طلباء کو اپنے ساتھ لے گئے۔ وہیں میں نے درس نظامی کی چند کتابیں آپ سے پڑھیں۔ کچھ عرصے بعد ملتان آ گیا پھر جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں داخل ہو گیا اور اسی دور میں حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری قدس سرہٗ سے بیعت ہوا۔ اگر مجھے اپنے ابا، حضرت مولانا محمد عبداﷲ اور حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری کی صحبتیں میسر نہ آتیں اور میں نے مولانا ابوالکلام آزاد اور مفکر احرار چودھری افضل حق رحمہم اﷲ کی کتابیں نہ پڑھی ہوتیں تو شاید گمراہ ہو جاتا۔ انہی اکابر و اساتذہ کے فیض سے میرا ایمان بچا‘‘۔
حضرت امیر شریعت رحمہ اﷲ جامع الصفات شخصیت تھے، آپ کی صفات اور خوبیاں اولاد میں بھی منتقل ہوئیں۔ حضرت سید عطاء المؤمن بخاریؒ آپ کے جلال و جمال، فکر و نظر کی بلندی اور قرآن فہمی کے وارث و امین اور مظہر حسین تھے۔ وسعتِ مطالعہ، علمِ تفسیر و حدیث، تاریخ و فلسفہ، شعرو ادب اور سیاست و خطابت میں کمال درجہ پر فائز تھے۔ جرأت و بہادری اور خطابت انھیں ورثے میں ملی تھی۔
۱۹۵۳ء کی تحریک مقدس تحفظِ ختمِ نبوّت کے جلوسوں میں شریک ہوتے، اپنے اور دوستوں کے جذبوں کو گرماتے۔ ۱۹۶۲ء میں صدر ایوب خان مرحوم نے سیاسی جماعتوں سے پابندیاں ختم کیں تو اپنے برادرِ بزرگ حضرت سید ابوذر بخاری کی قیادت میں مجلس احرارِ اسلام کی تنظیم نو اور شیرازہ بندی میں بھرپور حصہ لیا۔۱۹۷۰ء کے سیاسی ہنگامہ خیز دور میں مجلس احرار اسلام کے پلیٹ فارم سے دینی جماعتوں کے ساتھ مل کر جدوجہد کی۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دورِ حکومت میں اُن پر کئی مقدمات بنے، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور پورے عزم و استقلال کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ ۱۹۷۴ء کی تحریک ختمِ نبوّت میں پہلے ملتان اور پھر لاہور کو اپنا مسکن بنایا اور پوری تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ کئی شہروں میں مرکزی جلسوں میں اُن کے شعلہ بار خطاب ہوئے۔ ۱۹۷۷ء میں قومی اتحاد کی تحریک میں انھوں نے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر کے تحریک میں بڑی قوت پیدا کی۔ ملتان کا کوئی جلسہ اُن کی تقریر کے بغیر ادھورا تصور ہوتا تھا۔ اس تحریک میں مولانا مفتی محمود اور نوابزادہ نصر اﷲ خان کے ہمراہ بے شمار تقاریر کیں اور اُن سے داد و تحسین وصول کی۔ ۱۹۸۴ء تحریک ختم نبوت میں اپنے استاذ و مربیّ حضرت مولانا خان محمد نوّر اﷲ مرقدہٗ کی قیادت میں بھرپور حصہ لیا اور امتناع قادیانیت قانون کی صورت میں کامیابی حاصل کی۔ پرویز مشرف کے دورِ آمریت میں اس کے خلافِ اسلام اقدامات کے خلاف اُن کی آواز سب سے توانا تھی، جس کی پاداش میں قید بھی ہوئے۔
حضرت سید عطاء المؤمن بخاری رحمہ اﷲ نے ایک بھرپور تحریکی اور مجلسی زندگی گزاری۔ وہ عمر بھر دینی قوتوں کے اتحاد کے لیے جدوجہد کرتے رہے اور زندگی کے آخری سانس تک اپنے اس مشن پر کاربند رہے۔ گزشتہ آٹھ نو برس سے فالج کے عارضہ میں مبتلا تھے لیکن اس حال میں بھی کراچی سے پشاور تک کا سفر کیا، علماء سے ملے اور اتحاد کی کوششیں کرتے رہے۔ مرض نے شدت اختیار کی توتقریباً دو برس سے اسفار ختم ہو گئے تھے۔ اگرچہ وہ اب مستقل بستر پر تھے مگر گفتگو اب بھی کمال کرتے، اُن کی مجلس بڑی دلچسپ، معلومات افزا اور پُربہار ہوتی۔ مایوسی اور خوف کبھی اُن کے قریب بھی نہیں آئے، آخری شب بھی معمول کی مجلس منعقد ہوئی۔
آخری وقت کلمہ طیبہ پڑھا، دوستوں سے معذرت کی اور جان اﷲ کے سپرد کر دی۔ اکثر فرماتے اﷲ غفلت کی موت نہ دے، اﷲ تعالیٰ نے ایمان پر خاتمہ نصیب کیا۔ ۲۴؍ اپریل کو بعد نماز مغرب سپورٹس گراؤنڈ میں آپ کے اکلوتے فرزند، برادرِ عزیز سید عطاء اﷲ ثالث بخاری نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور اپنے عظیم والد ماجد کے قدموں میں ہمیشہ کے لیے آسودۂ خاک ہوئے۔ زندگی بھر عوامی اجتماعات سے خطاب کیا اور نمازِ جنازہ میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔ جن میں احرار کارکنوں، علماء و طلباء اور دینی و سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر مدظلہٗ، مولانا محمد حنیف جالندھری اور سینکڑوں علماء نے شرکت کی، قائد احرار ابن امیر شریعت حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری دامت برکاتہم اپنی شدید علالت و ضعف کے باوجود شریک ہوئے۔
اﷲ تعالیٰ، حضرت کی مغفرت فرمائے اور دینِ حق کے لیے آپ کی مساعی قبول فرمائے۔ آپ کے فرزند برادرِ عزیز سید عطاء اﷲ ثالث بخاری کو حوصلہ و ہمت دے، عمر میں برکت دے اور اُن کے مشن پر چلنے کی توفیق عطا ء فرمائے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت شاہ جی کی ہمہ جہت شخصیت کا ان سطور میں احاطہ ممکن نہیں۔ اپنی یاد داشتوں کو آئندہ اشاعتوں میں سپردِ قلم کرنے کی کوشش کروں گا۔ ان شاء اﷲ
زندگانی تھی تیری مہتاب سے تابندہ تر
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر